donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Imam Azam
Title :
   Syed Manzer Imam : Teri Tahreer Se Khushbu Phoote

سید منظرامام:تری تحریرسے خوشبوپھوٹے
 
گیسوئے تحریر:ڈاکٹرامام اعظم
 
دنیائے شعر وادب میں کئی فنکار ایسے ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی طویل عمر میں بہت کم لکھا۔لیکن شہرت دوام پائی اس کے اسباب کئی ہوسکتے ہیں۔ کبھی رہین ستم ہائے روزگار رہنے کی وجہ سے تو کبھی زندگی کے تئیں غیر سنجیدہ نظریہ رکھنے کی وجہ سے۔ پھر یہ کہ فنکار جو کچھ لکھتا ہے جب تک اس کی میزان پر پورا نہیں اتر تا وہ اسے لکھتا رہتا ہے اور تلف کرتارہتا ہے۔ حالانکہ کبھی کبھی اس کی رد کی ہوئی چیزیں بھی فنون لطیفہ کاایک اہم حصہ بن جاتی ہیں مثلاً پیکا سونے جنہیں رد کردیا اس کی وہی مصوری عالمی شہرت حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔
 
کلیم الدین احمد کی تنقیدی کتابوں پرابتدائیہ میں ڈاکٹر فضل الرحمن نے جو کچھ لکھا وہ کلیم صاحب کی تنقیدپر بھاری ہے اور اس کااعتراف اکثر دانشوروں نے بھی کیاہے۔ فضل الرحمن صاحب نے اردو میں اس کے علاوہ کچھ نہیں لکھالیکن یہ تحریریں ان کی اہلیت کاجیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ ڈاکٹر فضل الرحمن نے کچھ اور لکھا ہوتا تو اردو کے تنقیدی سرمایہ میں گرانقدراضافہ ہوتا۔ ایسی شخصیتیں عام طورپر جوکچھ لکھتی ہیں وہ کافی گہری معنویت کی حامل ہوتی ہیں۔ ضخامت کسی فنکار کی ادبی قدروقیمت کومتعین کے لئے کافی نہیں بلکہ چند تحریریںہی اس کی پوری شخصیت کی آئینہ دار ہوتی ہیں اور اسے حیات جاوداں عطاکرتی ہیں۔
 
