donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Mazi Aur Hal Ki Shikast Wa Reekht Ka Shayar : Rafiq Anjum

ماضی اور حال کی شکست وریخت کا شاعر:رفیق انجم
 
ڈاکٹر مشتاق احمد ،پرنسپل ملت کالج، دربھنگہ
 (Mob:9431414586)
 
اردو شعر وادب کے سنجیدہ قارئین کے لئے رفیق انجمؔ کا اسمِ گرامی نا آشنا نہیں ہے کہ انجم تقریباً تین دہائیوں سے شعروادب کے پودوں کی آبیاری اپنے خون وجگر سے کر رہے ہیں۔ان کے کلام پر طائرانہ نگاہ ڈالنے سے ہی یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ انجم ؔکا شاعرانہ رویہ نہ صرف پختہ ہے بلکہ دانشورانہ بھی ہے ۔وہ اردو شعری روایت سے بخوبی واقف ہیں اور تغیرِ زمانہ پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔انہیں اپنے فن پر مکمل اعتماد ہے اور ان کا ذہن تخلیقیت سے بھرپور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں کلاسیکیت کی خوشبو بھی ہے اور جدیدیت کا رنگ بھی۔انہوں نے خود کو کسی خاص حصار میں قید نہیں کیا ہے بلکہ اپنے اشعار میں بدلتے زمانے کی عکاسی کی ہے ۔نتیجتاً ان کا کلام ماضی اور حال کی شکست وریخت کا آئینہ بن گیا ہے۔ میں ذاتی طورپر دو دہائیوں سے ان سے واقف ہوں ۔وہ عصرِ حاضر کے ان شعرا ء میں شامل ہیں جنہیں اپنے منفرد لب ولہجے کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے ۔وہ پیشۂ درس وتدریس سے وابستہ ہیں اس لئے ان کا سماجی سروکار بھی بڑا مستحکم ہے۔ اخلاقی اسباق اور تعمیری فکر ان کے یہاں زیریں لہروں کی طرح کام کرتے ہیں۔زبان پر بھی انہیں مضبوط گرفت حاصل ہے اور موضوع کو شعری قالب میں ڈھالنے کا سلیقہ بھی خوب خوب آتا ہے ۔زندگی کی ٹھوس سچائیاں اور گردونواح کے مسائل کی ترجمانی ان کے اشعار میں بخوبی دیکھی جا سکتی ہے ۔ان کی شاعری کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے احساسات وتجربات کی الگ دنیا قائم کی ہے اپنے ہم عصروں سے متاثر ضرور ہیں لیکن نقّال نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ عہدحاضر کے شعراء کی بھیڑ میں ان کی اپنی منفرد پہچان بھی ہے اور مستحکم شناخت بھی۔یوں تو انہوں نے اردو کی تمام مقبول اصنافِ سخن کو اپنے دائرۂ فکر کا حصہ بنایا ہے لیکن وہ بنیادی طورپر غزل کے شاعر ہیں۔غزل اردو کی محبوب صنفِ سخن بھی ہے اور مظلوم بھی۔محبوب اس معنی میں کہ اردو کا شاید ہی کوئی ایسا شاعر ہو جنہوں نے غزل کی زلفِ گرہ گیر کو سنوارنے کی کوشش نہ کی ہو اور مظلوم اس معنی میں کہ ہماری تین سو سالہ شعری روایت میں محض گنتی کے ایسے شاعر ہوئے ہیں جنہوںنے لوازماتِ غزل کی پاسداری کی ہو۔بلا شبہ غزلیہ شاعری نہ صرف خونِ جگر چاہتی ہے بلکہ صحرہ نوردی کی بھی متقاضی ہے۔چوں کہ بیشتر شعراء پیش پا افتادہ مضامین سے استفادہ کرکے غزل کی دنیا آباد کرنا چاہتے ہیں اس لئے اچھے سے ا چھے غزل گو شعراء کے یہاں بھی غزل کے بولتے ہوئے اشعار کی کمی نظر آتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ولیؔ دکنی سے لے کر شہر یار تک غزل کے شاعر کو ہم انگلیوں پر گن سکتے ہیں۔ممکن ہے کہ ترتیب میں ناقدین کی ترجیحات ایک دوسرے سے الگ ہوسکتی ہیں لیکن ولیؔ کے عہد میں فائزؔ، میرؔ کے عہد میں سوداؔ ودردؔ،عہدِ غالبؔ میں غالبؔ کے علاوہ ذوقؔ ومیرؔ پھر لکھنؤ کی طرف نگاہ ڈالئے تو ناسخؔ وآتشؔ اور عظیم آباد میں شادؔ کے علاوہ کتنے غزل گو ہیں جو اب تک مثالی ہیں۔بعد کے دنوں میں اقبالؔ،جگرؔ،اصغرؔ،جذبیؔ،کلیم عاجزؔ، فراقؔ،ناصرؔ کاظمی، فیضؔ،ساحرؔ لدھیانوی، شہر یارؔ، احمد فراز، ؔحسن نعیمؔ ،مجروح سلطانپوری وغیرہم نے غزل کی نہ صرف آبرو رکھی بلکہ اس کی دنیا میں چار چاند بھی لگائے۔ حالیہ دور میں منور راناؔ، وسیم بریلویؔ، حسن کمالؔ نے غزلیہ شاعری کو پروان چڑھانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔آپ اس فہرست میں چاہ کر بھی دو چار نام سے زیادہ کا اضافہ نہیں کر سکتے۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بقیہ شعراء کی شاعری قابلِ اعتناء نہیں ہے ۔