donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Mazahiya Mazameen
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Zubair Hasan Shaikh
Title :
   Yaum Shararat Wa Hemaqat

یومِ شرارت و حماقت
 
زبیر حسن شیخ
 
شیفتہ نے ایس ایم ایس پر اطلاع دی کہ "بقراط کے بڑے بھائی جناب مغرب نواز وحشت گرد کے گھریوم شرارت و حماقت منایا جارہا ہے اور آپ بھی مدعو ہیں، رات مقام عبرت پر ملیے گا". ہم نے پہلے تو اس عقدہ کو حل کرنے کی کوشش کی کہ وحشت گرد تخلص ہے یا کچھ اور،  دلنواز اور دہشت گرد کے متعلق سنا تھا لیکن مغرب نواز اور وحشت گرد؟..... سوچا چل کے دیکھتے ہیں اس دنیا میں کہاں کہاں اور کیسی کیسی گرد اڑ رہی ہے. مقام عبرت کی اصطلاح شیفتہ ان دعوتوں کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں جہاں ادھارکی دولت اورشب بھر کی چاندنی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، اور ان میں شادی بیاہ کے علاوہ ان رسموں کو بھی وہ شامل کرتے رہے ہیں جن میں شکم سیر ہوکر اکثرمہمان، شکرادا کرنے کے بجائے باہرجاکر تھو تھو کرتے ہیں. لیکن اس یوم شرارت و حماقت کی کنہ میں ہم الجھے رہے. آخر کار تہذیب جدیدہ کا چولہ پہنے مقام عبرت کی طرف نکل پڑے.  راستے بھر یہ سوچتے رہے کہ دیکھیں آج شیفتہ کس وضع قطع میں ظاہر ہوتے ہیں، ایک تو صاحب خانہ کا نام اس پر تقریب کا عنوان اور پھر شیفتہ کا حلیہ... پتہ نہیں آج کیا کچھ ہونے والا ہے. ابھی سڑکوں اور سیاست غلیظہ کے نشیب و فراز کا موازنہ کرتے چلے جارہے تھے کہ مقام عبرت کے باہر شیفتہ اور بقراط  کو تیار پایا.  ہمارے پہنچتے ہی بقراط نے صدر دروازہ کی طرف اشارہ کیا اورہم تینوں مقام عبرت کی طرف چل پڑے.
 
صدر دروازہ سے چند خواتین و حضرات کو اندر داخل ہوتے دیکھ شیفتہ ٹھٹک گئے، انکے عجیب و غریب حلیے تھے.   سب کسی نہ کسی بہروپ میں نظر آرہے تھے.  شیفتہ نے گھور کر بقراط کو دیکھا اور وہ انکی نگاہوں کا مفہوم سمجھ کر گویا ہوئے.... حضور ہم خود بھی پہلی بار اس تقریب میں بلائے گیے ہیں.  جب سے ہم نے دنیا کے بدلتے حالات کے ساتھ خود کو بدلا ہے، ہمارے بھائی ہماری اس تبدیلی سے بے حد خوش ہیں. وہ ہمیں اپنے حلقہء اشراف میں متعارف کرانا چاہتے ہیں، تاکہ اس گرانی میں ہمارے روزگار کے مسائل حل ہوں. بقول انکے،  لذتوں اور ذلتوں کے لفظی ہیر پھیر میں کیا پڑنا، بس اپنا کام نکالنا چاہیے. صدر دروازے کے باہر طویل قطاردیکھ کرشیفتہ نے  فرمایا..... یقینا جامہ تلاشی ہورہی ہوگی..... پچھلی بار ایک مشاعرہ میں ہمیں اس کا تجربہ ہو چکاہے. اب اپنے ہی ملک میں، محلوں، بازاروں "مالز" اور دفتروں میں داخل ہونے پر تفتیش کی جاتی ہے. اور ایر پورٹ پر تفتیش کا عالم نہ پوچھیے، بس تہذیب یافتہ اور ماڈرن خواتین و حضرات کو دقت پیش نہیں آتی ہوگی،  کیونکہ وہ مکمل "ٹرانسپیرنسی" میں یقین رکھتے ہیں. مغرب میں جوتا سر پر اور دستار پیر میں ہوتی ہے، اور اگر کوئی باریش ہو اور حلیہ ذرا بھی غیرمغربی ہوا تو زبان حلق میں اور سانس سینے میں ہوتی ہے، پھر وہ چاہے تیسری دنیا کا صدر یا وزیرہی کیوں نہ ہو. ابھی یہ گفتگو جاری تھی اور ہم قطار میں لوگوں کی صنف کی شناخت کرنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے کہ استقبالیہ پر خوشامدی دستہ کے قریب جا پہنچے.
 
