donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Gholam Shabbir Rana
Title :
   Saood Usmani - Aik Munfarid Usloob Ka Hamil shayar


سعود عثمانی :ایک منفرد اسلوب کا حامل شاعر


ڈاکٹر غلام شبیر رانا


        لاہور میں مقیم پاکستان کے ممتا ز شاعر سعود عثمانی گزشتہ تین عشروں سے پرورش لوح و قلم میں مصروف ہیں۔کتابیں ہی ان کا چمن ہیں اور ان کی اشاعت سے ان کا روزگار وابستہ ہے ۔اس باہمت تخلیق کار نے ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے  ہوئے  وہ تما کچھ صفحہ ء قرطاس پر منتقل کیا ہے جو اسے اہل دنیا نے تجربات،مشاہدات ،حادثات اور سانحات کی صورت میں دیا۔سعود عثمانی کے دو شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔انھیں ادبی حلقوں میں زبردست پذیرائی ملی۔پہلا  شعری مجموعہ ـ’’قوس‘‘ کے نام سے شائع ہوا اور دوسرے شعری مجموعے کا نما ’’بارش‘‘ ہے۔ان دونوں شعری مجموعوں  پر ادبی ایورارڈ ملے آج کا دور قحط الرجا ل کا دور کہلاتا ہے ۔زندگی کی اقدار عالیہ اور روایات کی زبوں حالی کسی سے پوشیدہ نہیں۔سیل زماں کے مہیب تھپیڑوں میں ماضی کا تہذیبی اور ثقافتی ورثہ بہہ گیا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی زندگی کی اجتماعی اقدار رو بہ زوال ہیں۔سچی بات تو یہ ہے کہ اس دنیا میں سکوں محال ہے اور جہاں تک ثبات کا تعلق ہے یہ تو محض تغیر کو حاصل ہے ۔اقدار و روایا میں رو نما ہونے والے پیہم تغیر و تبدل نے تخلیقی عمل کو بھی متاثر کیا ہے۔اسلوب بیان بھی اس سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔یہ  تغیر ایک فطری اور قابل فہم صورت میں سامنے آتا ہے۔سعود عثمانی کی شاعری میں عصری آگہی کا عنصر نمایاں ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ قلب اور روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی کے اعجاز سے یہ شاعری اذہان کی تطہیر و تنویر میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔اردو شاعری کو نیا آہنگ ،تخلیقی تنوع،منفرد اسلوب ،دلکش ڈسکورس ،ہمہ گیر مشاہدہ،آفاقی تجربات اور حریت فکر سے متمتع کرکے سعود عثمانی نے جو اہم خدمات انجام دی ہیں وہ تاریخ ادب میںہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔زندگی کی حقیقی معنویت کو اجاگر کر کے اس جری تخلیق کار نے جمود کا خاتمہ کرنے کی سعی کی ہے ۔اس کی تکلیقی فعالیت کے سوتے انسانی ہمدردی کے جذبات سے پھوٹتے ہیں۔

