donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Maulana Azad - Seyasi Baseerat Aur Danishwarana Fikr



مولانا آزاد : سیاسی بصیرت اور دانشورانہ فکر

 

 ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج،دربھنگہ

موبائل:09431414586

 ای میل: rm.meezan@gmail.com


    عالمی تاریخ میں جن چند شخصیات کو ’’عظیم شخصیت‘‘ کا درجہ حاصل ہے ان میں مولانا ابوالکلام آزاد کی نمایاں حیثیت ہے ۔ہم ہندوستانیوں کے لئے اور بالخصوص امتِ مسلمہ کے لئے مولانا آزاد کی حیثیت گنجہائے گراں مایہ کی ہے ۔ آج جب ہم ان کی ۱۲۵ ؍ویں یومِ پیدائش کا جشن منا رہے ہیں تو ہمیں یہ بھی عہد کرنا چاہئے کہ مولانا آزاد کے افکار ونظریات کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنائیں گے کیوں کہ مولانا آزاد کو یاد کرنا ہمارے لئے صرف ایک رسم نہیں ہے بلکہ یومِ احتساب بھی ہے ۔ اس وقت ملک میں جس طرح فرقہ پرست طاقتوں کے ذریعہ انسانیت کی تباہی کے سامان پیداکئے جا رہے ہیں ایسے نازک وقت میں مولانا آزاد کی تعمیری فکر ملک کی سا  لمیت کے لئے چراغِ راہ ثابت ہو سکتی ہے ۔ واضح ہوکہ ان دنوں سردار پٹیل کی ایک خاص سیاسی جماعت کے ذریعہ قصیدہ خوانی کی جا رہی ہے ایسے وقت میں مولانا آزاد کے فکری اثاثے کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ کیوں کہ آزادی کے بعد ملک کی قیادت کانگریس کے ہاتھ آئی تھی اور پنڈت جواہر لعل نہرو جیسی ہمہ جہت شخصیت کے مالک کے ہاتھوں میں باگ ڈور تھمائی گئی تھی لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت بھی کانگریس کے اندر چند ایسے لوگ تھے جو پاکستان کے حوالے سے اس ملک میں رہ جانے والے وطن پرست مسلمانوں کو نہ صرف شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھتے تھے بلکہ ان کے وجود پر بھی سوالیہ نشان لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے تھے اور اس میں سردار پٹیل بھی شامل تھے۔سردار پٹیل کی قومی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن اس تاریخی حقائق کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ سردار پٹیل اقلیت طبقے کے تئیں صاف ذہن نہیں رکھتے تھے۔مولانا آزاد نے اپنی کتاب ’’انڈیا ونس فریڈم‘‘ میں اس حقیقت کو اجاگر کیا ہے کہ جس وقت بمبئی پروونس میں کانگریس کی حکومت بننے کا وقت آیا تو وہاں کے کانگریس ارکان نے اپنے ہر دل عزیز قائد مسٹر نریمن کو پروونسیل اسٹیٹ کا سربراہ بنانا چاہا لیکن سردار پٹیل نے ان کی مخالفت محض اس لئے کی کہ وہ اقلیت طبقے یعنی پارسی مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ اگرچہ گاندھی جی اور نہرو جی مسٹر نریمن کے ہاتھوں میں بمبئی کی قیادت دینا چا ہتے تھے لیکن پٹیل نے بی جی کھیر کو لیڈر بنا دیا۔ٹھیک اسی طرح بہار میں ڈاکٹر سید محمود کو کانگریس کے لوگ پروونسیل سربراہ بنانا چاہتے تھے کیوں کہ وہ اس وقت آل انڈیا کانگریس کے جنرل سکریٹری تھے اوربہار کے ہر دل عزیز لیڈر تھے لیکن سردار پٹیل کی ضد نے انہیں یہ موقع نصیب نہیں ہونے دیا او ر سری کرشن سنہا کے ہاتھوں میں بہار سونپ دیا گیا یعنی انہیں وزیر ا علیٰ بنا دیا۔دراصل مولانا آزاد چاہتے تھے کہ آزاد ہندوستان میں جو اقلیت طبقے کے لوگ رہ گئے ہیں انہیں مین اسٹریم میں شامل کیا جانا چاہئے اور یہی فکر گاندھی جی اور نہرو جی کی بھی تھی مگر پٹیل کسی طرح بھی اقلیت طبقے کے تئیں اپنے ذہن میں نرم گوشہ نہیں رکھتے تھے۔ اس کی وضاحت خود ان کی بیٹی منی بین کی ڈائری سے بھی ہوتی ہے ۔ جس کا حوالہ سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والے ترون وجئے نے بھی اپنے ایک اخباری مضمون ’’سردار پٹیل کے اس روپ سے اپریچیت بھارت‘‘ (مطبوعہ سن مارگ ہندی، پٹنہ۔ مورخہ ۸؍ نومبر ۲۰۱۳ئ) میں کیا ہے :

