donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Miscellaneous Articles -->> Mutafarrik Mazameen
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ata Md. Tabassum
Title :
   Americi Fauj Khawateen Sathiyon Ke Liye Khilauna Ban Gayi

امریکی فوج خواتین ساتھیوں کی لئےکھلونا بن گئی
 
(عطا محمد تبسم)
 
امریکہ اپنے اخلاق باختگی کی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ امریکیوں کو یہ احساس ہونی لگا ہی کہ بڑھتی ہوئی بی راہ روی، جنسی آزادی، اور ہتھیاروں کی آزادانہ استعمال نی ان کی معاشری کو تباہی کی جا نب دھکیل دیا ہی۔ اب وہ اس سوچ بچار میں ہیں کہ اس معاشری کو کیسی سدھاریں، ہتھیاروں پر پابندی، خواتین کی عریاں پوسٹرپر پابندی کی اقدامات امریکی معاشری کی عکاس ہیں۔ لیکن امریکہ کی لئی یہ اور سنگین مسئلہ اس کی فوجی خواتین کی ساتھ ان کی مرد ساتھیوں کی جانب سی کی جانی والی زیادتی کی واقعات ہیں۔ حال ہی میں تما م ملٹری ٹرینگ اکیڈمیوں میں صورتحال کا جائزہ لینی کی احکامات بھی دیئی گئی ہیں۔ سال 2012 ءکی دوران تقریباً 26 ہزار خواتین فوجی اہلکاروں پر مجرمانہ حملی کیی گئی ہیں جو کہ گزشتہ سال کی 19 ہزار واقعات کی مقابلی میں کافی زیادہ ہیں۔ ان واقعات میں سی پچھلی صرف 3 ہزار میں سی 74 جنسی حملوں کی شکایت درج کی گئی۔ امریکی صدر باراک اوبامہ نی گزشتہ دنوں امریکی فوج میں خدمات سرانجام دینی والی خواتین پر امریکی فوجیوں کی جنسی حملوں کو ناقابل برداشت قرار دیتی ہوئی کہا کہ کوئی بھی شخص جو اس طرح قبیح فعل کا مرتکب پایا گیا تو اس کی خلاف کارروائی کرتی ہوئی ان کو عہدوں سی ہٹایا اور انہیں کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑی گا۔امریکی فوج میں جنسی تشدد کی اعدادوشمار سی پتہ چلتا ہی کہ امریکی خواتین فوجیوں کی ساتھ جنسی تشدد اور ان کی حقوق کی خلاف ورزی کا سلسلہ وسیع پیمانی پر جاری ہی۔
 
امریکی اخبار یو ایس ٹو ڈی کی مطابق عراق اور افغانستان میں تعینات خواتین کی نصف تعداد جنسی طور پر ہراساں کی گئی ہی۔ اخبار نی محکمہ ویٹرینز افیئر کی ایک تحقیق کی حوالی سی بتایا کہ محققین نی عراق اور افغان جنگی زونز میں خدمات انجام دینی والی گیارہ سو فوجی خواتین سی سوالات کئی، جس سی معلوم ہوا کہ عراق اور افغانستان میں تعینات خواتین کی مجموعی تعداد میں سی تقریباً نصف خواتین جنسی طور پر ہراساں کی گئیں جبکہ ایک چوتھائی خواتین اہلکاروں پر جنسی حملی کیی گئی۔ عصمت دری کی 22.8 فی صد رپورٹیں درج ہوئیں۔ جنگی زونز میں تعیناتی کی دوران 48.6 فیصد فوجی خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔ ان فوجی خواتین پر جنسی حملی اورہراساں کرنی والی مرد فوجی تھی اور ان میں سی نصف تعدادہائی رینک افسران کی تھی۔ جنسی حملوں اور تشدد کی واقعات گزشتہ برس بہت زیادہ تشویش کا باعث بنی تھی جس پر وزیر دفاع نی تمام ملٹری ٹریننگ کا جائزہ لینی کا حکم دیا۔ گزشتہ ہفتی پنٹاگن نی ملٹری اکیڈمیوں میں جنسی حملوں اور تشدد کی واقعات کی سالانہ رپورٹ جاری کی۔ جس کی مطابق 2012 میں امریکی فوجی اکیڈمیوں میںخواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنی کی شرح میں 23 فی صد اضافہ ہوا۔ امریکی کانگریس میں فوج میں جنسی حملوں کی سماعت کرنی والی ارکان نی بھی کہا ہی کہ حالیہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہی کہ مسلح افواج میں ساتھی فوجی خواتین سی جنسی زیادتی کی واقعات بڑی پیمانی پر ہو رہی ہیں۔ کانگریس کی سماعت کرنی والی کمیٹی کی ایک رکن لوریٹا سینچاز کا کہنا ہی کہ سماعت کی دوران اس قسم کی واقعات کی باری متعدد فون کالز موصول ہوئی ہیں جن کا زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہی کہ فوجی میں شامل خواتین کوایک سی زیادہ مرتبہ جنسی زیادتی کا نشا نہ بنایا گیاہی۔وزارتِ 
 
