donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Gholam Shabbir Rana
Title :
   Hameed Akhter : Aik Raushan Dimagh Tha Na Raha

حمید اختر :ایک روشن دماغ تھا نہ رہا

 

غلام شبیر


       عالمی شہرت کے حامل نامور پاکستانی ادیب ،دانش ور ،صحافی اور ترقی پسند تخلیق کار حمید اختر 16۔اکتوبر 2011کو داغ مفارقت دے گئے ۔ان کانام اختر علی تھا وہ چار جون 1924 کو  ضلع  لدھیانہ  کی ریاست فرید کوٹ کے نزدیک واقع ایک چھوٹے سے گائوں میں پیدا ہوئے ۔ابھی وہ تین برس کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ان کی والدہ نے بیوگی کی چادر اوڑھ کر بڑے کٹھن حالات میں اپنے بچے کی تربیت کی ۔ان کی زندگی سعیء پیہم اور گردش حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی ایک اعلیٰ مثال ہے ۔انھیں کینسر کا عارضہ لاحق تھا۔وہ کینسر کا نہایت مستقل مزاجی اور ثابت قدمی سے مقابلہ کرتے رہے ۔ہوائے جورو ستم میں بھی رخ وفا کو فروزاں رکھنے والے حریت فکر کے اس مجاہد نے حریت ضمیر سے جینے کے لیے اسوہء شبیر کو اپنایا۔لاہور کے ایک شہر خموشاں میں آسودہء خاک یہ ترقی پسند ادیب لوح جہاں پہ اپنا دوام ثبت کر گیا۔ہر دور میں جابر سلطان کے سامنے کلمہء حق ادا کرنے والے اس زیرک ،فعال اور مستعد تخلیق کار نے حرف صداقت لکھنے کا وہ معیار پیش کیا جو ہر عہد میں ان کی شخصیت کے درخشاں پہلوئوںکو سامنے لاتا رہے گا۔ان کے پس ماندگان میں ایک بیوہ ،ایک بیٹا اور چار بیٹیاں شامل ہیں ۔پاکستان کے علمی و ادبی حلقوں میں ان کو جو عزت و تکریم حاصل تھی اس کا ایک عالم معترف ہے ۔انھوں نے خود داری ،عزت نفس اور قناعت کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔در کسریٰ پہ صدا کرنا ان کے مسلک کے خلاف تھا ۔وہ یہ بات بر ملا کہتے تھے کہ جامد و ساکت کھنڈروں اور سنگلاخ چٹانوں کے روبرو دکھی انسانیت کے مصائب و آلام بیان کرنا سرابوں کی جستجو میں بھٹکنے کے مترادف ہے ۔وہ اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے قائل تھے کسی بھی باب رعایت سے داخل ہو کر زندگی کی آسائشوں کا حصول ان کے نزدیک استحصالی عناصر کے مکر کی چال ہے اور اس قسم کے قبیح ہتھکنڈے انسانی حقوق کی پامالی پر منتج ہوتے ہیں ۔حمید اختر کا اس دنیا سے اٹھ جاناایک بہت بڑا سانحہ ہے ۔وہ ایک نظریاتی ادیب تھے اپنے نظریات پر ان کا پختہ اور اٹل یقین تھا ۔دنیا کی کوئی طاقت ان کو ان کے نظریات سے دور نہ رکھ سکی ۔اپنے لیے انھوں نے جو لائحہء عمل منتخب کیا اس پر ان کا غیر متزلزل یقین ان کی شخصیت کا امتیازی وصف تھا۔

 ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق       یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق

            حمید اختر نے ایک ممتاز مذہبی گھرانے میں جنم لیا۔ان کے خاندان کی اجمیر کے عظیم صوفی بزرگ اور ولی اللہ خواجہ قطب الدین بختیار سے قلبی عقیدت اور والہانہ وابستگی تھی ۔ان کے خاندان نے حمید اختر کی تعلیم و تربیت میں مذہب کی درخشاں اقدار و عظیم روایات کو ملحوظ رکھااور انھیں ایک مقامی درس میں بھیج دیا ۔حمید اختر نے دس برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا ۔جلد ہی حمید اختر نے درس  کی دینی تعلیم کو خیر باد کہہ دیا اور دنیا کے تلخ حقائق کا سامنا کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔ان کی زندگی عجیب کشمکش میں گزری کبھی تو سوز و ساز رومی اور کبھی پیچ و تاب رازی کی کیفیت قاری کو حیرت زدہ کر دیتی ہے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے افکار و نظریات میں ایک واضح تبدیلی سامنے آئی اورانھوں نے استحصالی معاشرے کے گھنائونے کردار،فرد کے فرد کے ہاتھوں استحصال ،شقاوت آمیز ناانصافیوں ،انسانی حقوق کی پامالی اور انسانیت کی توہین تذلیل ،تضحیک اور بے توقیری  کے خلاف قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔ہمارا معاشرہ قحط الرجال کے باعث بے حسی کا نمونہ بن چکا ہے ۔اس معاشرے میں بگلا بھگت ،جو فروش گندم نما ،سفید کوئوں ،کالی بھیڑوں اور گندی مچھلیوں نے پورے ماحول کو ویران کر دیا ہے کواکب جیسے دکھائی دیتے ہیں ویسے ہوتے نہیں یہ بازی گر کھلا دھوکا دیتے ہیں ۔ہم میں نہ تو کوئی دیوتا ہے اور نہ ہی کوئی فرشتہ ،ہر رنگ چھونے پر اتر جاتا ہے ۔حمید اختر نے چربہ ساز ، سارق اور کفن دزد عناصر کو آئینہ دکھانے کا فیصلہ کیا۔اپنے اس نصب العین کی صراحت کرتے ہوئے انھو ں نے لکھا ہے :

