donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Nazeer Ahmad Nadvi
Title :
   Hazrat Maulana Syed Md. Murtaza Naqvi Mozahri

 کتب خانۂ ندوۃ العلماء کے پاسبان

حضرت مولانا سید محمد مرتضیٰ نقوی مظاہری

 

از : ڈاکٹر نذیر احمد ندوی

 

یادش بخیر! حضر ت مولانا سید محمد مرتضیٰ صاحب نقوی مظاہری (نوراللہ مرقدہ) سابق ناظر کتب خانۂ شبلی نعمانی،ندوۃ العلماء لکھنؤ، نہ صرف ایک ماہر منتظم ،روشن دماغ مدبر ،بلکہ ایک مقبول وکامیاب مدرس اورنہایت مشفق معلم ومربی تھے۔جن کے زیر نگرانی وسرپرستی بے شمار طالبانِ علوم نبوت نے اپنی تعلیم کامرحلہ وارسفر خوش اسلوبی سے طے کیا ۔

بلاشبہ مولانا کی ذات والا صفات ایک شجر سایہ دار کے مانند تھی جس کی ٹھنڈی اورگھنیری چھاؤں میں تازہ وار دانِ بساطِ علم کوراحت ملاکرتی تھی ۔ان کاوجود مسعود اس چشمۂ حیواں کی طرح تھا جس سے تشنہ کامانِ معرفت وآگہی سیراب ہواکرتے تھے۔

جناب مولانا سید محمد مرتضیٰ صاحب سے میرا تعارف اورتعلق ان کے برادر نسبتی جناب قاضی ظل الرحمن صاحب عباسی مدظلہ العالی کی وساطت سے ہوا جوکہ میرے والد مرحوم جناب عزیز احمد خاں صاحب کے ان قریبی دوستوں میں سے ہیں جن سے ٹونڈلہ (جوپہلے ضلع آگرہ اوراب ضلع فیروزآباد میں آتاہے) میں محکمہ ریلوے کی ملازمت کے دوران روابط کا آغاز ہوا اورتادم زیست قائم رہا، ان کے سامنے میرے والد صاحب نے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں مجھے داخل کروانے کی اپنی خواہش کاجب اظہار کیا توانہوں نے مولانا محمد مرتضیٰ صاحب کے نام ایک تعارفی مکتوب تحریر فرمایاجس کی بنا پر مولانا کے تعارف ورہنمائی کی بدولت میراداخلہ بآسانی ہوگیا۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء جیسی عالمی دانش گاہ سے میری نسبت اوراس سے فراغت، اسباب کے درجہ میں انہی دونوں بزرگوں کی توجہات کاثمرہ اوردعاؤں کانتیجہ ہے۔


