donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Muslim Moashra
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Nighat Nasim
Title :
   Oh My God - Ab Musalmano Ka Kya Hoga


 او مائی گوڈ ۔۔اب مسلمانوں کا کیا ھو گا ؟ ۔


ڈاکٹرنگہت نسیم ۔سڈنی

 

یوں تو مجھے ھر روز ھی اپنے میڈیکل سینٹر جانا ھوتا ھے ، پر کبھی کبھی تھک جاتی ھوں اور بڑا دل کرتا ھے کہ نا جاؤں اور ایڈمن  میں کہہ دوں کہ بیمار ھوں ۔لیکن پھر سوچتی ھوں کہ وہ لوگ جو مجھ سے زیادہ تھکے ھوئے اور بیمار ھیں ان کا کیا ھو گا ۔ جانے کیسے کیسے کر کے مجھ تک پہنچتے ھیں ،یوں اچانک مجھے نہ دیکھا تو کتنی تکلیف ھو گی ، اور یوں برسوں سے میں روز ھی اپنے کام پر چلی جاتی ھوں  ۔ ھر کام بڑی مدت سے تواتر سے ھو رھا تھا ۔۔ بس کبھی کبھی کچھ بدل جایا کرتا تھا جیسے آج موسم کچھ بوجھل سا تھا ۔ میلبورن ،پرتھ کے ساتھ ساتھ سڈنی بھی آگ میں جھلس رھا تھا  ۔

راستے بھی تپ رھے تھے اور میری گاڑی کا ٹمریچر بھی ساتھ نہ دے پا رھا تھا ۔۔ کبھی ایر کنڈیشنڈ بند کرتی تو کبھی غزلوں کی سی ڈی ۔۔ اس دن رستہ بھی بہت لمبا ھو گیا تھا ۔۔ فیر فیلڈکمیونٹی میڈیکل سینٹر  میں سب کچھ حسب معمول تھا ۔۔ چیزوں سے لے کر انسان تک سبھی کچھ ایک جیسا ۔۔ کہ ۔۔ اچانک میری ریسیپشنسٹ  “ ڈنوٹا “ نے مجھے فون پر بتایا کہ ایک مریضہ ھے جو میرے لیئے نہیں تھی ۔ لیکن میڈیکل سینٹر پر چونکہ میرے علاوہ کوئی اور ڈاکٹر  نہیں ھے ۔۔ تو کیا میں اسے دیکھ  سکتی ھوں ؟ ۔۔ میری ازلی مروت نے مجھے ھمیشہ ھی ایسے کئی واقعات سے دوچار رکھا تھا ۔۔ سو اس بار بھی انکار نہ کر سکی اور یہی سوچتی رھی کہ اتنی گرمی اور حبس میں کسے اور  کیوں آنا پڑا ؟

 سو میں نے اس کے آنے تک اس کی فائل دیکھنی شروع کر دی ۔۔ اس کا نام   بڑا ھی مختصر اور پیارا سا تھا “روز“ ۔۔اور عمر بہتر سال کی اور جرمنی کی پیدائش تھی ۔۔ آسٹریلیا پندرہ برس کی عمر میں آئی تھی اور جب سے اکیلی ھی رھتی تھی ۔۔ اور ۔۔آگے میں کچھ دیکھ نہ سکی کہ وہ کمرے کے اندر آ چکی تھی ۔۔ گلاب کی طرح انتہائی خوشگوار سی “روز“ میرے سامنے کرسی پر بیٹھی تھی ۔

چہرے مہرے سے اپنی عمر سے کہیں کم لگ رھی تھی ۔ گرمی کی وجہ سے ھلکے گرین سادہ سی اسکرٹ پر بلیک اور گرین کلر کے بلاؤز میں وہ پہلی نظر میں قطعی طور پر مریضہ نہیں لگ رھی تھی ۔اس نے مسکراتے ھوئےاپنا تعارف کروایا تھا اور اپنا لائٹ گرین ھیٹ بھی ساتھ والی کرسی پر رکھ دیا تھا ۔۔

اتنی شدید گرمی میں مجھ تک آنے کی وجہ اس کے شدید ڈپریشن اور کبھی کبھار آوازوں کا آنا تھا جو موجودہ حالات میں برداشت کرنا اس کے لیئے ناگزیر ھو رھا تھا ۔ "روز" نے دوسری جنگ عظیم دیکھی تھی ۔ جب وہ گیارہ سال کی تھی ۔ اس کے ماں باپ ،بہن بھائی سب اس جنگ کی نظر ھو گئے تھے اور اب تو اسے یاد بھی نہیں تھا کہ ان کی شکلیں کیسی تھیں اور آوازیں کیسی سماعتوں میں گھلتی تھیں ۔