         ’’میں نے دس برس سے کم عمر میں ہی قرآن پاک حفظ کر لیا تھا مگر اس دینی مدرسے میں طلبا سے جو سلوک ہوتا تھا ،اس کے رد عمل کے نتیجے میں بلوغت تک پہنچتے پہنچتے میں تمام دینی رشتوں

      سے بھاگ کھڑا ہوا۔میں ایسے لوگوں سے سخت نفرت کرتا ہوں جو زندگی بھر لوٹ مار ،چوری ،دھوکا،بے ایمانی اورہر قسم کے لہو و لعب میںمصروف رہتے ہیں اورآخری عمر میںداڑھی بڑھا کر  ہاتھ میں تسبیح پکڑ لیتے ہیں ۔‘‘

        شباب کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی حمید اختر نے اپنی رفاقتیں اور دوستیاں اس عہد کے نامور ادیبوں سے استوار کر لیں اور تمام عمر اس عہد وفا کو نبھایا۔اس عہد میں وہ ابن انشا،ساحر لدھیانوی ،انور علی ،کرشن چندر ،ابراہیم جلیس،اے حمید،احمد راہی، استاد دامن، ساغر صدیقی ،رام ریاض  اور فیض احمد فیض کے قریب رہے ۔یہ قربتیں اور چاہتیں اتنی دیرپا ثابت ہوئیں کہ ان کے معجز نما اثر سے حمید اختر کی زندگی کو ایک نئی اور منفرد جہت نصیب ہوئی ۔ہرظالم پہ لعنت بھیجنا ان کا مطمح نظر بن گیا۔سلطانیء جمہور کے لیے جد و جہد ہمیشہ ان کا نصب العین رہا ۔ اپنی تحریروں کے ذریعے  ظالم و سفاک ،موذی و مکار استحصالی عناصر کے مکر کا پردہ  فاش کرنے میں انھو ںنے کبھی تامل نہ کیا۔انھوں نے کبھی زہر ہلاہل کو قند نہ کہااور اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے  مظلوم کی حمایت میں پورے جوش و خروش سے میدان عمل میں آگئے ۔طالع آزما،مہم جو اور ابن الوقت عناصر نے انھیں ترغیب ،تحریص اور دھونس و دھمکی کے ذریعے اپنے ڈھب پر لانے کی بہت کوشش کی مگر جب وہ اپنے مکروہ عزائم میں ناکام ہوئے تو یہ مفاد پرست لوگ سنگ ملامت لیے نکل آئے اور اس آواز کو خاموش کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔حمید اختر کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرناپڑیں مگر ان کے پائے استقامت میں کبھی لرزش نہ آئی۔تخلیق ادب اور مطالعہ ادب ہی حمید اختر کااوڑھنا بچھونا تھا۔ حمید اختر اور ساحر لدھیانوی تلاش معاش میں لاہور بھی آئے اور یہاں ایک مکان میں اکٹھے قیام کیا ۔وہ 1942سے لے کر 1945 تک کے عرصے میں لاہور میں مقیم رہے اور یہاں ان کے شب و روز  ایک ہی سوچ اور جذبے کو پروان چڑھانے میں گزر گئے ۔ساحر لدھیانوی کی دوستی انھیں ممبئی لے گئی اور وہاں نگارخانوں کی آب و تاب سے بھی انھوں نے دل بہلایا۔یہاں انھوں نے ایک فلم ’’آزادی کی راہ پر ‘‘ میں بہ حیثیت اداکار کام کیا۔یہ فلم 1946میں ریلیز ہوئی  ۔اس فلم میں حمید اختر کو فلمی دنیا کے اس وقت کے مشہور اداکاروںپرتھوی راج کپور ،جے راج اور جگدیش سیٹھی کے ہمراہ کام کرنے کا موقع ملاادب اور فنون لطیفہ کے ساتھ ان کی قلبی وابستگی عمر بھر بر قراررہی ۔ساحر لدھیانوی نے اس فلم کے لیے مکالمے  لکھے ۔اس میں ابراہیم جلیس ،ہاجرہ مسرور اور محمود بریلوی نے ان کی معاونت اور مشاورت کی ۔حمید اختر نے اس فلم کواپنے کیرئیر میں ایک اہم موڑ قراردیا ۔وہ ا س دور کو یاد کرتے تو ان کی آنکھیں پر نم ہو جاتیں ۔

