donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Pakistan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Samiullah Mallik
Title :
   Ahwale Pakistan : Aman Ki Zamanat - Zarbe Ghazab

احوال پاکستان


امن کی ضمانت ۔۔۔ ضربِ عضب


سمیع اللہ ملک


مغربی اورامریکی استعمارکایہ وطیرہ رہاہے کہ جب کسی بھی مقبوضہ سرزمین سے رخصت ہوتے ہیں تووہاں پراپنے ناجائزقبضے کے دوران اس ملک اورمعاشرہ میں ایسی برائیوں کا ناسور چھوڑآتے ہیںجن کاخاتمہ کرنے میں کئی دہائیاں درکارہوتی ہیں ۔غیرملکی امدادکے نام پر ایسی بے شماراین جی اوزکاجال پھیلادیاجاتاہے جواستعماری اہداف کی تکمیل کیلئے اپنے سازشوں میں مصروف رہتی ہیں۔یہ غیرملکی آقاان ممالک میں ایک ایسانظام بھی نافذکرنے کیلئے ایسی تگ ودومیں مصروف رہتے ہیںجس سے آئندہ کی نسل بھی ان کی غلامی سے باہرنہ نکل سکے لیکن ہمارے پڑوسی افغانستان جس کی آدھی سے زیادہ آبادی خانہ جنگی کی وجہ سے اپناگھربارچھوڑے پرمجبورکردی گئی لیکن انہوں نے نہ تواپنے ملک پر ناجائزقبضے کوتسلیم کیااورنہ ہی اپنے معاشرے میں ان کے چھوڑے ہوئے کسی نظام کوقبول کیااورتسلسل کے ساتھ اپنی مالی وجانی قربانیوں کے ثمرمیں دونوں عالمی طاقتوں کے تکبرکو خاک   چاٹنے پرمجبورکردیا ہے۔

 افغانستان میں یکم دسمبر۲۰۱۴ء سے ہزاروں امریکی فوجیوں کے انخلاء کے ساتھ ہی وہاں پرغیرملکی این جی اوزبھی پچھلے گیارہ سالوں میں افغانستان کے روایتی نظام حکومت اور عدالت کوتبدیل کرنے کی انتھک کوششوں میں اربوںڈالرکی سرمایہ کاری کے باوجودناکام ونامراد ہوکر اپنابوریابسترلپیٹ کرملک سے رخصت ہورہی ہیںاوربظاہر افغانستان کی عدالتوںکااپنی منشاکے مطابق امیج بہتربنانے کیلئے امریکی اوریورپین ممالک کی غیرسرکاری تنظیموں کی تمام کوششیں رائیگاں چلی گئیں ہیں ۔اب انصاف کے حصول میں مشکلات کے بعد افغانستان میں بڑی تیزی کے ساتھ طالبان کی عدالتیں قائم ہورہی ہیں۔اس وقت کنٹر،نورستان،پکتیا،ارزگان،زابل،ہلمند،قندھار،لوگراورمیدان وروک میں ان عدالتوں نے عملی طورپرکام بھی شروع کردیاہے اورمختلف چھوٹے چھوٹے اضلاع میں موبائل عدالتیں بھی قائم کردی گئی ہیں جہاںجمعہ کے روزمقامی جامع مسجدمیںلوگوں کے مقدمات اور تنازعات سننے کے بعدفوری فیصلے بھی صادرکئے جاتے ہیںجس پرسختی سے عملدرآمدبھی ہورہاہے۔