’’۲۴؍ اپریل ۱۹۵۰ء کو سردار پٹیل نے کہا تھا کہ حفیظ الرحمن جیسے لوگ بھارت میں رگ گئے ہیں اور وہ بھارت کے اندر ہوم لینڈ بنانے کی بات کریں گے تب ہماری حالت کیا ہوگی۔ اتیہاس ہمیں غدار کہے گا‘‘

یا پھر ۱۶؍ اگست ۱۹۴۹ء کو سردار پٹیل نے کہا تھا کہ :
’’بھارت میں رہنے والے چار کروڑ مسلمانوں کو دیس کے پرتی وفادار ہونا ہوگا ورنہ ان کے لئے یہاں کوئی جگہ نہیں ہوگی‘‘

ترون وجئے نے اپنے اسی مضمون میں یہ بھی لکھا ہے کہ :

’’گاندھی ہتّیا کانڈ میں متھیہ آروپوں کے کارن راشٹریہ سوم سیوک سنگھ پر پرتی بندھ لگا اور اس کے ہٹنے پر جس میں سردار پٹیل کی بڑی بھومیکا تھی جب سنگھ کے تتکالین سنچالک سری گروجی گول ولکر جیل سے رہا ہوئے تو سردار پٹیل نے پرسنّتا (خوشی) ظاہر کی۔ ۳؍اگست ۱۹۴۹ء کی ڈائری میں لکھا گیا گول ولکر کی رہائی پر پرسن ہوئے باپو (سردار پٹیل)۔ ان کا کانگریس میں سواگت کرنے ہیتو تیار ہیں۔ ان کا کام ہے کہ گول ولکر اور سنگھ کا کانگریس میںپرویش آسان بنادیں‘‘

    وجئے ترون کے مذکورہ حوالات کی روشنی میں بہ آسانی یہ سمجھاجا سکتا ہے کہ آج سنگھ پریوار پٹیل کو مہیما منڈت کیوں کر رہی ہے اور بھاجپا سردار پٹیل کو ہیرو بنانے کی کوشش کیوں کر رہی ہے ؟ دراصل جس طرح سنگھ پریوار آزاد ہندوستان میں اقلیت طبقے بالخصوص مسلمانوں کے تئیں ذہنی تعصب رکھتی ہے اس کے علم بردار پٹیل تھے اوریہی بنیادی نکتہ ہے جس پر اس وقت تمام سیکولر ذہن کو غور وفکر کرنا ہے ۔

