donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Pakistan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Jalaluddin Aslam, New Delhi
Title :
   Sehar Ke Bad Phir Ik Sehar Ki Talash

سحر کے بعد پھر اک سحر کی تلاش

 

جلال الدین اسلم، نئی دہلی

موبائل نمبر: 09868360472

 

’سحر کے بعد پھر اک سحر کی تلاش‘۔ یہ صورت حال پاکستان کے تقریباً ہر شہری کی ہے۔ افسوس کہ 1947 سے آج تک ہر روز طلوع ہونے والا سورج انہیں اپنی لہو آمیز کرنوں سے چھلنی ہی کرتا آرہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ دنیا اپنے قومی دنوں پر خوشیاں مناتی ہے اور ملک و قوم کے لیے قربانی دینے والوں کو یاد کرتی ہے اور انہیں خراج عقیدت پیش کرتی ہے، اور پاکستانی قیادت کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے آزادی کے دن ’آزادی مارچ‘ اور ’انقلاب مارچ‘ کے نعروں سے پورے ملک کی فضا گرد آلود بنانے میں نہ صرف یہ کہ پیش پیش رہی بلکہ پورے ملک کو ہی یرغمال بناکر اپنے عوام کی زندگیاں ایک بار پھر اجیرن کردینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ خبروں و اطلاعات کے مطابق پٹرول پمپ، سڑکیں، بازار، سب کچھ یہاں تک کہ مساجد پہنچنا بھی مشکل ہوگیا۔ یہ تو اللہ کا کرم رہا کہ کوئی بڑا حادثہ واقع نہیں ہوا ورنہ یوم آزادی پاکستان اپنے وجود کی ایک بار پھر یاد تازہ کردیتا۔ دنیا کا ہر ملک اپنے یوم آزادی پر محاسبہ کرتا ہے اور ہر سال آگے بڑھنے کا عزم کرتا ہے اور پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو ہر سال آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہٹتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 67 سال گزر جانے کے بعد بھی یہاں جمہوریت کے بجائے فوجی وردی میں آمریت کا ہی دور دورہ رہا ہے۔ جب بھی جمہوری حکومتیں قائم ہوئی ہیں آمریت پسند طبقہ سرگرم ہوکر اسے زمیں بوس کرنے میں کوئی دقیقہ ہی نہیں چھوڑتا جس کے نتیجے میں پاکستان کا سیاسی نظام ہمیشہ غیر یقینی حالات سے دوچار رہا ہے۔ حالانکہ یہاں کے بیشتر حکمراں عوام کے درد کا درماں ہونے کا ببانگ دہل اعلان بھی کرتے رہے ہیں لیکن عوام کا درد ہے کہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔

اس وقت پورے ملک میں اسلامیت، جمہوریت اور آمریت کی جو گھمسان ہے اس میں اکثر وہی لوگ ہیں جو اول تا آخر ملک و قوم کی تباہی کے ذمہ دار رہے ہیں۔ ایسے نازک حالات میں بھی سیاست دانوں کا یہ حال ہے کہ وہ اپنے عوام کے دکھ درد پر غم کا اظہار کرنے کے بجائے نمک پاشی کرتے نظر آرہے ہیں او راصل وجہ بھی یہی رہی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی سیاسی گاڑی ہمیشہ ریورس گیئر میں ہی رہی ہے۔

ذرائع کے مطابق پاکستانی معاشرہ اپنی بنیادوں میں ناگزیر تبدیلی چاہتا ہے مگر یہ تبدیلی کون اور کیسے لاسکتا ہے؟ یہاں کا کوئی بھی رہنما ہو یا قوم کو اس کے درست اور حقیقی وجود کا اندازہ رکھنے والے، اپنے عوام کی فطری ضرورت کو اپنی شعبدہ بازی سے گرفت میں لینے کی مسلسل کوششیں تو ضرور کی ہیں لیکن وہ اسی طرح کی ہیں جس طرح اقتدار کے کھیل میں ان کے پیشروؤں نے کی ہیں، یعنی کبھی آمریت تو کبھی جمہوریت۔ اس کھیل کے تجزیہ کاروں کے مطابق عمران خان اور علامہ و ڈاکٹر طاہرالقادری کا موجودہ سیاسی گٹھ جوڑ بھی کسی انقلاب کی نوید دینے کے بجائے اسی اسلوب اور طریقہ عمل کی ایک بدترین شکل ہے۔