سید منظر امام افسانہ نگار اور ادبی صحافی کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے بھی بہت کم لکھاہے، لیکن جو کچھ لکھاہے وہ ان کی شخصیت ، ان کی اہلیت ، ان کی صلاحیت اور ان کی بصیرت کااحاطہ کرتی ہیں۔
سیدمنظرامام نے جب چشم شعور کھولا اس وقت ان کاگھر امیر منزل، ’’قلعہ گھاٹ، دربھنگہ‘‘ ادباء وشعرا کی سرگرمیوں کامرکز تھا۔ دربھنگہ میں فروغ اردو کی تحریک ہویا ادبی تحریک، خواہ وہ اردو اداروں کی شکل میں ہو، انجمن ترقی اردو کی شکل میں ہویا انجمن اردو پسند مصنفین کی صورت میں’’ امیر منزل‘‘ کی دہلیز سے ہی نموپذیرہوئی۔ سید منظر امام دوبرس کے تھے تو والد جناب سید امیر علی کاانتقال ہوگیا۔ والدہ سید ہ کنیزفاطمہ ،بڑے بھائی معروف ادیب وشاعرحسن امام درداور منجھلے بھائی ممتاز شاعر وادیب مظہر امام کے زیرسایہ پرورش پائی اور’’امیرمنزل‘‘کے ادبی ماحول میں ذہن وشعور کی پرداخت ہوئی۔ ظاہر ہے گلشن میں بہار رقص کناں ہوتواس کاذرہ ذرہ وجد میں آجاتاہے سو ان کاشعر وادب سے لگائو عین فطری تھا۔ انہیں جو صحبتیں نصیب ہوئیں وہ بھی ان کی شخصیت کوسنوار نے اور نکھارنے میں معاون رہیں۔ سید منظر امام نے بہت کم عمری میں شعر کہنے کی کوشش کی۔ لکھتے رہے اور ضائع کرتے رہے۔ پہلی نظم’’عزم جواں‘‘بچوں کا رسالہ کھلونا میں شائع ہوئی جو اس وقت کابے حد معیاری رسالہ تسلیم کیاجاتاتھا اور اس میں نظم کی شمولیت اس بات کاثبوت ہے۔کہ ان کے اندر شعرگوئی کی بے پناہ قوت موجودتھی۔ فن پر بھی دسترس تھی لیکن طبعیت شاعری سے افسانہ نگاری کی طرف متوجہ ہوگئی۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ جب منجھلے بھائی مظہرامام حصول روزگار کیلئے کلکتہ چلے گئے توان کی لائبریری کی کھلی آزادی مل گئی اور وہ افسانوی ادب کے سحر میں ڈوب گئے اور اس سے افسانہ نگاری کی تحریک ملی ۔ ان کا پہلا افسانہ’’بے وفا‘‘ ۱۹۵۳ء میں ’’چندن ‘‘دہلی میں شائع ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے ۶۳ءتک کئی افسانے لکھے جو’’چندن‘‘ دہلی ،سہیل ،گیا، صنم، پٹنہ، صبح نو، پٹنہ، کہانی ،کلکتہ، جام نو، کراچی میں شائع ہوئے اور ان کی اچھی خاصی پذیرائی بھی ہوئی۔جلتے چراغ ،بجھتے چراغ، نئی زندگی گیت بے کیف ہے جب تک نہ اسے ساز ملے، کچھ یاد یں کچھ آنسو ، اپنے بے خواب کواڑوں کومقفل کرلو، انسان زندہ ہے، ان کے بہترین افسانے ہیں۔ گیت بے کیف ہے جب تک نہ اسے ساز ملے، کوپڑھ کرش ، مظفرپوری نے بڑے سنجیدہ لہجے میں کہا تھا، منظرامام بہار میں صرف دوہی افسانہ نگار اچھی زبان لکھتا ہے ایک میں اور دوسرے تم، زندگی کے ابتدائی ایام میں انہوں نے بچوں کیلئے بھی کئی کہانیاں لکھیںجو’’کھلونا‘‘آجکل‘‘اور ’’پھلواری‘‘دہلی میں طبع ہوئیں۔
 
۱۹۶۰ء کے اوائل میں جب سید منظر امام انٹرمیڈیٹ میں تھے،اپنے بزرگ دوست مجازنوری کے اشتراک سے سہ ماہی، رفتارنو، دربھنگہ سے جاری کیا اس کے پانچ شمار ے تو اترسے شائع ہوئے اس جریدہ کوبرصغیرکے بڑے بڑے قلم کاروں کاتعاون حاصل تھا۔ رفتارنو کے تیسرے شمارہ میں ہندی کےمعروف اور معتبر کہانی کاروناول نگار فنیشور ناتھ رینو کاسہیل عظیم آبادی پر ایک دلچسپ خاکہ شائع ہواجو صرف’’رفتارنو‘‘کے لئے لکھاگیاتھا۔ رینوجی پرلکھے گئے مضامین اور کتابوں میں اس خاکے کاذکر بطور خاص ہواہے اور حوالے میں’’رفتارنو، کانام دیاگیاہے۔ رفتارنو، میں ہی مظہرامام کی ایجاد کردہ پہلی آزادغزل اشاعت پذیرہوئی تھی۔ سید منظرامام ۶۴ء میں بغرض ملازمت جمشیدپور چلے گئے۔ مگرصحافت کی یہ چنگاری سلگتی رہی۔ وہاں معروف افسانہ نگار اور اپنے دوست منظر کاظمی کے ساتھ مل کر چینی جارحیت کی خلاف لکھے گئے نمائندہ افسانوں پرمشتمل  ایک انتخاب’’ہمالہ کے آنسو‘‘ترتیب دیا۷۳ء میں ایک بڑا ہی خوبصورت رسالہ، ترسیل، کاجمشیدپور سے اجراء کیا۔ اسے بھی بے حد قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا مگر ،ترسیل ، کودوسری اشاعت دیکھنی نصیب نہیں ہوئی۔ حالانکہ اس میں عہد کے تمام بڑے فنکاروں کی تخلیقات شامل تھیں۔ ممتازنقاد شمس الرحمن فاروقی کوجب یہ اطلاع ملی کہ، ترسیل ، کادوسرا شمارہ منظر عام پر نہیں آئے گا تو انہوں نے خط لکھا،یہ جان کر بے حدملال ہوا کہ،ترسیل، بندہوگیا۔ عرصہ بعد ایک خوبصورت رسالہ دیکھنے کوملا تھا۔ ۷۶ء میں سید منظرامام دھنباد آگئے۔ یہاں گرونانک کالج میں بحیثیت لکچراران کاتقررہوگیا۔ اس عرصہ میں انہوں نے کچھ مضامین ضرور لکھے مگر شاید کوئی افسانہ اشاعت پذیر نہیں ہوا ۔لیکن صحافت کی آگ بجھی نہیںتھی۔ اندرہی اندرسلگ رہی تھی۔
 
