donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr Gholam Shabbir Rana
Title :
   Arif Shafiq : Yeh Zindagi Bhi Khwab Hai Too Khwab Se Nikal

      عارف شفیق:یہ زندگی بھی خواب ہے تُوخواب سے نکل 


ڈاکٹر غلام شبیر رانا


       عارف  حسین  دھوکا  سہی  اپنی زندگی
       اس زندگی کے بعدکی حالت بھی ہے فریب  


      سال 2019نے جاتے جاتے گلشن ِ ادب سے ایک اور عنبر فشاں پھول توڑ لیا ۔صرصرِ اجل کے بگوں کی زدمیں آ کراردو شاعری کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی زمیں بوس ہو گئی ۔کراچی میں مقیم اردو زبان کے مایہ ناز ادیب،دانش ور ، صحافی ،محقق،نقاد اور منفرد اسلوب کے حامل شاعر عار ف شفیق 14۔دسمبر 2019کو خالق حقیقی سے جاملے ۔ 31۔اکتوبر  1956کو ممتاز نعت گو شاعرشفیق بریلوی کے گھر لیاقت آباد،کراچی سے طلوع ہونے والا علم و ادب کا یہ آفتاب جہاں تاب غروب ہو گیااب ظلمت ِشب کا احساس اور بڑھے گا۔ عارف شفیق کی نمازِ جنازہ ایف ۔سی ایریا میں واقع الفلاح مسجد میں ادا کی گئی ۔اس کے بعد یہ منکسر المزاج تخلیق کار رادئے خاک اوڑھ کر ابدی نیند سو گیا۔ عارف شفیق کے والد شفیق بریلوی نے اردو شاعری میں تحقیق کی جو عظیم الشان روایات پروان چڑھائیں ان کاایک عالم معترف ہے ۔اردو نعت گوئی کے چودہ سو سال کے سرمائے کا انتخاب انھوںنے اپنی تالیف ’’ ارمغانِ نعت‘‘ (مطبوعہ 1975) میں شامل کیاہے ۔اس کے علاوہ شفیق بریلوی کی تصانیف’’ گہر ہونے تک‘‘ ( 1991) اور ’’صدف صد ف گہر ‘‘( 1994) بھی ادب کے ذوق سلیم سے متمتع قارئین نے بہت پسندکیں ۔عارف شفیق گزشتہ کچھ عرصے سے سانس کی بیماری اور فالج کے باعث اپنے گھر میں بستر تک محدود ہ کر رہ گئے تھے ۔ چندروز قبل ان کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تو انھیں کراچی کے ایک ہسپتال میںداخل کرایا گیا جہاں وہ انتہائی نگہداشت کے شعبے میں زیر علاج تھے ۔ ان کی زندگی نے وفا نہ کی اوروہ گزشتہ روز پیمانۂ عمر بھر گئے۔ ان کے پس ماندگان میں ایک بیوہ دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ عارف شفیق کا نام علمی و ادبی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں۔کراچی سے شائع ہونے والے ادبی مجلے ’’اخبار ِ جہاں ‘‘میں ان کا ترتیب دیا ہوا ادبی صفحہ قارئین کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔معاشرتی زندگی کے تضادات ،بے اعتدالیوں،طبقاتی کشمکش،استحصالی عناصر کی مناقشت پر مبنی شقاوت آمیز نا انصافیوںاور قسمت سے محروم مظلوم انسانیت کی زندگی کے جُملہ نشیب و فراز پر کڑی نظر رکھنے والے، انسانی ہمدردی کے جذبات سے سرشار اس فطین ،فعال ،مستعد اور مخلص تخلیق کار کی علمی ،ادبی اورقومی خدمات کو وطن عزیز کے علمی و ادبی حلقوںنے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھاہے۔عارف شفیق کی شاعری فکر و نظر کو مہمیز کر کے قلب ،روح اور وجدان پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے ۔ منفر د اسلوب کی مظہراس شاعری کی اثر آفرینی کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے اورقاری اس کے سحر میں کھو جاتا ہے۔جس انداز میں یہ شاعری جامد و ساکت پتھروں ،سنگلاخ چٹانوںاوربے حِس مجسموںپر اثر انداز ہوتی ہے اس سے یہ تاثر قوی ہو جاتا ہے کہ تخلیقِ فن کے لمحوں میں اس زیرک ،حساس اور دردِ دِل رکھنے والے تخلیق کار نے خون بن کر رگِ سنگ میں اُترنے کی جو سعی کی ہے ،وہ ثمر بار ہو چکی ہے۔اپنے شعری تجربوں کو رو بہ عمل لاتے ہوئے عارف شفیق نے زندگی کے نئے امکانات تک رسائی کی جو سعی کی ہے وہ ہر اعتبار سے لائقِ تحسین ہے۔اس نوعیت کے تخلیقی تجربات کے اعجاز سے جمود کے خاتمے اور حرفِ صداقت لکھنے کی روش کو مہمیز کرنے میں مدد ملتی ہے۔سماجی زندگی میں پائی جانے والی اذیت ناک منافقت ، تباہ کن تعصبات ، حوصلہ شکن تضادات اور مایوس کن نا انصافیوں کے خلاف عار ف شفیق نے ہمیشہ کھل کر لکھا ہے۔ طبقاتی کش مکش کے موضوع پر عارف شفیق کے تخلیقی وجدان اور حریتِ فکر کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔معاشرتی زندگی کے تضادات ، کجیوں ،بے اعتدالیوں ،بے ہنگم ارتعاشات اور نا ہمواریوں کی تصویر کشی کرتے وقت عارف شفیق نے جس خلوص اور دردمندی کا مظاہرہ کیا ہے وہ ان کی جدت ِ فکر اور وجدانی کیفیات کی عمدہ مثال ہے :