دفاع کی جانب سی سال دو ہزار تین میں ریٹائرڈ فوجی عورتوں سی انٹرویو پر مبنی سروی میں انکشاف ہوا تھا کہ پانچ سو میں سی کوئی تیس فیصد عورتوں کا دوران ملازمت ریپ ( جنسی زیادتی) ہوا یا کرنی کی کوشش کی گئی۔اس سی بھی زیادہ تشویش ناک صورتحال وزارتِ دفاع کی سال دو ہزار نو میں ہونی والی سروی میں سامنی آئی تھی۔جس میں کہا گیا تھا کہ فوج کی اندر ہونی والی جنسی زیادتی کی کوئی نوی فیصد واقعات رپورٹ ہی نہیں ہو پاتی۔اس کی تصدیق سال دو ہزار تین میں عراق اور دو ہزار چھ میں افغانستان میں اپنی فرائض انجام دینی والی امریکی فضائیہ میں مارتی ریبائیرو نی کی۔ مارتی کا تعلق ایک فوجی گھرانی سی ہی۔ وہ کہتی ہیں اپنی دادا اور والد کو دیکھ کر فوج میں بھرتی ہونا ان کا ایک خواب تھا مگر اس خواب کی تعبیر کی لیی انھیں بھاری قیمت چکانی پڑی۔ان کا کہنا تھا کہ فوج میں شمولیت کی بعد اپنی ساتھی فوجیوں کی کردار کو دیکھ کر بہت مایوسی ہوئی۔انھوں نی کہا کہ افغانستان میں دو ہزار چھ میں وہ دوران ڈیوٹی اپنی بندوق رکھ کر چند لمحوں کو سگریٹ پینی کی لیی ایک طرف گئیں۔ اور اسی دوران ان کی اپنی ہی ساتھی نی ان پر حملہ کر کی ان کا ریپ کیا۔ مارتی کہتی ہیں کہ رپورٹ کرنی پر کمانڈر کا جواب تھا کہ محاذ جنگ میں ہتھیار ایک طرف رکھنا فرائض سی غفلت کی اس زمری میں آتا ہی جس پر ان کا کورٹ مارشل ہوسکتا ہی۔ اور یوں ریپ کرنی والا بڑی آسانی سی سزا سی بچ گیا۔ امریکی وزارتِ دفاع کی جنسی حملوں سی روک تھام کی شعبی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر کی وائیٹ لی کا کہنا ہی کہ ایک تو کسی بھی عورت کی لیی ریپ رپورٹ کرنا انسانی اور جذباتی سطح پر انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہی۔ دوسرا اس میں اور بھی کئی رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں مثلاً کمانڈر کی جانب سی یونٹ کی یک جہتی کی نام پر ایسی رپورٹنگ کی حوصلی شکنی کی جاتی ہی۔ ڈاکٹر کی وائیٹ لی کا کہنا ہی کہ فی الوقت ریپ کا شکار ہونی والی فوجی عورتوں کو تفتیشی مراحل سی گزاری بغیر طبی امداد اور کونسلنگ یعنی نفسیاتی علاج معالجی کی سہولت فراہم کی جارہی ہی۔ تاہم اب ایسی کئی تجاویز زیر غور ہیں جس کی مطابق کمانڈروں کو جنسی تشدد کی مسئلی سی بہت زیادہ سنجیدگی سی نمٹنا ہوگا۔ انھوں نی کہا حال ہی میں یہ دیکھا گیا ہی کہ کمانڈرز پہلی سی زیادہ کیسز کورٹ مارشل کی لیی بھیج رہی ہیں۔ 
 