        تقسیم ہند کے بعد حمید اختر نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا اور یہاں وہ کئی ماہ تک مہاجر کیمپ میںبے سرو سامانی کے عالم میں قیام پذیر رہے ۔کچھ دنو ں کے بعد ساحر لدھیانوی بھی لاہور آگئے ،حمید اختر نے ساحر لدھیانوی کے کلیم پر ایبٹ روڈ پرایک رہائشی مکان حاصل کر لیا اور دونوں دوست پھرسے اکٹھے رہنے لگے ۔قیام پاکستان کے بعد کے نئے ماحول میں انھوں نے ایک نئے سفر کا آغاز کیا اب ان کے

ساتھ صر ف ساحر لدھیانوی کی ماں تھی باقی سب لوگ نئے اور اجنبی تھے ۔یہ دونوں کنوارے نو جوان ایک ماں کی سر پرستی میں زندگی کے کٹھن سفر پر رواں دواں تھے ۔قلزم ہستی کی ہر موج میں حلقہء صد کام نہنگ اور پھر یہ تجسس کہ قطرے پہ گہر ہونے تک کیا گزرتی ہے ؟ساحر لدھیانوی نے تو تخلیق ادب سے اپنی قلبی وابستگی برقراررکھی اور اس دور کے ممتاز ادبی مجلات  جن میں ادب لطیف ،شاہ کار ،اور سویر ا شامل تھے ان میں کام جاری رکھا اور اس طرح دال روٹی کا سلسلہ چل نکلا۔حمید اختر نے ادب کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی دلچسپی لی ۔بائیں بازو کی سیاست اور تخلیقی نظریات کے ساتھ ان دونوں کی قلبی وابستگی کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی ۔افلاس کی پردرد کراہیں سن کر  ہر دردمند انسان کا کلیجہ پھٹ جاتا ہے ۔ایک حساس تخلیق کار کی حیثیت سے حمید اختر نے  معاشرتی زندگی کی بے اعتدالیوں ،تضادات، ناانصافیوں ،استحصال اور شقاوت آمیزانصافیوں کے لرزہ خیز اعصاب شکن واقعات کو بڑے کرب اور دکھ کے ساتھ دیکھا اور ان کے خلاف بھرپورآواز بلند کی ۔وہ تیشہء حرف سے فصیل جبر کو منہدم کرنے کے آرزومند تھے ۔اردو ادب کی ترقی پسند تحریک جس نے 1936میں یہاں رنگ جمایا۔حمید اختر اور ساحر لدھیانوی اس سے بہت متاثرتھے ۔1944میں انھوں نے ترقی پسند تحریک کے زیر اثر کرشن چندر کے شاہ کار افسانے ’’ان داتا‘‘کی ڈرامائی تشکیل کا فیصلہ کیا۔حمید اختر اورساحرلدھیانوی نے عوامی مسائل کے بارے میں مثبت شعور و آگہی بیدار کرنے کی کوشش کی ۔اس فکر پرور خیال افرز ڈرامے کو سٹیج پر پیش کرنے کا انقلابی تصور ساحر لدھیانوی اور حمید اختر کی مشترکہ سوچ کا مظہر تھا۔ساحر لدھیانوی نے ’’ان داتا‘‘کا پورا متن پس پردہ رہتے ہوئے  پڑھ کر سنایا۔ان کے الفاظ کی ترنگ اور دبنگ لہجے نے سامعین کو مسحور کر دیا۔اس لافانی ڈرامے میں اثر آفرینی قلب و روح کی گہرائیوں میںاترکر پتھرو ں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منو لیتی تھی ۔یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ غربت ،افلاس اور بھوک سے نڈھال بے بس و لاچار انسان سانس گن گن کر زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور تھے مگر بے حس سرمایہ دار ٹس سے مس نہ ہوئے ۔یہ ڈرامہ ظالم و سفاک حکمرانوں اور بے ضمیر استحصالی عناصر کے لیے تازیانہء عبرت بن گیا ۔اس ڈرامے کی پیش کش میں شامل تمام افراد کو فرضی مقدمات اور جھوٹی شہادتوں کے ذریعے ہراساں کیا گیا اس کے باوجود ان لوگوں نے جنوں کی حکایات خوںچکاں لکھنے کا سلسلہ جاری رکھاہر چند اس میںان کے ہاتھ قلم ہوئے ۔


