donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Mazahiya Mazameen
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Zubair Hasan Shaikh
Title :
   Main Jab MarooN To Sahlana


"میں جب  ماروں  تْو سہلانا "

 

زبیر حسن شیخ

 

آج بقراط نے برقی پیام میں عجیب و غریب خواہش کا اظہار کردیا ...شیفتہ کو لکھ بھیجا کہ...حضور آپ نے  امریکی  حکمت عملی   "میں جب  ماروں  تْو سہلانا " کے متعلق سنا ہوگا ....جو   اب تک  تاریکی میں  ہے اس لئے اس پر   کچھ   روشنی ڈالئے.... ایک سیاسی ادبی نشست میں تقریر پڑھنا ہے... ہم نے شیفتہ سے پوچھا.. حضور یہ کمبخت چاہتا کیا ہے.....سیاسی ادبی نشست؟  ٹھیک ہے سیاست اور ادب کا ہمیشہ   سے  چولی دامن کا ساتھ رہا ہے...یہ اور بات کہ اب دونوں تار تار ہیں ...اور اس میں سیاست کی چولی کا جو حال ہے وہ ہندی فلموں کی چولی سے بھی بد تر ہے... فرمایا،  سیاست   کی چولی  کے تار اپنی جگہ  …   لیکن تعجب ہے آزادی نسواں کے علمبرداروں نے کبھی اس فقرے بازی پر احتجاج درج نہیں کیا کہ ادب نے محاورے  میں چولی کا استعمال کیوں کیا.. کرتا پاجامہ یا شرٹ پتلون  میں کوئی کمی تھی کیا؟...کس قدر معیوب محسوس ہوتا ہے جب خواتین کے لباس کا ادب میں غیر مہذبانہ و غیر مودبانہ استعمال ہوتا ہے... چولی کیا کوئی مہذبانہ لباس واقع ہوا ہے؟.. اگر غریب سر عام  پہن کر آئے تو  بے کس کی مجبوری ہوگی اور اگرکوئی     دولتمند پہن کر آئے تو  شکم سیر  کی عریانی کہلائے گی .... آزادی نسواں اور حقوق نسواں کی علمبرادرخواتین ، جن میں ضعیف  جہاندیدہ فلمی اداکارائیں بھی شامل ہیں ، کسی   کو  اس کا احساس نہیں ستاتا کہ فلموں نے چولی کو کہاں کہاں سے تار تار کیا ہے.... اور جسے دیکھ دیکھ کر    کبھی کوئی  مرد بھیڑیا  بن جاتا ہے...میڈیا تو   صنف نازک کو   بلا امتیاز الله میا ں کی  گائے قرار دے  دیتا ہے،   اور واہ واہی بٹور کر اپنا ٹی آر پی  مضبوط  کرلیتا ہے ...وہ بھی کیا کرے    کہ ایک طرف  اسکے ناظرین کی  کثیر تعداد صنف نازک کی ہے تو دوسری  طرف   اسکے پالن ہار سرمایہ داروں  کی مصنوعا ت  کے گاہکوں  کی کثیر تعداد بھی صنف نازک کی ہے .....اور پھر ٹی وی   میڈیا  علامہ کے  اس  لا زوال مصرعہ کی منہ بولتی  تصویر جو بن گئی    کہ " وجود زن سے ہے تصویر کائینات میں  رنگ".. تہذیب جدیدہ میں تصویر کائینات کی ترجمانی بھلا    ٹی وی سے  بہتر اور کون کرسکتا ہے ....فرمایا،  خیر.. بقراط کا منشا کیا ہے اسے سمجھنا ضروری ہے….موضوع ہی ایسا چھیڑا ہے کہ جہاں اسکے تار ادب میں عصمت و منٹو سے ملتے ہونگے تو سیاست میں برلسکونی اور کلنٹن سے... ہم نے پوچھا حضور کہیں بقراط ''سیاسی لیو ان ریلیشن شپ'' کی طرف اشارہ تو نہیں کررہا... جسکی طرف کشمیر کی موجودہ سیاست پیش رفت کر تی نظر آ رہی ہے؟ اس قسم کی سیاست کے واجپائی  ماہر ہوا کرتے تھے جنہیں اب بھارت رتن سے نوازا جانا ہے... بھگوا پلاننگ کے تحت  اگلے برسوں میں  گاندھی  جی کے قاتل نتھو رام  گوڈسے کو بھی بھارت رتن سے شا ید سرفراز کر دیا جائے !. پتہ نہیں اسکی پرستش کے لئے  'نتھو رام مندر'  بنانے کا خیال بھگوا تنظیم کی شاخوں کو کب اور کیوں آیا.. جس کا ذکر میڈیا نے گلوں کے ذکر کی طرح چھیڑ رکھا ہے...