مولانا سے میری پہلی ملاقات مسجدِ دارالعلوم کے جنوبی دروازے کے باہر بعدنماز مغرب اپنے والد ماجد کے ہمراہ اس وقت ہوئی جب کہ والد صاحب گورکھپور میں اپنے محکمہ ’’انڈین ریلویز‘‘ کے کسی سرکاری کام سے فراغت کے بعد لکھنؤ تشریف لائے تھے۔چونکہ والد صاحب مجھے دارالعلوم میں داخلہ دلانے کافیصلہ فرماچکے تھے اوراس سلسلہ میں قاضی عباسی صاحب کے واسطے سے مولانا کا غائبانہ تعارف ہوچکاتھا اسی حوالہ سے ہماری ان سے یہ ملاقات ہوئی۔ اس موقع پر والدصاحب نے مولاناسے اس درود شریف کامطلب پوچھا تھاجوانہوں نے ’’روپے ڈ یہا‘‘ میں کسی عالم دین کے وعظ کے دوران سناتھا جس کے الفاظ آج بھی مجھے بخوبی یاد ہیں۔’’اللھم رب الحل والحرم ،ورب البیت الحرام،وربّ الرکنِ والمقام ابلغ لروح سیدنا ومولانا منا السلام‘‘ تومولانانے برجستہ سرزمین حل وحرم کی تعریف ،بیت حرام ،رکن یمانی ،مقام ابراہیم ودیگر متعلقہ مقامات کی تحدید ایسے بصیرت افروز عالمانہ انداز میں فرمائی کہ گویا خانۂ کعبہ اوراس کے یہ ملحقہ مقامات ان کی نگاہوں کے سامنے ہیں، اوروہ انگلی کے اشارے سے ان کی نشاندہی کررہے ہیں ۔مولانا کی قوت مشاہدہ ،استحضار علم اوراس سے بڑھ کر ان کی اس بلند اخلاقی ،کشادہ روئی اورخندہ جبینی سے جس کااظہار انہوں نے ہم نوواردانِ ندوہ کے ساتھ فرمایاتھا۔ طبیعت بے حد متاثر ہوئی۔ مولانا کی عظمت اوران سے عقیدت کایہ وہ اولین نقش تھاجومیرے لوح قلب پرمرتسم ہوا تھا۔مرور ایام کے ساتھ اس نقش کارنگ گہرے سے گہرا ترہوتاگیا ۔ان کی خوئے دلجوئی اورادائے دلنوازی نے میرے کشت زار دل میں محبت کی جوتخم ریزی کی تھی وہ تخم محبت امتداد زمانہ کے ساتھ ایک تناور درخت بن کراپنے برگ وبار لاتارہا۔


مولانانے از آں دم ،تادم واپسیں میری نگرانی وسرپرستی فرمائی ،انہی کے زیرسایۂ تربیت میرے دینی تعلیمی سفر کاآغاز ہوا ۔عا لمیت اورفضیلت کے تعلیمی مراحل کامیابی کے ساتھ طے کرلینے اوررسمی سند فراغ حاصل کرلینے کے بعد جب ندوۃ العلماء کے شعبۂ صحافت ونشریات سے میں منسلک ہوا اوراس کے پندرہ روزہ عربی اخبار ’’الرائد‘‘ میں استاذ گرامی قدر حضرت مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی دامت برکاتہم کی تجویز وسفارش پر انہی کی سرپرستی میں بحیثیت محرّرکام کرنے کا موقع ملا تومولانابے حد مسرور ہوئے ’’الرائد‘‘ سے باضابطہ وابستگی کی ایک سالہ مدت کے ودران بھی عربی زبان وادب کی متعدد کتب کی تدریس مجھ سے متعلق تھی ۔اس کے بعد جب دارالعلوم میں باقاعدہ فریضۂ تدریس کی انجام دہی کاموقع ملاتوانہوں نے ازراہِ اخلاص وہمدردی خوب محبت سے پڑھانے اوراس غرض سے کچھ عرصہ تک شادی نہ کرنے کامجھے مشورہ دیاتھا۔

دوران ایام طالب علمی مولاناوقتاً فوقتاً میری مزاج پرسی اورخبرگیری فرمایاکرتے تھے۔ ندوہ میں داخلہ کے ابتدائی زمانہ میں ایک بار ملاقات کے موقع پر مجھ سے دریافت فرمایا ’’خیریت ‘‘؟ میں نے جواباً عرض کیا’’جی خیریت ہے‘‘، اس پرمولانا نے نہایت شفقت آمیزانداز میں بتایاکہ خیر طلبی کے جواب میں ’’الحمد للہ‘‘ کہا کرو، اس کے علاوہ بہت سے آداب زندگی اوراصول معاشرت مولاناہم طلباء کو موقع بموقع تلقین فرماتے رہتے تھے ۔ایک مرتبہ میں نماز عشاء سے فراغت کے بعد مسجد دارالعلوم کے جنوبی دروازے سے باہرنکلا تومولانانے دارالعلوم کی مرکزی عمارت کی جانب مجھے جاتے ہوئے دیکھ کر دریافت فرمایاکہ ادھر کہاں جارہے ہو؟ عرض کیا:کھانے کے بعد ٹہلنے کی غرض سے جارہاہوں ۔مولانا نے بے حد نرم لہجہ میں فرمایا: 

