donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Maulana Abul Kalam Azad Hindu Muslim Ittehad Ke Paikar


ڈاکٹراحسان عالم

رحم خاں، دربھنگہ

 

مولانا ابوالکلام آزاد۔ہندومسلم اتحادکے پیکر


    نظریہ پاکستان کے جتنے مولانا مخالف تھے، اتنے ہی متحدہ قومیت کے حامی تھے۔ ان کی نظر آزادی وطن کے حصول اور اس کی بقا کے لئے ہندومسلم اتحاد ہی نسخہ کیمیا تھا۔ انہوں نے دو قومی نظریہ کی شدید مخالفت کی اور ہندو مسلم دونوں ہی کو ہندوستان میں شیر و شکر بن کر رہنے کی تاکید کی۔ انہیں اخوت و محبت اور بھائی چارگی کا درس دیا ۔ ہندومسلم اتحاد ان کی نظر میں کس قدر اہم تھا، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں اتحاد کی قیمت پر آزادی بھی قبول نہ تھی۔ چنانچہ ۱۹۳۳ء کی انڈین نیشنل کانگریس کے اجلاس دہلی میں آپ نے واضح طور پر فرمایا:

’’ہندو مسلم اتحاد کے بغیر ہمیں تو آزادی نہیں مل سکتی بلکہ اس کے بغیر انسانیت کے ابتدائی اصول بھی اپنے اندر نہیں پید اکرسکتے۔ آج اگر ایک فرشتہ آسمان کے بدلیوںسے اتر آئے اور قطب مینار پر کھڑے ہوکر یہ اعلان کردے کہ سوراج ۲۴ گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے، کہ بشرطیکہ ہندوستان ہندو مسلم اتحاد سے دست بردار ہوجائے تو میں سوراج سے دست بردار ہوجائوں گا مگر اس سے دست بردار نہیں ہوں گا۔ کیونکہ اگر سوراج ملنے میں تاخیر ہوگی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا لیکن اگر ہمارا اتحاد جاتا رہا تو عالم انسانیت کا نقصان ہوگا۔‘‘

(خطبات آزاد ، ص:۴۷۔۴۸)

    محمد علی جناح کی قیادت والی مسلم لیگ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہونے کا دعویٰ تھا۔ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ لیگ کا حامی تھا، دوسری طرف کانگریس ہندئوں اور مسلمانوں کی مشترکہ نمائندہ جماعت تھی ، وہ متحدہ قومیت یا ہندو مسلم اتحاد کے نقطہ نظر کو مسلمانوں کے حق میں نامناسب سمجھتی تھی ، مسلم لیگ کا ماننا تھا کہ ہندو اکثریت والے ملک میں مسلمانوں کی ذاتی تشخص باقی نہیں رہے گی۔ اور مسلمان ا س بھیڑ میں کھو کر رہ جائیں گے۔ اس لئے پاکستان کے قیام کی ضرورت ہے یا دوسرے لفظوں میں ہندوستان جیسے ملک میں ایک قومی نظریہ کا فلسفہ کارگر ثابت نہیں ہوسکتا ہے۔ ہندو مسلمان دو الگ الگ قوم ہیں ، اس لئے دونوں کے لئے الگ الگ وطن ضروری ہے ۔ لیگ مانتی تھی کہ مسلمان اپنے مذہبی رسوم اور عقائد کے اعتبار سے ہندوستان کے ہندئوں سے یقینی طور پر علاحدہ شناخت رکھتے ہیں، اگر یہاں متحدہ قومیت کے نظریہ کو فروغ دیا گیا تو مسلمانوں کی اسلامی تشخص برباد ہوکر رہ جائے گی، دوسری طرف کانگریس جسے ہندوستان اور ہندوستانی عوام کی قیادت حاصل تھی اور وہ اس کا دعوی رکھتی تھی کہ وہ ہندوستان کی تمام قوموں کی نمائندہ جماعت ہے ، کانگریس کا یہ دعوی بے جا بھی نہ تھا ، باوجود کہ لیگ نے مسلمانوں کی علاحدہ ریاست کی تشکیل کا نعرہ بلند کیا تھا لیکن پھر بھی مسلمانوں کی بڑی اکثریت کانگریس کے ساتھ تھی۔