         سعود عثمانی تقلید کی روش سے دامن بچاتا ہوا اپنین لیے ایک جداگانہ اور منفرد لائحہء عمل تلاش کرتاہے۔ادبی روایت کو وہ ایک ایسے عمل سے تعبیر کرتا ہے جو زندگی کی تما حرکت و حرارت کا نقیب ہے۔یہ کائنا ت بادی النظر میں ہنوز تشنہء تکمیل ہے۔اس عالم آب و گل کے جملہ مظاہر سین یہ بات روز  روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ یہ جو دما دم صدائے کن فیکون سنائی دے رہی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ خوب سے خوب تر کی جستجو کا جو سلسلہ ازل سے جاری ہے وہ ابد تک جاری رہے گا۔ادبی روایات بھی زندگی کی تاب و تواں کی امین ہوتی ہیں۔سعود عثمانی کی شاعری میں زندگی کی اقدار عالیہ پوری قوت ،صداقت اور شدت کے ساتھ الفاظ کے قالب میں ڈھلتی چلی جاتی ہیں۔سعود عثمانی ایک وسیع المطالعہ تخلیق کار ہے۔اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ زمانے میں  محبت کے سوا اور بے شمار مسائل ہیں ۔اس کی شاعری میں مارکس اور اینگلز کے تصورات کا پرتو بھی ملتا ہے۔یہ ایک تلخ اور تند حقیقت ہے نکہ معاشرتی زندگی میں معیشت اور اقتصادی مسائل نے فکر و نظر کی کایا پلٹ دی ہے۔آج کا انسان حسیانائوں کی زلف گرہ گیر ،عشوے اور غمزے،لب لعلیں ،سیاہ چشمگی،چاہ زنخداںیا کمر سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔اس کے شعور اور لا شعور کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اسے سر چھپانے کو جھونپڑا اور پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے نان جویں درکار ہے۔معشت اور اقتصادیات کے تفکرات نے اسے نڈھال کر دیا ہے ۔سعود عثمانی نے اپنی شاعری میں ادب ،کلچر اور اسے متعلق مسائل مکا احوال نہایت حقیقت پسندانہ انداز میں کیا ہے۔اس نے پاکستانی ادب اور کلچر کو تاریخی تناظر میں دیکھنے کی سعی کی ہے۔وہ اس بات سے بہ خوبی آگاہ ہے کہ 1857کے سانحہ کے بعد یہاں کے عوام جن لرزہ خیز اعصاب شکن حالات اور قلزم خوں سے گزرے ان کے باعث یہاں تہذیبی انحطاط کی کیفیت پیدا ہو گئی۔آج ضرورت اس امرم کی ہے کہ مشرقی تہذیب کی باز یافت پر توجہ دی جائے۔کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ مو ہنجو دڑو، ہڑپہ ،ٹیکسلا اور ماتلی کے آثار قدیمہ اس خطے کے قدیم اور عظیم کلچر کے غماز ہیں ۔سعود عثمانی اپنی مٹی پر چلنے کا قرینہ خوب جانتا  ہے۔اسے معلوم ہے کہ مغڑب کی بھونڈی نقالی کی روش مہلک ہے اور اس سے تہذیبی اور ثقافتی سظح پر محرومی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔

      تخلیقی فعالیت سعود عثمانی کے ریشے ریشے میں سما گئی ہے۔بچپن میں اسے گھر میں جو علمی وا ادبی ماحول میسر آیا اس نے اس زیرک تخلیق کار کی خدادا صلاحیتوں کو صیقل کیا ۔ایک مستعد ،فعال اور صاحب بصیرت تخلیق کار کی حیثیت سے سعود عثمانی نے اپنے لیے جو طرز فغاں اختراع کی وہی آ خر کار اس کی پہچان بن گئی۔اس کا یہ اسلوب جو شرع میں تزکیہ نفس کا ایک وسیلہ تھا بعد میںاس کی عملی زندگی کا اہم ترین حصہ بن گیا ۔اس کی تحلیل نفسی کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ تخلیق ادب کے بغیر وہ سانس بھی نہیں لے سکتا۔وہ سچ کا پرستار ہے اور سچ لکھنے کے لیے اسے جو بھی ہرجانہ دینا پڑے اس کے لیے وہ ہمو وقت تیار رہتا ہے۔ہر ظالم  پہ لعنت بھیجنا اس کا شیوہ ہے۔اس کی چاہتیں اور محبتیں انسانیت کے مدار میں سرگرم سفر رہتی ہیں۔مظلوم کی حمایت اور ظالم کی مذمت میں وہ کبھی تامل نہیں کرتا۔وہٹھنڈے دل سے حالات کا تجزیہ کرتا ہے اور جب وہ کسی نتیجے پر پہنچ جاتا ہے تو تیشہ ء حرف سے فصیل جبر کہ ممنہدم کرنے میں مصروف ہو جاتاہے۔اگر حلقہء احباب ہو تو اس کی نرم دلی قابل دید ہوتی ہے مگر جب استحصالی عناصر کے مکر کی چالوں کی بات ہو تو وہشعلہ ء جوالا بن جاتا ہے ۔چند اشعار ملاحظہ ہوں؛

 عجیب ڈھنگ سے میں نے یہاں گزارہ کیا                کہ دل کو برف کیا،ذہن کو شرارہ کیا
 لوگ چکرائے ہوئے پھرتے ہیں گھر سے گھر تک     دور سے دیکھو تو ہر شہر بھنور لگتا ہے