’’اطباء کے نزدیک رات کاکھاناکھانے کے بعد چالیس قدم چلنا کافی ہوتاہے،اس لئے مسجد سے دارالاقامہ کے کمرے تک جانے میں بآسانی چہل قدمی ہوجاتی ہے۔‘‘

اس طرح مولانانے بڑے لطیف پیرایہ میں مجھے اضاعت وقت سے اجتناب کی تعلیم دی۔مولانا کی مجھ پرغایت شفقت کی ایک ادنی مثال یہ ہے کہ جیسے ہی سالانہ امتحان کانتیجہ منظرعام پر آتاتھامولانا بذریعہ خط اس سے فوراً مطلع فرماتے تھے کیونکہ اس دورمیں فون اورفیکس کا استعمال عام نہیں ہواتھا۔

یہ میری خوش قسمتی اورنصیبہ وری تھی کہ مولانا کے دامن تربیت سے وابستگی اوران کے سایۂ عاطفت سے فیض یابی کامجھے شرف حاصل ہوا ، اوران کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کی سعادت سے بہرہ ورہوا۔ مولانا اصلاً مدرس تھے، دارالعلوم میں ان کا ابتدائ تقرر مکتب کے مدرس کی حیثیت سے ہواتھا، ان کے اس دور کے شاگردوں میں ہمارے مرحوم استادمولانا ناصر علی صاحبؒ (سابق شیخ الحدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء) ، مولانا ڈاکٹر سید لقمان أعظمی صاحبؒ (سابق پروفیسر ٹیچرس ٹریننگ کالج، حائل ،سعودی عرب)، پروفیسر سید ضیاء الحسن صاحب ندوی(سابق صدرشعبہ عربی جامعہ ملیہ دہلی)، ڈاکٹر سید ضیاء الحسن صاحب ندوی( سابق استاد امیرالدولہ اسلامیۃکالج لکھنؤ) وغیرہ کے نام آتے ہیں۔ کتب خانہ کی ذمہ داری تفویض ہونے کے بعد وہ بتدریج غالب آتی گئی، اور آخر میں صرف فارسی کا ایک گھنٹہ مولانا کے سپردرہا، جس کا سلسلہ ہمارے زمانہ تک جاری رہا،چنانچہ میں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء کے اپنے اولین تعلیمی سال (درجہ ثانویہ رابعہ) میں ان سے فارسی کی مشہور درسی کتاب ’’گلزار دبستاں‘‘ پڑھی تھی۔اور غالبا ہمارا درجہ آخری درجہ تھا جسے براہ راست مولانا سے شرف تلمذ حاصل ہوا۔ مولانا کاطرزتعلیم نہایت مؤثر، اوراندازتدریس بے حد دلنشین تھا۔ہرسوال کا جواب نرمی اورخندہ پیشانی سے دیتے تھے،لیکن جب کوئی بات خلاف ادب ،منافئ علم یاضابطہ سے متصادم دیکھتے توبرملا تنبیہ فرماتے اورضرورت پڑنے پر تادیبی کارروائی بھی فرمادیاکرتے تھے۔ اس مزاج وانداز کے لوگ اُس دورمیں بھی خال خال ہی نظرآتے تھے جوکسی طالبعلم کی جانب سے ضابطہ شکنی کے ارتکاب، یاکسی بڑے کی شان میں گستاخانہ انداز پربرملا نکیر اورناگواری کااظہار کرتے ہوں ؂

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی

ایک بار استاذگرامی قدر حضرت مولاناسید سلمان حسینی ندوی دامت برکاتہم کے ایماء پرحیدرآباد کے بعض اہم کتب خانوں میں محفوظ عربی مخطوطات کی نقول کی فراہمی کے سلسلہ میں مجھے وہاں کاسفر کرناتھا جس کے لئے ایک تعارفی مکتوب درکارتھا ، اس کے لئے مولانا سے جب میں نے درخواست کی تونہ صرف یہ کہ انہوں نے بخوشی اسے منظور فرمایا، بلکہ ناظرکتب خانہ کی حیثیت سے ’’مکتبۃالعلامہ شبلی النعمانی‘‘ کے لیٹر ہیڈ پرمطلوبہ تعارفی مکتوب (رات میں ناوقت کتب خانہ کھول کر )بکمال بشاشت تحریر کرکے مجھے عنایت فرمایا۔

