donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Arif Aziz, Bhopal
Title :
   Maulana Barkatullah Bhopali Par Tahqiqi Kaam Shuru


مولانا برکت اللہ بھوپالی پر تحقیقی کام

 

عارف عزیز

(بھوپال)


٭    عظیم محب وطن اور جہاں بین وجہاں گشت انقلابی مولانا برکت اللہ بھوپالی پر ایم عرفان کی تحریر سوانح جو عفان پبلیکشن بھوپال نے ۱۹۶۹ئ؁ میں شائع کی۔ ایک ایسے انقلابی کی داستانِ حیات ہے جو سرفروشوں اور جاں بازوں کی نسل کے ایک مثالی نمائندے تھے، انہوں نے بیسویں صدی کے آغاز میں برصغیر کے عوام کو آزادی کے لئے جدوجہد کا حوصلہ بخشا، وہ ہندوستانی انقلاب کے اولین معماروں میں سے ایک تھے اور انقلاب پسند طبقہ علماء کی اس سنہری زنجیر کی ایک کڑی تھے جو حضرت شاہ ولی اللہ، سید احمد شہید، مولانامحمود الحسن ، مولاناابوالکلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی جیسی عہد آفریں شخصیتوں کے کارناموں سے مربوط ہے۔

    مولانا برکت اللہ نے بھوپال کے ایک نچلے متوسط خاندان میں آنکھ کھولی، روایتی مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود اپنے باغیانہ ذہن اور انقلابی فطرت کی وجہ سے انگریزی تعلیم کے حصول کے لئے بھوپال سے جبلپور، پھر بمبئی اور وہاں سے انگلستان پہونچے جہاں اپنی ذہنی صلاحیت اور انقلابی کاموں سے طبعی مناسبت کی بدولت جلد ہی مولانا کا شمار ان افراد میں ہونے لگا جو جدوجہد آزادی کو آگے بڑھانے میں مصروف تھے، اپنے قیام انگلستان اور جاپان کے دوران ان کی سیاسی سوجھ بوجھ اور قوتِ کارکردگی کے جوہر ہی نہ کھلے ایک شعلہ بیان مقرر اور مشاق صحافی کی حیثیت سے بھی ان کی شناخت قائم ہوئی، بعد میں ’’غدر پارٹی‘‘ کی تشکیل سے لے کر افغانستان میں جلا وطن حکومت کے قیام تک وہ اپنی باغیانہ سرگرمیوں سے انگریزوں کا ناطقہ تنگ کرتے رہے، اسی طرح روس کے مردِ آہن لینن کو اپنی تحریک کا ہمنوا بنانا یا ہندوستان کے ہندواور مسلم انقلابیوں کو ایک دوسرے سے قریب لانا ان کے اہم کارنامے ہیں جس کے نتیجہ میں ہندوستانی جیالوں کی جو صفیں ۱۸۸۸ء سے ۱۹۱۵ء تک مسلم انقلابیوں کی صورت میں دارالعلوم دیوبند کے تحت اور ہندو وطن پرستوں کی شکل میں مہاراشٹرا اور بنگال میں علاحدہ علاحدہ نظر آتی ہیں مل جل کر کام کرنے لگیں۔

     اس تمام جدوجہد کا واحد مقصد یہی تھا کہ بیرونی فوجی امداد اور داخلی بغاوت سے ہندوستان میں انگریزوں کے استبداد کا خاتمہ ہو بعض اسباب کی بناء پر یہ تحریک اس وقت کامیاب نہ ہو سکی لیکن نوعیت اور اہمیت کے لحاظ سے اس قدر ہمہ گیر تھی کہ ہندوستان کی سیاسی جدوجہد کی کوئی تاریخ اس کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی، برکت اللہ بھوپالی نے اس تحریک کو ساری دنیا میں متعارف کرانے اور اس کی حمایت حاصل کرنے میں اپنی زندگی کے قیمتی چالیس برس صرف کردیئے اور سیکولر نظام حکومت کا تصور اس وقت پیش کیا جب یہ ہندوستانی عوام کے لئے  اجنبی تھا، یہاں تک کہ تیس برس بعد جب آزاد ہندوستان کی پہلی حکومت تشکیل پائی تو  نظریات پر ہی اس کی بنیاد رکھی گئی جو جلاوطن حکومت کی صورت میں اولاًبرکت اللہ بھوپالی نے پیش کئے تھے۔