وقت نظریں بھی پلٹ جاتا ہے اقدار کے ساتھ       دن بدلتے ہیں تو ہر عیب ہنر لگتا ہے

حجرے شکستہ دل ،در  و  دیوار دم بہ خود             آرام گاہ شاہ کے آثار دم بہ خود

 کھنڈر کے ذوق نمائش پہ دنگ ہوتا ہوا       میں دیکھتا رہاملبے پہ رنگ ہوتا ہوا

کسی کنارہء روشن کے انتظار میں لوگ       مگر سفر کوئی اندھی سرنگ ہوتا ہوا

 خوشیوں کی طلب نگر نگر تھی             دیکھا تو سبھی کی آنکھ تر تھی

 گل چیں کو خبر نہ تھی کہ خوشبو            رنگوں سے جدا بھی معتبر تھی


   مسلسل شکست دل کی وجہ سے ای حساس تخلیق کار کے دل پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ہمارا معاشرہ اس قدر ہوناک صورتاختیار کرتا چلا جاراہیکہ اسے معاشرتی زندگی کے تضادات،ارتعاشات،استحسال اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کی کوئی پروا ہی نہیں ۔ایک زندہ قوم کے لیے یہ بہت خطرناک اور برا شگون ہے۔معاشرہ ایسے حالات میں بے حسی کا نمونہ بن جاتا ہے ۔جب کوئی معاشرہ بے حسی کی لپیٹ میں آ جاتا ہے تو اس پر ترقی ،خوش حالی ،فلاح اور تہذیبی ترفع کے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔چلتے پھرتے ہوئے مردوں سے ملاقاتیں روز  کامعمول بن جاتا ہے ۔ہولناک حادثات کو دیکھ کر بھی لوگ ٹس سے مس نہیں ہوتے ۔ایک تخلیق کا ر کی جان پر دوہرا ؑزاب ہوتا ہے اسے ان جان لیوا حادثات کو دیکھنا بھیم ہوتا ہے اور اس کے بعد ان کے گمبھیر اثڑات کے بارے میں سوچنا بھی ہوتا ہے۔آج کے دور  میں ای حساس تخلیقی فن کار کا کوئی پرسان حال نہیں۔زندگی ایک جبر مسلسل کی صورت اختیار کرتی چلی جارہی ہے۔ظالم و سفاک ،موذی و مکار استحصالی عناصرنے اپنے مکر کی چالوں سے عوام پر عرصہء حیات تنگ کر دیا ہے انسانیت کی توہین ،تذلیل ،تضحیک اور بے توقیری کے روح فرسا واقعات سامنے آتے ہیں۔ایک طرف تو سقراط اور برونو(BRUNO) جیسے لوگ معاشری بے حسی کی زد میں آ جاتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ٹرپن(Turpin)اور بو ٹملے (Bottomley)بھی بے مہریء عالم کے شاکی رہتے ہیں۔دور کیوں جائیں  خود ہمارے ہاں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی مثال موجود ہے ۔جب بھی مکوئی معاشرہ بے حسیم کا شکار ہو جاتا ہے تو احسان فراموشی اور محسن کشی کے المنات واقعات سامنے آتے ہپیں۔سعود عثامنی کی شاعری میں معاشرتی زندگی کی اس بوالعجبی کی کیفیات نہایت خلوص اور دردمندی مسے بیان کی گئی ہیں۔

شب فراق میں اک ہاتھ دل کے پاس آیا              ہجوم درد میںیہ  کون دل کے پاس آیا

 رتوں نے جیسے دلوں سے مطابقت کرلی               سکوں کی فصل کٹی موسم ہراس آیا

نکل چکا جو فضائوں میں اس کا زعم دروں              غبارہ لوٹ کے اپنی زمیں کے پاس آیا

چاند آنکھوں سے رگ و پے میںاتر جاتا ہے       شب کا منظر مجھے بے خواب سا کر جاتا ہے

 جب بھی یادوں کی مہک آتی ہے میں سوچتا ہوں    وقت پھولوں کی طرح کھل کے بکھر جاتا ہے

 کشت ویراں کبھی سیراب نہیں ہو پاتی                    جی امنڈتا ہے تو پل بھر میں ٹھہر جاتا ہے

کبھی سسراب کرے گا ،کبھی غبار کرے گا                  یہ دشت جاں ہے میاں یہ کہاں قرار کرے گا

 ابھی یہ بیج کے مانند پھوٹتا ہوا دکھ ہے                   بہت دنوں میں کوئی شکل اختیار کرے گا