مولانا طبعاً بڑے حساس اورغیرت مند تھے ۔مگر اپنے پہلومیں دل درد مند رکھتے تھے ،جوکسی کی پریشانی کودیکھ کر بے قرار ہوجاتا، وہ اپنے متعلقین کی مشکلات آسان اورمسائل حل کردیاکرتے ،حتی الوسع ضرورت مندوں کی حاجت روائی فرمایاکرتے ۔مختلف مقاصد سے آنے والوں کی ضیافت ایسے اہتمام سے کرتے تھے کہ لگتاتھاکہ ’’اکرام ضیف‘‘ ان کے خمیر میں داخل، اوران کی فطرت میں شامل ہے۔ مولانا کادسترخوان وسیع ہوتاتھا جس پرعموماً ان کے مہمان اوراہل تعلق موجود ہواکرتے تھے ۔ازراہ دلجوئی مجھ غریب الدیارکوبھی وقتاً فوقتاً شام کے کھانے پر مدعو فرمالیاکرتے تھے ۔اس طرح ان کے خوان نعمت کی زلہ ربائی کاشرف متعدد مرتبہ مجھے حاصل ہوا۔ مولانا کودیکھ کر بارہایہ خیال دل میں آتاتھاکہ وہ محض میرِ ’’مجھوّا میر‘‘(۱) ہی نہیں، بلکہ ’’میر کارواں‘‘ ہیں جن پراقبال کایہ شعر صادق آتاہے ؂

نگہ بلند، سخن دلنواز، جان پُرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرکارواں کے لئے

مولانا اپنے کام خود کیاکرتے تھے ،اوروں سے کام بہت کم لیتے تھے،بارہا میں نے انہیں صبح سویرے ندوہ کی کینٹین سے ناشتہ کاسامان خرید کرگھر لے جاتے ہوئے دیکھا ،یہ میری خوش نصیبی تھی کہ مولانا نے ایک دوبار مجھے خدمت کاموقع عنایت فرمایا۔

مولانا کے مزاج میں سادگی تھی،یہی وجہ ہے کہ تکلف اورتصنع سے انہیں بالکل مناسبت نہیں تھی۔ اگرکسی پروگرام میں شرکت یاکسی بزم کی صدارت کی ان سے درخواست کی جاتی تومانع نہ ہونے کی صورت میں بلاادنی تامل قبول فرمالیاکرتے تھے ۔ایک بار سفرحجاز سے واپسی کے بعد ’’جمعیۃ الاصلاح‘‘ کی کسی بزم کی صدارت کے لئے ان سے گزارش کی گئی تونہ صرف یہ کہ انہوں نے بخوشی اسے منظور فرمایا ، بلکہ اپنے صدارتی کلمات میں حجاز مقدس کے تازہ حالات، سفر کے مشاہدات اوراس کے متعلق اپنے تأثرات گوش گزارِ سامعین کےئے، جن سے ان کی حاضردماغی ،برجستگی اورطلاقت لسانی کااندازہ ہوا۔ ندوہ کے غیرملکی طلباء اوربیرون ہند کے مہمانوں کے ساتھ خوداعتمادی سے عربی میں گفتگو کرتے ہوئے بارہا میں نے انہیں دیکھااورسنا۔

