donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Hindustani Tiranga Jhanda Ki Mokhtasar Tareekh


ڈاکٹر احسان عالم

 شریف پور ،سیتا مڑھی

 

ہندوستانی ترنگا جھنڈا کی مختصر تاریخ


    ہر ملک کا اپنا قومی جھنڈا ہوتا ہے۔ یہ جھنڈا اس ملک کی شان ہوتا ہے۔ اسی طرح بھارت کا بھی ایک قومی جھنڈا ہے جسے ترنگا جھنڈا کے نام سے جانتے ہیں۔ بہت سے ادیبوں اور شاعروں نے اس جھنڈے کی شان میں قصیدے پڑھے ہیں۔ ہمیں بھی اپنے قومی جھنڈے کا احترام کرنا چاہئے۔ یہاں میں اس جھنڈے کی مختصر تاریخ پیش کر رہا ہوں۔

    ہمارے قومی جھنڈے کی تاریخ بہت ہی دلچسپ ہے۔ بیسویں صدی میں جب ہمارا ملک انگریزی حکومت کی غلامی سے نجات پانے کی کوشش کر رہا تھا ، ویسے حالات میں آزادی کے متوالوں کو قومی جھنڈے کی ضرور ت پیش آئی۔ ۱۹۰۴ء میں وویکا نند جی کی ایک شاگردہ ’’نویدیتا‘‘ نے پہلی بار ایک جھنڈا بنایا۔ یہ جھنڈا لال اور پیلے رنگ کا تھا۔ ۱۹۰۶ء میں جب بنگال کا بٹوارہ ہوا تب اس بٹوارے کے خلاف بہت سے نوجوانوں نے ایک جلوس نکالا ۔ اس جلو س میں بھی ایک جھنڈے کا استعمال کیا گیا ۔ اس میں سب سے اوپر کیسریا رنگ، درمیان میں پیلا اور نیچے ہرا رنگ تھا۔

    ۱۹۰۸ء میں بھیکا جی کاما نے جرمنی میں ترنگا جھنڈا لہرایا ، اس ترنگا میں سب سے اوپر ہرا رنگ ، درمیان میں کیسریا اور سب سے نیچے لال رنگ تھا۔ جھنڈے کی کہانی کا دلچسپ دور محترمہ اینی بیسنٹ کی تجویز کردہ جھنڈے سے شروع ہوتی ہے۔ اس جھنڈے کا نصف حصہ ہرا اور نصف حصہ لال تھا۔

    وقت گذرتا گیا ،جھنڈے میں مختلف رنگ جٹتے رہے اور شامل ہوتے رہے۔ آندھر پردیش میں آل انڈیا کانگریس کی ایک میٹنگ ہوئی۔ اس میں عوام نے کاغذکے ٹکڑوں پر طرح طرح کے جھنڈوں کے نمونے پیش کئے۔ مہاتما گاندھی جی نے یہ تجویز رکھی کہ اس جھنڈے میں تین رنگ ہونا چاہئے۔ لال، ہرا اور سفید رنگ کے درمیان چرخے کا نشان ہونا چاہئے۔ مہاتما گاندھی جی کی اس تجویز کردہ جھنڈے کا پرچار ملک بھر میں ہوا۔ یہ جھنڈا کافی پسند کیا گیا۔ ایک تجویز یہ بھی آئی کی سفید پٹی کو اوپر کی بجائے درمیان میں ہونا چاہئے۔ دانشوروں نے ایسا خیال ظاہر کیا کہ اگر سفید پٹی اوپر ہوگی تو آسمان کے رنگوں میں شامل ہوکر صاف دکھائی نہیں دے گی۔ تجاویزیں بدلتی رہیں، درمیان میں چرخے کے نشان کی رائے بہت سے لوگوں کی تھی۔ لوگوں نے محسوس کیا کہ چرخہ ترقی کی نشانی ہے، اہنسا کا نشان ہے۔ کچھ اور رنگوں کو شامل کرنے کا بھی سوال پیدا ہوتا رہا۔ بعد میں لال رنگ کی جگہ کیسریا رنگ کا استعمال کیا گیا۔

    آل انڈیا کانگریس کمیٹی میں اس مسئلہ پر کافی مباحثہ ہوا ۔ قومی گیتوں میں بھی ترنگا لفظ کا استعمال جگہ جگہ ہوا ہے۔ اس لئے سبھو ں نے مل کر یہ فیصلہ لیا کہ ہندوستان کا جھنڈا ترنگا ہی ہونا چاہئے۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے یہ صلاح دی کہ ترنگا جھنڈا کے رنگوں کو کسی جماعت یا قوم سے جوڑ کر نہیں دیکھا جانا چاہئے بلکہ اسے صرف قومی نشان کے طور پر ہی پیش کیا جانا چاہئے۔

    پنڈت جواہر لال نہرو نے اس جھنڈے کے سلسلہ میں ایک اور رائے پیش کی۔ انہوں نے اپنی رائے پیش کرتے ہوئے کہا کہ ترنگا جھنڈا سے چرخہ نشان کوہٹاکر اشوک چکر کر دینا چاہئے ۔ اس رائے کو مہاتما گاندھی جی نے بھی قبول کیا۔ اس طرح جھنڈے کے درمیان میں چرخہ کی جگہ اشوک چکر کا استعمال ہونے لگا۔اشوک چکر میں چرخہ کا چکر بھی شامل ہوجاتا ہے۔ اب اس ترنگا کے مختلف رنگوں کی اہمیت اس طرح رہی  ’’کیسریا ملک کی قوت اور حوصلے کی ترجمان ہے، درمیان کی سفید پٹی امن شانتی اور سچائی کا نشان ہے۔ نچلی ہری پٹی ہمارے ملک کے مٹی سے پیدا ہونے والے پیڑ پودوں کی ہریالی اور اس کے پاکیزگی کی علامت ہے۔اشوک چکر آگے بڑھتے رہنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے۔ ‘‘

    قومی جھنڈا ہمارے ملک کی شان اور پہچان ہے۔ ہر ہندوستانی کو اس کی عزت کرنی چاہئے۔ کوئی بھی انسان اس ترنگاکی شان میں گستاخی نہ کرے اس کے لئے ۲۰۰۲ء میں فلیگ کوڈ آف انڈیا بنایا گیا۔ اس سے قبل قومی جھنڈے کو کسی نجی جگہ پر نہیں لہرایا جاسکتا تھا۔ لیکن ۲۰۰۲ء کے بعد کوئی بھی آدمی عزت و احترام کے ساتھ اس قومی جھنڈے کو کسی وقت اور کسی جگہ لہرا سکتا ہے۔

 

٭٭٭

Ahsan Alam
Moh: Raham Khan, Darbhanga
9431414808

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 651