          غریبِ شہر تو فاقے سے مر گیا عارفؔ
          امیرِ شہر نے ہیرے سے خود کُشی کر لی
          میں نہ درویش نہ صوفی نہ قلندر عارف ؔ
         اور ہی  کچھ  مجھے وجدان  بنا دیتا ہے 

        قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ایک حساس تخلیق کار کو فکری اعتبار سے متعدد مسائل کا سامنا ہے ۔ معاشرتی زندگی میںاسے مصائب و آلام کے پاٹوں میں پِستی ہوئی دُکھی انسانیت کے مسائل سنگلاخ چٹانوں اور بے حس و جامد ٹیلوں اور گرتی ہوئی فصیلوں کے سامنے بیان کرنا پڑتے ہیں ۔ مادی دور میں زندگی کے اعصاب شکن داخلی تضادات اور سماج کے مناقشات نے فکر و نظر پر دُور رس اثرات مرتب کیے ہیں۔یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ ہماری حباب کی سی ہستی میں سراب کی سی کیفیت ہے جو نہ ہونے کی ہونی کی خبر دیتی ہے۔ اپنے تخلیقی سفر میںزمانہ ساز لوگوں سے اپنا دامن بچاتے ہوئے اور دُنیا داری کے پردے میں بھی معرفت کی شمع فروزاں رکھتے ہوئے عارر ف شفیق نے فقر و مستی کی شانِ استغنا کو ہمیشہ زادِ راہ بنایا ہے ۔ اپنی انا اور خود داری کا بھرم برقرار رکھتے ہوئے عارف شفیق نے صبر و تحمل سے کٹھن حالات کا نہایت خندہ پیشانی سے سامنا کیا ۔حریتِ ضمیر سے جینے کی راہ اپنانے والے اس جری،بے باک اور مخلص تخلیق کار نے تیشۂ حرف سے فصیلِ جبر کو منہدم کرنے کی مقدور بھر سعی کی ۔درِ کسریٰ پر صدا کرنا اس کے مسلک کے خلاف تھا وہ جانتا تھا کہ ان کھنڈرات میں ملخ ومُور ،بُوم و شِپر ،زاغ وزغن، حنو ط شدہ لاشوں ،مجسموں اور خذ ف ریزوں کے سوا کچھ موجود نہیں ۔ سیلِ زماں کے تھپیڑوں نے ان کے سب کس بل نکال دئیے ہیں۔عار ف شفیق نے جبر کے سامنے سپر انداز ہونے کو منافقت،بزدلی اور دُوں ہمتی سے تعبیر کیا ۔عار ف شفیق کواس بات پرگہری تشویش تھی کہ وہ ادیب جو اپنی انا اور خودداری کا بھرم رکھتے ہوئے حریتِ ضمیرسے جینے کی تمنا کرتے ہیں ان پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا جاتاہے ۔استحصالی معاشرے میں حق گوئی و بے باکی کو شعار بنانے والے تخلیقی فن کار کا کوئی پرسان حال نہیں ۔کیسے کیسے جوہرِقابل زمانے کی ناقدری کی بھینٹ چڑھ کرگوشہ ٔ  گم نامی میں چلے گئے ۔