    اس تمہید کی ضرورت اس لئے تھی کہ جب ہم مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت اور ان کے افکار ونظریات کو اُس وقت کے سیاسی تناظر اور ملک کی حالیہ سیاسی وسماجی فضا کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کریں گے تو یہ عقدہ خود بخود اجاگر ہو جائے گا کہ مولانا ابوالکلام آزاد ہماری جنگِ آزادی کے ایک بے خوف مشعل بردارہی نہ تھے بلکہ ان کی پہلو دار شخصیت کا ہر پہلو تابناک تھا۔ ملک کی آزادی کے لیے انگریزوں کے خلاف جنگ لڑنے والے مجاہدین آزادی کے لیے وہ ایک حوصلہ مند سپہ سالار تھے تو مسلم مذہبی حلقوں کے لیے وہ ایک تعمیری سوچ اور فکر رکھنے والے شعلہ بیان مقرر اور بیدار ذہن عالم دین تھے۔مسلمانوں کی نئی نسل کے لیے قدیم تاریخ اور تہذیب وتمدن سے روشناس  کرانے والے ایک مورخ تھے تو کانگریس پارٹی کے لیے اندھیرے میں چراغ کی حیثیت رکھتے تھے۔ انہوںنے زندگی کے آخری لمحے تک ملک وقوم کی بے لوث خدمت کرکے یہ ثابت کر دیا کہ وہ ہندوستان کے ایک سچے سپوت ہیں۔

    مولانا آزاد ایک حساس ذہن کے مالک تھے ۔انہوںنے ہندوستانی معاشرے کے معاملات ومسائل کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ انہوںنے ہندوستانی عوام کی زندگی کو قریب سے دیکھا اور سمجھا تھا۔اس لیے وہ عوام کے اندر سوئی ہوئی انسانیت کو جگانا چاہتے تھے۔کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ جب تک عوام کے اندر کی چنگاری کو شعلہ نہیں بنایا جائے گا اس وقت تک یہ ملک غلامی کے طوق سے نجات حاصل نہیں کر سکتا اور اس کے لیے وہ ہندو مسلم اتحاد کے نہ صرف قائل تھے بلکہ وہ اسے حصول آزادی کے لیے لازمی قرار دیتے تھے۔ ان کے نزدیک مذہب، ذات پات، فرقہ ،قوم اور کسی طرح کی گروہ بندی کی حب الوطنی کے سامنے کوئی حیثیت نہ تھی۔ 1923کے انڈین نیشنل کانگریس کے خصوصی اجلاس دہلی میں انہیں سب سے کم عمر صدر کی حیثیت سے خطاب کرنے کا موقع ملا تو انہوںنے ہندو مسلم اتحاد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ :

’’میں نے آپ کا اس قدر وقت درودیوار کی فکر میں لے لیا حالانکہ ابھی یہ بات باقی ہے کہ ہماری جدوجہد کی بنیاد کا کیا حال ہے۔میرا اشارہ ہندو مسلم اتحاد کی طرف ہے۔یہ ہماری تعمیرات کی وہ پہلی بنیاد ہے جس کے بغیر نہ صرف ہندوستان کی آزادی بلکہ ہندوستان کی وہ تمام باتیں جو کسی ملک کے زندہ رہنے اور ترقی کرنے کے لیے ہوسکتی ہیں‘محض خواب وخیال ہیں۔صرف یہی نہیں کہ اس کے بغیر ہمیں قومی آزادی نہیں مل سکتی بلکہ اس کے بغیر ہم انسانیت کے ابتدائی اصول بھی اپنے اندر نہیں پیدا کر سکتے۔آج اگر ایک فرشتہ آسمان کی بلندیوں سے اتر آئے اور قطب مینار پر کھڑے ہو کریہ اعلان کردے کہ سوراج 24گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے‘ بشرطیکہ ہندوستان ہندو مسلم اتحاد سے دست بردار ہو جائے تو میں سوراج سے دست بردار ہو جائوں گا‘مگر اس سے دست بردار نہ ہوں گا کیوں کہ اگر سوراج کے ملنے میں تاخیر ہوئی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا۔لیکن اگر ہمارا اتحاد جاتا رہا تو یہ عالم انسانیت کا نقصان ہے۔‘‘

  (خطبات آزاد۔مرتبہ مال رام صفحہ 204-5)