فرمایا،    بقراط کا منشا دراصل  " گڈ کاپ بیڈ کاپ " سے ہے   جودراصل ا یک جانی ما نی  امریکی  حکمت عملی  ہے اور جس   کا  بہتر اردو ترجمہ  وہی ہوسکتا ہےجو  بقراط نے  لکھ بھیجا  ہے  کہ ... ' میں جب ماروں تو سہلانا'....اسے سمجھنے کے لئے  بیس فیصد  برہمن  طبقہ  پر  مشتمل    آر ایس ایس  کی مثال لے لیجیے... اور دیکھیے  وہ  اس  حکمت عملی کو کیسے کیسے اور کہاں کہا ں  استعمال کررہے ہیں.. ..ان کا  بی  جے پی اور مودی راجہ سے ایسا ہی کچھ  قرار و اقرار  ہوا ہے... ویسے  جب سے    دنیا کے سمندر  میں غوطہ لگا  کر   آئے  ہیں، مودی راجہ کی بے قراری دونوں معنوں میں ثابت ہوتی ہے.... یعنی بے سکونی میں بھی اور عہد و قرار سے  پھرنے میں بھی...یہ سب   ذرائع ابلاغ میں    اشاروں کنایوں میں  بتایا جارہا  ہے،   کھل کے  مودی راجہ کے خلاف کوئی  اس لئے نہیں کہتا  کہ آجکل  وزارت عظمی  کے کارندے  ہر ایک خبر او ر تحریر   پر کڑی نظر رکھ رہے ہیں ...... فرمایا،  یونہی ایک بات یاد آگئی آپ غلط مطلب نہ اخذ کر لیجیے گا اور نہ کسی  کو کرنے دیجیے گا ....مرزا کہا کرتے تھے کہ پرندے کو جب چونچ کے بڑھنے کا احساس ہو جاتا ہے تو وہ  اندھا دھند ہر جگہ چونچ  مارتا رہتا  ہے...

