donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Maloomati Baaten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shorish kashmiri
Title :
   Maulana Abul Kalam Azad Aur Pakistan

 

مولانا ابوالکلام آزاد اور پاکستان 


شورش کاشمیری


Maulana Abul Kalam Azad: The Man Who Knew The Future Of Pakistan Before Its Creation 

جناب شورش کاشمیری کو 1946 میں دیئے گئے انٹرویو کا پہلا حصہ

سوال۔ ہندو مسلم مناقشات (اختلافات) اس حد تک پھیل چکے ہیں کہ جانبین (مخالفین) میں مفاہمت  کی دوسری تمام راہیں  ناپید ہوکر پاکستان ناگزیر ہو چکا ہے۔

جواب۔ہندو مسلم مناقشات (اختلافات) کا  حل پاکستان ہوتا تو میں خود اس کی حمایت کرتا ۔ ہندوؤں کاذہن بھی اسی  طرف پلٹ رہا ہے۔ ایک طرف آدھا پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان اور دوسری طرف آدھا بنگال دے کر انہیں سارا ہندوستان مل جائے تو بڑی سلطنت سیاسی حقوق کے ہر فرقہ  وار قضیے سےمحفوظ ہوجاتی ہے۔ اس طرح ہندوستان ایشیاء میں چین کے بعد لیگی  اصطلاح کےمطابق  ایک بڑی ہندو ریاست ہوگا۔ کسی حد تک عملاً بھی اور بڑی حد تک مزاجاً بھی ۔یہ کوئی ارادی چیز نہ ہوگی بلکہ اس کےمعاشرہ کا خاصا ہوگا۔ آپ ایک معاشرے کو جس کی آبادی 90 فیصد ہندو  ہو کسی اور سانچے  میں کیونکر ڈھال سکتے ہیں جب کہ زمانہ قبل از تاریخ  سے وہ اسی سانچے میں ڈھلی ہو اور اس کی سب سے برُی عصبیت  (قرابت، رشتہ داری) ہو۔ وہ چیز  جس نے معاشرے میں اسلام کی داغ بیل ڈالی اور اس کی آبادیوں  میں سے اپنی  ایک طاقتور اقلیت پیدا کی، اس تقسیمی  سیاست کی پر زور نفرت نےاشاعت اسلام کے دروازے ا س طرح بند کر دیئے ہیں کہ ان کے کھلنے کا سوال ہی نہیں رہا ۔ گویا اس سیاست نےمذہب  کی دعوت ختم کردی ہے۔ مسلمان قرآن کی طرف لوٹ رہے ہیں ، اگر وہ قرآن کی طرف لوٹ رہے ہیں، اگر وہ قرآن و سیرت کے مسلمان ہوتے اور اسلام کی آڑ میں خود ساختہ سیاسی عصبیتوں کو استعمال نہ کرتے تو اسلام ہندوستان میں رُکتا نہیں، بڑھتا اور پھیلتا ۔ اورنگزیب کے وقت میں ہم مسلمان ہندوستان میں غالباً سوا دو کروڑ تھے کچھ زیادہ یا اس سے کچھ کم۔ مغلیہ سلطنت ختم ہوئی، انگریز کاغلبہ ہوا تو مسلمان آج کا (1946) 65 فیصد تھے۔ غرض تحریک خلافت کے آغاز تک مسلمان بڑھتے ہی رہے۔ لوگوں نےاسلام قبول کیا، افزائش نسل ہوئی۔ اگر ہندو مسلم منافرت یا سیاسی مسلمانوں کے لب و لہجہ  سے تندو تلخ نہ ہوتی اور سرکار ی مسلمان انگریزوں کی سیاست کو پروان چڑھا نے کے لئے ہندو مسلم نزاع  کو وسیع ومتحارب نہ کرتے تو عجب نہ تھا کہ مسلمانوں  کی تعداد موجودہ تعداد سے ڈیوڑھی ہوتی ۔ ہم نے سیاسی نزع پیدا کرکے تبلیغ اسلام کے دروازے اس طرح بند کئے گویا اسلام اشاعت کے لئے نہیں  سیاست کیلئے  ہے۔ اُدھر انگریزوں کےہتھے چڑھ کر کہ وہ مسلمانوں کی آبادی  میں وسعت نہ چاہتے تھے ہم  نےاسلام کو ایک محصور مذہب بنادیا پھر یہودیوں ، پارسی اور ہندو ؤں کی طرح ہم ایک موروثی  ملّت بن گئے کہ یہودی، پارسی او رہندو بن کرنہیں پید ا ہوتے  ہیں ۔ ہندوستان مسلمانوں نے دعوت اسلام کو منجمد  کردیا پھر کئی فرقوں  میں بٹ گئے ۔ بعض فرقے استعمال  پیداوار تھے ان سب میں حرکت وعمل کی جگہ  جمود و تعطل پیدا ہوگیا اور وہ ذہنی  طور پر اسلام سے محرومی کی زندگی  داخل ہوگئی ان کا وجود جہاد سے تھا لیکن یہی  چیز ان کے وجود سے خارج ہوگئی ۔ اب وہ بِدعات و سیاست کاشکار ہیں ۔ وہ مسلمان عقائد  کے چنگل میں پھنسے ہوئے ہیں، دوسرے دین کےنہیں سیاست کے مسلمان ہیں۔ انہیں قرآنی دین نہیں سیاسی دین پسند ہے۔

