donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Nazeer Tabassum
Title :
   Mushtaq Ajiz Ki Shakhsiat

مشتاق عاجز کی شخصیت


’’ہے کوئی اس سا دوسرا تنہا‘‘​


ڈاکٹر نذیر تبسم 

شعبہ اُردو، پشاور یونیورسٹی​

 

ہر انسان اپنی ذات میں ایک شہر بے مثال ہوتا ہے۔ جس کی اپنی تاریخ ہوتی ہے، جغرافیہ ہوتا ہے، ثقافت ہوتی ہے، اپنے موسم ہوتے ہیں، اقدار وروایات اور تہذیبی تسلسل ہوتا ہے۔ لیکن اس کی شناخت کا ایک حوالہ اس کی عمارتوں کا طرزِ تعمیر، سڑکیں، باغات، چوک، گلیاں اور چوبارے بھی ہوتے ہیں۔ اور وہ پرندے بھی جن کی چہچہاہٹ سے شہر کی فضائوں میں نغمگی گونج اٹھتی ہے۔

جی ہاں ہر انسان کے اندر یہ ساری چیزیں ہوتی ہیں۔ جن سے اس کی شخصیت کے خدوخال کا تعین بھی ہوتا ہے اورکیفیات کے بدلتے رہنے سے زندگی کا تحرک بھی مجسم ہوتا ہے۔

مشتاق عاجز کی شاعری پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے جیسے ہم کسی تاریخی اور قدیم شہر کی خنک لیکن پر اسرار فضائوں میں سانس لے رہے ہوں۔ ایک ایسا شہر جو اپنے خدوخال کی ویرانی پر نوحہ کناں ہو۔ جہاں جذبات کی رعنائیاں جذباتیت کی گرد میں چھپ رہی ہوں۔ جہاں اقدار کی خوبصورتی، رویوں کی بد صورتی میں ڈھل رہی ہو اور جہاں موسموں کا بانکپن بے کیفی کے عذاب سے دو چار ہو۔

لمحہ موجود میں عصری آشوب کا آسیب جس طرح ہماری دہلیزپر دستک دیتے دیتے ہماری روح تک میں اُتر چکا ہے اور ہم یاس ونااُمیدی کے جس حصار میں سانس کی گھٹن کا شکار ہیں وہ سب المیے مشتاق عاجز کی شخصیت کا جزو بن گئے ہیں۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ انتہائی ذاتی اور کائناتی دکھوں سے نبردآزما اس شاعر کے اسلوب اور لہجے میں کسی جذباتی سطحیت کا ابال نہیں بغاوت کا نعرہ نہیں بلکہ ایک انتہائی شائستہ اور اندر سے مہذب انسا ن کا وہ شعوری رویہ ہے جس میں بالغ نظری خود کو میزان میں تولتی ہے، برتتی ہے اور لفظوں کے پیکر میں اظہار کی اشکال متعین کرتی ہے۔

عاجز کی شاعری کا بنیادی منطقہ، ذات اور بیرونِ ذات، جن موضوعات سے جنم لیتا ہے ان میں انفرادی و اجتماعی سطح پر منافقانہ رویے عظمت و وقار انسانیت کی طلب، مٹی کی محبت، اقدار کا زوال اورعصرِحاضر کے ایسے دکھ شامل ہیں جو آج کے انسان کا المیہ ہیں۔

سیاست و سیاست بازی اور اہلِ اقتدار کی بے حسی کا نوحہ مشتاق عاجز کے دل کو چیرتا ہے اور اہلِ وطن کی بے چہرگی و بے چارگی اسے اندر سے اداس کر دیتی ہے۔ یہیں کہیں پہ اسے اپنی بے بسی اور بے چارگی کا احساس بھی ستاتا ہے۔ لیکن وہ ناامید ہو کر سپر نہیں ڈالتا۔ یہ حوصلہ مندی اس کے اسلوب اور موضوعات دونوں میں جھلکتی ہے۔