1992ء ؁ میں جب اندرون ملک فرقہ وارانہ فضا مسموم تھی،اور ملکی حالات ازحدناسازگارتھے، اس دوران مسجد دارالعلوم میں ختم یٰسین کا اہتمام ہوتاتھا جس میں پابندی کے ساتھ مخصوص انداز میں مولانادعا فرمایاکرتے تھے ۔اگرچہ اس زمانہ پر تقریباً دودہائیوں کاعرصہ گزر چکاہے مگراس کا نقشہ آج بھی میری نظروں میں گھوم رہاہے ۔اوردعا کے الفاظ اب بھی کانوں میں رس گھولتے ہوئے محسوس ہورہے ہیں۔ دعاؤں کے اس اہتمام کے ساتھ حالات حاضرہ سے باخبری اورآگاہی سے مولانا غفلت نہیں برتتے تھے ۔اس زمانہ میں بلاناغہ بی بی سی لندن سے نشرہونے والی خبریں سنتے تھے ۔

مولانا عبادت نہایت خشوع وخضوع کے ساتھ کرتے تھے ،مسجد میں پنچ وقتہ نمازیں باجماعت اداکرنے کااہتمام فرماتے ۔نماز کے ارکان بڑے اعتدال وسکون سے ادافرماتے ۔ کئی مرتبہ ان کے پاس ایک ہی صف میں باجماعت نماز پڑھنے کاموقع ملا ۔سجدہ کی حالت میں پرسوز انداز میں نرم آواز سے ’’سبحان ربی الاعلیٰ‘‘ کی تسبیح ان کی زبان سے سن کرایسا لگتاتھاکہ کانوں کی طرف دل کھنچا چلاجارہاہے۔مولانااگرچہ قدیم نظامِ تعلیم کے ساختہ پرداختہ تھے لیکن وہ عصری تقاضوں سے بخوبی آشنا تھے ۔مظاہرعلوم سہارنپور سے فارغ التحصیل ہونے کے باوجود وہ تحریک ندوۃ العلماء کے بڑے مؤید وحامی، اوراس کی درسگاہ ’’دارالعلوم‘‘ کے بڑے دلدادہ تھے ،اس لئے بجاطورپر وہ ندوی الفکر قراردیئے جانے کے مستحق تھے۔

مولانا ،سابق ناظم ندوۃ العلماء مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی (نوراللہ مرقدہٗ) کے عاشق زار اورمحب صادق تھے۔ خاندانی اورروحانی تعلقات کی بناپر انہیں حضرت مولاناسے نہایت والہانہ تعلق ،بے حد طبعی مناسبت اوراعلیٰ درجہ کی ذہنی ہم آہنگی تھی۔ ہمیشہ حضرت مولانا کی تعریف میں رطب اللسان رہتے۔ متعدد اسفار میں ان کے رفیق ومعاون کی حیثیت سے شریک رہے۔ اوربہت سے معاملات میں ان کے معتمد خاص رہے۔

حضرت مولانا سے عقیدت ومحبت صرف ان کی ذات تک محدود نہیں تھی بلکہ ان کے صاحبزادگان والاشان بھی اسی راہ عقیدت پرگامزن اوران کے نقوش پا کے پیروہیں۔بالخصوص ان کے اسم بامسمیٰ فرزند سعید جناب مولانا سعید حسن صاحب ندوی( جوکہ ’’الولدُ سرٌّ لِاَبیہ‘‘ کے صحیح مصداق اورمیرے مشفق استاد ہیں)کی حضرت مولانا سے عقیدت ومحبت کی روشن دلیل اوربیّن ثبوت حضرت کی جملہ تصانیف کی وہ جامع فہرست ہے جو حضرت والا ہی کی زندگی میں انہوں نے ’’مکتبہ حراء‘‘ لکھنؤ کے زیراہتمام تیار کروائی تھی جواگرچہ اب تک مطبوعہ شکل میں منظر عام پر نہ آسکی ،مگرمولانا سعید صاحب نے حضرت علی میاں صاحبؒ کی وفات کے صرف سال بھر بعدحضرت کے تعارف کے لئے جوویب سائٹ (www.nadwi.net.in)بنائی تھی اس پر عربی ،اردو ، انگریزی اورہندی میں حضرت مولانا کی تصنیفات کی چاروں فہرستیں نشر ہوچکی ہیں ،جن سے حضرت والا کے محبین ومعتقدین نیز ان پر کام کرنے والے محققین فائدہ اٹھارہے ہیں۔