 ہم صبح پرستوں کی یہ ریت پرانی ہے                     ہاتھو ں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا

         سید سجاد ظہیر کے ساتھ حمید اختر اور ساحر لدھیانوی کے قریبی تعلقات تھے ۔ترقی پسند تحریک کے ساتھ وابستگی کی وجہ سے ان میں نظریاتی ہم آہنگی مو جود تھی۔قیام پاکستان کے بعد اگرچہ ساحر لدھیانوی اور حمید اختر نے لاہور میں قیام کا فیصلہ کیا تھا مگر ساحر لدھیانوی یہاں کے حالات سے مطمئن نہیں تھے اور حبس کے ماحول سے بیزار ہوچکے تھے ۔کئی بار انھوں نے واپس بھارت جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔1948کے آغاز میں حمید اختر کو کسی نجی او رتنظیمی مصروفیت کے سلسلے میں کراچی جانا پڑا۔حمید اختر جب ایک ماہ کے بعد لاہور واپس آئے تو انھیں یہ دیکھ کر دلی صدمہ ہوا کہ ساحر لدھیانوی اور ان کی ماں وہ مکان خالی کرکے بھارت جا چکے تھے ۔حمید اختر کے لیے یہ سانحہ سوہان رو ح بن گیا اور انھوں نے چند روز بعد وہ مکان خالی کر دیا ۔ان کا استدلال یہ تھاکہ جس مکان کے حقیقی مکین ہی اسے خالی کر کے چلے جائیں وہاں ان کا قیام غاصبانہ قبضے کے مترادف ہے ۔وہ طویل عرصہ تک ان احباب کی یاد میںتڑپتے رہے ۔زندگی کا ساز بھی عجب ساز ہے یہ مسلسل بج رہا ہے مگر اس کی آواز پر کوئی کا ن نہیں دھرتا۔اپنی اصلیت کے اعتبار سے زندگی بھی سیل رواں کے مانند ہے ۔اس سیل روا ں کی موجیں سب کچھ بہا کر لے جاتی ہیں ۔کوئی بھی شخص اپنی تما م تر تمنائوں ،توانائیوںاور حسرتوں کے باوجود اس کی گزر جانے والی پر شور لہروں کے لمس سے دوبارہ فیض یاب نہیں ہو سکتا ۔ساحر لدھیانوی لاہور سے دہلی پہنچے ،وہاں سے انھوں نے حیدرآباد کا رخ کیا اور آخرکار اپنے پسندیدہ شہر ممبئی میں مستقل قیام کا فیصلہ کیا ۔لوگ بچھڑتے ہیں اور اس کے بعد ان کا ملنا خوابوں ہی میں بالکل اسی طرح ہوتا ہے جیسے ایام گزشتہ کی کتابوں کے اوراق میں پڑے سوکھے پھول  بیتے دنوں کی کیفیات کا تمام منظر نامہ تو چشم تصور سے دکھا دیتے ہیں مگر حقائق تو کب کے خیال و خواب بن چکے ہوتے ہیں ۔عبرت سرائے دہر میں ایسا اکثر ہوتا چلاآیاہے ۔ ان دو قریبی دو دوستوں میں جدائی کی یہ رات تیس سال پر محیط رہی ۔اس کے بعد جب حمید اختر بھارت گئے تو انھوں نے ساحر لدھیانوی کے ہاں قیام کیااور اس طرح ثابت کر دیا کہ جذبوں کی صداقت کا بھرم ہمیشہ بر قرار رہتا ہے ۔قلب اور روح کے رشتے زمانی اور مکانی تصور سے بالاتر ہوتے ہیں ۔

 فکر کر تعمیر دل کی وہ یہیں آجائے گا        بن گیا جس دن مکاں خود ہی مکیں آ جائے گا