ہمارے بے نقاب چہروں کو دیکھ مختلف اقسام کی نقاب پیش کر دی گئی.  بقراط نے بڑھکر اپنے لئے ایک نقاب اٹھا لی. شیفتہ کی باری آئی تو 
 
انہوں نے پہلے تو نخوت سے انکی طرف دیکھا اور پھراپنے حلیہ کی طرف، اور اس سے پہلے کے وہ تمام پیشکش مسترد کرتے ان کے ہاتھوں میں ایک "ما سک" تھما دیا گیا، اورپھر ذرائع ابلاغ کا مہذب رویہ اختیار کرانہیں پہننے پر مجبور بھی کر دیا گیا.  انکی بے بسی دیکھ ہم نے خونخوار نظروں سے خوشامدی دستہ کو دیکھا، اورجب بقراط کی طرف دیکھا تو پایا کہ بقراط نے ایک امریکی صدر کا ما سک چہرے پر لگا رکھا ہے. شیفتہ کو با دل نخواستہ ایک دہشت گرد کی نقاب ڈالنی پڑی.  ہماری باری آنے پر ہم نے فورا اپنے لئے ایک دولتمند تاجرکی نقاب چن لی.
 
جیسے ہی ہم تینوں اپنے اپنے بہروپ میں ایک کشادہ ہال میں داخل ہوئے تو پایا کہ ہرطرف ہوہا مچی تھی. ہر کوئی ایک دوسرے کو ہنس ہنس کر یوم شرارت و حماقت مبارک ہو کہہ رہا تھا. بقراط نے فورا آگے بڑھکر ایک خوفناک نقاب ڈالے شخص سے ہاتھ ملایا، اور پھر ہنستے کھیلتے کچھ اس طرح ان کے گلے لگ گئے جیسے حال ہی میں امریکی صدر کو ایک نوبل انعام یافتہ خاتون کے گلے لگتے دیکھا تھا. ہمارا ان سے تعارف ہوا تو پتہ چلا یہی بقراط کے بھائی جناب مغرب نواز وحشت گرد ہیں، وہ ہم دونوں سے مصافحه کر اور ہمیں خوش آمدید کہہ کر آگے بڑھ گئے. شیفتہ نے بقراط سے دریافت کیا کہ انہوں نے اپنے نقاب پوش بھا ئی کی شناخت کیسے کر لی.. کہا انکے چال چلن سے.  فرمایا، سچ ہے.... انسان لاکھ بہروپ بدلے، لیکن اسکی شخصیت چھپائے نہ چھپے. شخصیت صرف جسامت یا چہرے بشرے سے نہیں بنتی، بلکہ چال چلن، آداب و اخلاق، افکار و بیان کا مجموعہ ہوتی ہے، رفتہ رفتہ دیگر اوصاف و عادات کا ظہور ہوتا ہے تب کہیں جاکرایک مکمل شخصیت سامنے آتی ہے.
 