یہ حالات کی ستم طریفی نہیں تواور کیا ہے کہ اس بے حس معاشرے میں جاہل بھی اپنی جہالت کاانعام ہتھیانے میں کامیاب ہو جاتاہے ۔وقت کے اس لرزہ خیزسانحہ کوکس نام سے تعبیرکیا جائے کہ چربہ ساز،سارق ،کفن دُزد اور لفاظ حشرات سخن کی تو پانچوں گھی میں ہیں مگر حقیقی تخلیق کار کے دِلِ شکستہ کا حال پوچھنے کی کسی کو فرصت ہی نہیں۔وہ جعل سازجوفن کار کاسوانگ رچاکر گلشنِ ادب میں گھس بیٹھے ہیں وہ رواقیت کے داعی بن کراکڑتے پھرتے ہیں ۔ قلم فروشی کرنے والے ضمیر فروش بونے اپنے تئیں باون گزے بن بیٹھے ہیں اور ذہین تخلیق کاروں کے در پئے پندار ہیں۔ ایک رجائیت پسند ادیب کی حیثیت سے عارف شفیق نے زندگی بھر ظلمت ِ شب کی شکایت کرنے کے بجائے اپنے حصے کی شمع فروزاں رکھنے پر اصرا ر کیا۔ مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے اس متوکل فقیر کی زندگی شمع کے مانند گزری ۔ انتہائی کٹھن حالات میں بھی عارف شفیق نے صبر و تحمل اور امید کا دامن نہ چھوڑا اور نہایت خاموشی اور عزم و یقین کے ساتھ اچھے دنوںکا انتظار کیا ۔اس فقیر نے یہ بات واضح کر دی کہ کشتِ جاں میں قناعت و استغنا کا نخل بوکرراحت و مسرت کا حیات بخش ثمر ِ نورس حاصل کیا جا سکتاہے ۔ عار ف شفیق کی شاعری میںفقر کی ایک ایسی شان ہے جس کے معجز نما اثر سے قاری کے لیے زندگی کے خوش رنگ دامن میں نہاں موت اور وجود کے پر کشش لبادے میںاوجھل عدم کی سب کیفیتوں کی تفہیم سہل ہو جاتی ہے:

        ٹوٹا    کاسہ ،میلی  چادر  اور  فقیری کیا ہوتی ہے
        پُوچھے خالی   پیٹ کا   پتھر  اور فقیری کیا ہوتی ہے
       اللہ ہُو کی   ایک صدا سے کیف کے چشمے جاری ہیں 
       وہ ہی وہ    ہے دِل کے اندر اور فقیری کیا ہوتی ہے
      چھوڑ کے خواہش اِس دنیا کی،کر کے مسلک صبر و رضا کو 
      آ بیٹھا  ہوں  اُس  کے  در پر اور فقیری کیا ہوتی ہے
       روح نے بھی محسوس کیا ہے دل کی آنکھ نے دیکھا ہے
      کون و مکاں   سے  آگے بھی اِک نُور کا دریا بہتا ہے
       بھید بھرے رستوں کے مسافر خود کو ڈھونڈنے نکلے ہیں
        دنیا کے  اس  شو  ر سے آگے موت کا اِک سناٹا ہے
        آگے  فنا  کی  سرحد سے سب بھید بقا کے کُھلتے ہیں
        آخر   ہر  اِک   قطرہ   اپنے  دریا سے جا ملتا ہے

