donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Imam Azam
Title :
   Prof.Md.Hasan Ka Markxi Nuqta Nazar


پروفیسر محمدحسن کامارکسی نقطۂ نظر
 
گیسوئے تحریر:ڈاکٹرامام اعظم
 
پروفیسرمحمد حسن کے انتقال کی خبرسن کرمجھے وہ دن یاد آئے جب وہ خدابخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ کے زیراہتمام اردوریسرچ کانگریس دوم ’’۳۱؍جنوری۔۲؍فروری ۱۹۸۸ء میں شرکت کے لئے آئے تھے۔ وہاں مجھے بھی ان سے قریب آنے کااتفاق ہوا۔ وہ ادب اور زندگی کو اس پیرائے میں دیکھتے تھے جس کااندازہ اس وقت ہوا جب انہوں نے مجھے دیئے ہوئے آٹوگراف میں یہ فقرہ تحریر کیا۔
 
خواب دیکھنااوران کی تعبیریں
ڈھونڈھنازندگی کے ارتقاکی ضمانت ہے
محمد حسن
پٹنہ۲؍فروری ۱۹۸۸
 
خواب دیکھنا اور ان کی تعبیریں ڈھونڈنازندگی کے ارتقاکی ضمانت ہے۔ محمدحسن،۲فروری ۱۹۸۸ء ادواربدلتے گئے اورمحمدحسن نے دور کے حساب سے اپنے کمٹمنٹ سے کمپرومائز نہیں کیا ۔وہ مارکسی نظریہ کی نہ صرف وکالت کرتے تھے بلکہ اس نظریہ کی جزئیات تک سے واقف کرانے کی کوشش کرتے تھے۔ مارکسی نظریہ کے سلسلہ میں بہت سارے مغالطے بھی اردو میں تھے اور مکمل مادہ پرستی کوہی مارکسی نظریہ مانا جاتاتھا لیکن محمدحسن نے بہت ہی گہرائی سے مارکس کے نظریہ کوادب پراطلاق کرنے کی کوشش اپنی تنقیدی وتخلیقی عمل میں کیا۔ انہوں نے مارکسی نظریہ کے تھیس اور انٹی تھیس اور سنتھیسس کے پورے مرحلہ کی وکالت کی۔ اس سے محمد حسن بہت ہیDilutedطریقے سے اپنے تنقیدی رویہ میں بتانے اور پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ مارکس کے جدلیاتی نظریہ کوادب پر منطبق کرنے کیلئے انہوں نے یہ بھی بتانے کی کوشش کی کہ خواب ،تخئیل ،احساسات، کیفیات اور نفسیات جس کامادی وجودچھوکر نہیں دیکھا جاسکتا ۔ دراصل کسی مادی وجود سے ہی یہ وجود میں آتے ہیں۔ اس لئے اسے ماورائی اور ایسی شئے نہیں تسلیم کرناچاہئے جس کا سرے سے وجود نہیں ہے۔انہوںنے نسلیات کی برتری کی بھی ردوکدکی ہے اور بتایاہے کہ ہیری ڈٹری فیکٹرپرمعاشرتی عناصر پوری شخصیت کی تعمیروتشکیل میں حاوی ہوجاتے ہیں اور ایسی صورت میں اس طرح کے فریب میں رہنامہلک ہے۔
 
محمدحسن نے معاشرہ کی بنیادی ضرورتیں یعنی مادی ضرورتوں کی طرف خصوصی توجہ دی ہے جس میں داخلی اورخارجی پہلونمایاںہے، اس کے بغیر سماج میں ہیجان کی کیفیت رہتی ہے اور ایک جدوجہدکاسلسلہ شروع ہوجاتاہے۔ اس لئے شخصیت کی تعمیر میں یکساں مواقع اگر فراہم نہیں کئے گئے توانصاف کے خلاف اورنابرابری کوجنم دینے میں یہ ضرورتیں مددکرتی ہیں۔ پروفیسرمحمد حسن ایک ایسے تنقیدنگارہیں جنہوں نے اشتراکی بنیادکوتنقیدی پیمانے کیلئے لازمی وضروری ہی قرارنہیں دیابلکہ فارم کے مقابلہ میں Contentکی اہمیت کسی تخلیق کیلئے اس کی روح مانا۔ محض لفظی کھیل وتماشے اورذائقہ زبان کے لئے تخلیقی عمل سے گذرنا ایک بے معنی عمل ہے۔ چوں کہ شاعراور ادیب بھی سماج کے اندر جیتا ہے اور اس کا پروردہ ہے اس لئے وہ جو کچھ بھی حاصل کرتاہے معاشرہ سے حاصل کرتاہے جس چیز کوپسندیاناپسندکرتاہے اس کاتعلق سماجی زندگی سے ہوتاہے۔ اس لئے فنکارکی ذمہ داری ہوتی ہے کہ سماج کے اندرہونے والی ناانصافیوں سے پردہ اٹھائے اور کمزوروں اور دبے چلوں کی آوازبن جائے۔
 