شیفتہ کی اس منطق کو سن کر ہم نے سوچا... اکثر و بیشتر ایک کامیاب نظام کے پس پشت اسکا "پروٹوٹائپ" ہوتا ہے لیکن ازدواجی زندگی کا "پروٹوٹائپ" ہی اسکی ناکامی کا باعث ہوا ہے. شیفتہ کی منطق "الٹرا ماڈرن" شادیوں اور "لیونگ ریلیشن" سے میل نہیں کھاتی، جہاں مہینوں برسوں کے تعلقات کے باوجود بھی مرد و زن ایک دوسرے کی شخصیت کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں اور مزے سے مختلف شخصیتوں کو پرکھنے میں زندگی گزار دیتے ہیں، اورحقوق و فرائض کی پابندیوں سے بری رہتے ہیں.  کئی ممالک ہیں جنکے قانون نے "لیونگ ریلیشن" کو جایز قرار دیا ہے، اس پر طرا یہ کہ قوم لوط کو دوبارہ زندہ کرنظام ازدواج کوایسے جنگل کی راہ دکھا دی جہاں ڈارون کے رشتے داربھی جانے سے خوف کھاتے ہونگے.
ایک صاحب ہمارے نقاب سے غوطہ کھا کرہمارے گلے پڑ گئے، بعد میں پتہ چلا وہ کوئی بھکاری تھے. موقع غنیمت جان کر مقام عبرت میں داخل ہوگئے ہونگے، ان کی اصلیت کو بہروپ سمجھ لیا گیا ہوگا اور انکی خوب آو بھگت ہوئی ہو گی. انہیں ہمارے نقاب کے پیچھے پوشیدہ فقر کا جب علم ہوا اور ہم نے انہیں اپنا گرویدہ کر لیا تو کف افسوس ملتے ہوئے کہہ گئے کہ "ہرچیز زندگی میں بڑی دیر سے ملی....منزل پہ آگئے تو ہمیں راہ نما ملے"..
 
ایک انگریز کو جناب مغرب نواز کی وحشت سے گلے ملتے دیکھ ہم نزدیک ہو لیے، انکی شناخت میں کسی کو کو ئی دشواری نہ ہوئی. نقاب کے پیچھے سے بھی انکا رنگ اور ڈھنگ دونوں جھانکتے نظر آئے، لیکن جب انہوں نے "ہیپی ہالو وین" کا نعرہ بلند کیا تو یاد آیا کا انکےخود ساختہ عقائد سے بنے چوں چوں کے مربہ میں ایک "ہالو وین پارٹی " بھی ہے. لیکن ہمیں پتہ نہ تھا مغرب نواز کی وحشتوں کو یہ مربہ بھی راس آیا ہوگا،.........ہم نے شیفتہ کو جب "ہالو وین" کی اصل سے واقف کرایا تو بے حد محظوظ ہوئے اور فرمایا..ان سے اپنے سینٹ اور راہبوں کا 
 