            حمید اختر نے تخلیق ادب کو تزکیہ نفس کا وسیلہ بنایا۔اپنی تخلیقی زندگی میں انھو ںنے افسانے کی تخلیق پر بھر پورتوجہ دینے کی تمنا کی مگر سیاست ،فلم ،صحافت اور دیگر فنون لطیفہ میں ان کی دلچسپی کے باعث وہ کسی ایک صنف پر پوری توجہ سے کام نہ کر سکے ۔اس کے باوجود انھوں نے اپنی تخلیقی فعالیتوں سے دنیا کو حیرت زدہ کردیا۔ان کی سیمابی اور انقلابی طبیعت ان کی تخلیقات میں نمایاں ہے ۔فلم’’ سکھ کا سپنا‘‘میں ان کے جوہر کھل کر سامنے آتے ہیں ۔ان کے اشہب قلم نے اس میں وہ جولانیاں دکھائی ہیں کہ مفلوک الحال طبقے کی حسرت و یاس بھری زندگی کے تمام موسم حقیقی صور ت میں سامنے آجاتے ہیں ۔دل کے کھلنے اور مرجھانے ہی سے تمام موسم عبارت ہیں ۔ہم عمر بھر خواب دیکھتے رہتے ہیں مگر ان خوابوں کی تعبیر بہت درد ناک ہے ۔

    حمید اختر نے پرو گریسو پیپرزلمیٹڈ کے اخبار ’’امروز‘‘میں 1948میں کام شروع کر دیا۔اس اخبار میں وہ مدیر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے۔یہاں تک کہ ایوب خان نے 1958کے مارشل لا کے بعد پورے ادارے پر قبضہ کر لیا اور حمید اختر پر روزگار کے دروازے بند  ہو گئے۔اس کے بعد حمید اختر نے عبداللہ ملک اور آئی ۔اے رحمان کے اشتراک سے روزنامہ ’’آزاد ‘‘ کا اجرا کیا۔کچھ عرصہ بعد یہ اخبار بھی بند ہو گیا ۔حمید اختر نے اخبارات میںکالم نویسی پرتوجہ مرکوز کر دی ۔ایک سنجیدہ ، زیرک ، مستعد اور فعال  کالم نویس کی حیثیت سے حمید اختر نے قومی ، ملکی ، ملی معا شرتی اور سماجی مسائل پر جو کالم لکھے ان کے مطالعہ سے فکر و نظر کے نئے دریچے وا ہوتے چلے جا تے ہیں۔ اپنی وفات کے وقت وہ لاہور کے ممتاز اخبار’’ روزنامہ ایکسپریس ‘‘کے ساتھ بہ حیثیت کالم نو یس وابستہ تھے ۔ ان کا  مشہور زمانہ کالم ’’پرسش احوال‘‘قارئین میں بہت مقبول تھا ۔ترقی پسند اور روشن خیال ادیب کی حیثیت سے انھوں نے معاشرے میں امن و سکون ،عدل و انصاف  اور ترقی و خوش حالی کے یکساں مواقع مہیا کیے جائیں ۔وہ اس بات کے آرزومند تھے کہ مساوات کی بنیاد پر ہر شخص کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے ۔وہ محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کرنے کے متمنی تھے تاکہ بندہ و بندہ نواز کے تمام مصنوعی امتیازات کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کی کوئی امید برآئے۔قیام پاکستان سے قبل وہ  ہندوستان میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے سرگرم اور معتمد کارکن تھے ۔اس کے ساتھ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین ممبئی کے 1946-1947کے عرصے میں

سیکرٹر ی رہے ۔وہ اپنے نظریات میںاٹل تھے ۔اپنے نظریات کے باعث انھیں اسیری کا سامنا کرنا پڑا وہ 1951-1952  اس کے بعد 1954-1955کے دوران سیفٹی ایکٹ کے تحت قید میں رہے۔
راول پنڈی سازش کیس اور متعد دیگر مقدمات کے باعث ان کی زندگی اجیرن کر دی گئی ۔ان کے ساتھ جن ترقی پسند ادیبوں کو پابند سلاسل کیا گیا ان میں محمود علی قصوری ،آئی ۔اے رحمان ،حبیب جالب ،اوراداکار محمد علی کے نام قابل ذکر ہیں ۔

         جبر کا ہر انداز مسترد کر تے ہوئے حمید اختر نے استحصالی معاشرے اور وسائل پر قابض افراد کے کر دار کو ہدف تنقید بنایا ۔ نہ صر ف انھیں حکومتی جبر و عتاب کا سامنا کر نا پڑا بلکہ ان کی اولاد کو بھی نا کردہ گناہوں کی سزا بھی ملی ۔ن کی بیٹیوں پر روز گار کے دروازے بند کر دیئے گئے ۔ صحافت میں انھوں نے چھ عشروں تک خون دل میں انگلیاں ڈبو کر پروش لوح و قلم کا فر یضہ انجام دیا۔ ان کے نامور رفقائے کار میں سید سجاد ظہیر ، سبط حسن ، سعادت حسن منٹو، کر شن چندر ، عصمت چغتائی اور فیض احمد فیض شامل ہیں ۔ سبھی ان کی حق گوئی کے معترف تھے ۔قید و بند کی صعوبتیں حمید اختر کو ہراساں نہ کر سکیں بلکہ ان کا لہجہ دبنگ ہو

