donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Mohammad S.A.W. Ki Baten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Hashim Qadri Siddiqui
Title :
   Mohammad Arabi S.A.W. Ka Adalti Nazam Wa Masawat

 

محمد عربی  ؐ کا عدالتی نظام و مساوات


الحاج حافظ) محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی)

  Mob. 09031623075 / 09386379632 

 E-mail : hhmhashim786@gmail.com


    آقائے نعمت محمد رسول اؐ اللہ کے آخری نبی ہیں۔رسالت کا سلسلہ آپ کی ذات پر ختم ہوتا ہے۔آپؐ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے سارے عالم کے مسلمانوں کا یہی عقیدہ ہے۔وہ شخص بڑا ہی بد نصیب ہے جو اس عقیدے سے منحرف ہو یا اس پر ایمان نہیں رکھتا۔

    ہر سال ساری دنیا میں بڑے جوش و عقیدت و محبت کے ساتھ ماہ ربیع الاول میں عید میلادُ النبی ؐ کا اہتمام کیا جاتا ہے اہل ایمان جشن آمد رسول ؐ کا اہتمام کرتے ہیںسیرت النبی ؐ کو سننے اور سنانے کی بھی کوشش کی جاتی ہے، بڑے پیمانے پر جلوس کا اہتمام کیا جاتا ہے ہر خوش عقیدہ مسلمان اپنی سمجھ بوجھ اور حیثیت کے مطابق نبی کریم ؐ سے اپنی وابستگی اور عقیدت کا اظہار کرتا ہے۔

    مصطفی جان رحمتؐ سے عشق و محبت کا اظہاریقیناً جذبۂ ایمانی کی نشانی ہے اور مسلمان ہونے کا فطری تقاضا بھی ہے لیکن اس حقیقت کو جاننے اور عام کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر خالق کائنات نے انبیاء علیہم السلام کو کیوں مبعوث فرمایا؟انبیا ء علہم السلام نے دنیا میں کیا کام انجام دیا؟ انبیاء علیہم السلام کے بعد مسلمانوں کی کیا ذمہ داری ہے؟خدائی نمائندے یعنی رسولان عظام اور پیغمبران حق جن مقاصد کی تکمیل کے لئے مبعوث ہوئے ان میں اہم ترین مقصد قیام عدل بھی تھا اور ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے پارہ 27؍ رکوع 18؍ سورہ حدید آیت نمبر25؍ (ترجمہ کنز الایمان )  ’’ بے شک ہم نے اپنے رسولوں کو دلائل کے ساتھ بھیجااور ان کے ساتھ کتاب عدل کی ترازو اُتاری کہ وہ لوگوں میں انصاف قائم کریں‘‘  ۔  عدل کا لغوی مفہوم حضرت امام راغب اسفہانی ( فرماتے ہیں ) جنکا اصل نام ابو القاسم الحسین بن محمد بن فضل ہے503ہجری  اپنی شہرۂ آفاق کتاب  ’’ المفردات ‘‘ میں عدل کے معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں  ’’ سب کے ساتھ برابر کا معاملہ کرنا‘‘ قران میں سورۂ رحمٰن  آیت نمبر 7؍میں ارشاد باری تعالیٰ ہے (ترجمہ کنزالایمان ) اللہ نے آسمان کو بلند کیا اور قیام عدل کے لیے میزان (ترازو)  کورکھا کہ ترازو(انصاف میں ) بے ایمانی نہ کرو۔اس آیت پر غور کریں تو یہ بات بہ خوبی واضح ہو جاتی ہے کہ رسولوں کی آمد کا مقصد دنیا میں عدل و مساوات برابری کو قائم کرنا۔ظلم و زیادتی اور استحصال کو ختم کرنا ہے دنیا سے نا انصافی کا خاتمہ کرنا اور تمام انسانوں کو حق اور انصاف کے تحت زندگی گزارنے کا طریقہ بتانا،ظلم و استحصال،جبر و تشدد کے خاتمے کے لیے اللہ کی بھیجی ہوئی کتاب کی حکمتوں کو نافذ کرنا۔

    دنیا میں امن و سکون محض خواہش اور تمنا سے قائم نہیں ہو سکتا،دنیا سے ظلم و استحصال اور جبر وتشدد کا خاتمہ انسانی عقل و دماغ کی بنیاد پر بھی نہیں ہو سکتا،انسانوں کے بنائے ہوئے اصول و ضوابط ،انسانوں کے سوچے سمجھے منصوبے دنیا میں امن و سکون کی فضاء قائم نہیں کر سکتے۔ اگر انسان چاہتا ہے کہ اُسے سکون وامن و چین میسر آئے اور ظلم و زیادتی کا خاتمہ ہو اور نا برابری دور ہو تو پھر اس کا ایک ہی حل ہے وہ یہ ہے کہ خالق کائنات کی ہدایت کی کامل پیروی کی جائے تو حضور سرور کائنات  ؐ کی سیرت پر عمل کیا جائے رب کریم کا حکم ہے  سورۂ صف آیت نمبر 9؍ (ترجمہ کنز الایمان ) وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ضابطۂ ہدایت اور دین حق دے کر اس فرض کے لیے بھیجا ہے کہ وہ ہر دین کے معاملے میں اسے غالب کرے۔ اس آیت میں مزید واضح انداز میں اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ روحی فداہٗ  ؐ کی بعثت (بھیجنے ) کا مقصد دین حق کا قیام ،عدل (انصاف کا) کا نظام قائم کرنا۔