    مولانا آزاد ۱۹۲۲ء میں انگریزوں کی قید سے آزاد دہوئے ، آزادی کے ساتھ ہی انہوں نے ایک طرف جہاں کانگریس کے تبدیلی پسند اور غیر تبدیلی پسند گروہوں کے درمیان مفاہمت کی ایماندارانہ کوشش کی وہیں انہوں نے کانگریس اور مسلم لیگ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی اپنی سطح پر بھرپور کوشش کی۔ جون ۱۹۴۰ء میں مولانا آزاد کانگریس کے صدر منتخب ہوئے، عہدہ صدارت کو سنبھالتے ہی مولانا نے مسلم لیگ کے قائد محمد علی جناح کو یہ تجویز بھیجی تھی ، کہ ہندوستان کی تمام ریاستوں اور مرکز میں کسی ایک پارٹی کی وزارت قائم کرنے کے بجائے ، کانگریس اور مسلم لیگ کی مخلوط وزارت سازی کی جائے، لیکن افسوس کہ مسٹر جناح نے یہ کہتے ہوئے مولانا آزاد کی تجویز مسترد کردی کہ تم کانگریس کے شو بوائے (Show Boy)ہو۔ لیکن تجویز مسترد کرنے والے نے یہ نہیں سوچا کہ اس میں نقصان کس کا ہے ، مسٹر جناح کے اس توہین آمیز رویے نے پورے ملک میں ہنگامہ برپا کردیا ، لیکن اسوئہ یوسف رکھنے والے مولانا آزاد کی زبان پر حرف شکایت تک نہ آیا۔ اور بقول آغا شورش کاشمیری کے کسی نے مولانا کے سامنے جناح کے اس رویے پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تو مولانا کا جواب تھا:

        ’’مسٹر جناح نے اپنی عزت میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔‘‘

(خطبات آزاد ، ص:۴۷۔۴۸)

    ہندو مسلم اتحاد کے سلسلے میں مولانا نے اپنے تئیں کوششیں جاری رکھیں ، انہوں نے ہر موقع پر قرآن کریم اور اسلامی اقدار اور روایات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہندوستان اور مسلمانوں کے تقدیر اور ان کا روشن مستقبل ہندو مسلم اتحاد اور قومی یکجہتی میں مضمر ہے ۔۱۹۲۳ء کے انڈین نیشنل کانگریس کے دہلی میں منعقدہ خصوصی اجلاس میں یہی حقیقت واضح کی تھی کہ ہندو مسلم اتحاد کے بغیر آزادی بھی نہیں مل سکتی ہے ۔

    انہوں نے الہلال کے ذریعہ مسلمانوں کے دلوں پر یہ نقش ثبت کرنے کی کوشش کی کہ ہندوستان کے ہندوئوں سے پوری طرح اتحاد و اتفاق کے بغیر وہ ہندوستان میں اپنے دینی فرائض انجام نہیں دے سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنے اس نظریے کے ٹانڈے قرآن کریم سے ملاتے ہوئے مجلس خلافت کے اجلاس آگرہ سے خطاب کرتے ہوئے اپنے صدارتی خطبہ میں کہا:

’’قرآن مجید نے دنیا کی تمام غیر مسلم قوموں کی دو قسمیں قرار دی ہیں ۔۔۔۔ایک تو وہ غیر مسلمان قومیں جو مسلمانوں پر حملہ نہیں کرتیں، مسلمانوں کے حکومت اور خلافت پر حملہ نہیں کرتی، ایسی غیر مسلم قومیں جنہوں نے نہ تو حملہ کیا اور نہ مسلمانوں کی آبادیوں اور بستیوں پر حملہ کرنا چاہتی ہیں، ایسی قوموں کے لئے قرآن ایک لمحے کے لئے بھی مسلمانوں کو نہیں روکتا کہ ان کے ساتھ مصالحت کریں اور بہتر سے بہتر اور اچھے سے اچھا سلوک کریں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ ہندوستان کی نجات کے لئے ہندوستان میں مسلمانوں کے بہترین فرائض انجام دینے کے لئے ہندو مسلم اتحاد ضروری ہے۔ یہ میرا عقیدہ ہے ، جس کا اعلان میں ۱۹۱۲ء میں الہلال کے پہلے ہی نمبر میں کرچکا ہوں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں مسلمان بھائیوں کو سنانا چاہتا ہوں کی خدا کی آواز کے بعد سب سے بڑی آواز جو ہوسکتی ہے وہ محمد ﷺ کی آواز تھی ۔ اس وجود مقدس نے عہد نامہ لکھا، بجنسہ اس کے الفاظ ہیں ’’انہ امۃ واحدۃ‘‘ہم ان تمام قبیلوں سے جو مدینہ کے اس اطراف میں بستے ہیں صلح کرتے ہیں، اتفاق کرتے ہیں اور ہم سب مل کر ایک امت واحدہ بننا چاہتے ہیں ، امۃ کے معنی ہیں قوم اور Nationاور واحدہ کے معنی ہیں ایک ۔