یہ حوصلہ مندی تو اس کے ان اشعار میں بھی جھلکتی ہے جو اس نے اپنے جواں مرگ بیٹے کی یاد میں لکھے اور جو پڑھنے والے کو اندر سے آبدیدہ کر دیتے ہیں۔ اس کے ظرف کا اندازہ اس بات سے بھی لگائیں کہ اس نے تو اس نادم و شرم سار دریا کو بھی معاف کردیا جس نے اس کے جواں سال بیٹے کو نگل لیا تھا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تہذیبی رکھ رکھائو یہ شائستگی اور لب و لہجے کی یہ تمکنت کیا محض رویے ہیں؟روایات ہیں؟جی نہیں!اس کے پیچھے اقدار و روایات کا نسل در نسل وہ ورثہ موجود ہے جو نفسیات کے پیرائے میں شخصیت کی تشکیل و تکمیل کرتا ہے ۔ اور یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس سے مشتاق عاجز سے ہی نہیں ہمیں اس کے دکھوں اور غموں سے بھی پیار ہو جاتا ہے۔

مشتاق عاجز کی شخصیت کے نفسیاتی تجزئیے سے اس کے اندر کی تنہائی آشکار ہوتی ہے۔ سو وہ مکالمے کا طلب گار نظر آتا ہے۔ اس کا مخاطب محض زمانہ ہی نہیں اس کے نہاں خانوں میں سانس لیتا اس کا ہمزاد بھی ہے۔ اور یہ بات بڑی اہم ہے کہ اس نے مکالمے کے اظہار میں خطابیہ انداز کو اپنایا۔ اردو شاعری میں میرؔ کا خطابیہ انداز بھی اسی ذاتی تنہائی کے سبب ذہنی سہارے کا امکان پیدا کرتا ہے۔ اور یہی چیز مشتاق عاجز کو بھی زندہ رہنے کا حوصلہ دیتی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ لفظوں نے اسے ٹوٹ پھوٹ سے بچایا اور اس نے جواب میں لفظوں کو اعتبار و وقار اور حرمت سے آشنا کیا۔

اس کی شاعری سطحی موضوعات یاا سا لیب سے مرتب نہیں ہوتی سو اس کی شاعری کو ذہنی و روحانی سطح پر سمجھنے کے لئے بھی بہ ہر صورت ایک ادبی ریاضت کی ضرورت موجود رہتی ہے۔

پیرایۂ اظہار میں مشتاق عاجز کا ایک اور کمال اس کی امیجری ہے، وہ اپنے کئی اشعار میں لفظوں سے ایک دھندلی سی فضا تشکیل دیتا ہے جو کبھی فطری تو کہیں جمالیاتی محسوسات سے ایسی تصویریں بناتی ہے جن کے خدوخال غیر واضح ہونے کے باوجود اپنی تا ٔثر ّیت میں جنگل کی ہوا کی طرح ہوتے ہیں۔

وہ لفظوں کا نباض ہی نہیں ان کی نفسیاتی جہتوں کا آشنا بھی ہے۔ وہ الفاظ کو حسن اہتمام سے برتنے کا فن جانتا ہے۔ اس کے شعروں میں زائد لفظوں کی کوئی گنجائش نہیں بنتی۔ یہی کفایت شعاری اس کے انداز بیان کی خوبصورتی بن جاتی ہے۔ سو یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ فن اور فکر دونوں حوالوں سے مختلف نفسیاتی کیفیات اس کی شاعری کو ایک منفرد زاویہ عطا کرتی ہیں۔

میں نے مشتاق عاجز کی شاعری پر اس مختصر سے جائزے میں جان بوجھ کر اس کے اشعار کا حوالہ نہیں دیا صرف اس لئے کہ جب آپ اس کی شاعری پڑھیں تو اس جمالیاتی، ذہنی و روحانی سر خوشی سے خود سیراب ہوں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر یہ آپ کا حق بنتا ہے کہ میری رائے سے اتفاق کریں یا اختلاف۔ ذاتی طور پر میں مشتاق عاجز کی شخصیت کا اسیر بھی ہوں اور اس کی شاعری کا گرفتار بھی۔

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 444