لیکن میرے کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ غزلیہ شاعری کو ہم لوگوں نے جتنا آسان سمجھ رکھا ہے اتنی یہ آسان صنف نہیں ہے۔ صرف قافیہ اور ردیف پیمائی عروضی تقاضے کو تو پورا کرسکتی ہے لیکن موضوعی اعتبار سے غزل کا شعر نکالنا صحرا میں کشتی چلانے کے مترادف ہے۔شاید اسی حقیقت کا احساس اردو کے نامور ناقد پروفیسر آل احمد سرورؔ کو تھا کہ انہوں نے غزل کا شعر کہنا ’’چاول پر قل ہو اللہ لکھنا‘‘ قرار دیا تھااور جب حالیؔ نے یہ بات کہی تھی کہ ’’جہنم کو بھر دیں گے شاعر ہمارے‘‘ تو ان کے پیشِ نظر بھی غزلیہ شاعری کا پست معیار ہی تھا۔ اگرچہ کلیم الدین احمد نے مغربی عینک سے غزلیہ شاعری کو دیکھنے کی کوشش کی تھی اور اسے ایک نیم وحشی صنفِ سخن قرار دیا تھا لیکن موضوعاتی اعتبار سے غزل کی پستی کے تعلق سے جو بات انہوں نے کہی تھی اسے یکسر رد بھی نہیںکیا جا سکتا۔دراصل غزلیہ شاعری اردو شاعری کی شناخت ہے اور یہ نہ صرف ایک شعری صنف ہے بلکہ ہماری مشترکہ تہذیب کی امین بھی ہے۔واضح ہو کہ ہر زبان میں کوئی ایک ایسی صنف ہوتی ہے جو ا س زبان کی شاعری کو اعتبار بخشتی ہے ۔ اردو میں غزل کو یہ درجہ حاصل ہے۔اس لئے غزل کہنے والے شاعروں کو ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ غزلیہ شاعری کا تقاضا کیا ہے۔علامہ اقبال ؔ نے کیا خوب کہا تھا :
نقش ہیں سب نا تمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہیں سودائے خام خونِ جگر کے بغیر
مختصر یہ کہ رفیق انجمؔ  ہمارے ان شعراء کی صف میں شامل تو نہیں ہیں کہ جنہیں ہم غزلیہ شاعری کو اعتبار بخشنے والے کی فہرست میں شامل کرتے ہیں لیکن ان کی غزلیہ شاعری ان کی انفرادی شناخت کو مستحکم بنانے کی ضامن ضرور ہے۔ مثلاً ان کا شعری مجموعہ ’’ساحل بولتا ہے‘‘ جو خالص غزلوں کا مجموعہ ہے اس میں زندگی کے نشیب وفراز کی ترجمانی دیکھی جا سکتی ہے:
راستے میں گر گیا میں ہی چلو اچھا ہوا
میرے پیچھے آنے والا تو سنبھل کر آئے گا
ماحول کی فرسودہ روایت سے لڑا ہوں
اس واسطے دنیا کی نگاہوں سے گرا ہوں
احساس کے ساحل پہ کھڑا سوچ رہا ہوں
لفظوں کے سمندر میں وہ طوفان نہیں ہے
حیرتی بن کے ہنس اٹھیں گے ہزاروں چہرے
کسی شیشے پہ ذرا مار کے پتھر دیکھو
ہاتھ کی الٹی لکیروں نے کہا مجھ سے کہ تو
آبلہ پا ہے رہ ِپر خار کو دستک نہ دے
گلے اس کے علاوہ کچھ نہ ہوں گے پوچھ کر دیکھو
ہم ان کے در پہ صبح وشام درباری نہیں کرتے
فروعی مسئلوں کی آگ سے گھر پھونکتے ہم کیوں
یہ کارِ خیر مذہب کے علم بردار کرتے ہیں
تمہارے پاس امنگوں کا اثاثہ ہے تو اے انجمؔ
چلو بنجر زمینوں کو کہیںگلزار کرتے ہیں
وہ سطحِ آب پہ ہے بلبلے کی قیمت کیا
گہر کو دیکھئے گہرائیوں میں رہتا ہے
زمانہ حرص زدہ ہوگیا اب اے انجم
لکھوں کتاب میں بابِ حرام کس کے لئے
چپ رہو آگ اسے لگانے دو
عہدِ نو کا  ہے  رہنما  وہ بھی
اپنی ضد پر ہوا  پشیماں کب
جب کٹی شاخ اور گرا وہ بھی
مذکورہ اشعار کی ایماندارانہ قرأت سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انجمؔ کے یہاں فکری وموضوعاتی سمت ہر اعتبار سے مستحکم ہے اور انہوں نے اپنی شاعری کو عصری معنویت کا اعلیٰ نمونہ بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
 
رفیق انجم کا تازہ شعری مجموعہ’’ساحل بولتا ہے‘‘ 100صفحات پر مشتمل ہے ۔ آغاز میں حمد، دعا، نعت پاک کے لئے تین صفحات مخصوص ہیں بقیہ صفحات پر 98 غزلیں ہیں۔میں نے جو اشعار منتخب کئے ہیں وہ بس بطورِ نمونہ ہے مکمل مجموعے کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ عہدِ حاضر میں جب اردوکی غزلیہ شاعری موضوعاتی اعتبار سے پست ہوتی جا رہی ہے ایسے وقت میں انجم کی شاعری ریگزاروں میں ٹھنڈی چھائوں کا احساس کراتی ہے۔
****************
Comments


Login

You are Visitor Number : 724