“روز“ اپنی زہنی بیماری کی وجہ سے تنہا تھی ۔۔ سارا دن کیسے گزارتی ھو روز ۔۔ میں نے اپنے سوالات کو آخری شکل دیتے ھوئے پوچھا ۔۔ کچھ نہیں بس ٹی وی دیکھتی ھوں اور ریڈیو سنتی ھوں ۔۔ اچھا کیا سنتی ھو ۔۔ میری توجہ اور اشتیاق دیدنی تھا ۔۔ بھلا ایک بیمار زہنی مریض ایسا  کیا سنتا ھو گاجو صبح کے تین بجا دیتا ھے ۔۔۔

میں صرف خبریں سنتی ھوں ۔۔ ایک لمحہ کو وہ مسکرا ئی اور دوسرے ھی لمحے وہ اداس ھو گئی ۔۔۔  اوہ مائی گوڈ ڈاکٹر ۔۔ اب مسلمانوں کا کیا ھو گا ۔۔۔ بیچارے مسلمان ۔۔ اف بیچارے مسلمان ۔۔ “روز“ کا صدمہ قابل دید تھا ۔۔اس کی آنکھیں یکبارگی اشکبار ھو گئیں ۔۔ اب “روز“ کو بھلا میں کیا بتاتی کہ غریب مسلمانوں کا کیا ھوگا ۔۔اس لیئے کہ انہیں خود نہیں پتہ کہ ان کا کیا ھو گا ۔۔ اور انہیں ان حالات میں اب کیا کرنا چاھیئے ؟

پتہ کیا ڈاکٹر جنگیں انسانوں سے ان کے رشتے چھین لیتی ھیں ۔۔پھر ان کے اعتبار میدان جنگ میں کہیں  کھو جاتے ھیں ۔۔ ان کی خواہشیں رل جاتی ھیں ۔۔ ان کی زمینیں چھین  لی جاتی ھیں ۔۔ اور جو سب بڑا نقصان ھوتا ھے نا ڈاکڑ۔۔وہ  ان  چھوٹے چھوٹے بچوں کا ھوتا ھے جن  سے ان کے حصے کا آسمان چھن جاتا ھے ۔۔ ان کے ساتھ کھیلنے والے ۔۔۔ ان کو راستہ دیکھانے والے چاند تارے کھو جاتے ھیں ۔۔

مجھے یاد آیا جب ھم بہن بھائی چھوٹے چھوٹے سے ھوا کرتے تھے تو  ۔۔ حویلی کے صحن میں چارپایئاں ڈالے ھم سب کھلے آسمان کے نیچے سویا کرتے تھے اور ھماری بی بی جی ھمیں کہتی تھیں جو سب سے زیادہ تارے گنے گا وہ انعام کے طور ان کے ساتھ والی چارپائی پر سوئے گا اور یہ اعزاز پانے کے لیئے ھم سب  تارے گنتے گنتے سو جاتے تھے ۔۔ کتنا صاف اور شفاف آسمان تھا ۔۔ ھر رات چاند تاروں سے جگ مگ جگ مگ کرتا تھا ۔۔

اپنے صحن کی چارپائی پہ لیٹے لیٹے جتنا آسمان دکھتا تھا وہ اپنا لگتا تھا  اور اسی آسمان  سے روز کتنی ھی باتیں کرتے تھے ۔۔ میرا تو جیسے سبھی کچھ آسمان سے جڑ گیا تھا ۔۔ اللہ کی واحدانیت ۔۔ساتوں آسمان تک  رھنے بسنے والے نبی اور فرشتوں کی باتیں ۔۔ جنت دوزخ کے اندازے ۔۔ پھر  موسموں کی یاداشتیں  ۔۔پریوں کی کہانیاں تو کبھی چرغہ کاتنے والی بڑھیا کے قصے ۔۔۔ ھمارا کتنا کچھ آسمان سے جڑا تھا ۔۔

پھر ۔۔ پھر ۔۔ ڈاکٹر  اسی جگ مگ  آسمان سے شعلے اور انگارے برسنے لگتے ھیں ۔۔۔روز کی آواز سے یوں لگا جیسے میری مٹھی سے میرا آسمان نکل جائےگا ۔۔۔ وہ کہہ رھی  تھی کہ  تمہیں پتہ ھے ڈاکٹر میں نے کئی برسوں سے آسمان نہیں دیکھا ۔۔روز کی آواز پر میں نے  بے اختیار ھو کر کھڑکی سے باہر دھوپ سے بھرے آسمان کو دیکھا اور  روز  کہہ رھی تھی  ۔۔

“ میں وہ سارے دن رات  یاد کر کے  پاگل ھونے لگتی ھوں ۔۔ مجھے صرف گولیوں اور بموں  کی آوازیں آتی ھیں اور پھر مجھے یوں لگتا ھے جیسے میرا  گھر ملبہ بن جاتا ھے ۔۔ میری زمین میری نہیں رھتی  اور  میرا چاند تاروں سے سجا آسمان ۔۔ لال انگارہ ھو جاتاھے ۔۔اور میں خوف سے آنکھیں بندکر لیتی ھوں ۔۔۔۔“

