donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Imam Azam
Title :
   Dr.Syed Taqi Abdi : Iqbal aur Ghalib Ke Makhfi Goshe


ڈاکٹر سید تقی عابدی:اقبال اورغالب کے مخفی گوشے
 
گیسوئے تحریر:ڈاکٹرامام اعظم
 
ڈاکٹرسید تقی عابدی اردوکے معروف ومعتبرشاعر، نقاد، محقق اور دانشورہیں۔ ان کی کئی معرکۃ الآرا کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں اور دادوتحسین وصول کررہی ہیں۔ پیشہ سے ماہر امراض قلب ہیں لیکن تحقیق سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ تحقیق کرناعرق ریزی کاکام ہے۔ تحقیق میں صرف منطق اور استدلال سے کام نہیں چلتا ہے۔ تحقیق میں حقیقت کیلئے ثبوت فراہم کرناپڑتاہے۔ اورثبوت فراہم کرناجوئے شیرلانے کے مترادف ہے۔ کینیڈامیں رہ کریہ اور بھی مشکل کام ہے۔ پورے برصغیرمیں سیدتقی عابدی کے تحقیقی کارنامے بڑی وقعت اوراعتباررکھتے ہیں اور بعضوں کودیکھ کرتواہل نظرواہل قلم کی آنکھیں کھلی کھلی رہ جاتی ہیں۔ فروعی اورغیر ضروری باتوں سے ناطہ جوڑکر کوئی بات طے کرلینا اور بھونڈی دلیلوں سے منوانے کی کوشش کرنا ایک عام سی بات ہے۔ لیکن عرق ریزی کرکے سند کے ساتھ کوئی نئی بات پیش کرنا اور ندرت کے ایسے پہلوکھوج نکالنا جہاں تک عام افراد کی رسائی مشکل ہوایک ایماندار شخص کاکام ہے۔
اقبال سے متعلق ان کی تحقیقی کتاب’’چوں مرگ آید‘‘ہے جس میں علامہ اقبال کی زندگی کے آخری ایام، ان کی علالت اور ان کی تشخیص ،طب سے واقفیت ،جدیدایلوپیتھی سے استفادہ اور دیگر مخفی پہلوئوں کو اس کتاب میں اجاگر کیاگیاہے۔ اس سلسلہ کی وہ تمام باتیں جوغیر مستندتھیں ان کوردکیا گیا ہے سیدتقی عابدی چوںکہ خود بھی سرجن ہیں، بیماری اور اس کی علامتوں کےاثرات نیزاس کے دفعیہ کی صورتوں سے واقف ہیں اس لیے ایسی باتیں جومحض اقبال سے اپنی قربت ثابت کرنے کی کوشش میں علامہ سے منسوب کردی گئی ہیںان پر بے لاگ تبصرہ بھی کیاہے۔ چند اقتباسات یہاں نقل کررہاہوں:
 
’’ہم یہاں پر عادلانہ قضاوت کرکے یہ بتانے کی کوشش کریںگے کہ اگر یہ
کوتاہیاںعلاج کے راستے میں حائل نہ ہوتیں توعلامہ کاعلاج شایدکامیاب رہتا 
اوریہ چراغ جوبقول خود اقبال ،باپرستاران شب دارم ستیزم، ظلمت اور
اندھیراپھیلانے والوں سے لڑرہاتھا اورکچھ مدت اپنی روشنی سے فیض پہنچاتا‘‘
’’عنوان:تشخص اورعلاج کوتاہیاں۔ص:۱۱۰‘‘
’’ایسالگتاہے چڑیاکومارنے کیلئے توپ استعمال کی گئی ۔چنانچہ چڑیاتو
 