عراق میں خدمات سرانجام دینی والی ایک سابق امریکی ملٹری انٹیلیجنس آفیسر کیلا ولیمز کی نئی کتاب ’آئی لومائی رائفل مور دین یو‘ کچھ عرصہ قبل منظر عام پر آئی ہی۔ انہوں نی اس کتاب میں عراق جنگ میں حصہ لینی والی فوجیوں اور صحافیوں کی کرداروں پر ان کی خد مات کی تناظر میں روشنی ڈالی ہی۔ ایک ریڈیو پروگرام میں انہوں نی گفتگو کرتی ہوئی کہا کہ اس کتاب کا مقصد اس جنگ میں امریکی خواتین فوجیوں کی کردار پر روشنی ڈالنا ہی۔ انہوں نی بتایا کہ عراق میں اس وقت گیارہ ہزار ایک سو خواتین مختلف عہدوں پرخدمات سر انجام دی رہی ہیں۔ جو امریکی فوج کا آٹھ فیصد بنتی ہیں۔ عراق میں اس وقت امریکی فوج کی ایک لاکھ اڑتیس ہزار فوجی خدمات سر انجام دی رہی ہیں۔ان خواتین فوجیوں میں سینتیس ہلاک جبکہ تین سو زخمی ہیں۔ اگرچہ وہ براہ راست جنگی محاذوں پر تعینات نہیں ہیں لیکن عراق کی صورت حال نی بہت سی خواتین کو انتہائی حساس پوزیشنوں پر دھکیل دیا ہی۔ انہوں نی اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ فوج میں مردوں کی طرح خواتین کی کرداروں پر بھی ایک رخ سی روشنی ڈالی گئی ہی۔ولیمز کو فوج میں پانچ سال ہونی کو آئی ہیں جن میں سی ایک سال انہوں نی امریکہ کی عراق پر قبضہ کی دوران عراق میں گزارا۔ان کی کتاب میں کویت ، عراق کی سرحدوں، بغداد، موصل اور 
 
انتہائی دوردراز پہاڑی سلسلی میں شام کی سرحدوں پر واقع ان کی تعیناتی کی کہانی بیان کی گئی ہی۔ وہ کہتی ہیں کہ جنگ میں بہت سی خواتین ہلاک بھی ہوئی ہیں۔ خواتین اگرچہ براہ راست جنگی محاذوں پر تعینات نہیں ہوتی ہیں لیکن عراق کی صورت حال نی بہت سی خواتین کو انتہائی حساس پوزیشنوں پر دھکیل دیا ہی۔ ان خواتین نی عراق چھوڑنی سی پہلی اپنی آنکھوں سی ہزاروں فوجیوں کو ہلاک اور زخمی ہوتی ہوئی دیکھا ہی۔ عراق کی ابو غریب جیل میں امریکی خواتین فوجیوں نی قیدیوں پر جو وحشیانہ تشدد کیا تھا اس کی رپورٹیں ساری دنیا کی سامنی آنی کی بعد دنیا کو پتہ چلا کہ فوجی جرائم میں امریکی خواتین فوجی بھی برابر کی شریک رہی ہیں۔ ایک ایسی ہی خاتون فوجی سی ابو غریب جیل اسکینڈل کی منظر عام پر آنی کی بعد انہیں اس باری میں مدد فراہم کرنی کی لیی کہا گیا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں عربی زبان سی آگاہی حاصل تھی اور ان کی باری میں یہ بھی خیال کیا گیا کہ وہاں کی ثقافت کی پس منظر میں وہ خواتین قیدیوں کی حوالی سی مددگار ہوسکتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ابو غریب جیل میں قیدیوں کی ساتھ کیی جانی والی سلوک سی بہت مضطرب تھیں اور جب امریکی فوجیوں نی قیدیوں کو ایذا رسانی کا نشانہ بنانا شروع کیا تووہ جان گئیں کہ اب حدیں ختم ہوچکی ہیں۔انہوں نی چاہا کہ وہ اس معاملی کی باری میں شکایت کریں مگر یہ معاملہ خود ہی سب کی سامنی آگیا۔ انہوں نی بتایا کہ عراق کی صورت حال نی وہاں رہنی والوں کو اس بات پرمجبور کیا ہی کہ وہ سب کچھ کر گزریں۔ولیمز نی بتایا کہ اس طرح کی جنگی زون میں اس قسم کی صورت حال نی خواتین کی لیی ایک مقابلی کی فضا پیدا کردی ہی۔ولیمز نی حال ہی میں ایک زخمی فوجی سی شادی کی ہی جو عراق جنگ میں شدید زخمی ہوگئی تھی۔ انہوں نی ولیمز کو اس کتاب کی لکھنی میں مدد بھی کی۔انہوں نی بتایا کہ ہم سب انسان ہیں جواچھی اور بری دونوں کرداروں کی مالک ہیں لیکن بہادری اس میں ہی کہ اچھائی کو سامنی لاتی ہوئی تمام حالات کا مقابلہ کیا جائی۔
 