گیااور ان کہ کتاب ـ’’ کال کو ٹھری ‘‘ ان ایام اسیری کی یاد دلاتی ہے ۔ یہ کتاب جس درد مندی اور خلوص اور انسانی ہمدردی سے سر شار ہو کر لکھی گئی ہے۔ وہ قاری پر رقت طاری کر دیتی ہے۔1953 میں پہلی بار شائع ہونے والی اس تصنیف کے اب تک دس ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں جو کہ اس کی مقبو لیت کی دلیل ہے ۔کال کوٹھڑی ان الم نصیب قیدیوں کی زندگی کی روداد سامنے لاتی ہے جن کی زندگی جبر مسلسل کی تصویر بن گئی ۔ یہ بد نصیب لوگ لمحہ لمحہ وقت کی تہہ میں اتر کر موت کا انتظار کرتے ہیں اور ایک دن قلزم خون پار کرجاتے ہیں عمر قید اور سزائے موت کے قیدیوں کی زندگی کا احوال جس دردمندی اور خلوص سے حمید اختر نے بیان کیا ہے اس کی پہلے کوئی مثال اردو ادب میں موجود نہیں ۔اپنے ایام اسیری کے دوران حمید اختر کو کال کوٹھڑی کے اسیرو ں کی الم ناک زندگی کے شب و روز بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ان تمام قیدیوں کے ساتھ ان کا بھائی چارے پر مبنی درد کا ایک رشتہ استوار ہو گیا ۔ان کا خیال تھا کہ درد کا یہ رشتہ بڑی اہمیت کا حامل ہو ا کرتا ہے ۔اس رشتے کو وہ انسانیت کی بنیاد پر پروان چڑھانے کے متمنی تھے ۔کال  کو ٹھڑی کو ایک علامت کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے ،جس سے لا شعور کی توانائی کو متشکل کرنے میں مدد ملتی ہے سزائے موت کے قیدی اس ہجوم یاس  میں بھی موہوم امید پر رہتے ہیں کہ شاید کوئی معجزہ رونما ہو جائے اور ان کی نجات کا مژدہء جانفزا لیے کوئی فرشتہء رحمت آئے اور ان کو اسیری سے نجات مل جائے ۔حمید اختر نے خا کے بھی لکھے ۔ ان کے لکھے ہوئے خاکوں کی دو کتب ’’ آشنائیاں کیا کیا‘‘ اور ’’احوال واقعی ‘‘ زبان و بیان پر ان کی خلاقانہ دسترس اور لفظی مرقع نگاری  کا عمدہ نمونے ہیں ۔یہ خاکے 1930-1940کے عرصے میں لکھے گئے ۔اس عرصے میں حمید اختر کی ملاقات جن با کمال شخصیات سے ہوئی ان کا احوال انھوں نے نہایت دیانت داری اور خلوص کے ساتھ تحریر کیا ہے ۔ان میں سے ساحر لدھیانوی ،سید سبط حسن ،ابن انشا،اخلاق احمد دہلوی ،ابراہیم جلیس، سید سجاد ظہیر ،کرشن چندر اور فیض احمد فیض کے خاکے نہایت بلند پایہ ہیں۔یہ خاکے تاریخ کا انتہائی معتبر اور مئوقر حوالہ ہیں ۔نام ور ادیب احمد سلیم نے حمید اختر کی سوانح عمری تحریر کی جسے لاہور کے ممتاز اشاعتی ادارے ’’بک ہوم ‘‘ نے 2010میں شائع کیا۔