    مندرجہ بالا اقتباس مولانا آزاد کی سیاسی بصیرت اور دانشورانہ فکر کا غمّاز ہے کہ وہ آزادی ملنے میں تاخیر کو قبول کر سکتے ہیں۔لیکن ہندو مسلم اتحاد کے سوال پر کسی طرح کی مفاہمت کے روادار نہیں کیوں کہ ان کی نگاہ میں فرقہ وارانہ نفاق انسانیت کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔

    مولانا آزاد کا خیال تھا کہ مسلمان جنگِ آزادی کے مرکزی دھارے سے ذرا بھی الگ بنتے ہیں تو اس سے ملک اور ملت دونوں کا بڑا نقصان ہوگا۔اور ملک میں نفرت کی ایک دیوار کھڑی ہو جائے گی۔انہوںنے ایک طرف مسلمانوں کو قدم قدم پر ہوشیار کیا کہ وہ کسی طرح کے بہکاوے میں نہ آئیں اور اپنے ہم وطنوں کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر انگریزی حکومت کو ملک سے نکال باہر کرنے میں ہر محاذ پر ساتھ ساتھ رہیں تو دوسری طرف انہوں نے کانگریس کو بھی خبر دار کیا کہ مسلمانوں کے جائز حقوق کو کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جائے۔انہوں نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے سیاسی مطالبوں کو منوانے کے لیے کسی طرح بھی نفاق کی راہ اختیار نہ کریں۔ آل انڈیا خلافت کانفرنس کانپور‘ 1925کے اپنے صدارتی خطبے میں انہوںنے کہا تھا کہ  :

’’موجودہ صورتحال کی بد قسمتی اس کام میں کتنی ہی دشواریا ں پیدا کر دے لیکن وہ تیار نہیں کہ اس نصب العین سے دست بردار ہو جائے۔وہ مسلمانوں کے جماعتی حقوق وفوائد کا تحفظ ضروری سمجھتا ہے لیکن اس طریق عمل سے انکار کرتا ہے کہ مسلمان ہندوئوں کے طرز عمل سے روٹھ کر اجنبی حکومت کی آڑ پکڑ لیں اور ان کی ہستی ہمیشہ ملک کی قسمت کے لیے ایک دھمکی کی طرح استعمال کی جائے۔اگر ہندوئوں سے انہیں منصفانہ طرز عمل کا مطالبہ کرناہے تو پوری قوت سے کرنا چاہیے۔لیکن ساتھ ہی یہ  ضروری ہے کہ ہماری باہمی آویزش ملکی جنگ کے میدان سے ہمیشہ الگ رہے۔‘‘

    مولانا آزاد ایک مذہبی انسان تھے اور ایک سچا مسلمان ہونے پر فخر کرتے تھے۔ان کا خیال تھا کہ مذہب ‘قومیت کے تصور میں کہیں دیوار نہیں بنتا بلکہ مذہب انسان کے اندر تعمیری فکر پیدا کر تا ہے ۔ ان کا خیال تھا کہ ان کا مسلمان ہونا ان کیلئے کسی طرح کی مشکل پیدا نہیں کرتا ان کے ایک خطبے ’’مسلمان اور متحدہ قومیت‘‘ سے اقتباس ملاحظہ کیجئے  :

’’میں مسلمان ہوں اور فخر محسوس کرتا ہوں کہ مسلمان ہوں ۔اسلام تیر ہ سو برس کی شاندار روایتیں میرے ورثے میں آئی ہیں۔میں تیار نہیں کہ اس کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں ۔ اسلام کی تاریخ‘اسلام کے علوم وفنون ‘ اسلام کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے‘ اور میرا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں۔بحیثیت مسلمان ہونے کے میں مذہبی اور کلچرل دائرے میں اپنی ایک خاص ہستی رکھتا ہوں‘ اور میں برداشت نہیں کر سکتا کہ اس میں کوئی مداخلت کرے۔لیکن ان تمام احساسات کے ساتھ میں ایک اور احساس بھی رکھتاہوں جسے میری زندگی کی حقیقتوں نے پیدا کیا ہے۔اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی۔وہ اس راہ میں میری رہنمائی کرتی ہے۔میں فخر کے ساتھ محسوس کرتاہوں کہ میں ہندوستانی ہوں۔میں ہندوستان کی ایک ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کا ایک عنصر ہوں ۔میں اس متحدہ قومیت کا ایک ایسا عنصر ہوں جس کے بغیراس کی عظمت کا ہیکل ادھورا رہ جاتا ہے۔ میں اس کی تکمیل کا ایک ناگزیر عامل ہوں۔میں اپنے اس دعوے سے بھی دست بردار نہیں ہو سکتا۔‘‘