پاکستان ایک سیاسی موقف ہے اس سےقطع نظر کہ پاکستان ہندوستانی مسلمانوں  کےمسئلے  کا حل ہے کہ نہیں؟ اس کامطالبہ اسلام کے نام پر کیا جارہا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اسلام نےکہا ں اورکب دین کےنام پر جغرافیائی تقسیم کامطالبہ کیا اور کفر و اسلام کی بستیاں بسائی ہیں۔  کیا یہ تقسیم قرآن میں ہے کہ حدیث  میں؟ صحابہ  نے کس مرحلے میں اس کی نیو ( بنیاد) اٹھائی ؟ فقہائے اسلام میں سےکس نے خدا کی زمین کو کفر و اسلام میں باٹنا؟ اگر اسلام میں کفر و اسلام کے اصول پر زمین کی تقسیم ہوتی تو اسلام ہمہ گیر ہوتا؟ مسلمانوں کی اتنی وسعت ہوتی؟ خود ہندوستان میں اسلام داخل ہوتا اور یہ مسلمان جو آج مسلمان ہونے کی بنا پر پاکستان کامطالبہ کرتے ہیں ان کے اجداد مسلمان ہوتے؟

جغرافیائی تقسیم صرف لیگ کی اختراع  ہے۔ وہ اس کو سیاسی موقف قرار دے تو اس طرح بحث و نظر کا جواز ہوسکتا ہے لیکن قرآناً یا  اسلاماً جغرافیائی تقسیم کاجواز کہیں  نہیں اور کوئی نہیں۔ مسلمان اسلام کی اشاعت کے لئے  ہیں یاسیات کی اساس پہ کفر و اسلام کی جغرافیائی تقسیم کے لئے؟ پاکستان کے مطالبہ نے مسلمانوں کو اسلاماً کیا فائدہ پہنچایا ، اب تک کچھ نہیں؟ پاکستان بن گیا تو اسلام کو کیافائدہ پہنچے گا، اس کاانحصار اس علاقہ کی سیاست پر ہے کہ اسےکس سرشت کی لیڈر شپ ملتی ہے۔ ہم جس ذہنی بحران سے گزر رہے ہیں، دنیائے اسلام کی جو حالت ہے اور مغربی ابتلانے جس طرح عالمی اذہان ( ذہنوں) پر قبضہ کر رکھا ہے اس کے پیش نظر مسلم لیگ کی لیڈ ر شپ کےآپ  وگل سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان اس طرح تقسیم ہوا تو پاکستان میں اسلا م نہیں رہے گا۔ اور ہندوستان میں مسلمان نہیں ہوگا۔ یہ ایک سیاسی اندازہ  ہے جو ہوگا وہ اللہ تعالیٰ کےعلم میں ہے لیکن پاکستان میں اولاً مذہبی تصادم پیدا کئے جائیں گے۔ ثانیاً وہاں اس قسم کے لوگ مسند اقتدار  پر فروکش ہوں گےجن سے دین کو سخت دھچکا  لگے گا۔ عجب نہیں کہ نئی پود پر اس کا رد عمل ہو اور و ہ عصری تحریکوں کے لادین فلسفے کی ہوجائے ۔ ہندوستان کے ہندو صوبوں میں مذہب سے جو لگاؤ یادین سے جو شغف(لگاؤ) مسلمانوں  کو ہے وہ پاکستان  کےمسلمان صوبوں میں  نہیں ۔ پاکستان میں علماء کی مزاحمت کے  باوجود دین کی طاقت کمزور رہے گی حتیٰ کہ پاکستان کی شکل بدل جائے گی۔