    اس عظیم انقلابی کی زندگی کے احوال وکوائف سے دنیا تو کیا اہل وطن بھوپال کے لوگ بھی بے خبر تھے، جستہ جستہ کچھ واقعات بعض اخبار ورسائل میں شائع ضرور ہوئے یا معدودِ چند ایسے افراد تھے جن کی آنکھوں نے ان کو دیکھا اور ان کے بارے میں کچھ جانتے تھے، اس طرح کے تمام شواہد بھی وقت کے ساتھ تیزی سے معدوم ہورہے تھے، سب سے پہلے آزاد ہندوستان کے اول وزیرتعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کو اس کی فکر لاحق ہوئی تو انہوں نے مولانابرکت اللہ کی سوانح حیات قلم بند کرنے کے لئے اس دور کے عوامی نمائندے چتر نرائن مالویہ، سعید اللہ خاں رزمی اور مولانا طرزی مشرقی کو متوجہ کیا اور شاکر علی خاں کے ایماء پر یہ کام اردو کے پرانے خدمت گار اور صحافی ایم عرفان کے سپرد کیا گیا جو تاریخ سے بھی شغف رکھتے تھے اور نہایت عرق ریزی کے ساتھ وہ اس سوانح کا مواد جمع کرنے میں مصروف ہوگئے۔ ایم عرفان نے ایسے تمام  ممالک کے سفارت خانوں سے جہاں مولانا نے قیام کیا اور ہندوستان کے ان سفارتی نمائندوں سے جو ان ممالک میں موجود تھے مسلسل خط وکتابت کی، پھربھی جو مواد ان کے لئے سب سے زیادہ مفید وکارآمد ثابت ہوا اس کے بارے میں وہ خود رقم طراز ہیں۔ـ:

    ’’مولانا برکت اللہ بھوپالی کی سوانح حیات مرتب کرنے کا مرحلہ آیا تو ان سے متعلق چھوٹے چھوٹے مضامین اکثر وبیشتر اخبارات میں شائع ہوتے رہے، غدر پارٹی یا ہندوستان کی تحریکِ آزادی اور انقلابی سرگرمیوں کے سلسلہ میںکوئی مضمون ایسا نہیں تھا جس میںبرکت اللہ بھوپالی کا کم وبیش ذکر نہ ہو لیکن تفصیلی مضامین کا فقدان تھا، جہاں چند مضامین جو مولانا عبدالماجد دریابادی نے اپنے ہفت روز ’’سچ‘‘ لکھنؤ میں، منشی شاکر حسین نکہت سہسوانی نے ’’مدینہ‘‘ بجنور میں، سردار گوپال سنگھ نے ’’انقلاب‘‘ لاہور میں اور ڈاکٹر پی ایس منگل مورتی نے ’’دشوانی‘‘ الٰہ آباد میں لکھے وہ بڑی حد تک صحت وحقیقت سے تعلق رکھتے تھے۔

    ان کے علاوہ سیڈیش کمیٹی ۱۹۱۸ء کی رپورٹ مرتبہ رولٹ کمیٹی، مہاراجہ مہندر پرتاب کی ’’میری پچپن سالہ داستانِ حیات‘‘ ظفر حسن کی ’’آب بیتی‘‘ رتن لال بنسل فیروز آبادی کی ’’مسلم دیش بھگت‘‘ نہایت مستند ماخذ ہیں‘‘۔

    علازیں ازیں ایم عرفان کومولانا برکت اللہ کا ایک مکتوب ڈاکٹر حنیف نقوی سے ملا جو ان کے نانا منشی شاکر حسین نکہت سہسوانی کے نام تھا اور دوسرا خط علامہ ابو نصر سید احمد بھوپالی کو لکھا گیا تھا، ان مکتوبات سے عرفان صاحب کو مولانا برکت اللہ کے ان چار برس کے بارے میں تفصیلات فراہم ہوئیں جوجبلپور سے انگلینڈ پہونچنے کے درمیان انہوں نے بمبئی میں گزارے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ یوروپ، امریکہ جاپان اور روس کے بڑے بڑے شہروں کی خاک چھاننے والے اس مرد مجاہد کا دل  اپنے وطن کی یاد اور یہاں کی تنگ گلیوں نیز سیدھے سادھے لوگوں کی محبت میں تڑپتا رہتا تھا۔