آخرکار ۲۰۰۰ء میں دھنباد سے سہ ماہی’’وقت‘‘ منصہ شہود پرآیا۔ اس کے آٹھ شمارے منظرعام پر آئے۔ ان میں سیدامین اشرف، محمد سالم، سید احمد شمیم ،اسلم بدر،علیم صبانویدی پرخصوصی گوشوں کی اشاعت سے ادبی دنیا میںنام ومقام پایا ملازمت ،احباب کی صحبت اورزندگی کی دیگر مصروفیتوں نے ان کی علمی وادبی توانائی کوقلم کی کاشت پرمرتکز ہونے نہیں دیا۔ سچ تویہ ہے کہ وہ کسی بھی صنف ادب میں سنجیدہ نہیں رہے ۔شاعری، افسانہ نگاری، خاکہ نگاری سوانح نگاری سبھی اضافہ پرانوں نے طبع آزمائی کی۔ کاش کسی ایک صنف میں بھی وہ سنجیدہ ہوتے؟ان کی مختلف تحریروں سے یہ اقتباسات ان کی ادبی قدر قامت متعین کرنے میں معاون ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹر ایم صلاح الدین کی تصنیف منظرشہاب حیات اور فکروفن، پرمرقومہ، اعترافیہ میں لکھتے ہیں۔
 
ڈاکٹر ایم صلاح الدین کے یہاں دیانت دارانہ وزن کی کمی نہیں ہے مگر تخلیقی پہلوئوں کی جانب انگشت نمائی کی کمی صاف محسوس ہوتی ہے۔ ورنہ ،ساقی  نامہ، ایک رات، اور ،چاندنی رات، جیسی بے مثال نظموں کا سیر حاصل جائزہ لے سکتے تھے۔ منظرشہاب نے مرثبہ کے مخصوص فارم سے گیریز کرتے ہوئے خوبصورت مرثیہ بھی لکھاہے۔ کوئی چاہے تو اسے Elegyکے نام سے بھی موسوم کرسکتاہے۔ میری مراد، ماتم زکی انورکا، شجرکے چوتھے جگنوکا آخری سفر، جیسی نظموں سے ہے۔ جس میں شاعر کی دردمندی پڑھنے والے کے اندر بوندبونداتر تی محسوس ہوتی ہے اور نس نس میں درد کی لہربن کرسرایت کرجاتی ہے، ان میں الفاظ واحساس کے آنچ سے پگھلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور ان آنسوئوں کی ترسیل بن جاتے ہیں جوکاسہ چشم میں ٹپک بھی نہ سکے اور اندر کی جھیل باہر کی آگ سے خشک ہوکررہ گئی۔ میرا موضوع اگر منظر شہاب کے کمالات شاعری سے متعلق ہوتاتودکھاتاکہ، وستوشہر میں آگ ہی آگ ہے، آگ میں کب تکلک خون اپناجلائیں اور بارشیں خوں کی تیز ہیں تیزہیں خون کی آندھیاجیسی غزلوں میںکیسی آتشی سیال موجزن ہے۔
 
