donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shaukat Rahman
Title :
   Kuhe Namrood Ke Tareekhi Mojassame

 

کوہِ نمرود کے تاریخی مجسمے

 


شوکت رحمٰن


    قدیم سات عجوبے انسان کی فنی صلاحیتوں کے اظہار کا نمونہ تھے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کی عجائب نگری میں محض یہ سات عجوبے نہیں بلکہ انسانی ہاتھوں کے تراشیدہ ان گنت نمونے عقل کو ورطۂ حیرت میں مبتلا کیے ہوئے ہیں۔ فن کی بات کی جائے تو سب سے پہلے مصوری کا خیال ذہن میں آتا ہے ۔ غالباً انسان نے اپنی تخلیقی صلاحیت کا پہلا اظہار مصوری کی صورت میں کیا ہوگا۔ انسان کا پہلا مسکن سمجھی جانے والی غاروں کے درودیواروں پر نقش و نگار ملتے ہیں۔


    جب انسان مصوری سے ایک ہاتھ آگے بڑھا تو صورتیں نقش کرنے کے بجائے انہیں تراشنے کی کوشش میں جٹ گیا۔ اسی کوشش سے فن سنگ تراشی اور مجسمہ سازی کا آغاز ہوا اورپھر اس فن میں حضرت انسان نے ایسی مہارت حاصل کی کہ اپنی ہی تراشیدہ مورتیوں کے حسن کے سامنے سجدہ ریز ہونے لگا۔ یہی دنیا میں شرک کے عملی اظہار کا ذریعہ بنیں ۔ گندھارا تہذیب کے آثار میں ملنے والے دلفریب مجسمے اور اجنتا کی غاروں میں بنی مورتیاں اس کی عام مثالیں ہیں۔ پتھر اور مٹی سے بنی مورتیوں میں انسانی ہاتھ کی جادوگری ایسی جان پھونک دیتی ہے کہ دیکھنے والے مبہوت ہوکر رہ جاتے ہیں۔ فن کی یہ بلندی اور دیکھنے والوں کی یہ حیرت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان مجسموں کو مقدس یا متبرک بنا دیتی اور ان سے مختلف کہانیاں منسوب ہوجاتی ہیں۔ بامیان کے دیو ہیکل مجسمے بھی اس جادو گری کے عکاس تھے جو زمانے کی چیرہ دستیوں کا شکار ہوکر اپنا وجود کھوبیٹھے۔


     بدھ مت کی ابتدائی تعلیمات میں خدا کا کوئی واضح تصور نہیں اس لیے بتوں یا مجسموں کی پوجا بھی اس مذہب میں نہیں تھی۔ اگرچہ اب ایک فرقہ ایسا ہے جو مہاتما بدھ کے مجسموں کی پوجا کرنے لگا ہے۔بامیان کے یہ مجسمے چونکہ پوجے نہیں جاتے تھے اس لئے انہیں بت کہنا تو درست نہ تھا، البتہ یہ واقعی فن مجسمہ سازی کی اعلیٰ ترین مثال تھے ۔ اسرائیلی روایات کے مطابق جب حضرت آدم علیہ السلام کا وصال ہوا تو ان کی اولاد کی اولاد نے ایسے مجسمے بنائے جو حضرت آدم علیہ السلام سے مشابہ تھے ۔ بعد میں شیطان نے اولاد آدم کو بھٹکایا اور ان مجسموں کی پوجا شروع ہوگئی۔ بیان کیاجاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا آذر بھی بت ساز تھا اور ایسے مجسمے بنایا کرتا کہ لوگ دیکھتے رہ جاتے اور اس کے ہنرکی مثالیں دیا کرتے۔


    یہ بات تو واضح ہے کہ شرک پھیلنے کے ساتھ ساتھ مجسمہ سازی اور مورتی سازی نے بہت ترقی کی ۔ دنیا کی تقریباً ہر تہذیب میں ایسے بت اور مجسمے ملتے ہیں۔ ایسی ہی مورتیوں اور مجسموں کی ایک مثال ہمیں ادیمان کے کوہ نمرود پر اب بھی دیکھنے کو ملتی ہے ۔ یہ مجسمے دراصل قبروں پر بنے کتبوں کاکام دیتے تھے ۔ اس عہد کے بادشاہوں نے اپنی قبروں کو مقدس بنانے کا اچھوتا طریقہ سوچا اور اپنی قبروں پر بت بنوا دئیے۔ ترکی کے کوہ نمرود کی چوٹی پر موجود یہ چٹانی قبریں اپنی نوعیت کی قدیم ترین قبریں ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورت معماری کی خصوصیات کی حامل ہیں۔ ادیمان کا کوہ نمرود سیکڑوں برسوں قبل مغرب و مشرق کا سنگم تصور کیا جاتا یہ ایک نئے مذہب کا ظہور، کٹھن جنگلوں اور ایک دیو ہیکل سنگلاخ پہاڑ ہے ۔ کوہ نمرود اب اپنے شاندار ماضی کی یادوں کے ساتھ آسمانوں سے باتیں کرتا دکھائی دیتا ہے۔