سوال ۔ ‘‘ لیکن بعض علماء بھی تو قائد اعظم کے ساتھ ہیں’’۔

جواب ۔ علماء اکبر اعظم کےساتھ بھی تھے ، اس کی خاطر انہوں نے ‘‘ دین اکبری’’ ایجاد کیاتھا، اس شخصی بحث کو چھوڑ و ، اسلام کی پوری تاریخ علماء سےبھری پڑی ہےجن کی بدولت اسلام ہر دور میں سسکیاں لیتا  رہا ۔ راست باز زبانیں چند ہی ہوتی ہیں ۔ پچھلے تیرہ سو برس کی تاریخ میں کتنے علماء  ہیں جنہیں تاریخ نے تو قیر کےخانے میں جگہ  دی ہے، احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ تو ایک ہی تھے اور ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ بھی واحد ہی تھے ، ہندوستان میں شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کا خاندان ہی زندہ رہا باقی سب محو ہوگئے ۔ الاّ ماشا ءاللہ ۔ مجد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ  کی حق گوئی پائندہ ہے لیکن جن لوگوں نے شکایتوں کے انبار لگا کر انہیں گوالیار کے قلعہ  میں ڈلوایا تھا  وہ بھی علماء تھے، اب کہاں ہیں؟  ان کے لئے کسی زبان پر کلمہ احترام  ہے؟’’

سوال ۔ ‘‘ مولانا! پاکستان اگر سیاستاً قائم ہوجائے تو اس میں عیب کیا ہے؟ اسلام کا نام تو مسلمانوں کی ملّی و حدت کو محفوظ رکھنے کے لئے  بولا جارہا ہے’’۔

جواب ۔ آپ اسلام کا نام ایک ایسی چیز کےلئے بول رہے ہیں جو اسلام ہی کی رو سے  درست نہیں ۔ جنگ  جمل  میں قرآن نیزے پر لٹکا ئے گئے وہ درست تھے ؟ کربلا  میں اہل بیت شہید کئے گئے ان کے قاتل  مسلمان تھے ۔ کیا وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی حلقہ بگوشی  کے دعویدار نہ تھے ۔ حجاج مسلمان تھا اس نے  بیت اللہ پر پتھراؤ کرایاتھا کیا اس کا فعل  صحیح تھا؟ کسی بھی مقصد باطل کیلئے کوئی سا کلمہ  حق درست نہیں ہوتا۔ پاکستان مسلمانوں کیلئے سیاستاً درست ہوتا تو میں اس کی حمایت کرتا لیکن خارجی  اور داخلی کسی اعتبار  سے بھی اس کےمضمرات مسلمانوں کے لیے خوشگوار نہیں، میں اپنی رائے پر اصرار نہیں کرتا۔

لیکن میں جو دیکھ رہا ہوں اس سے پھرنا میرے لئے  ممکن  نہیں لوگ طاقت کی مانتے ہیں یا تجربے کی ، جب تک مسلمان پاکستان کے تجربے سے نہیں گزریں گے ان کے لئے پاکستان کےبارےمیں کوئی دوسری بات جو اس کی نفی پر ہو، قابل قبول نہ ہوگی۔ وہ آج  دن کو رات کہہ سکتے ہیں لیکن پاکستان سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں، ایک بات ہوسکتی  ہے کہ سرکاری طاقت  پاکستان بنانے سے انکار کردے اور و ہ اس کے پلان پر راضی ہوجائیں یا خود مسٹر جناح ان کےذہن  کو پھیر دیں او رسمجھوتے  کی جو صورت سامنے آئے اس پر صادر کردیں۔

