donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Forum Desk
Title :
   Raushni Se Reacharge Hone Wali Mashini Aankh

 

روشنی سے ری چارج ہونے والی مشینی آنکھ 


    امریکہ میں سائنسدانوں نے ایک ایسی مصنوعی آنکھ تیار کی ہے جو ’’سولر پینل ‘ کی طرح روشنی سے چارج ہوتی ہے۔ سائنسداں پہلے بھی مصنوعی یامشینی آنکھ تیار کرچکے ہیں مگر انہیں بیٹری سے چارج کرنا پڑتا ہے۔ اس مصنوعی آنکھ میں ریٹینا کو ٹرانسپلانٹ کرکے مریض کی قوت بصارت کو ٹھیک کیا جاتا ہے۔ امریکہ کی اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی تیار کردہ اس نئی بایونک آئی، کے بارے میں تحقیق سائنسی جریدے نیچر فوٹو ن ، میں شائع کی گئی ہے۔ اس نئی آنکھ میں خصوصی سیلوں کی جوڑی کی مددسے انفراریڈ شعاعوں جیسی روشنی کو آنکھوں میں بھیجا جاتا ہے۔ اس سے ٹرانسپلانٹ کئے گئے ریٹینا کو توانائی ملتی ہے اور وہ ایسی معلومات مہیا کرتا ہے جن سے مریض دیکھ سکتا ہے۔ زیادہ عمر میں اکثر لوگوں کی آنکھوں میں بڑھاپے سے متعلق علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ جن سے کہ وہ خلئے مرجاتے ہیں جو کہ آنکھ کے اندر روشنی کو وصول کرتے ہیں۔ آگے چل کر یہی علامات اندھے پن میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ اس مصنوعی ریٹینا میں آنکھوں کے پیچھے کی وریدیں مرتعش رہتی ہیں جن سے کئی بار آنکھوں کے مریضوں کو د یکھنے میں مددملتی ہے۔ برطانیہ میں پہلے ایسے مصنوعی ریٹینا کے ابتدائی ٹسٹ کئے گئے تھے جن میں پایا گیا کہ دو ایسے لوگ جو مکمل طورپر اندھے ہوگئے تھے وہ روشنی کو قبول کرنے لگے اور کئی اشکال کو پہنچاننے لگے۔


مصنوعی آنکھ کیسے کام کرتی ہے؟

    ٹرانسپلانٹڈ ریٹینا شمسی پینل کی طرح کام کرتا ہے جسے آنکھ کے پیچھے لگایا جاتا ہے۔ اس کے بعد ویڈیو کیمرے سے منسلک شیشوں کا ایک جوڑا آنکھ کے سامنے ہونیوالی تمام چیزوں کو ریکارڈ کرتا ہے اور انہیں انفراریڈ کے تقریباً برابر شعائوں میں بدل کر ریٹینا کی جانب بھیجتا ہے۔ مگر ان تجربوں میں ریٹینا کے پیچھے ایک چپ لگانے کے ساتھ ساتھ کان کے پیچھے ایک بیٹری نصب کی جاتی تھی اور ان دونوں کو ایک تار سے جوڑاجاتا تھا۔ اس مصنوعی ریٹینا کا ابھی انسانوں پر تجربہ نہیں کیا گیا ہے مگر چوہوں پراس کا تجربہ کامیاب رہا ہے۔ 


آنکھوں کا رنگ بدلنے والا طریقہ علاج 

     امریکہ کے ایک ڈاکٹر شعاعوں کی مدد سے آنکھوں کے علاج کا ایک ایسا طریقہ ایجاد کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو مریض کی آنکھوں کا رنگ بدل دیتا ہے۔ ڈاکٹر گریگ ہومرکا دعویٰ ہے کہ اگر آنکھوں پر 20 سیکنڈ تک لیزر لائٹ ڈالی جائے تو اس سے بھوری پتلیوں کا رنگ ختم ہوجاتا ہے اور پھر بتدریج وہ نیلی ہوجاتی ہیں۔ ڈاکٹر ہومراس بارے میں مزید تجربوں کے لئے ساڑھے سات لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ تاہم بعض دوسرے طبی ماہرین نے اس معاملے میں احتیاط برتنے پر زور دیا ہے کیونکہ ان کے بقول اگر زیادہ دیر تک شعاعوں کو آنکھوں پر ڈالا جائے تو آنکھوں کی پتلیوں کے رنگ کو تباہ کرنے سے دیکھنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ آنکھوں کے رنگ بدلنے کے اس طریقے کو متعارف کرانے کیلئے قائم کی گئی کمپنی کا اندازہ ہے۔ کہ اس طریقے کے حفاظتی تجربات کو مکمل کرنے میں کم سے کم ڈیڑھ سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ 