گوڈ یہ خون تھوکتا ھوا آسمان میرا نہیں ھے ۔۔۔ یہ کسی کا نہیں ھے ۔۔۔وہ ھذیانی کیفیت میں چلا رھی تھی ۔۔  میری آنکھوں کے سامنے روز نڈھال ھو کر کرسی پر لڑھک گئی تھی ۔۔ اور میں نے فوری سیکیورٹی اور ایمبیولنس کے لیئے ایمرجنسی کوڈ کے بٹن کو دبا دیا تھا ۔سارا عملہ میرے کمرے میں جمع تھا ۔۔۔ اور اسے ایمرجنسی میں بے ھوشی کا انجیکشن لگا کر لیور پول ھوسپٹل میں شفٹ کیا جا چکا تھا

پر نہ جانے کیوں اس کے جانے کے بعد بھی مجھے یوں لگ رھا ھے جیسے وہ میرے پاس ھی کہیں رہ گئی تھی ۔۔۔
 
اس کی درد میں ڈوبی آواز ۔۔تاسف سے بھرے سچے جملے  کسی ھوشمند حکمران یا مسلمان کے نہیں تھے ۔۔ وہ تو  ہوش خرد سے بیگانی ایک غیر مسلم کی آواز تھی جو اپنے پورے دل کی سچایئوں کے ساتھ  میری سماعتوں میں محفوظ ھو گئ تھی  “ او مائی گوڈ اب مسلمانوں کا کیا ھو گا “ ۔۔۔اس کی سچائی کے سامنے میرے خود کے دلاسے دم توڑ رھے ھیں اور میری آنکھیں سے آنسو چپکے چپکے اپنے حصار توڑ کر  باہر آرھے تھے ۔۔ میں کیا کرؤں ۔۔۔ کہ ۔۔۔ مجھے خود نہیں معلوم کہ اب ھمارا کیا ھو گا ۔۔۔۔

امریکہ نے ایک بار پھر پشاور میں ڈرون  پھینک دیئے ھیں  اور آسمان سے زمین تک آگ کی بارش کر دی ۔۔

ادھر جیسے ھی سوات کا امن جرگہ سرحد حکومت سے  صلح کی باتیں کر رھا تھا عین اسی وقت طالبان نے  ایک اور اسکول مسمار کر دیا  ۔۔

سینٹ کے انتخابات جیتنے کے لیئے ایکبار پھر آزمائے ھوئے بے وفاؤں نے ایک دوسرے کو گلے سے لگا لیا  ۔۔۔

 پاکستانی حکمرانوں  کو دہشت گردی کی جنگ کرنی مشکل نظر آرھی ھے ۔۔اس لیئے انہوں نے اغیار کے سامنے نہ صرف اپنا دامن پھیلا دیا ۔۔بلکہ  اپنے ملک کی خوداری تک ان کے قدموں میں رکھ کر اپنے ھی لوگوں کے ایمان  کو گروی رکھ دیا ۔۔

اسرائیل  ھزاروں فلسطینی کو جنگ میں جھونک دے گا ۔۔ غزہ پر قبضہ کرے گا ،فلسطینی جنگی قیدیوں کو اس وقت تک رھا نہیں کرے گا جب تک اس کا صرف ایک جنگی قیدی رھا نہیں ھو جاتا۔۔

عرب حکمرانوں نے خفیہ طور پر اسرائیل کی حمایت میں غزہ کے  فلسطینیوں ھی کو مورد الزام ٹھہرایاھے اور ھنوز راکٹوں کی آپس کی جنگ کسی پہر بھی کسی بڑی جنگ میں بدل سکتی ھے ۔۔۔
 
معاملہ فقط عرب اور عجم کا نہیں۔مجموعی طور پر مسلمانوں کے تشخص کا ہے۔ اسلام کے مخالف میڈیا کو مزید وار کرنے کا بہت سا مواد مل گیا ہے۔

آخر ھر جگہ ھر بات پر مسلمان ھی کیوں رسوا اور خوار  ھے ۔۔پوری دنیا کو کسی بھی خطے کے  صرف مسلمان ھی کیوں دہشت گرد لگتے ھیں ۔۔۔ ان حالات میں ۔۔۔۔ کیا سوچوں ۔۔ میرے آنسو اپنی ھی بے بسی پر تو کبھی عالم اسلام کی بے حسی پر اب بڑی تواتر سے گر رھے ھیں ۔۔اور روز کا بےساختہ سا سوال سینکڑوں بار خود ھی سے پوچھ چکی ھوں ۔۔

اوہ مائی گوڈ اب مسلمانوں کا کیا ھو گا۔۔۔۔۔۔؟


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 825