(خطبات آزاد ، ص:۴۶)

    رسول اللہ ﷺ نے مدینہ پہنچ کر جن قبائل سے معاہدے کئے تھے وہ عام طور پر اس وقت تک اسلام نہ لائے تھے، اسی کو نظیر بناتے ہوئے مولانا آزاد نے مسلمانوں کے تعلیم دی کہ وہ ہندوستان میں بسنے والے ہندئوں سے عہد و محبت کا پیمان باندھ لیں اور ان کے ساتھ مل کر ایک نیشن ہوجائیں ، یعنی ہندوستان کے کڑوروں مسلمان اپنے ہندو بھائیوں سے مل کر ایک ہندوستانی نیشن بن جائیں ۔مولانا نے خلافت کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے اپنی تقریر میں قومی یکجہتی اور متحدہ قومیت کے نظریے کو اس طرح واضح کیا:

    ’’ہندوستان کے لئے، ہندوستان کی آزادی کے لئے صداقت و حق پرستی کے بہترین فرائض ادا کرنے کے لئے ہندوستان کے ہندو مسلمان کا اتفاق اور ان کی یکجہتی ضروری ہے۔

( انوار ابوالکلام ، ص:۱۹۷ تا ۱۹۹)

    مولانا نے یہ باتیں ۱۹۲۱ء میں آگرہ میں خلافت کمیٹی کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنے خطبہ صدارت میں کہی تھی ۔

مصالحانہ کوششیں

    ہند و مسلم اتحاد کی دعوت کے ساتھ ساتھ مولانا نے تحریک آزادی سے وابستہ کارکنوں میں بددلی اور انتشار کو ختم کرنے کی بھی کوششیں کی۔ خود کانگریس کے لیڈروں کے اختلافات ختم کرانے میں اہم رول ادا کیا، گیا کے اجلاس میں کانگریس کے اندر شدید ترین اختلافات رونما ہوگئے تھے ، ایک طرف گاندھی جی اور ان کے ہمنوا ترک موالات کے پروگرام کو جاری رکھنا چاہتے اور دوسری طرف سی۔ آر۔ داس ، موتی لال نہرو، اور حکیم اجمل خاں کونسلوں میں شامل ہوکر آئینی محاذ پر جنگ کرنا چاہتے تھے ، ان لوگوں نے سوراج پارٹی کے نام سے ایک الگ پارٹی بنالی تھی۔ اس وقت مولانا آزاد جیل میں تھے، مولانا نے رہائی کے فوراً بعد ہی ان دونوں گروپوں میں مصالحت کی کوشش کی، جو کامیاب رہی ۔ گاندھی جی نے اتحاد کے لئے ۲۱ دن کا برت رکھا، مولانا کے کوشش سے دہلی میں ہندو مسلم لیڈروں کا ایک عظیم اجتماع ہوا ، اور لیڈروں نے آپسی اتحاد قائم کرنے کا عہد کیا، گاندھی جی نے بھی اپنا برت ختم کیا۔