امریکی انخلاء کے ساتھ افغانستان میں افغان طالبان عدالتوں کافعال ہوناطالبان کی بھرپورطریقے سے واپسی کاشارہ بھی ہے جبکہ ان علاقوں کے لوگوں نے افغانستان کے مقامی سیشن کورٹس اورسپریم کورٹس سے اپنے مقدمات واپس لینے شروع کردیئے ہیں۔افغان سپریم کورٹ کے ذرائع کے مطابق روزانہ دس سے پندرہ سائلین اپنے مقدمات واپس لے رہے ہیںجس سے مقامی ججزمیں پریشانی کی لہردوڑگئی ہے کہ ان کے عدالتی نظام پرعدم یقین کی صورت میں یہ سارانظام ناکام ہوسکتاہے۔ افغان سپریم کورٹ سے اپنامقدمہ کنٹر میں طالبان کورٹ لیجانے والے ایک افغان شہری نے بتایاکہ ان کے دوبھائیوں کوبااثرافرادنے ان کی قیمتی زمین ہتھیانے کیلئے قتل کردیاتھا جب وہ مقامی عدالت میں مقدمہ جیت گیاتواس کے دوسرے بھائی کوماردیاگیا،اس کے خلاف افغان سپریم کورٹ میں مقدمہ شروع ہوا،اپنی قیمتی جائیدادواگزارکراناتودرکنار، اپنے بھائیوں کے قاتلوں کی گرفتاری کیلئے افغان سپریم کورٹ تک رسائی اورمقدمے میںگزشتہ دوبرسوں میں پانچ لاکھ ڈالرخرچ کرنے پڑے۔

جب وہ تھک ہارکربیٹھ گیاتواس کے گاؤں کے ایک شخص نے اسے طالبان کی کنٹرعدالت میں اپنامقدمہ لیجانے کامشورہ دیا۔اس کاکہناتھاکہ وہ پہلے ہی بھاری اخراجات کے بوجھ تلے دب کرمفلس ہوچکاتھاتاہم اس نے طالبان عدالت کواپنی آخری امیدسمجھ کرآزمانے کیلئے طالبان کی عدالت میں چپکے سے ایک سادہ سی درخواست ارسال کردی جس کے جواب میںاگلے جمعے اسے سماعت کیلئے بلالیاگیا۔نہ صرف اس کے دونوں بھائیوں کے قاتلوں کوگرفتارکرکے فوری سزاسنادی گئی بلکہ اس کی ساری قیمتی جائیدادبھی فوری واگزار کر دی گئی اورباثرافرادکے دونوں بھائیوں کوقصاص کے تحت حکم سنایاگیاجس پراس نے بلااکراہ دیت وصول کرکے انہیں معاف کردیا۔یوں نہ صرف مقامی لوگوں کے مسائل جلدی سے حل ہوناشروع ہوگئے ہیں بلکہ سستافوری انصاف بھی ہورہاہے۔ریاستی عدالت میں اس کے پانچ لاکھ ڈالر خرچ ہوئے جبکہ طالبان عدالت میںاس کے درخواست لکھوانے کے دس افغانی خرچ ہوئے جس میں اس کاپورامقدمہ بھی سناگیااوراس کافیصلہ بھی ہوگیا۔یہی وجہ ہے کہ اب وہاں کے عوام طالبان کے دوبارہ اقتدارمیں آنے کی دعائیں کررہے ہیں۔

دوسری جانب جنوبی افغانستان سے تعلق رکھنے والے ایک افغان سردارنے بتایاکہ بعض حکومتی ملیشیا نے اس کے بھتیجے کواغواء کیاتھااوردس لاکھ ڈالرتاوان کامطالبہ کررہے تھے جو ان کے پاس نہیں تھے۔حکومت اورخاص طورپرافغان صدرحامدکرزئی کے خاندان تک حکومت میں رسائی حاصل کی لیکن پھربھی شنوائی نہ ہوسکی کیونکہ حکومت سے لیکرتمام عدالتیں ملیشیا سے ملی ہوئی تھیں جس کے بعدانہوں نے جمعہ کے روزافغان طالبان کی موبائل کورٹ میں اپنامقدمہ پیش کردیااوردوسرے جمعہ سے قبل ہی اس کے بھتیجے کوبازیاب کرالیاگیاکیونکہ ملیشیاکے جن افرادنے اس کے بھتیجے کواغواء کیاتھا،طالبان نے انہیں سمن جاری کردیئے کہ اگرایک ہفتے کے اندراس کے بھتیجے کوبحفاظت اس کے گھرنہ پہنچایاتوطالبان ان کے اوران کے خاندان کے خلاف کاروائی کریں گے جس کے ڈرسے انہوں نے فوری طورپراس کے بھتیجے کوبحفاطت اس کے گھرپہنچادینے میں اپنی عافیت سمجھی۔