    ابونصرسید احمد بھوپالی جو جامعہ ازہر میں پروفیسر تھے خود بھی مولانابرکت اللہ پر کام کرنا چاہتے تھے لہذا ان کے مکتوب سے عرفان صاحب کو مولانا کی جائے پیدائش کے تعین میں مدد ملی، مختلف ذرائع سے انہیں بعض نادر تصاویر بھی ملا جن کو کتاب کی زینت بنایا گیا۔ اس طرح مولانا برکت اللہ کے بارے میں جو مواد عرفان صاحب کو میسر آیا، اسے انہوںنے ۲۸۸ صفحات پر پھیلاکر ۱۲ ابواب میں تقسیم کردیا اور کمالِ خوبی کے ساتھ معروضی نقطہ نظر سے واقعات وحقائق کو سمجھنے اور ان کے بے لاگ تجزیہ کی کوشش کی، عرفان صاحب نے اس کتاب میں نہ صرف مولانابرکت اللہ بھوپالی کی داستان حیات کو رقم کیا بلکہ ایک مورخ کی طرح اس کے اسباب ومحرکات پر روشنی ڈالی اور حوالوں کی مدد سے حاصل شدہ نتائج پر بحث کی۔

    کتاب کا مقدمہ جو ڈاکٹر ذاکر حسین خاں کے مشورہ پر عرفان صاحب نے خود تحریر کیا نہایت مفید معلومات اور جائزہ پر مشتمل ہے، اس میںمولف نے مغلیہ سلطنت کے زوال اور انگریزوں کے برسراقتدار آنے کے محرکات پر بھی بحث کی، مقدمہ کے حصہ دوم سے جو ہندوستان کی جنگ آزادی میںبھوپال کے حصہ پر مشتمل ہے ہمیں سب سے پہلے عرفان صاحب ہی اس بغاوت سے متعارف کراتے ہیں جو ۱۸۵۷ء سے قبل منگل پانڈے کی قیادت میں یہاں برپا ہوئی  اور قصبہ سیہور میں ولی شاہ اور ان کے ساتھیوں کو ہندوستان کی پہلی متوازی حکومت ’’سپاہی بہادر‘‘ نام سے قائم کرنے کی پاداش میں انگریزوں نے گولیوں کا نشانہ بنادیا تھا، گو پورے ملک کی طرح آزادی کے لئے جلائی گئی یہ آگ شعلہ نہ بن سکی لیکن ایم عرفان کی قلمی کاوش سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ ریاست بھوپال کے جیالے عوام بھی مادرِ وطن کی آزادی کے لئے کسی سے پیچھے نہیں رہے۔

    برکت اللہ بھوپالی کی اس سوانح کے مثبت پہلوئوں کے ساتھ بعض منفی پہلو بھی ہیں، ایم عرفان نے بغیر کسی حوالہ کے مولانا برکت اللہ کا سنہ ولادت ۱۸۵۹ء تحریر کیا ہے جبکہ اس سے قبل ملارموزی نے ’’مشاہیر بھوپال‘‘ میں ۱۸۵۴ء اور بعد میں قاضی وجدی الحسینی صاحب نے اپنی کتاب ’’مولانا برکت اللہ بھوپالی‘‘ میں ۱۸۶۲ء قرار دیا ہے ان میں  صحیح کیا ہے عرفان صاحب کی تحقیق سے اس پر روشنی نہیں پڑتی، مولانا کے اول بیرون ملک سفر انگلستان کے بارے میںبھی عرفان صاحب اپنے اس دعوے کی دلیل دینے سے قاصر رہے کہ وہ شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے ایما پر وہاں گئے تھے حالانکہ ریشمی رومال تحریک کی تفصیلات مظہر ہیں کہ معروف انقلابی شیاما جی کرشن ورما کی ترغیب اور مالی اعانت کے نتیجہ میں وہ انگلینڈ پہونچے تھے، اس کے علاوہ شریف مکہ اور ترکی نمائندے کو باہم قریب لانے کے لئے عرفان صاحب نے جن کوششوں کا ذکر کیا ہے اس کا حوالہ بھی کتاب میںموجود نہیں۔