    مولانا آزاد مذہب کو کسی طور پر بھی ذہنی ارتقا کے لیے مضر تصور نہیں کرتے تھے بلکہ ان کا خیال تھا کہ مذہب بچوں کے اندر اخلاقی اقدار پیدا کرتے ہیں اور انسان دوستی اور حب الوطنی کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔

    1947میں ملک آزاد ہو ا مگر اب وہ ہندوستان نہیں رہا جس ہندوستان کی آزادی کے لیے مولانا آزاد نے اپناسب کچھ کھویا تھا۔ملک کی تقسیم نے ان کے ذہن ودل کو متزلزل کر دیا تھا۔لیکن ایسے نازک حالات میں بھی ان کے قدم نہیں ڈگمگائے۔انہوںنے صبر وتحمل کے ساتھ حالات کا مقابلہ کیا۔انہوںنے مسلمانوں کو جلا وطنی علاحدگی پسندی اور مایوسیوں اور محرومیوں کو ترک کرکے اپنے ہم وطنوں کے ساتھ جینے اور مرنے کی تلقین کی۔ترک وطن کرنے والے قافلے سے خطاب کرتے ہوئے انہوںنے اکتوبر 1947کو جو کچھ کہاتھا ،آج بھی اس کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے کہ جو لوگ اپنے ملک کو چھوڑکر پاکستان گئے ‘وہ آزادی کے ۵۹ برسوں کے بعد بھی وہاں اپنے دامن سے مہاجر ہونے کا داغ نہیں مٹا پائے ہیں۔کاش! اس وقت وطن چھوڑکر جانے والے قافلوں نے مولانا آزاد کی دوراندیشیوں کو سمجھاہوتا اور ان کے دل کی پکار سنی ہوتی توآج ہندوستان کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا۔مولانا آزاد کے اس تاریخی خطبے کالفظ لفظ آج بھی اپنی معنویت رکھتاہے:

’’یہ دیکھو ،مسجد کے بلند مینار تم سے اچک کر سوال کرتے ہیںکہ تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاں گم کر دیا؟ ابھی کل کی بات ہے کہ جمناکے کنارے تمہارے قافلوں نے وضو کیا تھا۔ اور آج تم ہو کہ تمہیں یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتاہے۔حالانکہ دہلی تمہارے خون سے سینچی ہوئی ہے ۔ وہ تمہارے ہی اسلاف تھے جو سمندروں میں اترگئے،پہاڑوں کی چھاتیوں کو روند ڈالا، بجلیاں آئیں تو ان پر مسکرادئیے‘بادل گرجے توقہقہوں سے جواب دیا‘ صرصراٹھے تواس کا رخ پھیڑ دیا،آندھیاں آئیں تو ان سے کہا کہ تمہارا راستہ یہ نہیں۔یہ ایمان کی جاں کنی ہے کہ شہنشاہوں کے گریبانو ںسے کھیلنے والے آج خود اپنے گریبانوں سے کھیلنے لگے اور خدا سے اس درجہ غافل ہوگئے جیسے اس پر کبھی ایمان ہی نہیں تھا۔‘‘(خطبات آزاد۔مالک رام صفحہ 340)۔