     دنیا کے آٹھویں عجوبے کی خصوصیت کے حامل اس پہاڑ کی چوٹی پر موجود دیو ہیکل مجسموں کو اس علاقے میں حکومت قائم کرنے والی کوماگین ریاست کے باسیوں نے تخلیق دینے اور کوہ نمرود کو اس نئے مذہب کا مرکز بناتے ہوئے اس مذہب کو دنیا بھر میں عام کرنے کا سوچا تھا۔ اس کی وساطت سے یہ دنیا بھرپر حکومت کرنے اور اپنے آپ کو ابدی حیثیت دلانے کا خواہاں تھا۔ اس بنا پر اس نے اپنے آپ کو دیوتا کہلانے کا اعلان کیا اور دیوتائی بادشاہ کے طورپر کوہ نمرود کی چوٹی پر اپنے لیے ایک قبر تعمیر کروائی تھی ۔ اس حوالے سے اس بادشاہ کا ذوق کسی طرح بھی فراعین مصر سے کم معلوم نہیں ہوتا جو اپنی آخری آرام گاہ کے لیے اہرام تعمیر کرواتے تھے ۔ مرنے کے بعد دوبارہ  اس دنیا میں آنے کا عقیدہ رکھنے والے ان بادشاہوں نے اپنی قبروں کو اس قدر آراستہ کیا کہ ان کا شمار عجائبات میں ہونے لگا۔ آتھیوس کی آخری آرام گاہ اس قدر آراستہ تو نہیں تاہم پھر بھی کسی عجوبے سے کم نہیں لگتی۔ مخروطی ساخت کی 55 میٹر بلند یہ قبر کسی یادگاری چوٹی کی مانند ہے ۔ اس کا قطر 150 میٹر ہے اوریہ کوہ نمرود کی چوٹی پر دور سے دکھائی دے جاتی ہے۔ اس کے گرد چوبارا بنایا گیا ہے جہاں پر اس دور میں مذہبی تقاریب کا اہتمام ہوتا تھا۔ مشرق، مغرب اور شمالی چوبارے کانام دئیے گئے ا س مقام سے مشرقی اور مغربی چوبارے پر ایک قطار میں آٹھ تا دس میٹر بلندی کے حامل پر احتشام مجسمے کیے گئے ہیں۔ ان مجسموں کا آغاز شیروں اور عقابوں کی مورتیوں سے ہوتا ہے اور یہ قطار اسی شکل میں اختتام پذیر ہوتی ہے۔


     یہاں پر شیر کی مورتی کرہ ارض کی طاقت ، دیوتائوں کو رسد باہم پہنچانے والا عقاب ، آسمانی طاقتوں کی علامت کے طور پر بنائے گئے ہیں۔ مجسموں کو دونوں جانب اسی ماہیت میں کھڑا کیاگیا ہے ۔ وہاں پر موجود تحریروں میں آتھیوس کی والدہ کا تعلق سکندر اعظم کے علاوہ مقدونیہ اور باپ کا تعلق پرسی علاقے سے ہونے کا ذکر کیاگیا ہے ۔ اس طرح اس نے اپنے آبا و اجداد کی نسل تفریق کو یکسانیت بخشی ہے ۔ اس بناپر دیوتائوں کے مجسموں کے رخ کو مشرق و مغرب کی جانب سے کیاگیا ہے۔ علاوہ ازیں دیوتائوں کے مجسموں کے نام پر سی اور یونانی زبان میں درج کیے گئے ہیں۔ آتھیوس کی طرف سے بنوائے گئے مجسموں کے عقبی رخ پر دو سو سطروں پر مشتمل وصیت نامہ بھی اسی بادشاہ نے کندہ کروایا تھا۔ وصیت میں اس نے اپنے بعد آنے والے بادشاہ سے عبادت گاہ کو مزید خوبصورتی دینے کی خواہش بھی ظاہر کی ہے ۔ عبادت کے لیے وہاں آنے والوں کے لیے تعریفی الفاظ لکھوائے ہیں اور بد نیتی کے خلاف بد دعا کی ہے ۔ علاوہ ازیں آتھیوس نے مقدس علاقے کی زیارت کے لیے آنے والوں کی احسن طریقے سے آئو بھگت کیے جانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور راہبو ں کو بہترین شراب پیش کرنے کا حکم صادر کیا ہے۔ بادشاہ کے ان احکامات پر بعد میں آنے والے حکمرانوں نے کتنا عمل کیا، اس بات کی تفصیلات تو تاریخ میں نہیں ملتیں مگر یہ بات ضرور ہے کہ انہوں نے کوہ نمرود کے مشرق میں واقع ان کھنڈرات اور آتھیوس کی مخروطی قبر کو مقدس مقام کا درجہ دیا تھا جس جگہ پر یہ قبر واقع ہے وہ پتھر یلا ٹیلہ 2150 میٹر کی بلند ی پر ہے اور اسے خاص طورپر دریائے فرات اور اس کی وادی کا نظارہ کرسکنے والے ایک مقام پر بنایا گیا ہے اس بات کا خیال ظاہر کیاجاتا ہے کہ بادشاہ کی راکھ یا پھر ہڈیوں کو ایک چٹان کو کھود کر بنائے گئے کمرے میں رکھاگیا ہے۔ یہاں موجود مجسمے اس اعتبار سے بھی منفرد ہیں کہ یہ  صرف بادشاہوں کی قبروں کے کتنے کاکام ہی نہیں دیتے بلکہ ان میں اس عہد کی تاریخ اور ثقافت کو بھی ایک خاص انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ان مجسموں میں سے کوئی بادشاہ دکھائی دیتا ہے تو کوئی سپہ سالار گویا جن لوگوں نے سلطنت کے لیے خدمات سر انجام دی ہوں ان کے مجسمے بنائے جاتے تھے ۔ عصر حاضر میں ایک نیشنل پارک کی حیثیت کے حامل کوہ نمرود میں مذکورہ مورتیوں کے علاوہ بھی کئی ایک پتھریلی ابھری ہوئی مورتیاں موجود ہیں۔ وہاں پر موجود شیر کی مورتی پر سولہ شعاعوں سے وجود میں آنے والے تین ستارے موجود ہیں جو کہ مریخ ، عطارد اور مشتری کی نمائندگی کرتے ہیں۔    

*********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 657