اسی فہرست کی تیاری کے دوران انہوں نے کتب خانہ ندوۃ العلماء میں حضرت مولانا کے نام سے موسوم گوشہ ’’مکتبہ ابوالحسن علی‘‘ قائم کیا جس کاافتتاح خود حضرت مولانا نے 5؍شوال 1418ھ ؁ مطابق 4؍فروری 1998ء ؁ کوفرمایاتھا جس میں حضرت مولانا کی جملہ تصانیف کے حتی الامکان تمام ایڈیشن اوران پر ہونے والے تحقیقی کاموں کوجمع کردیاتھا۔اس میں اضافہ کاسلسلہ حضرت مولانا کی وفات کے بعد بھی جاری ہے،چنانچہ عالم عربی اوربرصغیر ہندوپاک میں حضرت مولانا پرشائع شدہ مختلف تصانیف اورمجلات وجرائد کے خصوصی شمارے بھی اس میں شامل ہوتے جارہے ہیں۔


اس ضمن میں یہ تذکرہ بھی شاید بے محل نہ ہوکہ آخری سالوں میں دارالعلوم کے فضیلت دوم کے طلباء بالخصوص اور عام اہل علم بھی حضرت والا سے صحاح ستۃ کی سند لینا سعادت سمجھتے تھے ، مولانا سعید صاحب نے مدینہ منورہ میںیہ سعادت حاصل کی، حضرت سے اوائل پڑھکرسند لی ، اور اس کاشکرانہ یوں اداکیاکہ حضرت کی سند ریاض (سعودی عرب) میں ہی بہت خوبصورت طبع کرواکر حضرت والا کو ہدیہ کی ، جو طلباء میں تقسیم ہوتی رہی، اور سعیدصاحب حضرت کی دعائیں سمیٹتے رہے۔ 


مولانا مرتضی صاحبؒ کا صرف حضرت مولانا علی میاں ؒ سے ہی نیاز مندانہ ربط وتعلق نہیں تھا بلکہ(حضرت سیداحمدشہیدؒ کی نسبت سے جن کے ساتھ آپ کے جدامجد مولاناجعفرعلی صاحب نقویؒ معرکہء بالاکو ٹ میں شریک جہادتھے) خانوادۂ علم اللٰہی کے ہرفرد سے انہیں والہانہ محبت تھی جس کی شہادت انہیں قریب سے دیکھنے والے سبھی حضرات دیتے ہیں۔ اس غیرمعمولی تعلقِ خاطر کامشاہدہ بعض مواقع پر میں نے بچشم خود کیاہے۔ حضرت مولانا علی میاںؒ کے خواہرزادے اورحضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم کے برادرِ اکبر حضرت مولانا سید محمد ثانی حسنیؒ (جوکہ مولانا کے مظاہرعلوم سہارنپور میں طالب علمی کے دورکے رفقاء میں سے تھے)کے انتقال پرملال پر میں نے انہیں بہت مغموم وسوگوار اوران کی آنکھوں کواشک بار دیکھا۔ استاذ گرامی حضرت مولانا سیدعبداللہ حسنی مدظلہ العالی کی والدۂ ماجدہ(اہلیہ مولانا محمد الحسنی ؒ ،سابق چیف ایڈیٹر البعث الاسلامی)کے سانحہ ارتحال پر تکیہ کلاں رائے بریلی میں ان کی تدفین کے موقع پر ان کی تربت پر مٹی ڈالنے کے بعد نمناک آنکھوں اورنہایت اندوہ گیں انداز میں ان کے حق میں یہ فرماتے ہوئے سنا ’’بڑی نیک اوراچھی بچی تھی‘‘۔ یقیناًمولانا کا اس خانوادہ سے یہ تعلق یک طرفہ نہ تھا، خود حضرت مفکر اسلامؒ ( اور ان کے اہل خاندان) بھی مولانا مرتضی صاحبؒ سے ایسا ہی تعلق رکھتے تھے،اور انھیں فرد خاندان شمار کرتے تھے، مولانا کی وفات پر ان کے فرزند دلبند مولاناسعید صاحب ندوی کے نام حضرت مفکراسلام ؒ کا تعزیتی مکتوب (جو نٹ پر دیکھا جاسکتاہے) اسی تعلق خاطر کا آئینہ دارہے ، جس میں وہ رقمطراز ہیں:

’’آنعزیز کا فیکس پہنچا، بیشک ہم تعزیت کے مستحق ہیں۔ایسامحسوس ہوتاہے کہ ایک عزیز فردخاندان اور رفیق دنیا سے اٹھ گیا۔‘‘

جہاں تک کتب خانۂ ندوۃ العلماء کاتعلق ہے تووہ مولانا کے دل کی دھڑکن ان کے ارمانوں کامحور،تمناؤں کامرکز اورعملی خدمات کامیدان تھا جس کے فروغ وترقی کے لئے وہ ہمہ دم ساعی وکوشاں رہتے تھے۔ وہ کتب خانہ کے لئے ایسے باغبان کی طرح تھے جواپنے چمن کی خون دل سے آبیاری کرتاہے اورجس میں اس کے کسی غنچہ کومسلتا اورگل کوپامال ہوتاہوا دیکھنے کی تاب نہیں ہوتی ہے اورجوزبان حال سے یوں گویا رہتاہے ؂

آغشہ ایم ہرسرِ خارے بخونِ دل
قانونِ باغبانئ صحرا نوشتہ ایم

مولانا کواپنے کتب خانہ سے ایساجذباتی لگاؤ تھاجیساکسی گلچیں کواپنے گلستاں سے ہوتاہے۔ جواسے گلہائے رنگ برنگ سے لالہ زار کردینا چاہتاہو۔ مولانا بھی کتب خانہ کومختلف علوم وفنون کی معتبر کتب ،مستند مآخذ ،اہم مصادر ومراجع اورتازہ ترین مطبوعات نیز جرائد ورسائل سے آراستہ کرنے کے لئے فکر مند رہاکرتے تھے ۔جہاں کہیں کسی نئی کتاب کی اشاعت کاانہیں علم ہوتااس کی فراہمی کے لئے فوراً تگ ودو شروع فرمادیتے تھے۔اپنے سفر حجاز کے دوران کتب خانہ کے لئے ایسی نادرونایاب کتابیں خریدیں جن سے رجوع واستفادہ کی اساتذہ وطلباء کوعام طورپر ضرورت پیش آتی تھی (اس سلسلہ میں ان کے لائق وفائق فرزند مولانا سعید صاحب کی کوششیں بھی قابل ذکر اورلائق ستائش ہیں جنہوں نے ذاتی طورپر کتب خانہ ندوۃ العلماء کومختلف ذرائع سے حاصل کردہ بے شمار وقیع علمی کتب سے مالامال کیا )یہاں کابیشتر علمی ذخیرہ اورکتابی سرمایہ مولانا کی ’’نگاہِ کتاب جو‘‘ کارہین منت ہے ۔وہ صرف رسمی ناظر کتب خانہ نہیں تھے بلکہ اس کی ایک ایک کتاب فن وار ان کے ذہن میں محفوظ اورحافظہ میں موجود رہتی تھی۔ ایک بار مجھے سلطان مظفر حلیم گجراتی کے مفصل حالات سے واقفیت کے لئے کسی عربی حوالہ کی تلاش تھی اس سلسلہ میں جب میں نے مولانا سے دریافت کیاتو انہوں نے فوراً’’ظفر الوالہ بمظفر وآلہ‘‘نامی کتاب کی جانب نہ صرف رہنمائی کی بلکہ خود ایک ملازم سے یہ کتاب نکلوا کر مجھے مرحمت فرمائی جب یہ کتاب سامنے آئی تومعلوم ہواکہ اس کے مصنف وہی آصفی ہیں جن کاحوالہ مولاناحکیم سید عبدالحئی حسنی، صاحبِ ’’نزہۃ الخواطر وبہجۃ المسامع والنواظر ‘‘ (جوبعدمیں حضرت علی میاں علیہ الرحمہ کی نظرثانی کے بعد’’الاِعلام بمن فی تاریخ الہند من الأعلام‘‘ کے نام سے شائع ہوئی ہے) نے سلطان مذکور کے حالات میں جابجا دیاہے۔ 