عجیب بات یہ ہی کہ ان تمام حالات و واقعات کی باوجود امریکی خواتین فوج میں جانا چاہتی ہیں اور جنگ میں بھی حصہ لینا چاہتی ہیں۔ گزشتہ دنو ں چار خواتین فوجیوں نی امریکہ کی عورتوں کو زمینی جنگ سی دور رکھنی کی پالیسی پر پنٹاگن کی خلاف مقدمہ دائر کردیا تھا۔ اب عدالت نی ان خواتین اور سروس ومنز ایکشن نیٹ ورک کی جانب سی دائر مقدمی میں حکومتی پالیسی کو ناانصافی پر مبنی قرار دیا ہی۔ مقدمہ کرنی والی دو خواتین کا تعلق افغانستان میں پرپل ہارٹز سی ہی۔ واضح رہی کہ امریکہ میں خواتین فوجیوں کو زمینی لڑاکا یونٹوں میں شامل نہیں کیا جاتا لیکن عراق اور افغانستان میں ایک دہائی سی جاری جنگوں میں اب تک مختلف واقعات میں ایک سو چالیس سی زائد خواتین ہلاک ہو چکی ہیں۔ پینٹاگون نی فروری میں اعلان کیا تھا کہ خواتین کو چودہ ہزار نئی ملازمتیں دی جائیں گی۔یہ ملازمتیں زیادہ تر آرمی اور مرین کورز میں دی جانی تھیں، جن کی دروازی خواتین سروس ممبران کی لیی بند تھی۔ تاہم اس اعلان کی باوجود زمینی جنگ میں خواتین کی حصہ لینی پر پابندی بتدریج قائم تھی اور اس طرح خواتین انفنٹری، آرمر یونٹز اور اسپیشل فورسز میں نہیں جاسکتیں۔ اب امریکی حکومت نی یہ پابندی ختم کردی اور کہا ہی کہ خواتین کی میدان جنگ میں حصہ لینی کی صورت میں فرنٹ لائن پوزیشنز اور ایلیٹ کمانڈوز میں خواتین کی لیی روز گار کی ہزاروں مواقع پیدا ہوں گی۔ پنٹاگن میں منعقدہ ایک پریس کانفرس میں وزیر دفاع لیون پنیٹا نی پابندی کی خاتمی کا اعلان کیا اور کہا کہ ’ اب فوجی خواتین کو جنگ کی حقیقت کا سامنا کرنا ہو گا، جنگ لڑنی کی اپنی رضامندی ثابت کرنا 
 