        عارف شفیق نے اپنے داخلی جذبات کے علاوہ زندگی کے خارجی اور جامد و ساکت مظاہر کو بھی اپنے اسلوب میں نمایاں جگہ دی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسے زندگی کی حرکت و حرارت اور فکر و خیال کے ارتقا میںان مظاہر کے اہم کردار کا پُختۃ یقین ہے۔جس طرح فطرت خود بہ خو د قبائے گُل کے نکھار نے اورلالے کی حنا بندی میں ہمہ وقت مصروف ہے اسی طرح تخلیق کار کے ذہن و ذکاوت اور وادیٔ خیال کی تزئین و آرائش میںفطرت کی ہمہ گیر اثر آفرینی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔عار ف شفیق نے فطرت کے مقاصد کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا اور فضاؤں میں پھیلے ہوئے بے شمار مظاہرِ فطرت کواپنے فکر و فن کی اساس بنا کرزندگی کی حقیقی معنویت کو اُجاگرکرنے کی مقدور بھر سعی کی ہے ۔زندگی کے مسائل کا احساس وادراک عارف شفیق کی شاعری کا امتیازی وصف ہے۔اسی احساس سے سرشار ہو کر وہ اپنی شاعری میںمضامین اور ہیٔت کے نئے اور متنوع تجربات پر مائل ہوتا ہے۔ ذوقِ سلیم کے مظہر اس کے تخلیقی تجربات کے اعجا زسے قاری احساس ،ادراک اور وجدان کی متاعِ بے بہا سے متمتع ہوتا ہے۔حریتِ فکر کے ایک مجاہد کی حیثیت سے عارف شفیق نے تخلیقِ فن کے لمحوں میں زندگی کے متعدد نئے حقائق تک رسائی کے امکانات کو پیشِ نظر رکھا ہے ۔معاشرتی زندگی میں ہمارے قومی تشخص کو جن مسائل کا سامنا ہے عارف شفیق کی ان پر گہری نظر ہے۔اس کاخیال ہے کہ سماجی زندگی کو جن کٹھن حالات کاسامنا ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِس قدر لرزہ خیز اور گمبھیر صورت اختیار کر لیں گے کہ ان کے مسموم اثرا ت سے زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر ہونے کا خدشہ ہے۔وہ جس خلوص اور دردمندی سے ارضِ وطن ،اہلِ وطن اور انسانیت کے ساتھ عہدِ وفا استوار رکھنے پر اصرار کرتا ہے وہ اس کی فکری بصیرت اور تخلیقی وسعت کی دلیل ہے ۔

                 انساں  کوئی  ملا  نہیں انسان کی طرح
                 پھیلی ہیں نفرتیں یہاں سرطان کی طرح 
                 کیوں  تلخ ہے  حیات کوئی سوچتا نہیں 
                  توڑے  حصارِ ذات کوئی سوچتا نہیں 
                  ظلم  کی  تیرگی   میں  دیا   چاہیے 
                  اپنی  پہچان   اپنا   پتا       چا ہیے 
                  زبان  و نسلی   تعصب سے کیا ملا ہم کو 
                  کہ  نفرتوں  نے  تو زندہ جلا دیا ہم کو