فرمایا، خیر ..  اچھے دن سب کے آئینگے کہہ کر مودی راجہ خود نہ جانے کہاں کہاں ہو آئے...بلکہ ایک دنیا گھوم آئے.... سرکار کے  زور اور  برادری  کے شور   پر  غیر ممالک میں  خوب مجمع بھی اکٹھا کر کے دکھلا دیا...بلکل ایسا ہی جیسا  الکشن  کے دوران  دکھلایا تھا... مودی راجہ  خود تو غیر ممالک کی سیر پر نکل پڑے اور یہاں وطن میں اچھے اچھوں بلکہ  صاف ستھروں   کے ہاتھوں جھاڑو پکڑا دی...شریف، تعلیم یافتہ  ، معزز و موقر ، بھانڈ،   ناچنے گانے والے،  ملزم،  مجرم نہ جانے کس کس نے   ہاتھ کے ساتھ سڑکوں   کی صفا ئی دکھانے  کی کوشش نہیں کی ہوگی....کاش  ذہنیت  کی بھی کرتے ....کیسے کیسے نام چیں ،  گل چیں اور  نکتہ چیں  جو کسی نہ کسی  مصیبت میں  پھنسے  تھے وہ مودی راجہ کی جھاڑو لے کر  اپنی جاں نثاری کا ثبوت پیش کرنے نکل آئے  ... بر صغیر میں ویسے بھی  ہر قسم کی صاف صفائی سے لوگوں کو خدا واسطے کا بیر ہے ...گھر ہو یا محلہ  ہو یا  شہر...بلکہ  ذہنیت بھی ...  گندگی پھیلانے  کی بیماری بڑی عام ہے..الغرض  مودی راجہ  کے فرمان کو سن کر  صوبوں کی بلدیہ بھی تعجب میں پڑ گئی کہ اب ان کے لئے کیا کام باقی بچا ہے.....سوا ئے یہ کہ وہ اپنے  چنری کے داغ     صاف کر لیں .....ویسے بھی وہ اپنا کام نہیں کرتی تھی ....بلکہ سرکاری ادارے ہندوستان میں اپنا کام کرتے ہی  کہاں ہیں... ایک بیچارہ میڈیا ہے جو اپنا تو اپنا بلکہ سب کا کام کرتا رہتا ہے..... بلکہ یہ کہیے گا کہ کام تمام کرتا رہتا ہے .... باقی بچا کچا  کام بقول میڈیا   ہندوستان میں  چند  دھرم کے ٹھیکیدار  کررہے ہیں...آشرم میں بے شرمی کا پاٹ پڑھاتے پکڑے جارہے ہیں....اور دھرم کو ادھرم کرنے میں مشغول ہیں...بھگوا سرکار کا'گھٹن' کیا ہوگیا    اب  بھگوا تنظیمں خود ہی اپنی پول کھولنے میں لگ گئی   ہیں .. آر ایس ایس کا ایک حصہ اپنی سیاسی ساکھ مضبوط کرنے میں لگا ہے تو دوسرا  اپنے عقائد کی  گم گشتہ    کڑیاں  تلاش کرنے میں    اور تیسرا  حصہ منہ سے بول و براز اگلنے میں.....یعنی بھگوا  سر براہ تنظیم اس بار اپنی سرکار کو بچانے اور اپنے دیرینہ ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے امریکی چال چل رہی ہے اور "گڈ کاپ بیڈ کاپ" یعنی " میں جب  ماروں  تو  سہلانا " کی طرز پر اقلیت کے ساتھ کھیل کھیل رہی ہے...لیکن  حضور خیر سے    کچھ معجزے بھی  رونما  ہورہے ہیں  کہ عدالتیں برق رفتار اور فعآل ہو رہی ہیں .. جھوٹے مقدموں میں پھنسائے گئے مسلمان رہا ہورہے ہیں.. متحد ہونا چاہ رہے ہیں اور  تعلیم کے میدان میں  آگے آرہے ہیں ... مودی راجہ خود تو ایک طرف کشمیر میں الله اللہ کر آرٹیکل ٣٧٠ کو پس پشت ڈال چکے ہیں تو دوسری طرف  ہندتوا   کے علمبرادروں کو پس پردہ رام رام