donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Mohammad S.A.W. Ki Baten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ibn Hameed Chapdanwi
Title :
   Rasool Allah Mohammad S.A.W. Ki Mohabbat Juziye Iman Hai

 

رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم 

کی محبت جزئِ ایمان ہے


ابن حمید چاپدانوی


    ان دنوں ایک خاص مگر مذموم مقصد کے تحت حقوق انسانی اور اظہار رائے کی آزادی کا نعرہ غلغلہ بلند کیاجا رہا ہے ۔ ا س کے لیے تعلیم وتہذیب کی ترقی اور جمہوریت کی دہائی بھی دی جا رہی ہے تاکہ اہل ایمان شرپسندوں اور گمراہوں کے دھونس میں آکر ان کے جاہلانہ بکواس اور ذلیل حرکتوں کو ٹھنڈے پیٹ برداشت کرلیا کریں اور مٹھی بھر مگر حصول اور انسانیت سوز عزائم کی تکمیل کے لیے وہ اپنی جدوجہد جاری رکھ سکیں۔

     آئیے سب سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ جو لوگ یا جن حلقوں کی جانب سے موجودہ دور میں انسانی حقوق کے تحفظ اور اظہار خیال کی آزادی کی وکالت کی جا رہی ہے تو اس وکالت میں تھوڑا بہت خلوص و صداقت ہے بھی یا بس منافقت ہی منافقت ہے۔ اس سلسلے میں زیادہ پیچھے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ 20فروری 2006 کی ایک رپورٹ جسے بی بی سی کی انگریزی ویب سائٹ پر ساری دنیا نے آنکھیں مل مل کر دیکھا۔ ایک مرتبہ پھر آپ بھی یہاں دیکھ لیں۔ صاف طور سے یہ عنوان Holocast denier Irving is jailed (ہولو کاسٹ کے انکار کے مرتکب ارونگ کو سزائے قید) پھر ذیلی عنوان اور اس کے بعد خبر کی تفصیل درج تھی۔ مشہور اردو ادیب اور کالم نگار محترم حامد کمال الدین نے اپنے ایک طویل اور مدلل مضمون بعنوان ’’تمہارا یہ آزادیٔ اظہار‘‘ (مطبوعہ وحدت جدید ، تحفظ ناموسِ رسالت دسمبر2012) میں جابجا بی بی سی کی رپورٹ کے اقتباسات پیش کئے ہیں۔ برطانوی تاریخ داں اور محقق ڈیوڈ ارونگ نے آسٹریا میں ایک تقریر کے دوران ہولو کاسٹ کے مفروضہ اور یہودیوں کے جھوٹے پروپگنڈوں کا پردہ فاش کیاتھا اور اس کی اصلیت کو اجاگر کرنے والا 1989 میں ایک انٹرویو دیا تھا جس پر اسے انعام دینے کے بجائے ویانا کی عدالت نے اسے تین سال قید کی سزا سنائی تھی۔ سزا کاسن کر اس مورخ و محقق کی کیاکیفیت تھی؟ ذیل کے اقتباس میں دیکھا جا سکتا ہے:

Irving appeared stunned by the sentence, and told reporters. 
"I'm vert shocked and I'm going to appeal"

    (ارونگ سزا سننے کے بعد ہکا بکا نظر آیا۔ رپورٹروں سے باتیں کرتے ہوئے اس نے کہا:
    ’مجھے شدید حیرانی ہوئی ہے اور میں اپیل دائر کروں گا۔‘‘

     آزادیٔ اظہار رائے کی ’’وکالت ‘‘ کرنے والوں نے 67 سالہ بزرگ مورخ کو ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پہناکر کمرۂ عدالت میں حاضر کیا تھا۔ اس موقع پر اور فیصلہ سامنے آنے کے بعد ایک ’’تماشائی ‘‘ نے مسٹر ارونگ کی ہمت بندھاتے ہوئے مخاطب کیاتھا’’حوصلہ رکھو‘‘ یہ پیرا ملاحظہ فرمائیں:

    An unidentified on looker told him, stay strong!"
    Irving lawyer said he considered the verdict"a  little too stringent." I would say it's abit of a message trial." said Elmar Kresbach.