                پس نو آبادیاتی دور میں معاشرتی زندگی میں ہوس ،حرص اور خودغرضی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ حقائق سے شپرانہ چشم پوشی کووتیرہ بنانے والے سفہا بالعموم مرغانِ باد نما کی صورت میں منڈلاتے ،گوسفندانِ سیاہ کے مانندمنمناتے ، کولھو کے بے دُم خچر کی طرح ہنہناتے،سفید زاغ کی طرح کائیں کائیں کرتے اور مگر مچھ کی صورت آنسو بہاتے دکھائی دیتے ۔ عارف شفیق نے واضح کیاکہ ان فصلی بٹیروں  کی بڑھتی ہوئی نا شکری ان کی تہی دامنی اور بے کمالی پر منتج ہوتی ہے ۔اس عبرت سرائے دہر میں ہر طرف احسان فراموش ،محسن کش ،نمک حرام،آستین کے سانپ اور ابن الوقت بگلا بھگت مسخروں کے غول کے غول اُمڈ آئے تھے ۔بغل میں چھری اور منھ میں رام رام کرنے والے ان جو فروش گندم نما منافقوں نے اہلِ درد کی زندگی اجیرن کر ر کھی تھی ۔ استحصالی معاشرے میں سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا کم ظرف اور بے ضمیر آدمیوں کی پانچوں گھی میںہیںمگر مخلص ،ایثار پیشہ اور وفا شعار انسانوں کاکوئی پرسانِ حال نہیں۔اس پر طرفہ تماشا یہ کہ اس شہر ِ سنگ دِل کے سفہا اور اجلاف و ارذال نے  اپنے مکر کی چالوں سے سادہ لوح لوگوں کی زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر دی ہیں۔ایسی فضا میں خلوص کے متلاشی حساس تخلیق کار حواس باختہ ،غرقابِ غم ،نڈھال اور خوار و زبوں دکھائی دیتے ہیں ۔ ایسا محسوس ہوتا تھاکہ ان الم نصیب انسانوں کے گھر کے آ نگن سے قزاق ِ اجل کا لشکر سب کچھ پامال کر کے آ گے نکل گیاہے ۔ عارف شفیق کو اس بات کاملال تھاکہ معاشرتی نظا م میں منافقت ،پیمان شکنی اور دروغ گوئی کا زہر سرایت کر گیاہے۔وہ شخص جس کے بارِ احسان سے معاشرے کی گردن جھکی رہتی تھی ،بے حس اور سنگ دل معاشرے سے تعلق رکھنے والے لوگ اسی کو دار پر کھنچوا نے میں کوئی تامل نہیںکرتے ۔

      راہ میں پہلے  تو آ نکھوں کو بچھا دیتے ہیں 
     پھر اُسی شخص کو سُولی  پہ  چڑھا  دیتے  ہیں 
     بُھوکے بچوں کو سُلانے کے لیے غربت میں
     بادشاہوں  کا  کوئی  قصہ  سنا  دیتے ہیں

          عارف شفیق کو اس بات کا شدت سے احساس تھاکہ معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز کا مشاہدہ ،سماجی حقائق سے وابستہ مسائل کا مطالعہ ،اپنے مافی الضمیر کی ترجمانی اور جمالیاتی اقدار کا انصاف اور عدل سے کام لیتے ہوئے استحسان تخلیق کارکااہم منصب ہے ۔ایک مکمل نوعیت کے تخلیقی  بیان میں تخلیق اور اس کے پس پردہ کار فرمامحرکات کے بارے میںمتعدد حقائق کی جانب اشارہ کیا جاتاہے ۔تخلیقی بصیر ت اور فنی مہارت سے مزین یہ بیان تخلیقِ فن کے بارے جن مختلف عوامل کی جانب متوجہ کرتاہے وہ قاری کے لیے اس فن پارے کی تفہیم میں خضر راہ ثابت ہوتے ہیں ۔ایک دیانت دار اور جری تخلیق کارانصاف کا ترازو ہاتھ میں لے کر اپنے ذاتی تجربات ،مشاہدات اور تاثرات کو رو بہ عمل لاتے ہوئے اپنے تخلیقی فن پارے میں زندگی کے بارے میںسب حقائق کی گرہ کشائی کرتاہے ۔ جہاں تک جمالیاتی تاثرات کاتعلق ہے ادیب اپنی توجہ اس امر پر مرکوزرکھتاہے کہ تخلیق فن کے اہم حوالوں کاجائزہ لیتے وقت تہذیبی و ثقافتی میراث کوبھی پیشِ نظررکھیں۔ہوائے جورو ستم میں بھی شمع ِ وفا کو فروزاں رکھنا ،حریت ِ ضمیر سے جینا اور حریتِ فکر کا علم بلند رکھنا زندگی بھرعارف شفیق کا شیوہ رہا ۔ عارف شفیق کا شمار اپنے عہد کے ان جری انسانوں میں ہوتا تھا جنھوں نے حق گوئی و بے باکی کو سدا اپنا شعار بنایا ۔موقع پرست سادیت پسند عناصر کے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر بھی عارف شفیق دِل بُرا نہ کرتا۔ خونِ خاک نشینا ں پیہم رزقِ خا ک ہو رہا تھا مگریہاں تو نہ کوئی مدعی تھا اور نہ ہی کوئی شکایت۔اس پر ستم بالا ئے ستم یہ کہ مظلوم طبقہ اسی شش و پنج میں مبتلا تھاکہ بے حسِ مقتدر حلقے کی پر اسرار خاموشی اور ان کے پروردہ اہلِ جور کی بڑھتی ہوئی بے داد کی فریاد وہ کس کے سامنے کرے ۔ جب شہرِ سنگ دِل کے ہوس پرست مکینوں نے دستانے پہن رکھے ہوں تو ایک حساس تخلیق کاراپنے دل کی اُمنگوں او ر ارمانوں کا لہوکس کے ہاتھ پر تلاش کرے۔اپنے آنسوؤںکو پیرایۂ اظہار عطاکرتے ہوئے عارف شفیق نے کہا تھا:

         جو فن کی آبرو تھے وہ گم نام  ہی  رہے 
        جو  فن خریدتے تھے وہ فن  کار بن گئے
        اب  کارواں کو  راہ میں لُٹنے  کا ڈر نہیں
        جو   رہزن تھے  قافلہ  سالار  بن گئے  

    عارف شفیق کو اس بات کا شدید قلق تھا کہ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں محسن کشی کی وہی قبیح صور ت نمو پا رہی ہے جو بروٹس اور جولیس سیزر کے زمانے(100BC-44BC) میں تھی ۔ اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدا ت سے عارف شفیق اس نتیجے پر پہنچا کہ کوفہ کے مانند اس شہرِ نا پُرساں میں لیلائے وفا اپنے بال کھولے حسرت و یاس کی تصویر بنی در بہ در اورخاک بہ سر ستم کشِ سفر رہنے پر مجبور ہے ۔جب محسن کش اور نمک حرام بروٹس سنگِ ملامت لیے اہلِ درد کے خلاف صف آرا ہوتے ہیں تو ہر انسان کو دلی صدمہ ہوتا ہے ۔اپنے محسن کے ٹکڑوں پر پلنے والے وہ بروٹس جن کے بارے میںیہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ آزمائش و ابتلا کی گھڑی میںمرہم بہ دست آ ئیںگے ،انہی کو جب اپنے کرم فرما پر خنجر آزما ہوتے دیکھتا ہے تو اس کا جی گھبر جاتا ہے اور اُس کے دِلِ صد چاک سے آ ہ نکلتی ہے ۔ وقت کی مثال بھی سیلِ رواں کی تند و تیزموجوں کی سی ہے ۔اس دنیا میں کوئی بھی شخص خواہ اس کی قوت و ہیبت کتنی ہی جہاں گیرکیوں نہ ہوسیلِ زماں کے تھپیڑوں کے سامنے بے بس دکھائی دیتا ہے۔درِ کسریٰ سے یہی صدا سنائی دیتی ہے کہ کوئی شخص ایڑی چوٹی کا زور لگا لے وہ بیتے لمحات کی چاپ اورپُلوں کے نیچے سے بہہ جانے والے آبِ رواں کے لمس سے دوبارہ کسی صورت میں فیض یاب نہیں ہو سکتا۔عارف شفیق کی زندگی بھی گردشِ ایام کے اسی مد و جزر کی بھینٹ چڑھ گئی ۔

                    زمیں سے آئے ہیں یا آسماں سے آئے ہیں 

                  عذاب شہرپہ   جانے  کہاں  سے آئے ہیں 
                 میرے پڑوس  میں  رہتا  نہیں  اگر    کوئی 
                 تو  میرے  صحن  میں  پتھر کہاں سے آئے ہیں 
                   میرے مالک تیرے بندوں سے محبت کرتے 
                  عمر گزری  ہے  فقط    یوں ہی عبادت کرتے    
                 جب  یہ  انسان بھی غاروں میں رہا کرتے تھے
                درد  اِک  دوسر  ے  کا  بانٹ   لیا کرتے تھے   

