donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Forum Desk
Title :
   Computer Virus Ke Khaliqon Par Farde Jurm

کمپیوٹر وائرس کے خالقوں پر فرد جرم عائد


 ’انانی مس‘ اور ایرون سوارٹز کے علاوہ امریکہ میں سائبر میدان کے دیگر ’ماہرین‘ بھی موجود ہیں جن میں سے  3 افراد کو دنیا بھر میں 10 لاکھ سے زائد کمپیوٹروں کو نقصان پہنچانے والے کمپیوٹر وائرس کی تخلیق اور اسے پھیلانے کے سلسلے میں فردِ جرم عائد کردی گئی ہے۔ وکلائے استغاثہ کا کہنا ہے کہ گوزی نامی اس وائرس کی مدد سے 2005ء سے 2011ء کے دوران لوگوں کے بینک اکاؤنٹس کے بارے میں معلومات حاصل کرکے لاکھوں ڈالر چرائے گئے۔ اس سلسلے میں روس، لاٹویہ اور رومانیہ سے تعلق رکھنے والے 3افراد پر الزامات عائد کئے گئے جبکہ استغاثہ کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں بینک لوٹنے والا ایسا گروپ ہے جسے نہ ہی کسی بندوق اور نہ نقاب کی ضرورت تھی۔ امریکی وکیل پریت بھراڑا نے نیویارک میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ روس سے تعلق رکھنے والے 25سالہ ملزم نکیتا کزمن نے مئی 2011ء میں اعتراف جرم کیا تھا جبکہ دوملزمان رومانیہ نے 28 سالہ میہائی پونیسکو اور لٹویا کے 27 سالہ ڈینیس کلووسس کے سلسلے میں مجرمان کے تبادلے کی کارروائی جاری ہے۔ استغاثہ کے بقول نکیتا کزمن اور ان کے ساتھیوں نے اس وائرس کی مدد سے پچاس ملین ڈالر کا غیر قانونی منافع کمایا۔ پریت بھراڑا کے مطابق یہ مقدمہ بینکوں اور صارفین کیلئے ایک انتباہ ہے کیونکہ سائبر جرائم ہمیں لا حق بڑے خطرات میں سے ایک ہے اور یہ خطریہ جلد ٹلنے والا نہیں ہے، جبکہ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ مالیاتی چوری کا یہ منصوبہ یوروپ سے شروع ہوا اور پھر اس دائرہ امریکہ تک پھیل گیا تھا جہاں ایک مرحلے پر امریکی خلائی ادارے ناسا کے 190 کمپیوٹرز بھی اس وائرس کا نشانہ بنے تھے۔

نیو یارک ٹائمز‘ کی ویب سائٹ پر

’چینی ہیکرز کا حملہ‘

امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ گزشتہ 4ماہ سے چین کے بعض ہیکروں کی جانب سے اس کی سائٹ میں مستقل دخل اندازی کی جاتی رہی ہے جبکہ اس کی سائٹ پر یہ حملے چینی وزیر اعظم وین جیاباؤ کے خاندان کی جانب سے اربوں کی دولت بٹورنے سے متعلق ایک رپورٹ تیار کرنے کے وقت سے ہی ہو رہے ہیں۔ ان ہیکروں نے رپورٹروں اور نامہ نگاروں کی ’ای میل‘ کو نشانہ بنانے کیلئے وہی طریقے استعمال کئے جو ’چینی فوج سے وابستہ رہے ہیں۔ ہیکرز پہلی بار ستمبر میں ان کے کمپیوٹر سسٹم تک پہنچے جب وین جیا باؤ سے متعلق ان کی رپورٹ تکمیل کے آخری مرحلے میں تھی۔ وین جیا باؤ کے خاندان سے متعلق اخبار نے جو رپورٹ شائع کی تھی اس میں تقریباً پونے 3 ارب ڈالر کی دولت تجارت کے ذریعے کمانے کی بات کہی گئی تھی تاہم جیا باؤ پر کوئی غلطی کرنے کا الزام عائد نہیں کیا گیا تھا جبکہ چین کی حکومت نے وین جیا باؤ سے متعلق نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کو بدنام کرنے کی مہم بتا کر مسترد کردیا تھا۔ بہر کیف چین کی وزارت دفاع نے اخبار کو بتایا ہے کہ چینی قوانین کے مطابق ہیکنگ غیر قانونی عمل ہے۔

 نیو یارک ٹائمز کے مطابق شنگھائی میں اخبار کے بیوروچیف ڈیوڈبار بوزا، جنہوں نے رپورٹ تیار کی تھی جبکہ سابق بیورو چیف جم یارڈلی کے کمپیوٹروں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ اخبار نے ہیکنگ کو ٹریک کرنے کیلئے مینڈینٹ نامی انٹرنیٹ کمپنی کی خدمات حاصل کیں جس نے ہیکروں کو بلاک کرنے کیلئے 4ماہ تک ان کا پیچھا کیا۔ بڑی کوشش کے بعد اس کمپنی کو پتہ چلا کہ حملے کو چھپانے کیلئے اس کے راؤٹر کو امریکی یونیورسٹیز کے کمپیوٹروں سے جوڑا گیا تھا۔ اخبار کے مطابق اس کمپنی نے ہیکنگ کے معاملے کو جو پہلے کیسز حل کئے تھے اس میں بھی وہی طریقہ استعمال کیا گیا تھا جو چین کی جانب سے ہیکنگ کیلئے پہلے استعمال کئے گئے تھے جبکہ ماہرین کو پتہ چلا کہ حملے کا آغاز ابھی یونیورسٹی کمپیوٹروں سے ہوا جو کسی زمانے میں چین کے فوجیوں نے امریکی فوج کے کنٹریکٹروں پر حملے کیلئے استعمال کئے تھے۔ مینڈینٹ کے سیکوریٹی افسر ریچرڈ بیج لچ کے بقول ’اگر آپ ہر حملے کو الگ الگ کر کے دیکھیں تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ چین کی فوج کا کام ہے لیکن حملوں کے طریقہ کار میں پائی جانے والی مماثلت اور حملوں کے نشانے پر غور کریں تو اس میں ربط ملے گا لیکن اخبار کا کہنا ہے کہ ہیکنگ کے ان واقعات سے اس کا کوئی ڈاٹا چوری نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کی سائٹ کو پوری طرح سے بند کرنے کی کوشش کی گئی لیکن چین کی فوج کی جانب سے اخبار کو بتایا گیا ہے کہ ہیکنگ سمیت انٹرنیٹ کی کسی بھی طرح کی سیکوریٹی توڑنا قانوناً جرم ہے اور بغیر کسی ثبوت کے اس طرح کے سائبر حملوں کا الزام چینی فوج پر لگانا غیر پیشہ ور طریقہ اور بے بنیاد بات ہے۔‘