ہوگی اور ہاں اپنی امریکی ہم وطنوں کی دفاع کی لئی مرنا ہو گا۔‘دوسری جانب امریکی صدر نی خواتین پر پابندی ختم کرنی کی فیصلی کو ایک’تاریخی قدم‘ قرار دیا ہی۔پابندی پر خاتمی سی سنہ انیس سو چرانوی میں بنایا گیا ایک قانون ختم ہو جائی گا جس کی تحت خواتین جنگ میں حصہ لینی والی چھوٹی یونٹس کا حصہ نہیں بن سکتی تھیں۔امریکی وزیر دفاع نی فوجی خواتین کی ان شکایت کا ذکر کیا جس میں میدان جنگ میں حصہ لینی کا تجربہ نہ ہونی کی سبب ان کی لیی ملازمت میں آگی بڑھنی کی امکانات کم ہو جاتی ہیں۔انہوں نی کہا ’ میرا بنیادی طور پر خیال ہی کہ ہماری فوج زیادہ موثر ثابت ہو سکتی ہی جب کامیابی کا انحصار صرف اور صرف قابلیت، صلاحیت اور کارکردگی پر ہو‘۔فوجی سربراہان پندرہ مئی تک وزیر دفاع کو نئی پالیسی پر عمل درآمد سی متعلق ابتدائی منصوبہ پیش کریں۔توقع ہی کہ امریکی فوج میں خواتین کی لیی کچھ نوکریاں اسی سال شروع ہو جائیں گی جبکہ اسپیشل سروسز نیول سیلز اور ڈیلٹا فورس میں نئی نوکریاں شروع ہونی میں ابھی وقت لگی گا۔اس فیصلی سی فوج میں دو لاکھ تیس ہزار خواتین کو روز گار ملی گا اور ان میں سی زیادہ تر زمینی فوجی دستوں میں شامل ہوں گی۔امریکی محکمہ دفاع نی گزشتہ سال اس وقت خواتین پر پابندیوں کو نرم کیا تھا جب فرنٹ لائن پر ان کی لیی چودہ ہزار پانچ سو ملازمتوں کی مواقع پیدا کیی گئی تھی جبکہ اس سی پہلی فرنٹ لائن پر خواتین پر اس قسم کی ذمہ داریاں ادا کرنی پر پابندی تھی۔عراق اور افغانستان جنگ کی دوران خواتین فوجی اہلکاروں نی طبی عملی، ملڑی پولیس اور انٹیلیجنس افسروں کی طور پر کام کیا تھا اور بعض اوقات انہیں فرنٹ لائن پر بھیجا جاتا تھا لیکن سرکاری طور پر انہیں فرنٹ لائن یونٹس کا حصہ نہیں بنایا جاتا تھا۔سال دو ہزار بارہ تک ان جنگوں میں آٹھ سو خواتین اہلکار زخمی ہوئیں اور ایک سو تیس کی قریب ہلاک ہوئیں۔ اس وقت امریکہ کی چودہ لاکھ حاضر سروس فوج میں خواتین کا تناسب چودہ فیصد ہی۔
 