معلوم تاریخ میں دنیا کے تمام انقلابی قائدین میں ایک قدر مشترک ان کی غربت رہی ہے مگر پاکستان کا باوا ہی چونکہ نرالا ہے اس لیے یہاں کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ کھیل کے کھلاڑی اور اسلامیات کے جغادری اپنی موجودہ جمہوری حکومت ہی نہیں بلکہ تاریخ کی اب تک کی تمام حرکیات کو ہی بدل دینے پر آمادہ نظر آرہے ہیں۔ مثلاً ایک انقلابی اپنی گفتگو کا آغاز ہی اس سے کرتے ہیں کہ ان کے پاس دنیا کی ہر آسائش ہے مگر وہ عوام کے حالات بدلنے کے لیے ان کے درمیان آئے ہیں۔ جبکہ ایک دوسرا انقلابی ’عوام کی خدمت کے لیے‘ کینیڈا سے واپس پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ یہ وہ قائد ہے جو دوہری شہریت رکھتا ہے۔ یہ جس فضائی سواری کا انتخاب کرتا ہے اس کا کرایہ ہی ہوش اڑا دیتا ہے۔ یہ ٹیلی ویژن کے بیش قیمت پردے پر سب سے زیادہ وقت اپنے قبضے میں لیتا رہتا ہے، یہی نہیں بلکہ پاکستان میں جاری تمام قومی سرگرمیوں کا وقت بھی چاٹ ڈالتا ہے، پھر برقیاتی ذرائع ابلاغ کے حق میں ’اس خدمت کا‘ بلا معاوضہ فراہمی کے نعرے بھی لگواتا ہے۔ یہ تماشہ ٹی وی دیکھنے والے اور اخبارات پڑھنے والے تقریباً روز ہی دیکھ بھی رہے ہیں اور پڑھ بھی رہے ہیں۔ حیرت تو اس بات کی ہے کہ پاکستان حکومت سمیت کوئی بھی اس کے متعلق اس استفسار کا تسلی بخش جواب دینے کے قابل نہیں کہ آخر کون اور کیوں اس پر اتنی رقم خرچ کر رہا ہے؟ کیا یہ سب کچھ بلامعاوضہ اور بلاوجہ ہی ہو رہا ہے؟ اگر ماؤزے تنگ کو ’مارچ‘ کے ان انقلابیوں کا حال پتا ہوتا تو وہ شاید اس لفظ کے جملہ حقوق محفوظ رکھنے کی جدوجہد پہلے کرتے اور مارچ بعد میں کرتے۔

یہ اس ملک کے حالات ہیں جسے مملکت خداداد کہتے ہیں او رجس کا قیام اسلام کے نام پر عمل میں آیا تھا۔ اپنی پیدائش سے آج تک اپنوں اور غیروں کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کے سبب سکون کی سانس نہیں لے سکا، ہمیشہ ہی غیر مستحکم اور غیر یقینی حالات سے دوچار رہا۔ یہاں کی صورت حال اور داخلی انتشار و خلفشار پر لکھتے لکھتے اب تو ہم جیسوں کی انگلیاں فگار ہوچکی ہیں اور خامہ خوں چکاں ہے اور اب تو وہاں کے وحشت ناک حالات اور واقعات پر کچھ لکھتے وقت ہاتھ کانپنے لگتا ہے۔ طرح طرح کے سوالات دل و دماغ میں پیدا ہونے لگتے ہیں اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے، ایک ایسا اندھیرا جس میں مملکت خداداد کے نام پر معرض وجود میں آنے والا ملک بہت ہی خوفناک ہیولا بن کر ابھرتا ہے اور روح کانپ جاتی ہے۔ اسلام یقیناًامن و سلامتی کا مذہب ہے لیکن کیا اس کے پیروکار (پاکستانی) بھی اس حالت میں ہیں؟ ایسے ہی اور بہت سے سوالات اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