امریکی کی سرکاری ویب سائٹ بھی محفوظ نہیں

چین کے ساتھ اس تنازع سے قطع نظر امریکہ میں ہیکروں کے بین الاقوامی گروہ جو اپنے آپ کو ’انانی مس‘ یا گمنام کہلاتا ہے، اس نے حالیہ ایام میں ایرون سوارٹز کی موت کے رد عمل میں امریکی حکومت کی ایک ویب سائٹ کو ہیک کرلیا۔ اس حوصلہ کو کیا کہیں گے کہ اس گروپ کے کارکنوں نے امریکی حکومت کے ادارے یونائیٹڈ اسٹیٹس اسنٹینسنگ کمیشن یا یو ایس ایس سی یا سزا دینے والے کمیشن کی ویب سائٹ کے پہلے صفحے پر ہیکنگ کے بعد ایک ویڈیو پیغام بھی لگادیا جبکہ یو ایس ایس سی امریکہ میں وفاقی عدالتوں کو سزائیں دینے میں رہنمائی دیتی ہے۔ ہیکروں نے اس حملے کو ’آپریشن آخری حربہ‘ کا نام دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس ویب سائٹ کو علامتی وجوہات کی بنا پر منتخب کیا تھا۔ اس گروپ کے کارکنوں نے لگائے گئے اپنے ویڈیو پیغام میں واضح کیا تھا کہ ’سزائیں دینے کیلئے رہنمائی دینے کا ادارہ استغاثہ کے وکلاء کی شہریوں کو انصاف پر مبنی مقدمے کے حقوق سے محروم کرنے میں مدد دیتا ہے، جو کہ آئین کی آٹھویں ترمیم کی خلاف ورزی ہے۔ یہ ترمیم ظالمانہ سزا سے تحفظ دیتی ہے۔ ‘ اس ویڈیو پیغام میں انٹرنیٹ کے کارکن ایرون سوارٹز کی موت کی طرف اشارہ کیا گیا تھا جس نے جنوری کے دوران خود کشی کی تھی۔ ویڈیو پیغام میں کہا گیا تھا کہ دو ہفتے پہلے ایک حد پار کی گئی تھی۔ دو ہفتے پہلے ایرون سوارٹز کو قتل کیا گیا۔ اس لئے قتل کیا گیا کہ ان کے پاس کوئی راستہ نہیں تھااور انہیں ایک ایسا کھیل کھیلنے پر مجبور کیا گیا جو وہ نہیں جیت سکتا تھا۔‘ ویب سائٹ پر لگائی گئی دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ حملہ آدھی رات کو شروع ہوا جس کے بعد دن کے وقت ویب سائٹ کام نہیں کررہی تھی۔ ہیکروں کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پاس ججوں کے بارے میں اندرونی معلومات ہیں جنہیں جاری کیا جاسکتا۔

 اس ’گمنام‘ نامی ہیکروں کے گروہ کی جانب سے گزشتہ کئی مہینوں میں کئی حملے کئے گئے جبکہ گزشتہ دنوں اسی گروپ کی طرف سے رقم منتقل کرنے والی سروس ’پے پال‘ پر حملے میں حصہ لینے والے دو برطانوی شہریوں کو جیل بھیج دیا گیا تھا۔ برطانیہ اور دوسری کئی حکومتوں کے ویب سائٹوں پر بھی اس گروہ کی جانب سے حملے کئے گئے جبکہ ایرون سوارٹز پر الزام تھا کہ انہوں نے میساچیوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹکنالوجی یا ایم آئی ٹی کا نیٹ ورک استعمال کرتے ہوئے تعلیمی خدمات دینے والی ویب سائٹ جے اسٹور سے غیر قانونی طور پر تحقیقاتی مقالے ڈاؤن لوڈ کئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ56 سالہ ایرون سوارٹز نے خود کشی کی تھی۔ سوارٹز نے گزشتہ سال ہونے والی ابتدائی شنوائی میں اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو مسترد کردیا تھا، لیکن ان کے خلاف وفاقی سطح کے مقدمے کی سماعت آئندہ ماہ شروع ہونے والی تھی جس میں اگر ان کو اس جرم کا مرتکب پایا جاتا تو انہیں ایک ملین امریکی ڈالر جرمانے کے علاوہ 35 سال کی سزا بھی ہوسکتی تھی۔ ایرون کے خاندان نے ان کی موت کے بعد کہا تھا کہ ’ایرون سوارٹز کی موت صرف ایک ذاتی سانحہ نہیں بلکہ یہ ایک خراب فوج داری نظام انصاف کا نتیجہ ہے۔‘


**********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 755