ہندوستان تقسیم ہوا، جیسا کہ مجھے ورکنگ کمیٹی کے بعض رفقاء کی ذہنی روش سےمحسوس ہورہا ہے تو ہندوستان ہی کا بٹوارہ نہ ہوگا ، پاکستان بھی بٹے گا۔ تقسیم آبادی  کے اعتبار سے ہوگی، ان میں قدرتی  حد بندی  کیاہوگی؟ کوئی دریا کوئی پہاڑ، کوئی صحرا؟ کچھ نہیں ۔ ایک لکیر کھینچ جائے گی ۔ کب  تک؟ کچھ کہنا مشکل ہے لیکن جو چیز نفرت پر ہوگی وہ نفرت پر قائم رہے گی اور نفرت ان کے مابین  ایک مستقل خطرہ ہوگی ، اس صورت میں کسی بڑی تبدیلی ، تغیر یا کاٹ کے بغیر پاکستان اور ہندوستان  کبھی دوست نہ ہوں گے۔ دونوں کے دل میں تقسیم کی فصیل  ہوگی۔ تو سارے ہندوستان کےمسلمانوں کو  سنبھالنا پاکستان  کےلئے  مشکل ہے کہ اس  کی زمین ا س کی متحمل  ہی  نہیں ہوسکتی لیکن مغربی پاکستان  میں ہندوؤں کاٹھہرنا ممکن  نہ ہوگا وہ نکالےجائیں گے یا خود چلے جائیں گے ، ان دونوں صورتوں  میں ہندوستانی  مسلمانوں کی نگاہ پاکستان پر ہوگی پھر اس حالت میں ہندوستانی مسلمانوں کے لئے تین راستے ہوں گے۔

1۔ وہ لٹ لٹا یا پٹ پٹا  کر پاکستان جائیں لیکن پاکستان کتنےمسلمانوں کو جگہ دے گا۔ 2۔ وہ ہندوستان  میں اکثریت کےبلوائی ہاتھوں سے قتل ہوتے رہیں ۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ایک طویل  مدّت تک قہر  و غضب کی قتل گاہ سے گزرے گی تا کہ تقسیمی  تلخیوں کی وارث پود عمر طبعی گزار کر ختم ہو جائے۔ 3۔ مسلمانوں کی ایک تعداد ابتری ، سیاسی در ماندگی اور علاقائی غارت گری کا شکار ہو، وہ اسلام چھوڑ کر مرُتد ہوجائے ۔ وہ مسلمان جو لیگ کے حلقوں میں نمایاں ہیں پاکستان صنعت و تجارت کوہاتھ  میں لے کر پاکستان کی معاشیات  کے اجارہ دار ہوجائیں گے لیکن  ہندوستان  میں تین  کروڑ کے لگ بھگ مسلمان رہ جائیں گے، لیگ  کے پاس اس کےمستقبل  کی ضمانت  کیا ہے؟ کیا محض  کاغذی  معاہدہ  ان کے لئے  کافی ہوگا؟ ان کےلئے وہ حالت تو اور خطرناک  ہوگی جو ہندوؤں او رسکھوں کےمغربی پاکستان سے نکل آنے کےبعد ہندوستان میں پیدا ہوگی ۔ پاکستان کئی ابتلاؤں کاشکار ہوگا۔ سب سے بڑا خطرہ جو محسوس  ہوتا ہے وہ اندر خانہ عالمی طاقتوں کا اس پر کنٹرول  ہوگا اور ہمہ  قسم تغیرات کے ساتھ  اس کنٹرول  میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ ہندوستان کا بھی اس سے اتفاق ہوگا کیونکہ وہ پاکستان کو اپنے لئے خطرہ گردان کر عالمی  طاقتوں سے سیاسی  جوڑ توڑ  کرے گا لیکن پاکستان  کا خطرہ شدید اور نقصان عظیم ہوگا۔

 

22 دسمبر، 2013  بشکریہ: روز نامہ جدید خبر، نئی دہلی

***************************

Comments


Login

You are Visitor Number : 565