    مولاناآزاد ،آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم تھے۔اس وقت ملک کے حالات کیسے تھے اس تلخ حقیقت سے ہم آپ خوب اچھی طرح واقف ہیں۔ ویسے نازک حالات مولاناآزاد نے جو نظریۂ تعلیم پیش کیا وہ آج بھی اپنی معنویت رکھتا ہے۔آج جب ہم انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں جی رہے ہیں تو جدید علوم وفنون کو اپنانے کی دور میں شامل ہوناچاہتے ہیں۔لیکن مولانا آزاد نے اس پر آشوب دورمیں ہی ’’میکالے‘‘ کے نظام تعلیم کو ترک کرکے جدید نظام تعلیم کو اپنانے کی وکالت کی تھی۔ انہوں نے 18فروری  1949کی ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ:

 ’’میکالے کا مقصد برطانوی خیر خواہ تیار کرنا تھالہذا ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ موجودہ نظام تعلیم ہماری قومی ضروریات کس حد تک پورا کرتا ہے‘‘۔

    آج ہمارے ماہرین تعلیم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بچوں کی تعلیم کا ذریعہ اس کی مادری زبان ہو۔مولانا آزاد نے 1949میں ہی اس بات پر زور دیا تھا کہ تعلیم کا ذریعہ ملکی زبان ہونا چاہیے ۔واضح ہو کہ اس وقت قومی زبان ہندوستانی قرار پائی تھی۔لہذا انہوں نے کہا تھا کہ:

 ’’اب وقت آگیا ہے کہ ملک میں ہر قسم کی تعلیم دیسی زبانوں ہی میں دیے جانے کا تجربہ کیا جائے یہ پسندیدہ امر ہے کہ ہر ہندوستانی دیوناگری اور اردو دونوں رسم الخط سیکھے ۔‘‘

    مولانا آزاد کا مطالعہ بہت وسیع تھا ،خاص طور سے قدیم ادب ،عربی، فارسی اور سنسکرت زبان و ادب پر عبور حاصل تھا‘ وہ ہر وقت جدید سے جدید ترین سائنسی معلومات سے آگاہی حاصل کرنے کے آرزومند رہتے تھے ۔وہ عصری فکری میلانات اور سائنسی رجحانات اور افکار سے نہ صرف باخبر رہتے تھے بلکہ ان کے اثرات کا پوری طرح تجزیہ کرتے تھے ۔وہ مذہب ‘ فلسفے اور تاریخ کے تاریک سے تاریک گوشوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش میںرہتے تھے اور اس میں انہیں بڑی کامیابی بھی ملی تھی۔ ان کو ادب سے والہانہ عشق تھا وہ ادب برائے زندگی کے قائل تھے۔صحافت کے میدان میں ان کے قلم کی جادوگری نے جس طرح انقلاب کی چنگاری کو شعلہ بنانے کا کام کیا تھا کہ اس میدان میں بھی وہ یکتا رہے۔ان کے طرز تحریر نے اردو صحافت کو ایک معیار بخشا۔

مولانا آزادؔ نے عصری تعلیم کی اہمیت وافادیت کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی تاریخی تقریر ’’عربی نصاب کمیٹی‘‘ لکھنؤ۲۲؍ فروری ۱۹۴۷ء میں یہ وکالت کی تھی کہ اب مدارس کے نصاب کو عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالناہوگا تاکہ مدارس سے فارغ ہونے والے طلباء بھی شعبۂ روزگار میں خود کو کھڑا کر سکیں اور اپنی پوزیشن مستحکم بنا سکیں۔ انہوں نے کہا تھا:

’’آپ نے کبھی اس کی کوشش نہیں کی کہ آپ اپنے مدرسوں کو زمانہ کی چال کے ساتھ جوڑ سکیں۔ زمانہ چلتا رہا اور ترقی پر پہنچ گیا اور آپ وہیں رہے جہاں تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کی تعلیم کو زمانے کی مانگوں سے کوئی رشتہ نہیں رہا اور زمانے نے آپ کے خلاف آپ کو نکمّا سمجھ کر فیصلہ کردیا۔ زمانے نے آپ کو بیکار سمجھا ہے  آپ کو نکمّا سمجھا ہے‘‘۔