    ایم عرفان کی نظر سے نیشنل آرکائیوز دلی کا ریکارڈ نہیں گزرا، حالانکہ قیام  جاپان کی اس میںکافی تفصیلات موجود ہیں، خدابخش لائبریری میں ہفت روزہ ’’سچ‘‘ ایڈیٹر مولانا عبدالماجد دریابادی کی پوری فائل موجود ہے، اس کے مطالعہ سے ان مکتوب کا علم ہوتا ہے جومولانا دریابادی کو مولانا برکت اللہ وقتاً فوقتاً تحریر کرتے رہے ہیں، پریس سے مولانا برکت اللہ کو کس طرح نکالا، اس کی تفصیلات ملتی ہیں، مولانابرکت اللہ کی مشہور کتاب ’’خلافت‘‘ کے بارے میں بھی معلوم ہوتا ہے کیونکہ مولانا نے اس کی پچاس جلدیں ’’سچ‘‘ کے ایڈیٹر کو بھیجی تھیں، خلافت میں مولانا نے نظریہ خلافت پر تفصیل سے بحث کرتے ہوئے اس کی ضرورت واہمیت پر فی زمانہ دلائل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے انہوں نے تحریر کیا کہ حضرت علی مرتضیٰؓ کے بعد اسلام میں خلافت کی جگہ ملوکیت درآئی، جس سے اسلام کی حقیقی روح شورائیت کو صدمہ پہونچا لہذا اصلاح حال کے لئے خلافت کی تجدید ناگزیر ہے، مولانا حسرت موہانی کے رسالے ’’اردوئے معلیٰ‘‘ مئی،جون، جولائی۱۹۰۷ء کے دو شماروں میں ایک مضمون مولانا برکت اللہ بھوپالی ’’ہندو مسلم درہندوستان‘‘ کے زیر عنوان شائع ہوا تھا جس میںانہوں نے انگریزوں کی ہندوستان میں لوٹ گھسوٹ کا نقشہ کھینچ کر صنعت وحرفت کی بربادی اور محصول عائد کرکے یہاں کے مال ودولت کو اپنے ملک انگلستان منتقل کرنے کی داستان بیان کی تھی، مولانا دریابادی نے  مولانا حسرت موہانی کی وفات پر تحریر مضمون میں بھی اس کا حوالہ دیا ہے ، ڈاکومنٹس آف دی ہسٹری کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی پہلی جلد میں مولانا برکت اللہ بھوپالی کا کئی جگہ ذکر ملتا ہے اور اس پمفلٹ کا حوالہ بھی، جس میںمولانابرکت اللہ نے مسلمانوں کو تلقین کی تھی کہ کمیونزم سے انہیں خوف کھانے کی ضرورت نہیں، یہ بھی اسلام کی ایک شکل ہے، اس پمفلٹ کی ایک کاپی نیشنل آرکائیوز کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے دلی آفس میں محفوظ ہے، اسی طرح سہسوانی کے ’’مدینہ‘‘ بجنور میں شائع مضمون کی ایک کاپی جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ڈاکٹر ذاکر حسین لائبریری میں کافی خستہ حالت میں موجود ہے، راجہ مہیندر پرتاپ کی خود نوشت سوانح ’’مائی لائف آف فٹی فائیو‘‘ میں مولانا برکت اللہ بھوپالی کے افغانستان پہونچنے اور مولانا سے ان کی ملاقات نیز حکومت کے قیام اور مولانا کی زندگی کے آخری ایام کا  زیادہ تفصیل سے ذکر ملتا ہے۔