اڑگئی لیکن دیوار گرگئی۔ بھوپال میں تین برقی کورس جسے علامہ نے اپنے خط Ultra Violet Raysکاغسل لکھا ہے غیر ضروری اگر نہیں توضروری بھی نہیںتھے۔ یہاں علامہ کی زندگی اور موت کاسوال نہ تھا اس غیر کنٹرول ابتدائی برقی اکسپوژرکے کئی مضمرات ضرور ہوئے ہوں گے۔ اگرچہ علاج کے بعد آوازٹھیک نہ ہوئی لیکن علامہ کا چہرہ زرد، چہرے پر کبھی کبھارروم ،ضعف اور دمہ قلبی کااثر نمایاں اور زیادہ ہوگیا شاید اس علاج نے ہڈیوں پر اثرکرکے خون کوجلادیا ہو اور اورعلامہ کم خونی Anemiaسے دوچار ہوگئے ہوں جس کامنفی اثر پھیپھڑوں اور قلب پرپڑا ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کمزور پھپھڑوں کوبرقی علاج کی وجہ سے نقصان پہونچا اور وہ سخت ہوکر پھیلنے اور سکڑنے کی کیفیت کوکھوچکے ہیں۔ اس علت کو Pulmonary Fibrosisکہتے ہیں جو Radiation کے مضراثرات میں شامل ہے۔
’’کہتے ہیں بڑے آدمی کی چھوٹی بات بھی بڑی ہوتی ہے۔ جیساکہ مختلف خطوں میں خودعلامہ نے لکھاکہ لوگ میری بیماری میں اس لئے دلچسپی لے رہے ہیں کہ تاکہ وہ دیکھیں ڈاکٹروں کوکب شکست ہوتی ہے یعنی ایلوپیتھک انگریزی دوائوں کوطبی یونانی دوائوں سے کب شکست ہوتی ہے نیویارک کے ممتاز طبیب اور شاعر ڈاکٹر عبدالرحمن عبدجوعلامہ اقبال سے والہانہ محبت کرتے ہیں مجھے ایک کتابچہ کی فوٹوکاپی روانہ کی جسے انہوں نے حکیم نابینا کے نبیرہ ڈاکٹرانصاری صاحب سے حاصل کی جن کے ہم مشکورہیں جس میں روح الذہب کے معجزہ نما خواص پرگفتگوکی گئی ہےکہ یہ نسخہ پانچ ہزار سال قدیم ہے جس میں سونے کوبطوردوا استعمال کیاگیاہے۔ اس کتابچہ کے صفحات۳۰،اور۳۱پرمزیدلکھاہے کہ افتخارقوم وملت علامہ اقبال مرحوم اعلیٰ اللہ مقامہ کے بائیں گردے میں اس قدربڑی پتھری تھی کہ ایکس ریزدیکھ کرڈاکٹروں کاخیال تھا کہ گروہ اس کی ضخامت کی تاب نہ لاکر پھٹ جائے گا اور آپریشن اس کیلئے محال بتایاگیا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کو عرصے سے قلبی عارضہ تھا۔ روح الذہب کے استعمال سے صرف۲۴گھنٹے میں پتھری بلاتکلیف ریزہ ریزہ ہوکر پیشاب سے خارج ہوگئی۔ راقم نے درد گروہ Renal Colicکے بیان میں اس پر گفتگو کی اس قسم کے معجزات کوجدیدطب قبول نہیں کرتی۔
 
یہ ایساکام ہے جوتحقیقی ہونے کے باوجود الفاظ کی بازیگری سے احتراز کرتے ہوئے سامنے لایا گیا ہے جس سے اردو دنیا ناواقف تھی۔ یہ تحقیق اقبال سے متعلق اور اقبال کی زندگی کے اہم پہلوئوں کو اجاگرکرتی ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ اقبال کتنے زبردست قوت ارادی کے مالک تھے۔ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہے لیکن دنیا وی طریقوں اورعلمی بصیرت سے اس کی مدافعت کرنے کی کوشش نہ چھوڑی ۔ ان کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آیا اورزندگی کے آخری دورمیں بھی وہ دینی اور ملی جذبہ سے سرشار رہے۔
 
پیش نظردوسری کتاب بنام’غالب:دیوان نعت ومنقبت ‘‘بھی خاص تحقیقی نوعیت کی ہے۔ میرے خیال میں غالب دنیائے شاعری میں اردو دیوان کی بدولت غالب ہوئے اس لئے عام طور پر غالب شہنشاہ غزل کے طور پر جانے جاتے ہیں لیکن غالباًپہلی بارڈاکٹر سیدتقی عابدی نے اردو فارسی دونوں زبان میں غالب کی حمد، نعت منقبت ومرثیے کادیوان مرتب کیاہے اور اس پرناقدانہ نظرڈال کرقدرمعین کیاہے اس سلسلہ میں مجھے یہ کہنا ہے کہ ایسی کتاب برصغیرمیں اب تک موجود نہیں جس میں غالب کے حمدیہ نعتیہ اشعار، مرثیے اور منقبت پر علیحدہ سے بحث کی گئی ہو۔ دنیا کے سامنے غالب کوہمیشہ ایک غزل گوشاعرکی حیثیت سے ہی پیش کیاگیا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ تنکنائے غزل کے شکوے کامداواغالب نے غزل کے کینوس کووسیع کرکے کیا۔ اسی طرح غالب کے دست قدرت میں مذکورہ اضاف نے بھی خوب گل کھلائے ہیں۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے فن، جذبہ عقیدہ مسلک ، مذہب اورمحبت پرپہلوکاناقدانہ ومحققانہ جائزہ لیاہے جواردو تحقیق میں ایک گرانقدراضافہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایاکہ غالب بھی معتقدمیرتھے اور اس ضمن میں ڈاکٹر عابدی نے غالب کی غزل پر غالب ہوتے ہوئے بھی میرسے مغلوب کیوں ہیں؟انتہائی دلچسپ اورمعلومات افزامباحثہ پیش کیاہے۔
 