پروفیسر محمد ھسن نے جو کچھ اردو ادب کودیاوہ ان کی معاشرتی ذمہ داری تھی۔ آپ اس سے اتفاق کریں یانہ کریں لیکن عوام سے ادب کارشتہ بالواسطہ یا بلاواسطہ عمومی طورپر ہوتا ہے اور اسے نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔ اس لئے محمد حسن کی اس سچائی سے کوئی انکارنہیں کرسکتا۔ زندگی دائرہ میں قید کیوں نہ ہوجائے مگر معاشرہ اور گردوپیش سے اثرانداز ہوتی رہی ہے۔ طبقاتی جدوجہداور سماجی عدم مساوات پران کانقطہ نظر واضح تھا۔ ادب کی تخلیق کی سماجی صارت حال پر محمد حسن نے اپنی رائے اس طرح دی ہے ادب افراد کے جذبات وافکار کی داستان ہے اور افراد کے جذبات وافکار کی تعمیر وتشکیل بہت کچھ ماحول کے ہاتھوںہوتی ہے۔ہردورکاماحول بنیادی طورپر اس دورکے اقتصادی اورمعاشی نظام کاتابع ہوتاہے۔ اور اسی بنیاد پراس کے ساسی فکری اورتہذیبی اقدار کارنگ محل تعمیر ہوتاہے۔ اس دورکے اقتصادی اور معاشی زندگی کے جائزے سے طاہر ہوچکا ہے کہ اقتصادی نظام ایک بحران میں مبتلا تھا جس زرعی نظام پر ہماری معیشت کی بنیاد کی تھی وہ کھوکھلا ہوچکا تھا۔ پروفیسر محمد حسن یادیں باتیں ازمناظر عاشق ہرگانوی ۔
 
اپنے ادبی موقف کی وضاحت محمد حسن اس طرح کرتے ہیں۔ادب انسانی زندگی اور اس کے تہذیبی ڈھانچے کومتاثر کرتاہے اور اس کی تعمیر میں تشکیل میں مختلف طریقوں سے حصہ لیتاہے۔ ادب کااعلیٰ تر حصہ زندگی کو براہِ راست نہیں بدلتا، وہ نعروں میں باتیں کرنے، مسائل کافوری حلد ینے سے زیادہ نسبتادیر پاعناصر سے بحث کرتاہے۔ ادب کاسماجی عمل قوموں کے ہاتھ میں ہتھیاردینے سے زیادہ ان کے خوابوں کوبدلنے اوران کی آرزوئوں کوڈھالنے کاعمل ہے۔ ادب محض آج کے لمحے سے مطمئن ہونے کی بجائے کل کے انسان کوڈھالنا چاہتاہے ادبیات کاکام کسی قوم کے کل کاتعین ہے اس کے خوابوں کی سرشت ان کی آرزوئوں تمنائوں اور زندگی کی طرف اس کے لائحہ عمل کو ڈھالنے کاہے۔ ’’پروفیسر محمد حسن یاد یں باتیں از مناظر عاشق ہرگانوی،
 
مارکسی تنقیدکی اساس کے سلسلہ میں محمدحسن نے تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے نظریہ کی وضاحت اس طرح کی ہے۔مارکسی تنقیدکی اساس کے سلسلہ میں محمدحسن نے تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے نظریہ کی وضاحت اس طرح کی ہے۔ مارکسی تنقیددراصل فن اور زندگی کے باہمی رشتوں کی نگراں ہے۔ وہ ایک طرف ادب اور زندگی کے باہمی ربط کونظر میں رکھتی ہے۔ ادب زندگی پر اثر انداز ہونے کی کوشش میں زندگی سے اثرلیتاہے زندگی کوتبدیل کرنے کے عمل میں بہترطورپرشریک ہونے کیلئے خودکوتبدیل کرتاہے۔دوسری طرف مارکسی تنقیدادب کے دائرے کے اندررہ کراسے ایک نئے تضاد سے آشناکرتی ہے۔ تخلیقی شہ پارے اور اس کی تنقید یعنی اس کی اندرونی ترتیب بیرونی رشتوں اور مجلسی عمل کے مطالعہ کے تضاد سے۔ اوریہی وہ تضاد ہے جوادب کوبہتر، تازہ تراور شاداب تربنانے کاذمہ دارہے۔ پروفیسرمحمد حسن یادیں باتیں ازمناظر عاشق ہرگانوی
 
پروفیسرمحمدحسن تاریخ تہذیب اورسماجی صورتوں میں بدلائو کے قائل تھے اور طبقاتی جدوجہد کے مقصد پرزوردیتے تھے اور تہذیبی تاریخ کی نئی تلاش میں لگے ہوئے تھے اسی لئے ان کے ادبی اور سماجی فکر میں ترقی پسندی کے عناصر نمایاں ہیں۔
 
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 794