     ان کی خاکہ نگاری ہر قسم کے تصنع سے پاک ہے انھوں نے شخصیا ت کو حقیقی روپ میں پیش کرکے ان کی زندگی کی صحیح عکاسی کی ہے۔ یہ تمام شخصیات روز مرہ زندگی میں فعال اور مستعد دکھائی دتیں ہیں ۔خاکہ نگاری  کے فن  کی مقتضیات سے وہ آگاہ تھے ان کے خاکو ں میں شخصیات زندگی کی حرکت و حرارت لیے جلوہ گر ہوتی ہیں  اور ایک جری تخلیق کا ر کی حیثیت سے حمید اختر نے انھیں مصنوعی رکھ  رکھائو اور وضع احتیاط سے بے نیاز کر کے اپنے اصلی روپ میں پیش کیا ہے ۔ کہیں بھی بھاری بھر کم عبا اور تصنع پر مبنی قبا دکھائی نہیں دیتی ۔ ان کا اسلوب ان کی حقیقت نگاری کا آئینہ دار ہے۔حمید اختر کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ 1857 کے سانحے کے بعد اس خطے کے لوگ ایک مستقل نوعیت کے احساس کم تری میں مبتلا  ہوگئے ہیں ۔ وہ احساس کم تری کو رفع کر کے اپنی تہذیبی و ثقافتی  میراث اور اسلاف کے کار ناموں کے حوالے سے ایک منفردروپ پرتوجہ مر کوز کرتے ہیں ۔ اسی لیے ان کا رجحان نیوراتیت کی جانب تھا۔ نیوراتیت دراصل احساس کمتری کا ازالہ کر کے احساس بر تری کی جانب تو جہ مبذول کرانے پر اصرار کرتی ہے ۔ دراصل وہ خود نیوراتی نہیں تھے ۔ وہ قوم کو ایک سطح فائقہ پر دیکھنے کے متمنی تھے ۔ یہی تمنا ان کے اسلوب میں نمایاں ہے۔


          حمید اختر نے اردو صحافت میں مولانا ظفر علی خان اور مولانا حسرت موہانی کا لہجہ ہمیشہ پیش نظر رکھا جو کہ ان کی تحریروں میں نمایاں ہے۔اپنی تحریروں میں حمید اختر ایک محب وطن ، بے باک اور ترقی پسند ادیب کی حیثیت  سے ابھرے ہیں  اور بڑے زوروں سے اپنے آپ کو منوایا ہے ۔ وہ ایک ایسے جری تخلیق کار ،زیرک  اور بے باک انسان ہیں  جو انسانی ہمدردی ،بے لوث محبت ،بے باک صداقت ،ایثار ،خلوص اور دردمندی کو حرز جاں بنا کر زندگی کے تلخ حقائق کی گرہ کشائی پر قادر ہے ۔ان کے اسلوب میں گہرے نفسیاتی شعور کی موجودگی قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے ۔خاص طور پر وہ اپنے کالم کے ذریعے منطقی نتائج کے حصول کی غرض سے استقرا(Induction)اور استخراج(Deduction)پر مبنی افادیت سے لبریز طریقوں کو رو بہ عمل لانے کی مقدور بھر سعی کرتے ہیں ۔ان کے اسلوب میں متن کی جامعیت اور افادیت کو کلیدی اہمیت حاصل ہے ۔ان کی فکر پرور تحریریں تخلیق اور اس کے لا شعوری محرکات کو ان کے حقیقی تناظر (Context)میں پیش کرتی ہیں ۔صورت حال کا یہ تناظر جسے وہ اپنی تحریروں کی اساس بناتے ہیں قلب اور روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی لا محدود اثر آفرینی سے متمتع ہے ۔وطن ،اہل وطن اور بنی نوع انسان کے ساتھ ان کی والہانہ محبت اور قلبی وابستگی اور ان  کے مسائل کے بارے میں ان کی تحریریں گہرے نفسیاتی شعور کی مظہر ہیں ۔ان کے مطالعہ سے قاری کو ایک جہان دیگر تک رسائی کی امید بندھتی دکھائی دیتی ہے ۔اس طرح وہ شکوہء ظلمت شب کے بجائے اپنے حصے کی شمع فروزاں کرنے پر توجہ دیتے ہیں ۔


     اردو ادب ،تاریخ ،صحافت اور ترقی پسندانہ شعور کے لیے اپنی زندگی وقف کر دینے والے اس نامور تخلیق کار کی زندگی شمع کی صور ت گزری ۔سفاک ظلمتوں میں ان کا وجو د ستارہ ء سحر کے مانند تھا ۔ان کی تحریریں دلوں کا ایک نیا ولولہ عطا کرتیں اور حوصلے و امید کا دامن تھا م کر سوئے منزل رواں دواں رہنے کی راہ دکھاتیں ۔انھوں نے اردو صحافت میں علی گڑھ تحریک کی مقصدیت کی عظیم روایت کو پروان چڑھانے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا ۔ان کا دبنگ لہجہ جبر کے ایوانوں پر لرزہ طاری کر دیتا ۔شعور اور اجتماعی لا شعور کے بارے میں ان کی تحریروں میں ایک منفرد شان جلوہ گر ہے ۔اپنی تحریروں میں حمید اختر ایک انسان دوست ، محب وطن ،بے باک اور روشن خیال ترقی پسند ادیب کی حیثیت سے ابھرے ہیں ۔ان کی تمام تحریریں گہرے نفسیاتی شعور کی آئینہ دار ہیں ۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ افکار و حوادث ،مسائل و مضمرات اور صورت حالات کاوہ تمام تناظر جسے وہ اپنی تحریروں میں جگہ دیتے ہیں اصل میں لا محدود اثر آفرینی کا حامل ہے ۔تحریروں میں گنجینہء معانی کا طلسم اسی تناظر کا مرہون منت ہے مگر اس تناظر کی وسعت لا محدود ہے ۔
 
