donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Pakistan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : K. Ashraf
Title :
   Aye Khak Nashino Uth Baitho

 

اے خاک نشینو اُٹھ بیٹھو
 
کے اشرف
 
الیکشن کے ماحول میں ہم نے سوچا کیوں نہ شاعرانقلاب (جوش ملیح آبادی سے معذرت کے ساتھ) فیض احمد فیض کے کلام سے پاکستان کے مختلف علاقوں میں آباد خاک نشینوں  کو اُٹھنے اور اس زمین پر حشر اُٹھانے کا پیغام دیا جائے جہاں کئی دہائیوں سے اُن کےساتھ مذہب، قومیت، لسانیت اور طبقاتی بنیادوں پر زیادتی ہو رہی ہے۔ اس مقصد کے لئے ہم نے پہلے پنجاب میں ایک دور دراز گاؤں  کا سفر کیا۔
 
گاؤں میں پہنچتے ہی گاؤں کے باہر ہم نے دیکھا کچھ لوگ درختوں کے نیچے گھاس کی چٹائیوں پر لیٹے دوپہر میں وقت کٹی کر رہے تھے۔ انہیں دیکھتے  ہی ہم نے پہلے انہیں پنجابی لہجے میں سلام کہا تو سب نے بہت ٹھیٹھ پنجابی میں ہمیں وعلیکم السلام کہا۔ اُس کے بعد ہم نے انہیں فیض صاحب کا پیغام سنایا: اے خاک نشینو اُٹھ بیٹھو۔ ہمارے منہ سے یہ جملہ سن کر سب پہلے بغیر کسی رد عمل کا اظہار کئے  پھٹی پھٹی آنکھوں سے ہماری طرف دیکھتے رہے۔  پھر ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر ہنسنا شروع ہو گئے۔ اب ہم اُن کی طرف پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہے۔ عجیب جاہل لوگ ہیں ۔ ہم انہیں شاعر انقلاب فیض احمد فیض صاحب کا مصرعہ سنا کر پنجاب کے ظالم طبقات کے خلاف اُٹھنے کا مشورہ دے رہے ہیں  اور یہ  ہیں کہ ٹس سے مس نہیں ہورہے۔
 
آخر ہم نے اُنہیں پنجابی میں سمجھایا کہ یہ اُن کے نام فیض صاحب کا پیغام ہے جو ہم اُن تک پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔  فیض صاحب کا نام سنتے ہی اُنہوں نے پھر عجیب نظر سے ہماری طرف دیکھا۔  ہمیں محسوس ہوا  کہ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ فیض کون ہے ؟  ہم سے کیوں مخاطب ہے اور ہمیں کیا پیغام دینے کی کوشش کر رہا ہے۔
 
میں نے اُن  کی استفہامیہ نظروں کو بھانپتے ہوئے اُنہیں بتا یا کہ فیض صاحب سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ اُنہیں مزدوروں اور کسانوں سے بہت ہمدردی تھی۔ اُنہوں نے مزدوروں اور کسانوں کے لئے بہت سی نظمیں اور غزلیں لکھی تھیں جن میں اُن کو  ظالم طبقات کے خلاف اُٹھنے کا پیغام دیا تھا۔
’’یہ نجمیں گجلیں کیا ہوتی ہیں جی؟‘‘
 
میں نے اُنہیں بتایا کہ  یہ شاہ حسین،   بابے وارث شاہ،  بابے بلہے شاہ اور سلطان باہو جیسا کلام ہے۔
میرا جواب سن کر وہ پھر ہنسے ۔ کہنے لگے۔’’اگر یہ شاہ حسین، بابے وارث شاہ، بابے بلہے شاہ اور سلطان باہو جیسا کلام ہے  تو ہم نے اس بابے فیض کا  نام اور کلام  پہلے کبھی کیوں نہیں سنا؟‘‘
میں نے کہا فیض  بابانہیں صاحب تھا۔ انہوں نے میرا جواب سنا تو سب اُٹھ کر گھاس کی چٹائیوں پر بیٹھ گئے ۔ پھر  ٹھنڈی سانس  بھر کر کہنے لگے :
 
’’اسی لئے ہم اسے نہیں جانتے ۔ اگر یہ فیض صاحب کی بجائے بابا فیض ہوتا  تو ہم نہ صرف اُس کے نام سے آشنا ہوتے بلکہ اِن گھاس کی چٹائیوں  پر اِن شکر دو پہروں میں  ہم اُسی طرح اس کا کلام پڑھتے جیسے ہم شاہ حسین ، بابے وارث شاہ، بابے   بلہے شاہ اور سلطان باہو کا کلام گاتے  اور اُس سے عقل کی باتیں سیکھتے ہیں۔ ہمیں تو یہ بھی پتہ نہیں کہ  یہ جو ابھی آپ فیض صاحب کا پیغام ہمیں سنا رہے تھے اس کا کیا مطلب اور مفہوم ہے۔ یہ خاک نشین کون ہوتے ہیں ۔ ہمیں کیا پتہ۔‘‘
 
میں تو فیض صاحب کا پیغام ’’اے خاک نشینو اُٹھ بیٹھو‘‘ لے کر الیکشن سے پہلے سندھ، پختون خواہ اور بلوچستان بھی جانا چاہتا تھا ۔ فیض صاحب تو پنجاب کے اِس دور اُفتادہ گاؤں  میں ہی ٹھس ہو گئے ہیں۔ سندھ ، پختون خواہ اور بلوچستان    میں کون اُن کی سنے گا اور ان کی بات پر عمل کرے گا۔
یہ دیکھ کر میں نے اپنا مشن اپنی پہلی منزل  پنجاب کے اس دور افتادہ گاؤں  ہی میں ختم کردیا اور پاکستان بھر کے خاک نشینوں کو ان کے حال  پر چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔
 
میں نے جان لیا کہ اگر میں اِن خاک نشینوں سے اِن کی زبان میں مخاطب نہیں ہوں گا تووہ شاید مہمان نوازی کی وجہ سے مجھ سے ’’اے خاک نیشنواُٹھ بیٹھو‘‘ سن تو لیں لیکن  اس کا مطلب اور مفہوم نہ جاننے کی وجہ سے کبھی اپنی حالت بدلنے کے بارے میں نہیں سوچیں گے ۔
 
 ********************************
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 944