       ایک زیرک ،مستعد ،فعال اور منفرد اسلوب کے حامل جری تخلیق کار کی حیثیت سے سعود عثمانی نے اپنی شاعری کے ذریعے حقائق کی صورت گری پر بھر پور توجہ دی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے اس کی شاعری محض جذبات ،احسات اور تجربات کے نمدار میں سر گرم سفر نہیں رہتی بلکہ ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی کے مصداق اس سے گریز کر کے اپنے لیے نیادھنک رنگ منظر نامہ منصہء شہود پر لاتی ہے۔اس کی ژخصیت اس شاعری میں جلوگ گر نہیں ۔اس کے خیالات کا محور انسانیت کے مسائل ہیں۔وہ خود پس منظر میں رہتے ہوئے تمام پیش منظڑ کی دلکش لفظی مرقع نگاری کرتا ہے اس کے صریر خامہ کو نوائے سروش کی حیثیت حاصل ہے۔اس کی دلکش شخصیت اور سچے جذبات اس پر تاثیر انداز میں جلوہ گر مہوتے ہیں کہ قاری پر ایک وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔سارے جہاں کا درد اس یگانہء روزگار تخلیق کار کے جگر میں سمٹ آتا ہے ۔اس  کا خیال ہے کہ انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی جد جہد میں ایک با ضمیر تخلیق کار کیم مقدور بھر شرکت اقتضائے وقت کے عین مطابق ہے ۔اسے تاریخ اور اس کے مسلس عمل سے گہری دلچسپی ہے ۔اس کا مطمح نظر حرف صداقت لکھنا ہے۔حالات خواہ کوئی رخ اختیار کریں ،سعود عثمانی نے ہمیشہ حالات و وقعات کی سچی تصویر پیش کر کے جریدہء عالم پر اپنا دوام ثبت کر دیا ہے ۔سعود عثمانی کی شاعری میں کوئی ابہام کہیں نہیں پایا جاتا۔ابہام  اس وقت پیداہوتا ہے جب ایک تخلیق کار تذبذب اور گو مگو کی کیفیت میں مبتلا ہو جائے ۔مصلحت اندیشی کو شعار بنالیا جائے اور حرف صداقت لکھنے کے بجائے منافقت سے کا م لیتے ہوئے ابن الوقت عناصر کی صف می نشامل ہو کر چڑھتے سرج کا پجاری بن کر ذاتی مفادات کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا کوئی مو قع ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے ۔اس کے اشعار میں کہیں بھی ذ و معنی الفاظ نہیں ملتے ۔وہ مطالب ،مفاہیم اور مدعا کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیشکرنے کا عادی نہیں۔اس کی شاعری کا اقیک افادی پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اپنی شاعری کے ذریعے اس استحصالی معاشرے سے کچھ بھیحاصل کرنے کا آرزومند نہیں۔اس کی سوچ اور خیالات اٹل ہین ۔وہ کہیں بھی تحریص و ترغیب کی زد میں نہیں آتا ۔حریت ضمیر سے زندگی بسر کرنا اس کا شیوہ ہے ۔اس کے اشعار اس کے بلند نصب العین کے آئینہ دار ہیں۔

سفر قیام مرا خواب جستجو میری                         بہت عجیب ہے دنیائے رنگ و بو میری

زمیںکی سانولی مٹی کے انتخاب سے قبل         کشش بہت تھی عناصر کو چار سو میری

 کشیدہ پر کو مخالف ہوا بھی ملتی ہے              یہ وہ ہنر ہے کہ جس کی سزا بھی ملتی ہے

 یہ سیپیوں کی خموشی ہے کان دھر کے سنو         سمندروں کی اسی میں صدا بھی ملتی ہے

تو جانتا نہیں مٹی کی برکتیں کہ یہیں                    خدا بھی ملتا ہے ،خلق خدا بھی ملتی ہے

 عجب خجالت جاں ہے نظر میں آئی ہوئی               کہ جیسے زخم کی تقریب رونمائی ہوئی

 برون خاک فقط چند ٹھییکرے ہیں مگر                  یہاں سے شہر ملیں گے اگر کھدائی ہوئی