کرنے  پر لگا دیا ہے.... ملک کے بے شمار دیگر مسائل کو وہ پس پشت پھینک کر یہ بتا چکے ہیں کہ وہ ان مسائل پر وقت ضائع کرنا نہیں چاہتے اور صرف ترقی کے راستوں پر گامزن ہونا چاہتے ہیں... ان راستوں پر جن پر کانگریس سرکار چلتے چلتے   اوندھے منہ گر پڑی تھی... انہوں نے  پہلے تو بدعنوانی  اور کالا دھن  کے نام پر سب کو بے قرار کر رکھا   اور خود  بھی بے  قرار ر ہے اور بقول ذرائع ابلاغ  اب مودی راجہ نے  "یو ٹرن' لے  لیا ہے .... الله ری بلاغت ٹی وی میڈیا کی..کمبخت سہلانا کسے کہتے  ہیں کوئی ان سے سیکھے....الغرض مودی راجہ کی صاف صفائی میں ہر ایک ضرورت مند جاں نثار تن من سے لگ چکا ہے کہ اس میں دھن کی ضرورت نہیں پڑتی  ... بڑے بڑے بلکہ برے برے اور گندے گندے  تاجر اور صنعتکار بھی صفائی میں لگ چکے ہیں.... اب  تو صفا یا  طے ہے ....کس کس   کا ہے یہ  وقت بتا ئے   گا .... .بقول معتبر ذرائع ابلاغ مرکزی  حکومت اب رام بھروسے چل رہی ہے...بھگوا  تنظیمیں  خود  بھی پریشان ہیں.... جبکہ انہیں تو رام بھروسے چلنے والی حکومت پر خوش ہونا چاہیے تھا .... کانگریسی آئیں بائیں شائیں بک رہے ہیں... ان کے پاس اب یہی  کچھ کرنے کو رہ گیا ہے......ملایم نتیش لالو جیسے مقامی قد آورسیاست دان متحد ہوکر بھی مرکزی سیاست میں قد کاٹھ نہیں نکال پارہے ہیں.....چند مسلمان رہنما بھگوا شدت پسندوں سے سمجھوتوں میں لگے ہیں... بلکہ ان کے ساتھ وہ نام کے مسلمان بھی شامل ہیں جنہیں دنیا بے حد عزیز ہے....اور ان میں مسلمانوں کے وہ فرقے بھی شامل ہیں جو  برے وقت میں اپنے  آپ کو عجیب و غریب ان دیکھے، ان جانے ان سنے اسلام کا پیروکار  بتا  دیتے ہیں... جسے مسلمانوں کے علاوہ ہر کوئی سمجھ جاتا ہے اور تائید اور ستائیش میں انکی حب الوطنی اورایمانداری کے قلابے ملانے لگ جاتا ہے....لال فیتہ شاہی اب تک نئی سرکار کا مزاج سمجھنے میں مشغول ہے... بلکہ انہیں سرکاری طور طریقوں سے واقف کرانے اور سرکاری  کام کاج کا مزا ج سمجھانے کی کوشش بھی کر ر ہے ہیں .... بنگال اور تامل ناڈو میں خواتین وزرا ء اعلی اندرونی طوفان سے بر سر پیکار ہیں.....بی جے پی خیمہ میں خوشی کا سماں ہے اور خوب پٹاخہ بازی کی جارہی ہے... جسے دیکھ کر چند  بے  قرار مسلمان پھلجڑیاں چھوڑنے لگے ہیں..ہاں یہ بڑا برا ہوا کہ  بھگوا  دہشت   گرد وں  کے چھوڑے ہوئے پٹاخوں  نے میڈیا کو اندھا اور بہرا کر کے رکھ دیا ..... ایسا محسوس ہورہا ہے اب برسوں تک ہندوستان میں صرف ما قبل و ما بعد الکشن کے جشن کا سماں ہوگا ... کبھی جو تاریخ کے اوراق میں سونے کی چڑیا ہوا کرتا تھا وہ اب میڈیا میں  زعفرانی پروں والا برقی پرندہ نظر آئے گا..... جس کا سنہرا رنگ سرکار کے قرار و اقرار  کی طرح   اڑ چکا  ہوگا..