        حمید اختر کی وفات سے تاریخ ادب کاایک درخشاں باب اپنے اختتام کو پہنچا۔تاریخ پاکستان کا ایک چشم دید گواہ  اور تحریک پاکستان کا سر گرم مسافر راہی ء ملک عدم ہو گیا۔ وہ تاریخ ،ادب ،فنون لطیفہ اور  اور عالمی سیاست کے ایک  ایسے ا نسائکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتے تھے جو جام جہاں نما کے مانند علم کے متلاشیوں کے لیے خضر راہ ثابت ہوتا ہے ۔انسانیت کے وقار اور عظمت کو اپنی لا زوال تحریروں سے

آسمان کی بلندیاں عطا کرنے والا تخلیق کار پیوند زمیں ہو گیا۔تنقید اور احتساب کے ذریعے مقتدر حلقوں کو آئینہ دکھانے والامحب وطن صحافی ہم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گیا۔تخلیق کی عظمت اور لفظ کی حرمت کے اس  

محافظ سے فرشتہ ء اجل نے قلم چھین لیا۔ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے پرورش لوح و قلم کو زندگی کا نصب العین بنانے والاحریت فکر کا مجاہد یہاں سے بہت دور چلا گیا جہاں سے کوئی کبھی واپس

نہیں آیا۔گل چین ازل نے گلشن ادب سے وہ پھول توڑ لیا جس کی عطر بیزی گزشتہ چھ عشرو ںسے چمن زار وطن کو مہکا رہی تھی ۔ان کے جانے سے وطن کے دیوارودر پر حسرت و یاس کا عالم ہے ۔جب تک دنیاباقی ہے ان کا نام زندہ رہے گا ۔حریت ضمیر سے جینے کی تمنا کرنے والوں کے لیے ان کا کردار لائق تقلید رہے گا۔ان کی زندگی دردمندوں اور ضعیفوں سے محبت کی شاندار مثال تھی ۔آلام روزگار کے مہیب پاٹوں میں پسنے والی مجبور ،مظلوم اور بے بس و لاچار انسانیت کے مسائل پر وہ تڑپ اٹھتے تھے ۔انھوں نے کئی ضرورت مندوں ،محتاجوں اور بے سہاروں کی مدد کے لیے اپنے کاموں کے ذریعے اہل درد سے اپیل کی اور اس کا مثبت رد عمل سامنے آیا۔اس طرح بے چراغ گھروں کے لیے ان کی آواز امید فردا کی شعاع اور طلوع صبح بہاراں کی نوید ثابت ہوئی ان کے کالم اخلاق اور اخلاص سے لبریز ہوتے تھے ۔پوری دنیا میں ان کی تحریروں کو توجہ سے پڑھا جاتا تھا ۔اپنی زندگی کے آخریر ایام میں بھی انھوں نے قلم و قرطاس سے اپنا تعلق بر قراررکھا ۔  مجلہ ادب لطیف لاہور کی مجلس ادارت نے اس سال کے آغاز میں  ان کے ساتھ ایک نشست کااہتمام کیا ۔اس یادگار محفل میں انھوں نے تاریخ کے متعدد واقعات کاچشم دیداحوال بیان کیا ۔کاش یہ گفتگو جس کی ریکارڈنگ موجود ہے اسے تحریری شکل میں سامنے لایا جا سکے ۔اس طرح مستقبل کے ادبی مورخ کو اپنے تحقیقی کام کی تکمیل میں مدد مل سکتی ہے  ۔انھوں نے اپنی وقیع تصانیف کال کوٹھڑی ،لا مکاں ،احوال دوستاں ،آشنائیاں کیاکیا  اوررودادانجمن کے ذریعے اردو ادب کی ثروت میں جو اضافہ کیا وہ تاریخ ادب میں آب زرسے لکھا جائے گا۔روداد انجمن ان کی ایک ایسی تاریخی تصنیف ہے جو انجمن ترقی پسند مصنفین ممبئی کی مختلف نشستوں کی روداد پر مشتمل ہے ۔ان کی وفات سے تاریخ کے مسلسل عمل کے بارے میں ایک عہد کا اختتام ہوا۔ان کی یاد میں بزم ادب مدت تک سوگواررہے گی ۔


 موت سے کس کو رستگاری ہے                    آج وہ کل ہماری باری ہے

Ghulam Shabbir
Naqad Pura   
Jhang City  

*************************

 

 

 

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 775