مذاق اڑانا کچھ بعید نہیں، کیونکہ انہوں نے خدا کے تصور کو ہی مذاق بنا کر رکھ دیا ہے. یوم نسواں، یوم عاشقاں اور اب یہ یوم شرارت اور حماقت، بہروپ بھرنا کو ئی ان سے سیکھے.  یہ سننا تھا کہ گورا صاحب مسکراتے ہوئے اردو میں گویا ہوئے اور ہم سب کو متحیر کردیا......کہنے لگے....... سینٹ، سنت و صوفی میں زیادہ فرق نہیں ہوتا ہے...ہم سنت اورصوفیوں کو بہت مانتا ہے...اور "وہ آپکا" کیا کہتے ہیں درگا پر بھی ہم جاتا ہے،  خوب مزہ آتا ہے جب وہ فقیر لوگ درگاہ کا پیچھے بیٹھ کر دمام دم کرتا ہے، اور چرس کا دم لگاتا ہے، نیا نیا بہروپ بدلتا ہے، اور ایک قسم کا وہ بھی "ہالو وین" ہی مناتا ہے، اور روز مناتا ہے....اس میں برا کیا ہے..... آپ نے کبھی غور نہیں کیا کتنا بڑا بڑا صوفی لوگ کا "پوایم" پڑھتا ہے اور دنیا کا غم بھول جاتا ہے......انگلش میوزک اور ڈانس میں وہ بات کہاں ہے جو تمہارا "ہالو وین" میں ہے. کچھ فقیر تو ایسا ہے جو سفید کپڑا پہن کر رومی اور خسرو کے کلام کے ساتھ مجرا پیش کرتا ہے، اور وہ مجرا کتنا اچھا لگتا ہے،  مجرا کا سب برائی اور گندگی ختم ہو جاتا ہے، ایسا مجرا ہم نے ٹی وی پر دیکھا تھا، "وہ آپکا" کیا بولتا ہے جشن خسرو میں. عورت کا آزادی کا اتنا اچھا مثال ہم انگریز لوگ بھی پیش نہیں کرسکا.  تم لوگوں نے حقیقت میں عورت کو کتنا "پیور" اور "پایس" بنا کر دکھایا ہے، "وہ آپکا"  کیا کہتا ہے..... پاکیزہ بنا دیا ہے عورت کو، ہمنے سوچا اورامراؤ جان اور "میڈم" بھی... .پیٹر کہتا رہا کہ... ہم لوگوں نے عورت کو آزادی میں قید کر دیا تھا اور تم لوگوں نے اسے قید میں آزاد کر رکھا ہے، تم لوگ کتنا "انٹیلیجینٹ" ہوتا ہے. بقراط "دخل در نامعقولات" پر اتر آئے اور کہا... جو کلام روح و افکارپرلگی گندگی دھونے کے کام آتے تھے وہ اب مجرے کو پاکیزہ بنانے کے کام آرہے ہیں. شیفتہ نے فرمایا....او دور جدید کے سفید پوش صوفیوں کی شناخت بھی بن گیے ہیں.... پیٹر نے غصے کا اظہار کیا اور کہا چلیے جناب مغرب نواز، یہاں سے چلیے، ادھر بار پر بیٹھتے ہیں، اور کچھ مزہ لیتے ہیں..  "ہالو وین" شرارت اور حماقت کرنے کا دن ہے.... شیفتہ نے فرمایا،  لیجیے، خوب مزہ لیجیے.. تمھارے لئے تمہارا بار.... ایک بار ہے، اور تمہاری تقلید میں اندھے لوگوں کے لئے یہ ایک بار گراں،  تقلید کا یہ بار ان کمبختوں سے اٹھائے نہیں اٹھتا.. یہ کہہ کر شیفتہ نے نقاب اتاری اور مغرب نواز کے ہاتھ میں تھما دی.  بس پھر کیا تھا، اب محفل میں صرف وہی ایک اپنی اصل میں ظاہر ہوگئے.
 
اسی اثنا ایک صاحب "اسپائیڈر مین" کا ماسک لگائے شیفتہ کے قریب آگئے..... رنگ برنگی لباس میں تھے اور تہذیب کے فرزند کی مکمل نمایندگی کر رہے تھے، شاید ذہنیت بھی رنگ برنگی ہوگی اس لئے آتے ہی شیفتہ کو مخاطب کیا کہ.... جناب آپ کہاں جوانوں کی محفل میں آگئے؟.  شیفتہ نے مسکراتے ہوئے فرمایا.... ذرا اس ڈھلتی عمر سے نقاب ہٹائیے تاکہ تاثرات سے پتہ تو چلے کہ آپ نے اپنی عمر کو اور اپنے افکارکو کیسے ادھیڑ رکھا ہے. "اسپائیڈر مین" نے کہا... جناب ہم جوان نہ سہی آپکی طرح بوڑھے بھی نہیں ہیں....فرمایا، نوجوانی ہو یا نوبڑھاپا، دونوں کا حال ایک سا ہوتا ہے، اور دونوں سے جلد از جلد سر نگوں ہو کر گزر جانا بہتر ہوتا ہے. ادھیڑی ہوئی عمر سے بدرجہ بہتر ہے پر وقار بڑھاپا، نوجوانی کی طرح نو بڑھاپے میں بھی دیوانگی کے امکانات بہت ہوتے ہیں. نوبڑھاپہ کو آپ "مڈ ایج کرائیسس" پر محمول کرسکتے ہیں.....
 