تاریخ شاہد ہے اور یہ قول دانا بھی ہے کہ جب انسان کا جسم اس کے ضمیر کا مقبرہ بن جائے، جب نفسانی خواہشات اسے مکمل طور پر دبوچ لیں اور جب انسان کی روحانیت اس کی حیوانیت کے ہاتھوں دم توڑ جائے، جب گناہوں کے داغ دل کو سیاہ پتھر بنادیں تب وہ انسان انسان نہیں رہ جاتا اور ایسی ہی صورت میں انسانی بستیاں کھنڈر میں بدل جاتی ہیں جیسا کہ آپ پاکستان میں دیکھ رہے ہیں۔ جہاں عوام کی منتخب حکومتیں ناقابل برداشت ہوجاتی ہیں۔ نواز شریف کے پچھلے دور یعنی 1999 میں بھی فوجی حکمراں اور ڈکٹیٹر جنرل مشرف کے ذریعے ان کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا گیا تھا اور اب پھر عمران خان اور طاہرالقادری کے ذریعے نواز شریف سے حکومت کی باگ ڈور چھین لینے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ آئندہ چند دنوں میں کیا صورت حال بنتی ہے، وہاں کا سیاسی اونٹ کون سی کروٹ لیتا ہے، یہ آنے والے وقتوں میں واضح ہوجائے گا۔

فیلڈ مارشل جنرل ایوب سے لے کر جنرل ضیاء الحق کے دور تک یہ ملک عوام کے لیے ایک طرح سے آشوب گاہ بنا ہوا تھا لیکن جب جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر اپنا تسلط جمایا تو پورا ملک ہی ایک طرح سے آشوب محشر بن گیا۔ بلوچستان کی لڑائی ہو یا وزیرستان کی چڑھائی، کراچی کی آگ زنی ہو یا عدلیہ کی چنگاری، اعتدال پسندی اور انتہا پسندی کے معرکے ہوں یا باجوڑ کے بے جوڑ حیلے، لاہور کے دینی مدارس کے سرسبز اداروں سے لے کر اسلام آباد کی لال مسجد کے لہورنگ مینار و گنبد جس بات کی اب تک شہادت دے رہے ہیں اور اس کے پس پردہ جو عوامل چغلی کھا رہے ہیں ان سے صاف ظاہر ہے کہ کچھ ایسی بیرونی طاقتیں ہیں جو پورے پاکستان کو مستقلاً یرغمال بنائے رکھنا چاہتی ہیں اور اپنے مفاد حاصلہ کے لیے وہ چند ایسے لوگوں کو جو درہم و دینار اور ڈالروں کی چمک کی گرویدہ ہیں یا پھر وہاں کے فوجی حکمرانوں کو ہی سب سے بہتر سمجھتی ہیں۔ اس وقت جو صورت حال ہے اسے بھی اسی پس منظر میں دیکھا جانا چاہئے۔

پاکستان کے سیاست دانوں اور حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ انہیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اس ملک کی تشکیل اسلام کے نام پر ہوئی ہے۔ کیا نواز شریف، عمران خان، طاہرالقادری اور فوجی حکمراں یہ بتاسکیں گے کہ پاکستان کی جو صورتِ حال ہے وہ دنیا والوں کے لیے کوئی ایسا ’رول ماڈل ‘ بھی پیش کر رہی ہے جس میں اسلام کی بھی کوئی رمق پائی جاتی ہو؟ حد تو یہ ہے کہ اگر کہیں مذہب یا اسلام کے نام پر ایک معمولی سی شمع بھی جلتی نظر آتی ہے تو اس کی لو اسی وقت کتر دی جاتی ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ پڑوسی ملک کے حکمرانوں، سیاست دانوں اور ملت کے ٹھیکیداروں کو عقل سلیم عطا فرمائے۔ آمین


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 742