       عارف شفیق نے اس عالمِ آب و گِل میں حقائق،خواب اور سراب کے بارے میں پائی جانے والے تذبذب ،اضطراب او ر تشویش کے بارے میں ایک واضح اورقابلِ فہم اندازِ فکر اپنا یا ہے ۔ اپنی مٹی کی محبت اس کے ریشے ریشے میں سما گئی ہے جس کا بر ملا اظہار اس کی شاعری میںموجود ہے ۔ اپنی تہذیب و ثقافت ،ادب اور فنون لطیفہ کو وہ اپنے آبا واجداد کی ایسی عظیم میراث قرار دیتا ہے جوہر محبِ وطن کے لیے لائق صد افتخار ہے۔رخشِ حیات مسلسل رو میں ہے اور سماج کی اجتماعی قدریں ہوں یا معاشرتی زندگی کے معمولات سب تغیر و تبدل کی زد میں ہیں۔ہڑپہ ،ٹیکسلا،موہنجو دڑو اور شورکوٹ کے کھنڈرات زبانِ حال سے یہ کہہ رہے ہیں کہ سیلِ زماں کی مہیب موجوں میںاقوام تو خس و خاشاک کے مانند بہہ جاتی ہیں مگر تہذیب و ثقافت کے نقوش باقی رہ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی شاعری کے وسیلے سے نئی نسل میں اپنی تہذیبی و ثقافتی میراث کے بارے میں حقیقی شعور پروان چڑھانے کا آرزو مند ہے ۔ہر کسی سے اخلاق اور اخلاص سے پیش آنا عارف شفیق کا شیوہ تھا۔مارِ آستین کوبھی اس نے کچلنے کی کبھی کوشش نہ کی بل کہ ہمیشہ اس کج رو کی اصلاح کی تدبیر کی ۔ اپنی مضبوط اور مستحکم شخصیت کے اعجاز سے عارف شفیق نے کردار کی عظمت تک رسائی حاصل کی ۔اس کا روّیہ ہمیشہ تعمیری ہی رہا کسی کی تخریب سے اس کاکوئی تعلق نہ تھا۔ 

       حرف جب مٹنے لگیں  تم دیکھنا اوراق پر 
     خونِ دِل سے جو لکھا ہوگا ،لکھا  رہ جائے گا
       وار کر سکتا  توہوں  میں اپنے دشمن پر مگر 
     سوچتا ہوں درمیاں پھر فرق کیا رہ جائے گا

        عارف شفیق کے تخلیقی وجدان اور قاری کی سوچ میں ایک ایسی پُر کیف ہم آہنگی پروان چڑھتی ہے جو موثر ابلاغ کو یقینی بنا دیتی ہے ۔عارف شفیق کو  اس بات کا قلق ہے کہ زندگی کی مسلمہ صداقتوں ،ارفع معائر ،لائق تقلید تصورات، درخشاں روایات اورا قدارِ عالیہ کو پسِ پشت ڈال کر مغرب کی کورانہ تقلید کی روش نے قومی کردار کو ناقابل ِتلافی نقصان پہنچایا ہے۔اپنی شاعری میں عارف شفیق نے زندگی کے جن حقائق کی جانب متوجہ کیا ہے ان کی تفہیم سے عصری آگہی کو پروان چڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔عارف شفیق کے شعور اور وجدان میں ذوق سلیم کی نمو اور صریر خامہ کے کمالات میں اس کے ذاتی تجربات ،مشاہدات اور احساسات کا نہایت اہم کردار ہے۔مواد ،موضوعات اور ہئیت کے حسین امتزاج سے عارف شفیق  نے اپنی شاعری میںجو دھنک رنگ منظر نامہ پیش کیا ہے وہ اس کی انفرادیت کا منھ بو لتا ثبوت ہے۔عارف شفیق کے آٹھ شعری مجموعوں کی اشاعت سے اُردو شاعری کی ثروت میںقابلِ قدر اضافہ ہوا ہے ۔عارف شفیق کے مداحوں کے دل میں تازندگانی اس کی دائمی مفارقت کا داغ ایک نشانی کی صورت میں موجود رہے گا۔زمانے میں کتنے انقلاب آئیں مگر ہمارے دلِ حزیں میں عارف شفیق کے غم کا سکہ ہی چلے گا۔ حیف صد حیف اجل نے خاموشی کا حکم سنا کر اردو ادب کے اس ہنستے بولتے چمن کو حشر تلک مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھا دیاہے مگر جس سمت بھی نظر اُٹھتی ہے عارف شفیق کی مانوس آواز کی بازگشت سنائی دیتی ہے :