امریکی اعلی فوجی افسروں کی اخلاقی اسکینڈلوں کی بعد امریکی وزارت دفاع نی ایسی افسروں کی حمایت کی نوعیت پر نظرثانی کرنی کا فیصلہ کیا ہی۔ اس بات کا فیصلہ کل کیا گیا جس کی بنیاد، وہ نکات ہیں کہ جن کی باری میں امریکی وزیر دفاع نی تین ہفتی قبل آرمی چیف سی گفتگو کی تھی جن میں سی ایک امریکی فوجیوں کی اخلاقی تربیت کا عمل ہی۔ اس وقت بھی دو اعلی امریکی فوجی افسروں یعنی سی آئی ای کی سابق سربراہ ڈیویڈ پیٹریئس اور افغانستان میں امریکی فوج کی کمانڈر جنرل جان ایلین کی خلاف اس حوالی سی تحقیقات جاری ہیں۔ دوسری جانب امریکی فضائیہ میں بھی جنسی تشدد کی بڑھتی ہوئی جرائم کی پیش نظر اداروں سی خواتین کی ناشائستہ لباس میں تصاویر اور پوسٹرز ہٹائی جانی کا اقدام کیا گیا ہی اور اس سلسلی میں تمام متعلقہ شعبوں سی اس قسم کی تصاویر ہٹانی کیلئی دس روز کی مہلت دی گئی تھی۔ یہ سب اقدامات امریکی فوجیوں میں جنسی تشدد کی بڑھتی ہوئی رجحان کی روک تھام کیلئی عمل میں لائی جارہی ہیں۔ امریکی فوج کی اعدادوشمار کی مطابق سالانہ 19 ہزار افراد، جنسی تشدد کی بھینٹ چڑھتی ہیں جبکہ ایسی جرائم کی مرتکب فوجیوں اور افسروں کی خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ اس سلسلی میں شکایت کرنی والوں کی اعتراف کی مطابق مجرم فوجیوں اور افسروں کو عدالت میں طلب تک نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ان کی خلاف کوئی قانونی کارروائی کی جاتی ہی۔ جبکہ امریکی فوجیوں کی جنسی تشدد کی جرائم صرف امریکی فوج تک محدود نہیں ہیں اور وہ بیرون ملک بھی اس قسم کی جرائم کا بخوبی ارتکاب کرتی ہیں اور اس سلسلی میں جاپان اور جنوبی کوریا 
 
میں پیش آنی والی واقعات کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہی۔ یہی وجہ ہی کہ ان ملکوں کی عوام خاص طور سی جاپان کی جزیرہ اوکیناوا کی عوام نی اس قسم کی جارحیت و تشدد کی خلاف وسیع پیمانی پر احتجاجی مظاہری بھی کئی ہیں۔ چنانچہ ایسا معلوم ہوتا ہی کہ امریکی فوج میں جنسی تشدد و جارحیت کا عمل نہ صرف بڑھتا جارہا ہی بلکہ اس سلسلی میں کنٹرول اور روک تھام کی خاطر خواہ کوئی کوشش بھی نہیں کی جارہی ہی۔ ایسی صورتحال میں امریکی فوج میں ہم جنس پرستوں کی بھرتی کی اعلان سی امریکی فوجی کی اخلاقی حالت اور بھی ابتر ہوگی جس سی فوجی توانائی پر بھی کافی اثر پڑیگا۔امریکی فوج میں ایک سال کی دوران ڈھائی ہزار جنسی جرائم کی واقعات ریکارڈ کئی گئی جبکہ ان واقعات میں زیادہ تر اپنی ہی ساتھیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ محکمہ دفاع کی رپورٹ کی مطابق اکتوبر 2006 سی ستمبر 2007 کی دوران فوج میں جنسی جرائم کی 2688 کیس ریکارڈ کئی گئی تھی۔ 72 فیصد کیسز میں جنسی حملوں کا نشانہ بننی والی خود امریکی فوجی تھی۔ 574 کیسز متاثرہ شہریوں کی طرف سی درج کرائی گئی جو امریکی فوجیوں کی زیادتی کا نشانہ بنی تھی۔ عراق میں امریکی فوجیوں کی جانب سی جنسی جرائم کی 112 کیسز اور افغانستان میں 10 کیسز درج کئی گئی۔ محکمہ دفاع کی مطابق تحقیق کی بعد 181 کیسز میں فوجیوں کا کورٹ مارشل کیا گیا۔ 201 میں غیر عدالتی سزادی گئی اور 218 کیسز میں فوجیوں کی خلاف انضباطی کاروائی یا ملازمت سی برطرفی کی سزادی گئی۔ اعداد و شمار کی مطابق ڈھائی ہزار کیسز میں سی 60 فیصد اجتماعی زیادتی کی کیسز ہیں۔ واضح رہی کہ گزشتہ دنوں جاپان میں تعینات امریکی فوج کی جانب سی بھی ایک نو عمر جاپانی لڑکی کی عصمت دری کرنی کا واقعہ سامنی آیا تھا جس پر امریکی سفیر نی جاپانی حکام سی معذرت بھی کی تھی۔
بشکریہ: مشتاق دربھنگوی
 
*********************
Comments


Login

You are Visitor Number : 1252