    رسول اکرم ؐ کی حیات طیبہ میں عدل و انصاف مساوات کی مثالوں کا نظارہ کر نے کے لیے رسول پاک ؐ کی سیرت کا تفصیلی مطالعہ کرنا چاہئیے یہا ں سیرت کے خزانے سے بڑا پیارا واقعہ حاضر خدمت کرتا ہوں۔

    غزوۂ بدر کے موقع پر رسول پاک ہاشمی وقار ؐ صحابہ کی صفیں درست کر رہے ہیں آپ کے دست مبارک میں لکڑی کی ایک چھڑی ہے  ایک صحابی صف میں برابر نہ تھے آپ نے اُنہیں چھڑی سے بغل میں کچوکا لگایا تاکہ وہ برابر ہو جائیں۔وہ معلم عدل و انصاف جب بیمار ہوئے تو آپ نے اعلان عام کیا کہ اگر کسی کا مجھ پر کوئی حق ہو تو وہ مجھ سے لے لے ۔وہ صحابی جن کو حضور ؐ نے صف سیدھی کرنے کے لیے کچوکا لگایا تھا آئے اور کہا یا رسول اللہ ! بدر کے روز آپ نے مجھے لکڑی سے کچوکا لگایا تھا جس سے مجھے تکلیف ہوئی تھی میں اسکا بدلہ لینا چاہتا ہوں ۔ حضور نے فرمایا میں حاضر ہوں  بدلہ لے لو ،صحابی نے کہا جس وقت آپ نے مجھے کچوکا لگایا تھا میرے جسم پر کرتا نہیں تھا،میں آپ سے اسی انداز میں بدلہ لینا چاہتا ہوں۔ حضور ؐ نے کُرتا اُٹھا کر پہلو اور پشت (پیٹھ) مبارک اس پر پیش کی۔ اس صحابی نے بے تابانہ بڑھ کر پشت مبارک اور مہر نبوت شریف کو بوسہ دیااور کہا یا رسول اللہ ! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں تمنا یہ تھی کہ زندگی میں ایک بار آپ کے مہر نبوت شریف کو بوسہ دیکر سامان آخرت کروں۔

    اس عاشق رسول کی تمنا تو کچھ اور تھی مگر قربان جایئے عدل ومساوات کے معلم حقیقی محمد ؐ کی تعلیم اور نمونۂ عمل پر کہ حالت علالت میں ایک شخص کو اس کا حق دینے کے لیے جسد مبارک کو پیش فرما دیتے ہیں۔عدل اسلامی و مساوات حقیقی  کی اس عملی تصویر سے ہی اسلامی اصولوں کی ترتیب ہے ۔اسلامی عدل کے ترازو میں تمام انسانوں کو مساویانہ حق ہے ۔کسی شریف کی شرافت اور کسی غیر شریف کی رذالت اسے عدل اسلامی سے محروم نہیں کرتی کسی کمزور کی کمزوری اور کسی قوی کی قوت (طاقت) اسلامی عدل پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ آقا  ؐ کا عدل ایسا غیر متعصب ترازو ہے جو اپنے فرائض میں کسی سے غفلت اور کسی کی رعایت نہیں کرتا۔

    ممتاز مفسر قرآن علامہ شہاب الدین الوسی بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شہرۂ آفاق تفسیر ’’ تفسیر روح المعانی ‘‘ میں آیت عدل  پارہ 14؍ سورہ نحل کی آیت نمبر 90؍ کی تفسیر نہایت جامع تحریر فرمائی ہے آپ فرماتے ہیں(1)عدل اُمّ الفضائل عمل ہے (2) عدل مساوات (برابری کا) دوسرا پہلو یا نام ہے (3)عدل دراصل ظلم کی ضد ہے یعنی اگر عدل ہو تو ظلم کا خاتمہ یقینی ہے۔  عدل و انصاف کے موضوع پر کلام کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں علماء کی بڑی تعداد کا یہ قول ہے کہ اگر قرآن مجید میں صرف یہی آیت نازل ہوتی تو ہدایت کے واسطے کافی ہوتی  ’’ اِنَّ اللہ یَامُرُ بالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ اسی لئے اس آیت کریمہ کی اہمیت کے پیش نظر خلیفۂ راشد سیدنا عمر بن عبد العزیزرضی اللہ عنہ سے خلیفہ عبد الملک نے دریافت کیا  عدل کا کیا مفہوم ہے ؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ عدل کی چار شکلیں ہیں  (1)ٰٖٖفیصلہ کے وقت کا عدل جیسا کی رب تعالیٰ نے فرمایا کہ جب تم فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ ان کے درمیان فیصلہ کرو۔ (2)گفتگو کے وقت کا عدل جیسا کہ رب کا ارشاد ہے جب تم بات کرو تو عدل کے ساتھ بات کرو۔ (3)عدل فدیہ کے مفہوم میں جیسا کے ارشاد رب العالمین ہے اس (انسانی نفس) کے عوض کوئی فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا (4)عدل فی الشّرک جیسا کی رب نے فرمایا منکرین اپنے رب کے برابر ٹہراتے ہیں ۔۔۔۔رب اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔

*************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 829