’’ہم نے اس مضمون میں غالب کی مشہورغزل ،نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر
کاکومنتخب کرکے اسی بحر، ردیف اور قافیہ میں کہی گئی چار متقدمین کی غزل سے
مقالیہ کیاہے جوادب کے طالب علموں کے لئے دلچسپی کاباعث ہوگا۔ غالب کی 
اس غزل میں جوان کے دیوان کی سب سے پہلی غزل قراردی گئی ہے، صرف
پانچ اشعارہیں جن کے چھ مصرعوںمیں قافیے تحریرتصویر، شیر، شمشیر، تقریراور زنجیر
باندھے گئے ہیں،ایک ہی بحرمیں ہم قافیہ اور ردیف اشعار کامقاسیہ اس لئے 
دلچسپ ہے کہ مختلف عظیم شعراء کی قوت تخیل اور فن تغزل کو کسی حدتک ایک ہی معیار
پرتولاجاسکے۔
ظاہرہے ہربڑے شاعرکی زمین میں اسے عمدہ غزل کہنے کی روایت قدیم ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتاہے غالب نے اس روایت کوجاری رکھا۔ لیکن سب سے بڑی چونکادینے والی بات سیدتقی عابدی نے یہ کہی ہے کہ جب Paradise Lostجوخالص عیسائی عقیدہ کی تشریح پرمبنی ہے لکھ کر ملٹن عالمی شعروادب کاعظیم شاعرانہ عظمت کومجروح کرنے کی کوشش کی گئی ہے آخر غالب کے مذہبی عقیدے اگراس کے اشعارمیں موجودہیں تواس کوہائی لائٹ کرنے میں اردو کے محققین کوکیا دشواری تھی۔ اس لئے سیدتقی عابدی نے اپنایہ فرض منصبی سمجھا کہ وہ غالب کے مذہی عاقئد اور شعری پیرائیہ اظہار جس سے ان کامسلکی تعلق اور عقیدت کاپتہ چلتاہے اسے پیش کیاجائے اور ان کی شاعرانہ عظمت کواجاگرکیاجائے۔ یہ ایک معرکۃ الآراتصنیف ہے اور اردو تحقیق میں ایک گرانقدراضافہ ہے۔
 
اس تصنیف کی بابت خودڈاکٹر سیدتقی عابدی نے لکھاہے کہ:
’’سچ تو یہ ہے کہ حق ادانہ ہوا۔ غالب کی نعت ومنقبت کے بارے میں اجمالی گفتگو کرنا حقیقت میں بحربیکراں کوکوز ے میں بندکرنے سے کم نہیں پھر بھی اس سنگِ گراں کومیں نے تگ وتنہابلند کرکے محراب عشق پر جمادیاہے۔ راقم نے بعض مقامات پر خود فارسی اشعارکاترجمہ کیا اور بعض مقامات پر اگر عمدہ فارسی ترجمہ حاصل ہواتو شکریہ کے ساتھ اس بیاض عشق میں شامل کیا تاکہ میرامقصداور ان علمائے ادب کے کام کی قدردانی ہوسکے۔ اس کتاب میں مرحوم ڈاکٹرظ۔انصاری ،مرحوم عبدالباری آسی کے ترجموں کے ساتھ ساتھ آنجہانی کالی داس گپتارضاکے مقدمہ کے اقتباس کوبھی شامل کیاگیاہے۔
سیدتقی عابدی ایک بصیرت افروز،ایماندار اورمستندمحقق کی صف میں کھڑے ہیں۔ان کاکوئی بیان محض قیاس آرائیوںپرمبنی نہیںہے۔ تحقیق کے جملہ شرائط کانفاذوہ اپنے تحقیق کاموں میں کرتے ہیں اور بہت ہی عرق ریزی کے ساتھ بقول غالب:
کاوِکاوِسخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرناشام کالاناہے جوئے شیرکا
توجوئے شیرلانے سے کم یہ تحقیقی کارنامے نہیںہیں۔
 
***********************
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 684