    مولانا نے فرقہ وارانہ جھگڑوں کو ختم کرانے کے لئے اپنے تئیں کوششیں کیں ، ملطان کے فرقہ وارانہ فساد کے تحقیقات کے لئے جو کمیٹی بنی اس میں موتی لال کے ساتھ مولانا بھی شریک تھے، ناگپور کے جھکڑے میں انہوں نے موتی لال کے ساتھ مل کر ہندو اور مسلمانوں میں سمجھوتہ کروایا۔ ملکی اور جماعتی اتحاد کو قائم رکھنے کے مسلسل تگ و دو کی۔ سچ تویہ ہے کہ اتحاد ان کی محبوبہ تھی، جس کے رخ زیبا پر کوئی دھبہ نہ آئے ، اس کے لئے انہوں نے بڑی بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہ کیا۔ فرقہ واریت کو کمزور کرنے کے لئے ایک موقع پر مولانا نے چودھری خلیق الزماں کو کانگریس وزارت میں شامل ہونے پر آمادہ کرلیا تھا۔        

( انوار ابوالکلام ، ص:۲۲۴)

    مولانا ہمیشہ ایسے بیانات سے پرہیز کرتے جس سے ہندو مسلمان اتحاد پر ضرب پڑتی ہو، اور ہر ایسے بیان کا سخت ترین نوٹس لیتے جو ہندئوں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کے لئے دیئے جاتے تھے۔خواہ وہ بیان دینے والا کانگریسی ہو یا مسلم لیگی، حتی کہ جناح ایسے نامناسب بیان دیتے تو مولانا اس کا سخت نوٹس لیتے ، چنانچہ ۹ جون ۱۹۳۸ء میں ان کا یہ بیان اخبارات کا زینت بنا:

’’اس وقت جب کہ لیگ اور کانگریس کے مابین مصالحت کی گفتگو ہورہی ہے اور کانگریس اپنے عزیز مقصد ہندومسلم اتحاد کے لئے اتنا آگے بڑھ چکی ہے، ایک دوسرے پر اعلانیہ الزام تراشی اور عام جلسوں میں بیکار کے مسائل چھیڑنا زیب نہیں دیتا ، کم از کم ذمہ دار لیڈروں کو اپنی پوزیشن اور وقت کی نزاکت کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنے خیالات میں ایسے پرجوش اظہارسے باز رہنا چاہئے ، یہ رنج کی بات ہے کہ پچھلے دنوں میں مسٹر جناح کی تقریروں کے جو حصے اخبارات میں شائع ہوئے ہیں ان میں خلاف توقع طور پر الزام تراشی سے کام لیا گیا‘‘۔  

 (آزاد کی تقریریں ، ص:۲۳۶)

    یہی تلقین مولانا ابوالکلام آزاد ہندو رہنمائوں اور کانگریس کے لیڈروں کو بھی کرتے رہتے تھے، ان کی ہر ممکن کوشش ہوتی تھی کہ ہندو مسلم اتحاد ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے، جسے وقت کی تیز آندھی ہلانہ سکے، لیکن   ؎

بصد آرزو کے خاک شد   

    حقیقت یہ ہے کہ ہندو مسلم اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بارے میں مولانا کے ان احساسات و خیالات کی معنویت آج بھی نہ صرف پوری طرح قائم و باقی ہے۔ بلکہ پہلے سے زیادہ اہم اور ضروری ہوگئی ہے۔ ملک آپسی انتشار و اختلاف سے جوجھ رہا ہے۔ نفرت کی دیواریں بلند کی جارہی ہیں ۔ فرقہ واریت کا درخت برگ و بار لارہا ہے۔ اختلاف اور آپسی منافرت ہمیں پھر غلامی کی طرف ڈھکیل رہی ہے۔ اس فرقہ پرستی کی جڑ و پود اکھاڑنے کے لئے آج بھی ہندوستان اورہندوستانیوں کو مولانا ابوالکلام آزاد بنائے اصول و ضوابط پر ملک کی تعمیر و ترقی کا نقشہ تیار کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ ہمارا ہندوستان پھر تباہ و برباد ہوجائے گا۔       

 (مطبوعہ ’الہدیٰ‘ نومبر ، دسمبر ۱۳،  جہاں نما جنوری ۲۰۱۴ئ)

٭٭٭

Ahsan Alam
Moh: Raham Khan, P.O.: Lalbagh
Near Al-Hira Public School, Darbhanga

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 580