       جب تک شاعری کے جذبے کو ایک ایسے فن کے طور پر نہ تسلیم کر لیا جائے جو کہ مکمل طور پر غیرشخصی نوعیت کا ہے اس وقت تک شاعری کی اثر آفرین کے بارے میں ابہام موجود رہے گا۔سعود عثمانی نمود و نمائش کا قائل نہیں ۔تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کے رگ سنگ میں اترنا ہمیشہ اس کا نصب العین رہا ہے ۔اسکا خیال ہے کہ اس کے اشعار ہی اس کی معنوی اولاد ہیں وہ ان کے مقابلے میں دنیا کی ہر چیز بلکہ

اپنی ذات کو بھی کم مایہ خیال کرتا ہے ۔اس وسیع و عریض عالم آب و گل میں فرد کی جو حیثیت ہے وہ اس سے بہ خوبی واقف ہے ۔اسے اس بات کا ادراک ہے کہ ماضی ،حال اور مستقبل کا آپس میں گہرا تعلق ہے ۔وہ ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کر کے اس حقیقت کا شعور پیدا کرتاہے کہ زمانہ حال کے تمام واقعات کے راز ماضی معدن میں پوشیدہ ہیں ۔اپنی شاعری میں اس نے ایام گزشتہ اور زمانہء حال کو اس طرح

باہم مربوط کر دیا ہے کہ عصری آگہی کے تمام پہلو کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔شاعر رنگیں نوا کو قوم کی دیدء بینا کی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔سعود صدیقی ایک زب بیدار صوفی کے مانند ہمو وقت جاگ کر مسائل زیست کاادراک کرتا ہے ۔اس کے اشعار مین زندگی کی حقیقی معنیت سمٹ آئی ہے ۔وہ  عام لوگوں سے زیادہ دردمندی اور خلوص سے کام لیتے ہوئے مسائل زیست کے بارے میںمثبت شعور وآگہی پروان چڑھانے کی سعی کرتا ہے سعود صدیق درد آشنا بھی ہے اور حیات آشنا بھی۔وہ اپنے افکار کی جو لانیوں سے ید بیضا کا معجزہ دکھاتا ہے اپنے دور کے حالات کے بارے میں وہ کوئی لگی لپٹی نہیں رکھتا۔

 اس پیڑ کا عجیب ہی ناتا تھا دھوپ سے           خود دھوپ میں تھا  سب کو بچاتا تھا دھوپ سے

 ابر رواں سے آب رواں پر وہ نقش گر                    منظر طرح طرح کے بناتا تھا دھوپ سے

 وہ شیشہء ہنر مجھے بچپن سے یاد ہے                اک پل میں سات رنگ بناتا تھا دھوپ سے

 نہ گل رہے نہ کبھی کوئی شاہ پارہ بنے                سو حق تو یہ ہے کہ اب چاک بھی دوبارہ بنے

 عجیب فیصلہ تھا روشنی کے خالق کا                       کہ جو دیا بھی نہیں تھا وہی ستارہ بنے

 یہ کیسے لوگ ہیں مٹی  کی لاٹھیوں کی طرح             نہ خود بنے نہ کسی اور کا سہار بنے

     اگر ہم سعودعثمانی کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ کریں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ وہ موجوعات کے بارے میں محض تجریدی بیان پر انحصار نہیں کرتا۔زندگی کے جملہ زیر وبم اور معاشرے کے تمام نشیب و فرازاس کی شاعری میں سمٹ آئے ہیں ۔نفسایتی اعتبار سے اس ذہیں شاعر نے معاشرے کے ہر لمحہ بدلتے ہوئے حرکیاتی مکردار کو بہ طریق احسن اپنی شاعری میں جگہ دی ہے ۔اس طرح ایک اجتماعی جذبہفکر و نظر کو مہمیز کرتا ہے جو تخلیق کار کا امتیازی وصف قرار دیا جا سکتا ہے۔اس کی شاعری میں حقائق کی صورت گری کا جو ارفع معیار موجود ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔اس کے فن میں جزئیات کا مطالعہ قابل توجہ ہے ۔وہ  زندگی کے تمام موسموں کی تسچی تصویر پیش کرتا ہے ۔اس کی انسان دوستی اس کی شاعری میں صاف  دکھائی دیتی ہے ۔جس معاشرے میں لوٹے اور لٹیرے ،مسخرے اور مفاد پرست  ہر وقت ضمیر فروشی کے لیے ادھار کھائے بیٹھے ہوں وہاں عزت نفس کا تصور عی عبث ہے ۔سعود عثمانی نے اس الم ناک صور حال کے بارے میں لکھا ہے ۔

