donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Nusrat Jahan
Title :
   Prof.Qamar Azam Hashmi Bahaisiat Moallim


 

پروفیسر قمر اعظم ہاشمی بحیثیت معلم
 
ڈاکٹر نصرت جہاں
 
پروفسیر قمر اعظم ہاشمی جیسی قد آور شخصیت کے بارے میں لکھنا صرف میرے لئے ہی نہیں بلکہ کسی بھی لکھنے والے کے لئے ایک دقت طلب امر ہے ۔وجہ بہت سادہ ہے کہ ان کی شخصیت کے اتنے پہلو ہیں کہ تمام پہلوؤں پر لکھا جائے تو درجنوں کتب تحریر کی جا سکتی ہیں اور اگر صرف ایک مضمون تحریر کرنا مطلوب ہو تو ان کی شخصیت کی کون سی جہت سے صرف نظر کیا جائے۔میرؔ کی طرح سہل نظر آنے والے پروفسیر قمر اعظم ہاشمی ایسی ہی  برگزیدہ اور نایاب شخصیت کے حامل تھے۔
 
مت سہل ہمیں جانو،پھرتا ہے فلک برسوں 
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
                                                                                       زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو اس میں نمایاں مقام اور شہرت کی بلندیوں کو چھونے والے افراد پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اہلیت رکھتے ہیں اور تصنیف و تالیف کے میدان میں کچھ کار نمایاں کے حوالے سے معروف سمجھے جاتے ہیں ۔کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اہلیت کے بغیر صرف حالات کی موافقت کا فائدہ اٹھا کر شہرت کے آسمان پر براجمان ہو جاتے ہیں مگر ایسے لوگ بھی دنیا میں موجود ہیں جو ان تھک محنت،خلوص،لگن اور یقین کامل کے ساتھ آہستہ آہستہ اپنی منزل کی جانب سفر طے کرتے رہتے ہیں اور بالآخر انہیں ان کی محنت کا ثمر ضرور ملتا ہے ۔ پروفسیر قمر اعظم ہاشمی بھی اسی زمرے کے افراد میں شامل تھے۔
 
سید مظفر حسین مظفر پروفیسر قمر ہاشمی سے اپنی محبت کو ان لفظوں میں بیان کرتے ہیں :
 
فیضان آگہی کے سکندر کئی ملے 
لیکن قمر سا کوئی سمندر نہیں ملا 
صحت گری تو اور عزائم جواں ہوئے 
 ایسا جہاں میں مرد قلندر نہیں ملا      
                                                              
پروفیسر قمر اعظم ہاشمی نے اپنے کیریئر کا آغاز اے ۔این ۔کالج پٹنہ سے کیا،بعد میں وہ ال۔ایس۔کالج مظفر پور میں مستقل طور پر لیکچرار تعینات ہوئے تو انہوں نے مظفر پور میں ہی سکونت اختیار کرلی اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہیں قیام کیا۔پروفیسر قمر اعظم ہاشمی کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ہر جگہ استاد تھے۔کالج سے یونیورسٹی تک اور بازار سے گھر تک ،یعنی کوئی بھی طالب علم بلا تامل کہیں بھی ان سے استفادہ کر سکتا تھا۔سہ پہر سے شام تک بلکہ رات کے ابتدائی حصے تک کا سارا وقت انہوں نے بطور خاص اسی مقصد کے لئے وقف کر رکھا تھا ۔انہوں نے اپنی رہائش گاہ میں ایک بڑے ہال      کو مدرسہ کی نوعیت پر مختص کررکھا تھاجس میں ایک لائبریری بھی موجود تھی ۔ طلباء ہر روز ان کے ہاں جمع ہو جاتے اور اور ہر دن ورکشاپ،سمپوزیم اور سیمینار کا سا ماحول رہتا۔حد تو یہ تھی کہ پروفیسر قمر اعظم ہاشمی چھوٹی جماعتوں کے بچوں سے متعلقہ کئی انجمنوں سے وابستہ تھے اور ان کی تقریبات میں شریک ہوتے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے چنانچہ وہ ابتدائی درجے سے لے کر انتہائی درجے تک کے طلباء کے استاد تھے              
                                             