فرمایا،  ٢٦ جنوری  جشن یوم جمہوریہ پر امریکی صدر اوبامہ کو مودی راجہ نے بطور مہمان خصوصی مدعو کیا ہے..اب ایک عرصے تک خطے میں مرنے مارنے  اور سہلانے  کا کام جاری رہے گا .....معیشت اور گرانی کی مار جھیلتے امریکہ کو مختلف عالمی نشستوں میں  مودی راجہ نے مفاہمت سے اپنا گرویدہ کر لیا تھا... جس کے عوض امریکہ نے بھی  ماضی  میں ویزا نہ دے کر مودی راجہ کے ساتھ ہوئے ناروا سلوک کا ازالہ کردیا ....اور بی  جے پی اور آر ایس ایس کی اقلیت دشمنی کو نظر انداز کر اپنی  بانہیں وا کر دی... جس میں   یہودی  پہلے سے سمائے ہوئے تھے....اس مفاہمت میں جہاں بھگوا چانکیہ نیتی کا ہاتھ تھا ونہیں یہودی سرمایہ دارلابی کی مکاری بھی تھی اور امریکہ کی "میں جب  ماروں   تو  سہلانا "  والی چال  بھی  ...اس مفاہمت نے صدر اوبامہ کی سانسیں بحال کردی اور پیٹرول کے دام گرا کر اہل روس اور اہل عرب کی سانسیں  بے ترتیب....فرمایا،   سنا ہے ایک سابق امریکی صدر کی بچی کچی  سانسیں اب اکھڑنے لگی ہیں.... جنہوں نے عالمی سیاست و معیشت کو خوب مارا تھا  اور مشرق وسطی میں جنگ چھیڑنے کے لئے   پیٹرول کو آگ دکھا ئی تھی...عرب حکمران  اس امریکی مکر کو سمجھ نہ سکے تھے اورانکے   سہلانے  سے  خوش ہو بیٹھے تھے.... نہ جانے کیسے کیسے بھوت بش سینیر نے اور انکے ہم نام صاحب زادے  نے دنیا میں متعارف کرائے تھے....کبھی القاعدہ اور کبھی طالبان کے نام پر ان دونوں نے  کیا کیا گل نہیں کھلائے...محترمہ عالیہ و غالیہ   ہیلری کلنٹن نے ان گلوں کے کھلنے اور چمن کے اجڑنے کا حال ہی میں اعلانیہ اعتراف کیا ہے...خیر اعتراف کا کیا ہے وہ تو  اہل مغرب کا وطیرہ ہے .. جب چاہا کر لیا...اب تو کنفیشن بکس کی بھی ضرورت نہیں ہوتی انہیں اور نہ ہی  کسی فادر کی .... اب انکے پاس  مارنے  مروانے   کے لئے  کہیں داعش    اور آئی ایس آئی ایس ہے تو سہلانے کے لئے  ایف بی آئی اور سی آئی اے...پتہ نہیں  جدید ترین جنگی  اسلحہ  کا اتنا بڑا ذخیرہ ان  سب کے پاس کہاں  سے آتا ہے....  جو صرف امریکہ اور اسکے  احباب بناتے  اور بیچتے ہیں  ..اور جو اپنے ہتھیار  کی آمد و رفت  اور تقسیم  پر   عقابی نظر رکھتے ہیں.. قطرہ  قطرہ پیٹرول اور  ڈالر کا حساب  ہوتا ہے  جن کے پاس .....حقیقت  یہ ہے  کہ  ہر ایک امریکی صدر کو اپنی کرسی  سنبھالنے  کے لئے   مارنے اور سہلانے  کی اسٹرا ٹیجی پر عمل  کرنا  ضروری ہوتا ہے ... اور ایک  نیا تصوارتی بھوت   دنیا میں  متعارف   کرنا بھی ہوتا ہے.... لیکن مزہ  تب آتا ہے جب یہ تصورا تی بھوت حقیقت  کا روپ  لے لیتا ہے..... فرمایا.. جناب،  امریکیوں کا یہی تو کمال ہے کہ تصور کو حقیقت میں ڈھال دیتے ہیں  اور حقیقت کو  تصور میں... جیسے .... کولمبس،   ٹائیٹانک،   آزاد  سیاہ فام ، گونٹاناموبے میں انصاف  ....