    ایک تماشائی نے جس کی شناخت نہ ہوسکی، اس موقع پر اس کی ہمت بندھاتے ہوئے کہاـ’’حوصلہ رکھو !‘‘ ____  ارونگ کے وکیل ایلمرکریس بیچھ نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں فیصلہ ذرا سا زیادہ سخت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ کہوں گا کہ یہ مقدمہ دراصل ایک پیغام تھا۔


     یہ اور اس طرح کے متعدد اقتباسات پیش کرنے سے پہلے فاضل مضمون نگار نے بڑا تیکھا سوال اٹھاتے ہوئے دریافت فرمایا ہے کہ مغرب میں کسی کی زبان پکڑنے کا دستور واقعی پایاجاتا ہے یا نہیں اور آیا مغرب میں کسی قوم کے ’نازک‘ مانے جانے والے الفاظ و تعبیرات پر قدغن ہے یا صرف ہمارے ہی مقدسات پر بھونکنے کی آزادی ہے ؟؟


     آزادی … ؟ یہ کیسی آزادی ؟؟ یہ سب بکواس اور جھوٹا پروپگنڈہ ایک سازش ہے اور اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کے خلاف ورنہ ارونگ والے معاملہ کے علاوہ ڈھیر ساری زمانے بھر کی مثالیں اور حقیقتیں ہیں مثلاً ہر جمہوری ملک میں کسی حکومت پر تو، وہ بھی ایک حد تک تنقید برداشت کی جاتی ہے مگر دستور اساسی کے خلاف لب کشائی بغاوت تسلیم کی جاتی ہے اور باغیوں کے ساتھ اس ترقی یافتہ اور عوامی بیداری کے دور میں بھی جو سلوک کیاجاتا ہے۔ کیا اسے بھی بتانے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح توہینِ عدالت کی سزا بھی ہرجگہ مقرر ہے اور پریس کونسل اور سنسر بورڈ وغیرہ جیسے اداروں کا آخر مقصدِ وجود کیا ہے؟ آزادیٔ اظہار رائے کی وکالت کرنے والے اس کی وضاحت کی زحمت بھی گوارا فرمائیں گے یا بقول حامد صاحب ہمارے ہی مقدسات پر بھونکتے رہیں گے۔ تمام عیسائی (نام نہاد سیکولر ) ملکوں میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی اہانت کو بجا طورپر ایسا سنگین جرم تصور کیاجاتا ہے جس کے لئے عدالتوں میں تعزیری قوانین موجود ہیں۔ اسی طرح ہندو مذہب میں بھی بلاس فیمی قانون ہے جس کی رو سے برہمن کو ایذا پہنچانے پر سزا مقرر ہے۔ ہندو فلسفہ کے مطابق ’’یہ کائنات دیوتائوں کے قبضے میں ہے اور دیوتا منتروں کے قبضے میں ہیں اور منتر برہمنوں کے قبضے میں ہیں۔ اس لیے ہندوئوں کی دھارمک گرنتھوں خاص طور سے منوسمرتی کے نویں باب میں کہاگیا ہے کہ برہمنوں کی اہانت کرنے یا انہیں دکھ تکلیف پہنچانے والے پاپیوں کو سزا دی جائے۔ ابھی آپ نے دیکھا ایک ’’مفروضہ‘‘ کے خلاف محض اپنی رائے کا اظہار ہی نہیں بلکہ تحقیق کی سچائی کا انکشاف مسٹر ارونگ کے لیے نہ صرف بڑا مہنگا پڑا بلکہ ان کے وکیل ایلمر کا یہ قول: یہ مقدمہ دراصل ایک پیغام تھا‘‘ اپنی جگہ اس طرح پتھر کی لکیر ثابت ہوا کہ آج یورپ کے 34ممالک میں anti semitism اور ہولو کاسٹ کے خلاف قوانین موجود ہیں۔ رومن امپائر کے شہنشاہ جسٹنین (Justinain) نے اپنے دورِ حکومت میں یسوع مسیح کی توہین اور انجیل کی تعلیمات سے انحراف کی سزا سزائے موت مقرر کی تھی۔ عہد وسطیٰ میں اس شہنشاہ کے ذریعہ تدوین کئے گئے رومن لا آج بھی سارے یوروپی ممالک میں نافذ العمل ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ’’انسانی حقوق‘‘ کی دہائی دینے والوں نے اس سزائے موت کو منسوخ کردیا ہے لیکن اس ایکٹ میں جسمانی موت کی بجائے شہری موت (Civil Death) کی سزا مقرر ہے۔ اسی قانون کی بنیاد پر برطانیہ کے ہم جنس پرست صحافی و شاعر ڈینس لی مون (Denis Lemon) کے خلاف ایک مقدمہ میں 21فروری1779 کو ہائوس آف لارڈس نے قابلِ تعزیر جرم قرار دیا تھا۔ ججوں میںLord Scarmanملعون لی مون کو سزا دلانے میں پیش پیش تھے ۔ گے نیوز (Gay News) کے اس مردود و ملعون ایڈیٹر پر الزام یہ تھا کہ اس نے حضرت عیسیٰ مسیح پر ایک مزاحیہ نظم لکھی ہے جس میں اس نے ان کو نعوذ باللہ ہم جنس پرستی کی طرف مائل دکھایا تھا۔