ہر شخص وہاں بکنے کو تیار لگے تھا                    وہ شہر سے بڑھ کر کوئی بازار لگے تھا

 ویرانی کا مسکن ہے بلاشرکت غیرے               وہ قصر جہاں شاہ کا دربار لگے تھا

 بادل کی طرح  رنج فشانی کریں ہم بھی             شاید کبھی اس آگ کو پانی کریں ہم بھی

 بس ایک سلسہء بیش و کم لگا ہوا ہے                 وگرنہ سب کو یہاں کوئی غم لگا ہوا ہے

       سعود عثمانی نے جس فنی مہارتے سے کام لیتے ہوئے زندگی اور اس کی معنویت کے بارے میں نئے تصورات کی جستجو کی ہے وہ قابل تحسین ہے ۔یہ شاعری قاری کو حریت فکر،حریت ضمیر سے جینے اور آزادیء اظہار کے متعلق ایک منفرد پہلو سے آشنا کرتی ہے ۔سعود عثمانی نے ان تمام عوامل کی نشان دہی کی ہے جو ہو چکے ہیں یا جن کا وقع پذیر ہونا بعید از قیاس نہیں ۔اسے اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ کہ نئی نسل کو بے حسی نے نا اہلی ،کام چوری اور تن آسانی کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ االمیہ یہ ہوا ہے کہ نئی نسل کے دل سے احساس زیاں عنقا ہو گیا ہے ۔اس کے دیدہ و دل کو جن مراحل سے گزرنا پڑا ہے ان کا احوال اس نے پوری دیانت داری سے بیان کیا ہے ۔اسے اس بات کا قلق ہے کہ حالات نے ایسا رخ اختیار کر لیا ہے کہ نہ تو سحر کے کوئی آثار دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی زندگی کی کوئی آس رہ گئی ہے۔ان حالات میں مجبور ،مظلوم اور بے بس انسانوں کی کوئی امید بر نہیں ااٹی اور نہ ہی اس گرداب سے بچ نکلنے کی کوئی صور ت نظر آتی ہے ۔شہر ستم میں وصل خزاں کے بعد جانگسل تنہائی ہمار مقدر ہے۔سعود عثمانی ہمارے عہد کا ایک نمائندہ شاعر ہے جس نے ہوائے جورو ستم میں بھی رخ وفا کو فروزاں رکھا ہوا ہے اس شہر خفتگاں میں اس کی شاعری صحرا کی اذان کے مانند ہے ۔اس کے سخن میں وہ حسن بیان ہے کہ پتھروں سے اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتی ہے ۔اس جری شاعر نے اپنی شاعری کے ذریعے ایک اجتماعی سوچ کو پروان چڑھایا ہے جس کے معجز نما اثر سیحیات انسانی کی لاشعوری کیفیات ،مسائل زیست کی اس انداز میإ مرقع نگاری کی گئی ہے کہ قاری بے اختیار پکار اٹھتا ہے کہ اے مصور تیرے ہاتھوں کی بلائیں لے لوں۔اس شاعری کی اہم ترین خوبی یہ ہے کہ اس میں تہذیبی ترفع پر توجہ دی گئی ہے۔زندگی کی اہمیت ،انسانی ہمدردی کی افادیت اور اجتماعی شعور کی بیداری کے بارے میں سعود عثمانی کا لہجہ ایک منفرد انداز میں سامنے آیاہے۔اس سے مستقبل میں متعدد نئے امکانات وابستہ ہیں۔مقصدیہت،دلچسپی اور افادیت سے لبریز اس شاعری کا مستقبل بہت روشن

ہے ۔مجھے یقین ہے قارئین ادب اس شاعری سے مسرت حاصل کریں گے۔

 

Dr.Ghulam Shabbir Rana, Sargodha Road Jhang City.Post Code 35204.
Contacts:Phone : 0477622002/0477009370 Cell:  03336732755
Email.drghulamshabbirrana@yahoo.com/drghulamshabbirrana@hotmail.com/profdrghulamshabbirrana@gmail.com

 


*************************************

Comments


Login

You are Visitor Number : 677