دارالعلوم ندوۃ العلماء میں نصاب تعلیم کے موضوع پر منعقدہ علمی مذاکرہ ( 28 فروری تایکم مارچ 1984) کے موقع پر 28فروری کو کتب خانہ شبلی کی نئی عمارت کے افتتاح کی مناسبت سے مولانا مرتضی صاحب ؒ نے ’’کتب خانۂ ندوۃ العلماء :منزل بہ منزل ‘‘ کے عنوان سے ایک پُرمغز اورمعلومات افزا مقالہ پڑھا تھا جو نہ صرف کتب خانہ کے تعارف ومقاصد پر مشتمل، بلکہ اس کی فنوار کتابوں کی تعداد کے ذکر اورنایاب ونادر نسخوں کی تفصیل سے مزین ہونے کی بناپربجاطورپر اس کے تدریجی ارتقاء اورمرحلہ وارترقی کی مستند روداد ، اورکتب خانہ کے مشتملات ومندرجات سے ان کی واقفیت کاآئینہ دار تھا۔


مولانا کی رہنمائی اورسربراہی میں کتب خانہ ندوۃ العلماء کایہ کارواں شاہراہ ترقی پرگامزن تھا اوراپنے سفر کے مراحل بحسن وخوبی طے کرکے منزل مقصود کی طرف رواں دوا ں تھا کہ اچانک میر کارواں کے پاس داعئ اجل کاپیام آگیا ۔تعمیل حکم میں انہوں نے3/4نومبر1995کی درمیانی شب کو آخرت کے لئے رخت سفر باندھ لیا اوراس عالم فانی سے منتقل ہوکر جہانِ جاودانی میں جاپہنچے ۔اہل کارواں کوداغ مفارقت دے کرانہیں مغموم وسوگوار چھوڑ کر اپنے رب کریم کے حضور میں حاضر ہوگئے۔ 


مولانا کی فرقت وجدائی سے میکدۂ ندوہ پر سوگواری کی فضا چھاگئی گویاکہ وہ یہاں کے بادہ خواروں اورمے گساروں سے یہ کہہ کر رخصت ہوئے ہوں ؂

جاں کر منجملۂ خاصان میخانہ مجھے
مدتوں رویاکریں گے جام وپیمانہ مجھے

غم واندوہ کی اسی فضاء کی تصویرکشی جناب خلیل پرتابگڈھی نے اپنے منظوم خراج عقیدت میں یوں کی ہے ؂

گلشن ندوہ کا چپہ چپہ آتا ہے نظر 
ناظرشبلی کتب خانہ کے غم میں سوگوار

اوریہ تأثر ہم فیض یافتگان اور ان کے محبین کی محض عقیدتمندی نہیں، خود ان کے محبوب ومقتدا، میر کارواں اور سالار ندوۃ العلماء حضرت مفکر اسلامؒ نے مذکورہ تعزیتی مکتوب میں اس تأثر کو یوں سند عطا فرمائ ہے۔

’’پورے دارالعلوم میں ایک غم واندوہ کی فضا چھاگئی، ایسا اثر یہاں کے کسی رفیقِ کار کے اٹھنے سے اس سے پہلے یاد نہیں آتا۔‘‘

اللہ تعالے ہمارے دونوں بزرگوں اور تمام مرحومین کے درجات بلند فرمائے، اور ہم سب کو راہ حق پر ثبا ت واستقامت نصیب فرمائے۔(آمین

*************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1022