قدرتی روشنی آنکھوں کیلئے مفید 

     ایک تحقیق کے مطابق اگر بچے زیادہ وقت باہر گزاریں تو ان کی دور کی نظر کمزور ہونے کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔ یونیورسٹی آف کیمبرج کی ماضی میں کی گئی آٹھ تحقیقات کے جائزہ کے بعد محققین کا کہنا ہے کہ ہر ہفتے صرف ایک گھنٹہ باہر گزارنے سے دور کی نظر کمزور ہونے کا خطرہ دو فیصد کم ہوجاتا ہے۔ ان کے مطابق اس کی اہم وجہ قدرتی روشنی اور دور موجود چیزوں کو کچھ وقت تک دیکھتے رہنا ہوسکتی ہے۔ اس تحقیق میں دس ہزار سے زیادہ بچے اور نوجوان شامل تھے۔ اس تحقیق کو امیر یکن اکیڈمی آف آپتھیلیمولوجی کے فلور ریڈا میں ہونے والے سالانہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔ ڈاکٹر جسٹن شرون اور ان کی ٹیم کی تحقیق کے مطابق جن بچوں کی دورکی نظر کمزور ہوتی ہے، وہ دوسرے بچوں کے مقابلے میں ہر ہفتے باہر تین اعشاریہ سات گھنٹے کم گزارتے تاہم محققین کا کہنا ہے کہ ابھی اسکی وجہ واضح نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ شاید جوبچے ز یادہ وقت باہر گزارتے ہیں وہ کم کتابیں پڑھتے ہیں، یا پھر کمپیوٹر پر کم کھیلتے ہیں۔ لیکن ابھی تک جن آٹھ تحقیقات کا جائزہ لیا گیا۔ ان میں سے دو میں کمزور نظر ہونے اور زیادہ پڑھنے یاکمپیوٹر کھیلنے کے درمیان کوئی تعلق نہیں پایا گیا۔ تاہم ڈاکٹر شرون کا کہنا ہے کہ ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ کون سی چیزیں ، جیسے کہ دور تک دیکھنے کی صلاحیت ، قدرتی روشنی ، یاورزش ، زیادہ اہم ہیں۔ ڈاکٹر شرون نے یہ بھی کہا کہ باہر زیادہ وقت گزارنے کے جہاں فوائد ہیں، وہیں اس کے خطرات کو بھی دیکھنا ہوگا، جیسے کہ جلد کے کینسر کا خطرہ۔ برطانیہ میں پانچ سے سات سال کے بچوں میں سے ایک یاد و فیصد کی دورکی نظر کمزور ہے۔ برطانیہ اور امریکہ میں بچوں کی دور کی نظر کمزور ہوناتیس سے چالیس سال پہلے کے مقابلے میںاب زیادہ عام ہے۔ ایشیا کے چند علاقوں میں تقریباً اسی فیصد آبادی کی دورکی نظر کمزور ہے۔ دی کالج آف اوپٹو میٹر یسٹس میں ڈاکٹر سوسن بلیکنی کے مطابق عام طورسے پیدائش کے وقت بچوں کی قریب کی نظر کمزور ہوتی ہے اور جیسے جیسے وہ بڑے ہوتے ہیں ان کی نظر ٹھیک ہوجاتی ہے۔ لیکن بڑے ہوتے ہوئے کچھ بچوں کی دورکی نظر کمزور ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹر بلیکنی کا کہنا ہے کہ سوال یہ ہے کہ کون سی چیزیں بچوں کی نظر پراثر انداز ہوتی ہیں۔ 

**********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 458