    ان حقائق کی روشنی میں نام نہاد ترقی پسندی و روشن خیالی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے مغربی سیاست دانوں اور رواداری کا سبق پڑھانے والے ان کے ایشیائی ذہنی غلاموں کے اندر حق و انصاف اور رواداری کی رمق موجود ہے تو بتائیں کہ مسلمان جو اپنے نبی ؐ کو اپنی اولاد و والدین اور دنیا جہان کی تمام چیزوں یہاں تک کہ اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہیں اور ٹوٹ کر پیارومحبت کرتے ہیں کیونکہ حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت کردہ یہ حدیث نبویؐ : والذی نفسی بیدہ لا یؤمن أحد کم حتی اکون أحب الیہ من والدہ و ولدہ (تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد اور اولاد سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجائوں) دنیا بھر کے مسلمانوں کے ہمیشہ پیش نظر رہتی ہے۔ پس حبِّ رسول ؐ کو جزئِ ایمان سمجھنے والے دنیا بھر کے کروڑوں اربوں مسلمانوں کی موجودگی میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور امہات المومنین ازدواج مطہرات ؓ کی شان اقدس میں سب و شتم اور ہفوات جیسی گستاخی کرنے والے مفسدین و شاتمین کے خلاف جب کوئی مغربی حکومت تادیبی و قانونی کارروائی کرنے کے بجائے کھلے چھپے ان کی حمایت و سرپرستی کرنے سے بھی آگے بڑھ کر بعض مملکتیں فتین و امن دشمن تخریب کاروں کو تحفظ فراہم کرتی اور انعام سے بھی نوازتی ہیں تو صاف ظاہر ہے کہ مسلمانانِ عالم کے زخموں پر مرہم رکھنے کی جگہ انہیں اکسانے، اشتعال دلانے اور بھڑکانے کی سوچی سمجھی منصوبہ بند سازش کی کارفرمائی ہی نظر آتی ہے۔ ایسے میں مسلمان اگر ایمانی جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہوئے سراپا احتجاج بن کر مرنے مارنے پر آمادہ ہوجاتا ہے تو کوئی امت مسلمہ کو وحشی اور انتہا پسند وغیرہ کہنے کا کیاحق و جواز رکھتا ہے؟ جب کہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ سچائی یہی بتاتی ہے کہ مجرم کی حمایت کرنے والے خود مجرم ہی ہوتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی وضاحت طلب ہے کہ کیا یورپی و امریکی دستور و قانون اور تہذیب و اخلاق میں صرف حضرت موسیٰ  ؑکلیم اللہ اور حضرت عیسیٰ روح اللہ کی اہانت کے علاوہ ہولو کاسٹ کی بابت حق گوئی ہی فقط سنگین جرم ہیں جن کے مرتکبین کو سزا دینے کی روایت و مثال موجود ہیں۔ اگر خدا نخواستہ بات ایسی ہی ہے تو اہل مغرب اور ان کے چیلوں پر لازم ہے کہ جمہوریت مساوات اور انسانی حقوق وغیرہ کا کھوکھلا نعرہ فوری طور سے ترک کرکے پہلی فرصت میں اسلام او ر پیغمبرؐ اسلام سے تمام انبیاء و رسل پر یکساں ایمان و احترام کا درس حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ انسانوں کے درمیان مساوات کا عملی نمونہ پیش کرنے والے مسلح اعظم و محسنِ انسانیت ؐ کی دشمنی میں اندھے ہوکر منفی پروپگنڈہ کرنے والوں کو کیا واقعی یہ علم نہیں ہے کہ حرص و حسد کے ساتھ عصبیت جیسی برائی کی مذمت کرتے ہوئے جہاں آپ ؐ نے ان سے بچنے کی تلقین فرمائی تو حجۃ الوداع کے موقع پر ہر طرح کی جاہلیت کو اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ ’’کسی گورے کو کسی کالے پر، کسی امیر کو کسی غریب پر اور کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فوقیت نہیں، تم سب آدم ؑ کی اولاد ہو اور آدمؑ کو اللہ نے مٹی سے پیدا کیا تھا۔ پس اولاد آدم ہونے کے ناتے تم سب آپس میں برابر اور بھائی بھائی رہو ۔ البتہ اللہ کے نزدیک تم میں وہی سب سے محبوب بندہ ہے جو اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔‘‘