    مذکورہ حقائق کی تفصیلات کے بجائے صرف حوالے ایم عرفان کی کتاب میںملتے ہیں، تاہم بحیثیت مجموعی انہوں نے اپنی کتاب میں دشتِ تحقیق کی سیاحی سے اپنی فطری مناسبت ثبوت دیکر سارے مواد کو جو انہیں میسر آیا سلیقہ سے تحریر کردیا ہے اسی لئے بعد کے لکھنے والوں کیلئے وہ سند کا درجہ رکھتا ہے ایم عرفان کی اس سوانح کے بعد اگرچہ مولانا برکت اللہ پر اور بھی کتابیں منظر عام پر آئیں لیکن سبھی مذکورہ کتاب کا پرتو نظر آتی ہیں، علامہ قاضی سید عابد علی وجدی الحسینی مرحوم  ’’ کی کتاب  ’’مولانا  برکت اللہ بھوپالی‘‘ میں اگرچہ مولانا کی فکر ونظر کے تعلق سے بعض نئے پہلو سامنے آتے ہیں لیکن ڈاکٹر گومتی شن کشل کی ہندی میں کتاب ’’کرانتی دوت‘‘ جسے ۱۹۸۸ء میںکرشنا ہوم پرنٹنگ بھوپال نے طبع کرایا اور ڈاکٹر گومتی کو برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی، اس کتاب کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے ایم عرفان کی ’’برکت اللہ بھوپالی‘‘ کو سامنے رکھ کر اس کا ہندی میں ترجمہ کیا گیا۔ یہاں تک کہ کتاب کی تصاویر بھی ہو بہو نقل کی گئی ہیں ، اس طرح ہندی داں حلقہ کو مولانا برکت اللہ بھوپالی کے حالات زندگی اور کارناموں سے متعارف ہونے کا وسیلہ ضرور ہو گیا لیکن مولانا کے بارے میں کوئی نئی تحقیق سامنے نہیں آتی۔ حیدرآباد کے محمد یوسف رحمت اللہ کی کتاب ’’مولانا برکت اللہ بھوپالی‘‘ کو ٹیپو سلطان ریسرچ سینٹر حیدرآباد نے ۱۹۹۹ء میں شائع کیاہے۔۳۱ صفحات کے اس کتابچہ کو ایم عرفان اور قاضی وجدی الحسینی کی کتب نیز مولانا محمد میاں کی ’’ریشمی رومال تحریک‘‘ کی روشنی میں تحریر کیا گیا ہے۔ ایم عرفان کی کتاب کا ایک اور ترجمہ ۲۰۰۳ء کے دوران انگریزی میں زبان میں ڈاکٹر افتخار علی کے قلم سے باب العلم پبلیکیشنز بھوپال نے شائع کیا ہے لیکن مترجم نے ایم عرفان کی کتاب کے اس حصہ کو حذف کردیا ہے جس میں خاتمہ خلافت اور ترکی کی عثمانی سلطنت کے زوال کا واقعہ بیان کیا گیا یا دوسرے ان واقعات کو جن کی کتاب میں تکرار ہوئی شامل نہیں کیا ہے۔’’ نقیبِ انقلاب، مولانا برکت اللہ بھوپالی‘‘، شفقت رضوی کی ۲۰۰۴ء  میں خدا بخش پبلک لائبریری پٹنہ سے منظر عام پر آنے والی کتاب ہے، اس میں بھی ایم عرفان کی کتاب سے استفادہ کیا گیا ہے، مولانا برکت اللہ بھوپالی کی تاریخ پیدائش پر غیر ضروری اور طویل بحث ہے، حالانکہ مؤلف کو صرف اپنی رائے کا اظہار کردینا چاہئے تھا، کتاب میں یہ بھی تحریر ہے کہ برکت اللہ بھوپالی کے والد کا ان کے قیام بھوپال کے دوران انتقال ہوگیا تھا، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ برکت اللہ کے بھوپا ل سے جانے کے بعد ان کے والد کا یہ معمول  تھا کہ وہ اپنے مکان کے باہر پلنگ بچھا کر بیٹھ جاتے تھے تاکہ برکت اللہ لوٹیں تو انہیں دیکھ کر اپنے مکان کو پہچان لیں، شفقت رضوی کی کتاب میں کئی پاکستانی کتب کے حوالے  ملتے ہیں، اس کی ایک ہی خصوصیت ہے کہ برکت اللہ کے فارسی مکتوبات کا اردو میں ترجمہ کرکے ان کی تفصیلات کو اردو داں قارئین کیلئے سہل الحصول بنا دیا گیاہے۔

    سعودی عرب کے ایک اسکالر پروفیسر صالح سامرائی نے جو ٹوکیو میں طویل عرصہ سے مقیم ہیںمولانا برکت اللہ بھوپالی کے بارے میں تحقیق وجستجو کے بعد وہاں ان کے قیام اور ٹوکیویونیورسٹی میں پروفیسر کی حیثیت سے خدمات نیز ہندوستان کی آزادی کیلئے مولانا کی سعی مسلسل پر کافی مواد جمع کرلیا ہے، موصوف کے پاس مولانا برکت اللہ کے جاپان سے شائع ’’اسلامک فٹرینٹی کے  شائع بیس شماروں میں سے دو شمارے بھی ہیں ۱۹۹۵ء میں بھوپال تشریف لائے تو ان شماروں کی فوٹو کاپیاں یہاں کئی اداروں کو دیکر گئے تھے۔

    مختلف اہل قلم اور محققوں کے مذکورہ کام کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ مولانا برکت اللہ بھوپالی کی جدوجہد آزادی میں خدمات اور حیات پر نیشنل آرکائیوز کے ریکارڈ کو پیش نظر رکھ کر مزید کام کی ضرورت ہے تاکہ اس عظیم محب وطن کے شایانِ شان ایک کتاب اور مرتب ہوسکے۔ یہ کام برکت اللہ یونیورسٹی کے شعبہ عربی سے زیادہ بہتر طریقے پر اور کہیں نہیں ہوسکتا۔

(یو این این)

(شعبہ عربی برکت اللہ یونیورسٹی کے انٹرنیشنل سیمینار میں پیش کیا )

***********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 566