ہالوکاسٹ،    نائن الیون،  نیو  ورلڈ آرڈر،  ایریا ففٹی ون،ڈرون حملے   ایلین اور طشتری.... اور نہ جانے کیسے کیسے تصورات کو حقائق کا  اور حقائق کو افسانوں کا  جامہ پہنایا گیا.اسی  طرز  فکر  کے تحت   اب آر ایس ایس  نے بھی    نئے  نئے بھوت متعارف کردیے ہیں....جنہیں یہ   ہندوتوا، گھر واپسی، سارا عالم ہندو ،  رام زادے جیسی اصطلاحات سے منسوب کرتے ہیں.... یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ جن رام زادوں کی بات کررہے ہیں ان میں کتنے رام پال اور آسا رام  باپو جیسے آشرمی گرو  گھنٹال بھگوان  ہیں ....جنہوں نے  جمہوریت  میں  فحاشی، ٹھگی، لاقانونیت، جنگل راج کے اڈے کھول رکھے ہیں.... جو سیاست غلیظہ کے علمبرادروں کے لیے پناہ گاہیں ثابت ہورہے   ہیں اور جن کا کچا چھٹا بھگوا راج میں ہی سامنے آرہا ہے...بھگوا  تنظیم کو   گھر واپسی کے لئے ان برہمنوں کو ضرور بلانا چاہیے جو امریکہ میں مکمل طور سے  امریکی  ہو بیٹھے ہیں اور  وہی کچھ  کھاتے پیتے ہیں جسے    ہندوستان میں دیکھ کر  بھگوا  تنظیمیں   توبہ توبہ رام  رام  کرتی ہیں ....گھر واپسی کے لئے مسلمانوں اور  اہل  مسیح کے علاوہ انہوں نے سکھ، جین   اور بدھسٹ بھائیوں کو بھی بلایا تھا لیکن اتنی شدت کے ساتھ نہیں بلایا کہ وہ سب سن پاتے...اور اگر سن لیتے تو پتہ نہیں کیا کچھ کر لیتے... اگر بھگوا تنظیمیں  اپنی دعوت میں حق پر  ہوتی    تو پہلے روٹھے ہوئے ذات پات کے شکار،  نچلے طبقے کے چھتری، ویش، شدر بھائیوں کو  اور خاصکر  نکسل، بوڈوز،   الفا کو  گھر واپسی کا نعرہ لگا کر بلاتی ....ان بیچاروں کے پاس ہندوستان میں ویسے بھی گھرنہیں ہے .... بلکہ برسوں سے  کوئی مقام ہی نہیں   ملا ہے ان کو  ...بھگوا تنظیموں کو ابھی  حق کا  پتہ  کہاں  چلا ہے...چانکیہ نیتی ہو یا یہودی ذہنیت، چند دہائی سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکی....سام دام دنڈ بھید، قوم و نسل پرستی اور اپنے آپ کو اعلی اور چنندہ نسل سمجھنے والی ذہنیت کبھی حق پر قائم نہیں رہ سکی...سازشوں، جرائم، خالق  کی حکم عدولی، توہم پرستی، عیش پرستی، مادیت پرستی،  مذہبی ڈھکوسلہ بازی،  دھوکہ دہی ، استبداد و استحصال میں ڈوبی قومیں انسانیت کے لئے کچھ بھی ایسا خاص نہیں کر سکی کہ جسے عالمی انسانی تاریخ یاد رکھے.... پھر چاہے ان میں مسلمان ، ہندو ، مسیح  ، یہودی ہوں  یا دہریے... ایسی ذہنیت رکھنے والوں کی تعداد گرچہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں  ہوتی لیکن انہیں  دنیا پر راج کرنے کا خبط ہمیشہ رہتا ہے..جس کے لئے  یہ   "  ماروں میں اور    سہلا  نا  تو  " کی  چال چلتے  ہیں... اور یہ بھول جاتے ہیں کہ  سب سے بڑا چال  چلنے والا    خالق حقیقی ہے  اور جس کی ایک چال  کے سامنے  شطرنج کی بساطیں  الٹ جاتی  ہیں..


ٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌ۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 739