    انسانی جمعیت، وحدت، اخوت، مساوات اور احترام آدمیت اور انسانی حقوق کا اس سے عمدہ اصول و منشور بھلا اور کیا ہوسکتا ہے ؟ حقیقت تو یہ ہے کہ آزادیٔ اظہار رائے کی طرح مساوات جمہوریت اور انسانی حقوق کا مغربی تصور و فلسفہ ایک دھوکہ اور فریب کے سوا کچھ بھی نہیں ورنہ فلسطین میں حماس کی منتخب حکومت کی مخالفت اور الفتح کی حمایت، عیسائیوں کی حمایت میں مسلم اکثریتی ملک سوڈان کی تقسیم، مگر طویل عرصے سے فلسطینیوں پر صیہونی اسرائیل کے وحشیانہ مظالم کے باوجود آزاد فلسطین ریاست کی مخالفت الجزائر میں انتخاب کے ذریعہ اسلام پسندوں کی پیش قدمی روکنے کے لئے سازش اور منصوبہ بند طریقے سے خوں ریزی ، بغیر کسی تحقیقی ثبوت کے11/9 کے پراسرار واقعہ یعنی صیہونی سازش کا ذمہ دار القاعدہ کو قرار ایک امریکی عدالت کی جانب سے القاعدہ اور ایران پر6ارب ڈالر کاجرمانہ، جب کہ اسی سازش کی پاداش میں افغانستان میں لاکھوں بے گناہ انسانوں کا قتل اور ناقابل تصور مالی نقصان، عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا جھوٹا الزام عائد کرکے عراق میں افغانستان ہی کی طرح قتل و غارت گری کا وحشیانہ رقص اور الزام غلط ثابت ہونے کے باوجود عراق میں صدر صدام حسین کی آمریت کو ختم کرکے جمہوریت کرنے کی ڈھٹائی کے ساتھ جھانسہ، گوانتاناموبے عقوبت خانہ میں قیدیوں کے ساتھ شرمناک واقعات، ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ غیر انسانی سلوک، مشتبہ دہشت گردوں کی آڑ میں پاکستان ویمن پر مسلسل ڈرون حملے اور ایران میں اسلامی انقلاب(1979) کے بعد سے اب تک اس کے خلاف سازش و مظالم کے لامتناہی سلسلے اور ابھی ابھی افریقہ کے مالی پر فرانس کی جارحیت اور تازہ تازہ فضائی حملے، یہ سب کیا ہیں؟ اسی مساوات، انسانی حقوق اور مغربی فلسفۂ جمہوریت کی برکتیں ہی تو ہیں۔ داڑھی ٹوپی اور نقاب و حجاب پر پابندی کے ذریعہ حقوق انسانی کے تحفظ و بحالی کی کوشش اس پر مستزاد ہے۔


    سطور بالا کا ایک ایک لفظ چیخ چیخ کر اعلان کررہا ہے کہ انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی ایک سازش اور گورکھ دھندہ اور زبردست دھوکہ ہے جس میں یہود و ہنود اور نصرانیوں کے انتہا پسند افراد اور ان کی جماعتیں ملوث ہیں اور ان کھوکھلے نعروں اور فلسفوں کی آڑ میں توہین اورتضحیک رسالت کے ذریعہ مسلمانوں کی شبیہ بگاڑنے، انتشار پھیلانے کے علاوہ ہندستان میں ہندو مسلم کے درمیان نفرت پھیلانے کی طرح یورپ و امریکہ میں عیسائی اورمسلمانوں کے درمیان منافرت کو ہوا دے کر صیہونیت کی شیطانی سرگرمیوں کی جانب سے توجہ ہٹانے ، اسلام کے بڑھتے قدم اور مقبولیت کو روکنے اور مسلمانوں کے مرکز قلب پر حملہ کرکے ایک طرف مسلمانوں کو اپنے بنی سے گہری عقیدت کو کمزور کرنے جیسی خام خیالی اور رسالت مآب سے غیر مسلموں کو بد ظن کرنے کے ناپاک شیطانی و سیاسی عزائم ہیں جن کی تکمیل کے لیے شیطانی قوتیں شب و روز قرآن سوزی ، کارٹون اور فلم سازی اور دیگر مذموم سازشوں میں مصروف ہیں لیکن ہر بار وہ منہ کی کھا رہی ہیں۔ قبول اسلام اور حضور نبی کریم ؐ کی مقبولیت میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے جہاں تک مسلمانوں کی اپنے نبی سے محبت و عقیدت کے کمزور پڑنے کی بات ہے تو فتنہ بازوں کو اور ایمان سے محروم لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی فتنہ بازی و سازش کے خلاف مسلمانوں کا ردعمل حبِّ رسول کا غماز ہوتا ہے جو جزئِ ایمان ہے۔

**********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 841