    یوں بیٹھا ہو ں اپنی ذات کے اندر چُپ 
    جیسے  بچہ  ہو  جاتا  ہے  ڈر  کر چُپ  
   گولی  کی  آواز  میں  پھر اِک چیخ دبی 
    خوشبو ،  جگنو ،  تتلی ،  پھول  ،کبوتر چُپ 
    سڑکوں پر پھر اُبھری بھاری بُوٹ کی چاپ 
    شام  ہوئی  تو پھیل رہی ہے گھر گھر چُپ 
     میں  نہ پیمبر، نہ اوتار،  نہ   سادھو  تھا
    کب تک پیٹ پہ باندھ کے رہتا  پتھر چُپ

           امریکہ میں مقیم اردو زبان کے ممتازشاعر تنویر پھول نے عارف شفیق کی تاریخ وفات عیسوی اور ہجری سال میں لکھی ہے :

       شیریں  سخن  تھا داد وہ پاتا تھا بزم میں
      مخلص تھا،نیک خُو تھا،سبھی سے تھاوہ خلیق 
      لب پر دعا ہے پھولؔ خدا کے کرم سے ہو
     ’’ سیراب  داد  خلدِ بریں  عارفِ شفیق ‘‘                 

(2019  ۔ عیسوی)


    ------------------------------------------------------------------

     کیا  تجزیہ  تھا  اس کا غریب و امیر کا 
     اس کے سخن میں قلب نے پایا سرودِ عقل 
     افسوس  پھولؔ!اب وہ جہاں سے گزر گیا
     کہہ’’ عارفِ  شفیق  صراطِ  نمود ِ عقل‘‘               

( 1441۔ہجری)

   
      معاشرے کے مفلوک الحال طبقے کے ساتھ عارف شفیق نے جو عہدِ وفا استوارکیا اسی کو علاج ِگردشِ لیل و نہار سمجھتے ہوئے زندگی بھر اس پر عمل پیرا رہے ۔ جاگیر دار طبقے کے استحصالی ہتھکنڈوں کے وہ سخت خلاف تھے ۔ وہ ظالم و سفاک استحصالی طبقے کے خلاف شعلہ ٔ جوالا بن گئے ۔ہوائے جو روستم کے تندو تیز بگولوں میں بھی اس جری تخلیق کارنے مشعلِ وفا کوفروزاں رکھا ۔ اپنی دھن میں مگن رہنے والے اس فقیرمنش ادیب کوعیش کیخسروی ،صولت ِ بہمنی ،شانِ سکندری ،جلال ِ قیصری اور دارا وجم کی سطوت و ہیبت کبھی مرعوب نہ کر سکی ۔ مسلسل شکستِ دِل کے نتیجے میں معاشرتی زندگی میں ایسی تکلیف دہ بے حسی پید اہو چکی ہے کینہ پروری ،حسداور دروغ گوئی نے رسم جہاں کی صورت اختیا کر لی ہے۔یہ سوچ کر دِل  بیٹھ جاتاہے کہ  ہماری بزم سے خلوص ومروّت ،ایثار اوروفا کے ایسے پیکرکے اُٹھ جانے سے چار سُو مہیب سناٹوں اور جان لیوا ظلمتوں کی جو کالی گھٹاچھاگئی ہے اس میں سانس کیسے لیں گے ۔ عارف شفیق کی دائمی مفارقت کے ساتھ ہی وضع داری ،عجز وانکسار نے ہماری بزم سے رخت ِسفرباندھ لیاہے۔عارف شفیق کی رحلت کے بعد ایسی ہفت اختر شخصیت کی کمی کا شدت سے احساس ہو گا۔  عارف شفیق کے آ ٹھ شعری مجموعے شائع ہوئے ۔ان کا یہ شعری مجموعہ بہت مقبول ہوا۔
     عارف شفیق:میر ے کشکول میں ہیںچاند سورج،ادبی دنیا ،کراچی،اشاعت اول ،اپریل۲۰۱۴۔
 
--------------------------------------------------------------------------------------

Dr.Ghulam Shabbir Rana ( Mustafa Abad Jhang City )                                                   
              

 
     

Comments


Login

You are Visitor Number : 2190