’’تمثیل نو‘‘، میںان کی خودنوشت، دربھنگہ دل سے جاتی ہی نہیں یادتری، قسط وارشائع ہورہی ہے۔ اس کے حسن بیان اور الفاظ کی سحرکاری پر مشاہیرادب اپنے مکتوبات میں رطب السان ہیں۔دو اقتباس اس سے بھی ملاحظہ فرمائیں:
 
’’سالم کی دوستی کو میں اپنی زندگی کابیش قیمتی سرمایہ سمجھتاہوں۔ اس کی رفاقت مجھے ایسے چشموں پر لے گئی جس کاپانی شہد سے زیادہ میٹھا اور برف سے زیادہ سردتھا۔ اس کی ملاقات سے قبل میری زندگی بہت سمٹی ہوئی، سکڑی ہوئی اور ،امیر منزل، کی چہاردیواری تک محدود تھی۔ سالم کایہ احسان ہے کہ اس نے ایک جوئے آہستہ خرام کورازِ سرشاری رفتار سے آگاہ کیا‘‘
ایک دوسری قسط میں اپنی واالدہ کاذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:
 
’’اگر سادگی نیکی اور خیر کوانسانی پیکر میں دیکھا جاسکتاہے تووہ میں اپنی اماں کودیکھا جومحلے کی سن رسیدہ عورتوں کے لئے ہمیشہ بی بی رہیں اور کم عمروں کیلئے بی بی دادی، فصل کے موقع پر گائوں سے اناج وغیرہ آتا تو حاجت مندوں میں جھولیاں اور گھڑے بھر بھر کربانٹتیں۔ خود بہت کم کہیں جاتی تھی مگر گلی محلے کی غریب عورتیں، اکثر ان کی پلنگ کی پٹی سے الگ کر بیٹھی رہتیں۔ اپنی اپنی پریشانیاں انہیں سناتی رہتیں۔ ان کے یہاں غریب امیر، بڑے چھوٹے کاکوئی فرق نہیں تھا۔ وہ اناج ہی نہیں محبتیں بھی جھولیاں بھر بھر کربانٹنا جانتی تھیئں۔
 
’’تمثیل نو‘‘میں ہی طبع اپنے مضمون، عبدالمنان طرزی اور فتگاں وقائماں‘‘میں ان کی تحریرکاجادو دیکھئے۔
’’تخلیق ادب بڑی عرق ریزی کاکام ہے۔ اتنی محنت دورکارہے ک کبھی کبھی جسم کاخون پسینہ بن کر بہنے لگتا ہے ۔ عبدالمنان طرزی کی اس کتاب کے مکالمے اس کی تزئین وترتیب اور اس کے کٹورے سے کٹورابجاتے ہوئے اشعاراس بات کے شاہدہیں کہ ان کی کشیدشاعرکے خون جگر سے ہوئی ہے۔
 
مندرجہ بالاتحریریں یہ ثابت رتی ہیں کہ ان میں تخلیق جودت ٹھاٹھیں ماررہاہے اسے ایک سمت دینے کی ضرورت تھی جویہ نہ دے سکے۔ مختصریا کم لکھنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔سید منظرامام نے جوبھی لکھا افسانے ،مضامین اداریے وہ سب ہماری ادبی تاریخ کاصرف حصہ ہی نہیں ہی بلکہ تاریخ کونئی سمت عطا کرنے میں معاون ہوئے ہیں۔ ضروری یہ ہے ان کی نگارشات کتابی صورت میں جلوہ گرہوں۔ ان کے اداریوں کومرتب کیاجائے اور انہیں محفوظ کرنے کی کوشش کی جائے کہ کم لکھنے اور رک رک کرقدم بڑھانے کے باوجود سید منظرامام کے اندر کاادیب کہانی کار اور صحافی اب بھی زندہ ہے۔
 
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 785