 یہ وہ وجوہ ہیں جن کی وجہ سے افغان عام کی بڑی تعدادطالبان کی عدالتوں سے رجوع کررہی ہے۔بنیادی وجہ لوگوں کوفوری سستاانصاف ملناہے کیونکہ طالبان کی ان عدالتوں میں کوئی پیسہ خرچ نہیں کرناپڑتا اورنہ ہی وکیل کرناپڑتاہے۔افغان ذرائع کے مطابق نہ صرف کنٹرمیں پانچ ،نورستان میں چار،ہلمندمیں آٹھ ،قندھارمیں تین اورزابل میں چارطالبان کورٹس کی مصدقہ اطلاعات ہیں جبکہ طالبان نے تعلیم کاکمیشن بھی بنادیاہے جس نے عوام کواپنی بچیوں کواسکول بھجوانے کیلئے سخت ہدایات جاری کردی ہیں اوریکم مارچ سے تعلیمی سال شروع ہونے پرطالبان نے بچیوں کااسکول جانالازمی قراردیاہے تاہم اس کیلئے مقامی انتظامیہ سے کہاگیاہے کہ وہ بچیوں کے اسکول کیلئے خواتین اساتذہ ،چاردیواری اور علیحدہ اسکول کاانتظام کرے جس کیلئے مختلف علاقوں میںکام شروع ہوچکاہے۔انہوں نے بتایاکہ اگرافغانستان کی ریاستی عدالتیں معاملات حل کرنے اورعوام کوسستاانصاف فراہم کرنے میں یونہی ناکام رہیں توطالبان عدالتیں عنقریب پورے ملک میں بن جائیں گی کیونکہ طالبان عدالتوں میں پیسے خرچ نہیں ہوتے جبکہ افغانستان کے وکلاء ڈالروں میں فیس لیتے ہیں جوعام انسانوں کے بس کی بات نہیں۔


پہلے خواتین کے حقوق سے متعلق مقدمات میں غیرملکی این جی اوزلوگوں کی قانونی امدادکے ساتھ ساتھ مالی امدادبھی فراہم کرتی تھیں تاہم امریکی انخلاء کے ساتھ ہی این جی اوزبھی رفوچکرہوگئی ہیں جس کے بعدقانونی امدادمیں اب خواتین کورکاوٹیں پیش آرہی ہیں جبکہ طالبان کی عدالتوں میںصرف ایک درخواست دینے پرگھنٹوں میں مقدمات نمٹادیئے جاتے ہیں تاکہ خواتین کوغیرضروری انتظارنہ کرناپڑے جس سے جہاں خواتین کواپنے حقوق کے حصول میں انتہائی آسانی پیداہوگئی ہے وہاں خواتین کے احترام میں کئی گنااضافہ ہوگیا ہے ۔ افغان طالبان کے عدالتی نظام پرافغان عوام کی اکثریت کااعتماداس بات کی دلیل ہے کہ افغان عوام نے بغیرکسی انتخاب کے ان کواپنارہنماء تسلیم کرلیاہے۔اس بات سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ طالبان جب مکمل طورپراپنے ملک کی زمامِ کارسنبھالیں گے توانہیں اس ملک میں امن قائم کرنے کیلئے کسی بڑی تگ ودوکی ضرورت نہیں ہوگی۔

دنیابھرکے اکانومسٹ نے اپنے سالانہ کنونشن میںآئندہ صدی کوجہاںایشیاکی برتری اورامریکاکے زوال کابرملااظہارکیاہے اوروہاںپاکستان کی جغرافیائی حیثیت کوایک کلیدی تبدیلیوںکاسرخیل کہاہے۔ان مثبت تبدیلیوں کیلئے پاکستان میں امن کیلئے افغانستاان میں امن ہوناضروری ہے اورہمارے دشمنوں کی سازش یہی ہے کہ اس خطے میں امن قائم نہ ہونے دیاجائے جس کیلئے  ضروری ہے کہ قوم کے تعاون سے ضرب عضب جیسی کاروائی کادائرہ کارسارے ملک بالخصوص کراچی میں پھیلایاجائے!۔

(یو این این)

***********************

 

 

 

 

        

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 867