donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Pakistan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Gul Bakhshalvi
Title :
   Sahafat Dahshat Gard Aur Ham


 

صحافت ،دہشت گرد اور ہم

 


تحریر:گل بخشالوی 

ہم میڈیا والے ذاتی عناد اور مفادات میں اتحاد واتفاق کو بھو ل گئے ہیں اس لیے اپنے اس جرم کی سزا بھگت رہے ہیں گوکہ حق گوئی ،سچائی ہم اخبار نویسوں کی شان اور پہچان ہے لیکن ذاتیات میں اپنی شخصیت اور کردار کو دفن کر دیا ہے ۔ہم صرف اُس شخصیت پر حملے کو اُچھالتے ہیں ،اہمیت دیتے ہیں جسے ہم ذاتی طور پر چاہتے ہیں یا اُس کے نام سے اپنے نام کی شمع جلاتے ہیں البتہ علامتی طور پر شہیدوں میں نام لکھوانے کیلئے کوئی مذمتی بیان داغ دیا کرتے ہیں ۔

جیونیوز کے حامد میر پر حملے میں جیونیوز نے اپنا حق ادا کردیا لیکن دوسرے چینلوں نے دولفظی خبر پر اکتفاکیا اس لیے کہ حامد میر جیوکاملازم تھا ۔یہ ہے میڈیا کی منافقت حالانکہ ہر صاحب ضمیر جانتا ہے کہ میڈیا کادارومدار قلم اور اہل قلم پر ہے اگر اہل قلم دہشت گردی کے عذاب میں اپنی زندگی اور خاندان کا مستقبل داؤ پر لگاتا ہے تو اُس کی ہر تحریر اُس کے احساسات اور ضمیر کی آواز ہوتی ہے وہ صرف اپنے ادارے ،ذات یا تنخواہ کیلئے نہیں لکھتا بلکہ صحافت کے پیشے کی سربلندی کیلئے لکھتا ہے قلم اُٹھاتا ہے آج اگر حامد میر پرحملہ ہوا ہے تو کل ایسی ہی کسی دوسرے حامیر میر پر صدائے حق کے جرم میں گولیاں برسائی جاسکتی ہیں کئی ایک خوبصورت جانیں حق گوئی کے جرم میں جان سے گئی بھی ہیں ۔

ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکیں گے کہ دہشت گردی میں ہزاروں معصوم جانیں جان سے گئی ہیں اور جارہی ہیں خون کا رنگ بھی ایک ہوتا ہے ہر کوئی اپنوں کیلئے عزیز ہوتا ہے لیکن کچھ جانیں قوم کیلئے عزیز اس لیے ہوتی ہیں کہ اُن کے خون کی تپش میں اُن کا احساس اور ضمیر جاگ رہا ہوتا ہے اور جب وہ اپنے وجود سے باہر آتا ہے قلم اُٹھاتا ہے یا معاشرتی زندگی کے حسن کیلئے آواز اُٹھاتا ہے تو اُسے اُس کے حسن کردار کے انعام میں عوامی احترام اور مقام ملتا ہے جب ایسے وطن دوست کا خون گرتا ہے تو اُس کی تپش میں پوری قوم ایک ہوجاتی ہے قومی یکجہتی کے اظہار کا مثالی مظاہرہ دیکھ کر دنیا پاکستان اور پاکستان کی غیور عوام کو سوچنے لگتی ہے ۔
سوات کی شہزادی ملالہ یوسف زئی کے وجود سے خون کے گرے چند قطروں میں دنیا نے پاکستان کا خوبصورت اور دہشت گردوں کا بدصورت چہرہ دیکھا لیکن ہماری کم ظرفی کی انتہاء یہ ہے کہ ہم خودی کے خول میں قید ہو کر سوچتے ہیں۔شخصیات کو اُن کے کردار میں سوچنا گوارا نہیں کرتے ۔حامد میر پر حملہ درحقیقت دنیائے صحافت کے علمبرداروں پر حملہ ہے حامد میرصرف ایک انسان ہی نہیں اپنے قلمی کردار میں انسانیت پر ظلم وستم کے خلاف ننگی تلوار بھی ہیں الیکٹرونکس اور پرنٹ میڈیا اس حقیقت سے کیسے انکار کرے گا ۔


ہم کب تسلیم کریں گے کہ ایک اخبار نویس پر حملہ ،دراصل پوری میڈیا پر حملہ ہے جس دن ہم نے افغانستان کی اخبار نویس برادری کی طرح اس حقیقت کو تسلیم کر لیا گروپ بندی اور ذاتیات کے حصار سے باہر نکلے تو دنیا پاکستان کی صحافت ہماری حیثیت اور حقیقت کو تسلیم کرے گی بصورت دیگر ہم میڈیا کیلئے مرکر اپنے حسن کردار کیساتھ ہمیشہ کیلئے دفن ہوجائیں گے ۔

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 916