 ایک اور صاحب شیفتہ کو بے نقاب دیکھ ہم لوگوں کے قریب آگئے،  اور شیفتہ کو مخاطب کیا.....جناب آپکو کہیں دیکھا ہے ہم نے..... شیفتہ نے فرمایا ہمارا حلیہ ہر اخبار کے سر ورق کی زینت بنا دیا گیا ہے اور اکثرٹی وی چینلز اور اخبار والے اب ہمارے حلیہ کی کمائی کھا رہے 
 
ہیں، اور کچھ تو ایسے بھی ہیں جو ہمارا بہروپ بھر کرسرعام  شرارے برسا رہے ہیں اور خوب پٹاخے پھوڑ رہے ہیں. ویسے آپکی اپنی کوئی تعریف ہو تو بتائیے....ماسک تو آپ نے عام آدمی کا لگا لیا ہے لیکن لباس اور جسامت سے آپ عام آدمی کجا ڈھنگ کے آدمی بھی نہیں لگتے.  بقراط نے فورا کہا....جناب یہ مشہور زمانہ مسلم سیاست داں ہیں جنہیں ذرائع ابلاغ نے بد نام زمانہ کردیا ہے..شیفتہ نے فرمایا.... ان جیسے سیاست دانوں کی وجہ سے ہی ہم دیکھنے اور دکھانے کی چیز بن کر رہ گیے ہیں. اور بدنام زمانہ تو یہ اپنے اعمال کی وجہ سے ہیں....جب تک یہ اپنےانجام کو پہنچےگے تب تک یہ لاکھوں کی تعداد میں عام آدمیوں کو اپنا ہم پیالہ وہم نوالہ اورہمدم و ہمخیال بنا لیں گے.
 
بقراط نے ایک صاحب کو اپنے قریب بلایا جو ایک مریض کا ماسک لگائے پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے تھے.  قریب آتے ہی بقراط نے انکا شجرہ کیا کھولا اسپتالوں میں چھائی ہو ئی خزاں کی یاد تازہ ہوگئی.  موصوف کوئی نام چین ڈاکٹر نکلے.  شیفتہ کو مخاطب کرکے کہنے لگے... حضور کیا مجبوری ہے جو آپ اپنی اصل پر قائم ہیں، یوم شرارت اور حماقت کا مزہ کیوں نہیں لیتے. فرمایا.....اصل پر قائم رہنا مجبوری نہیں اصول و شرافت کی علامت ہے. ویسے آپ ڈاکٹر ہیں اور ان عارضی امراض میں کیوں مبتلا ہیں؟، ایسی کیا نفسیاتی بیماری ہے جس کا علاج آپکے پاس بھی نہیں؟.  کہا.. بڑھاپا، تنہائی، اولاد کا دکھ اور تمام مادی آسائیشوں کے باوجود بے کسی،  یہ سب کسی امراض سے کیا کم ہیں.  فرمایا.... خود ساختہ "فیمیلی پلاننگ" کے مارے لگتے ہو جو مغربی تقلید کی دین ہے......ایک پرہی اکتفا کر لیا ہوگا.... اپنے پیشے اور تجارت میں "تھیوری آف پروبیبیلیٹی" کا استعمال خوب کیا ہوگا لیکن ازدواجی نظام میں اس پر ناک منہ چڑھایا ہوگا. اکیلی اولاد کو پڑھا لکھا کر دنیا کی بھیڑ میں چھوڑ دیا ہوگا.  اب تنہائی کا عذاب بھگتنا ہے، مریضوں کا خون چوس کر خوب دولت کما لی ہوگی جو اس عمرمیں ہضم بھی نہیں ہوتی ہوگی، اورپھر کوئی کھانے کھلانے والا بھی نہ رہا ہوگا. بالآخر کوئی پالتو کتا پال لیا ہوگا... تعجب سے کہا، ہاں! آپ کو کیسے پتہ چلا.... ایک "ڈ وگی" ہے، بہت پیارا سا... اب اسی کے سہارے بقیہ زندگی کٹ رہی ہے.  فرمایا اب وہی تمہارا وارث بھی ہوگا..... اپنے فیصلوں سے آپنے صدقہ جاریہ کے بجائے عذاب جاریہ مول لیا ہے.... ڈاکٹر نما مریض نے کہا، ہاں لگتا تو ایسا ہی ہے، ویسے جناب، آپ شرارت اچھی کر لیتے ہیں... شیفتہ نے کہا... اور ہمارے ساتھی بقراط حماقت اچھی کرلیتے ہیں... یوم شرارت وحماقت مبارک ہو.... چلیے اب یوم آخرت کی تیاری کرتے ہیں. 
 
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1136