    مولانا آزاد نے تعلیمِ نسواں کی اہمیت قبول کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ جب تک عورتوں کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم سے آراستہ نہیں کیا جائے گا اس وقت تک وہ اس لائق نہیں ہو سکتی ہیں کہ آنے والی نسلوں کے ذہن کی آبیاری بحسن وخوبی کر سکے۔ انہوں نے روایتی تعلیم کی مخالفت تو نہیں کی لیکن اتنا ضرورکہا کہ اب یہ تعلیم بہت دور تک ہمارا ساتھ نہیں دے سکتی۔انہوں نے پردہ کو اسلام کا زیور قرار دیا لیکن یہ بھی کہا کہ جس طرح کے پردے کا چلن ہے اور جس کی بنیا د پر عورتوں کو اعلیٰ تعلیم سے محروم رکھا جا رہا ہے وہ قوم کے مستقبل کے لئے مضر ثابت ہو سکتا ہے۔ان کا یہ تاریخی بیان ہے کہ:

’’ہم صاف صاف کہہ دیتے ہیں ، اور اسے فیصلہ قطعی سمجھ لو ،اصول مسلمہ کی طرح مان لو کہ جب تک متعارف پردہ ہندوستان سے نہ اٹھے گا ، جب تک عورتوں کو جائز آزادی اور وہ آزادی جس کا اسلام مجوز ہے ، نہ دی جائے گی غلامی میں رکھ کر اور پردے کی تقلید کے ساتھ تعلیم دینی نہ صرف فضول بلکہ مضر اور اشد مضر ہے اس کی ا یک نہیں بیسوں مثالیں مل جائیں گی کہ اس قسم کی تعلیم برے نتیجے پیدا کرتی ہے یا کم از کم ایسی تعلیم سے کوئی مفید نتیجہ نہیں نکلتا‘‘۔

(خطبہ تعلیمِ نسواں۔ہماری قوم میں کیوں کر ہو سکتی ہے ؟)

    مندرجہ بالا اقتباس نہ صرف مولانا آزاد کے نظریۂ تعلیمِ نسواں کی وضاحت ہے بلکہ ان کے نظریۂ حقوقِ نسواں کی بھی مستحکم آواز ہے ۔آج جو لوگ حقوقِ نسواں کی وکالت کرتے ہیں ان کے لئے مولانا آزاد کایہ نظریہ مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

    مولانا آزاد کی فکری معنویت ہر زمانے میںبرقرار رہے گی ایسے نابغۂ روزگار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔مولانا آزاد کی علمی صلاحیت اور فکری گہرائی کا اعتراف کرتے ہوئے پنڈت جواہر لال نہرو نے جو کچھ لکھا تھا اس کا ایک ایک لفظ آبِ زر سے لکھے جانے اور ہمیشہ یار رکھنے کے قابل ہے :

’’بعض اعتبار سے ان کی طرز فکر بنیادی طور پر جدید تھی اور بعض دوسری باتوں میں ان کا ماضی سے بڑا گہرا رشتہ تھا اور وہ اس دور کے شعور کا عکس تھے جسے روشن خیالی کا دور کہا جاتا ہے۔مجموعی طور پر وہ ایک ایسے غیر معمولی فردتھے جنہوںنے اس مقصد کوجس کے لیے وہ عمر بھر کوشاں رہے ایک امتیازی شان بخشی اور وہ بھی کچھ اس ڈھنگ سے جس کی کوئی ہمسری نہیں کر سکتا۔ پرانا نظام بدلتا ہے اور ہم اسے واپس نہیں لا سکتے ۔لیکن ہم اس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔اس طرح ہم مولانا آزاد کی یاد دلوں میں تازہ کرتے ہوئے ان کی زندگی اور ان کی تعلیمات سے ایک بڑا سبق سیکھ سکتے ہیں ۔‘‘

٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 669