ان کے شاگردوں نے ان کے فن اور شخصیت پر کتب بھی لکھیں۔ ڈاکٹر ولی احمد ولی ؔ کی کتاب ’’ پروفیسر قمر اعظم ہاشمی‘‘،ایک ہمہ جہت شخصیت‘‘ ان پر لکھی گئی دوسری کتاب ہے ۔اس سے قبل ڈاکٹر ابوبکر رضوی کی کتاب ’’قمر اعظم ہاشمی کی تنقید نگاری‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آکر قارئین اور                         اہل ادب سے خوب داد وصول کر چکی ہے۔ ان کے ہونہار شاگرد ڈاکٹر ولی احمد ولیؔ ماضی کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ’’استاد محترم پروفیسر قمر اعظم ہاشمی اپنے شاگردوں کے تئیں ہمیشہ بے حد مخلص ،معاون اور ان کے بہتر مستقبل کے متمنی اور متفکر رہے۔انہوں نے ہمیشہ تشنگان علم و ادب کے لئے اپنے گھر کا دروازہ کھولے رکھا ۔علم و ادب کا ادنیٰ سے ادنیٰ سائل بھی ان کے دروازے سے مایوس و محروم نہ لوٹا،بلکہ اپنے بقدر ظرف اپنی جھولی بھر کر گیا۔میں نے اب تک علم و ادب کا ایسا ’’حاتم‘‘ نہیں دیکھا ،ورنہ میرے تجربے اور مشاہدے میں بعض ایسے اساتذہ آئے ہیں جن کی علمیت اور دانشورانہ ذہانت مسلم!لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان کے علم و فضل اور دانش وری سے فی زمانہ کوئی فیض یاب نہ ہو سکا۔ان میں بعض تو علم و فضل کا خزانہ سینے میں چھپائے ہوئے اس دار فانی سے کوچ بھی کر گئے اور بعض بقید حیات ہوتے ہوئے بھی بے حد ریزرو واقع ہوئے ہیں ۔انہوں نے اپنے شاگردوں کی جس طرح تربیت اور حوصلہ افزائی کی ہے ،اس کی مثال خال خال ہی ملتی ہے ۔یہاں ایک واقعہ ذکر کرناجو خالصتاً میری ذات سے تعلق رکھتا ہے۔شایدبے محل نہ ہو گا کہ میں اپنے بی اے آنرز(اردو)کے امتحان کے دوران شدید بیمار ہو گیا تھا بلکہ مجھے یہ تسلیم کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ امتحان کے خوف نے مجھے بیمار بنا دیا تھا۔مجھے شاید ’’ایگزامنیشن فوبیا ‘‘سے موسوم کیا جا سکتا تھااور پھر کیا تھا میں نے ایگزام نہ دینے کا ارادہ کر لیا ،مگر میری ’’بیماری‘‘ اور ’’ترک امتحان‘‘ کی خبرجب ہاشمی صاحب تک پہنچی تو انہوں نے نہ صرف مجھے حوصلہ بخشابلکہ میرے بے حد     محسنو کرم فرمااور بزرگ دوست محمد سلیم اللہ اور برادرگرامی جناب رضی احمد ایڈوکیٹ صاحبان کو متحرک اور سرگرم کر کے میرے امتحان کے لئے’’بیڈ کا پروویزن‘‘کروایا اور اس طرح میں اس سال بی ۔اے آنرز کا امتحان دے سکااور میرا سال خراب ہونے سے بچ گیا ۔اس طرح کے بے شمار واقعات میری زندگی سے عبارت ہیں ،جہاں کہیں نہ کہیں پر پروفیسر قمر اعظم ہاشمی کے مخلصانہ اور مشفقانہ تعاون سے میری مشکلیں آسان ہوئیں‘‘۔وہ ایک عہد ساز،دانشور،محقق،نقاد،صحافی اور استاد تھے۔ علم و ادب کے حوالے سے پروفسیر قمر اعظم ہاشمی کی زندگی کا طائرانہ جائزہ لیا جائے تو ان کی حیثیت ایک روشن اور تابندہ مرکز کی سی ہے ۔ایک قابل استاد کی طرح ان کی نظریں ہمیشہ نسل نو کے مستقبل پر رہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں نوجوان اساتذہ اور طلباء کی ذہنی تربیت میں نمایاں طور پر حصہ لیتے رہے۔1978تا 1991تک کے تحقیقی مقالوں پر نگاہ ڈالیں تو سا ٹھ سے زیادہ پی ایچ ڈی کے مقالے ان کی زیر نگرانی لکھے گئے۔انہوں نے اسکالرز کے لئے بعض مشکل اور محنت طلب موضوعات بھی منتخب کیے مگر ان کی شفقت اورمحبت کے باعث مشکل سے مشکل موضوع پر تحقیقی مقالے آسانی سے لکھے گئے ۔وہ کمرہ جماعت اور جماعت سے باہر طلباء کے ہجوم میں گھرے ہوئے نظر آتے۔وہ طلباء کی مدد کچھ اس انداز سے کرتے کہ اس سلسلے میں کسی بھی حد کو جانے کے لئے تیار ہو جاتے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی زیر نگرانی صوبہ بہار میں سب سے زیادہ پی ایچ ڈی کے مقالے تحریر کیے گئے۔وہ نو آموز طلباء میں جذبہ اور حوصلہ پیدا کرتے اور ان کا بوجھ اپنے کندھوں پر لاد کر انہیں منزل و مقصود کا راستہ دکھاتے۔
 
انہیں ترویج و اشاعت سے خاص شغف تھا۔ ان کی تخلیق کردہ کچھ معروف کتب یہ ہیں
۔فکر و فن1963
۔نقش ہائے رنگ رنگ کے1971
۔اردو میں ڈرامہ نگاری1975
۔اشعارِ اکبر1985
۔مثنوی صحرا لبیان1985
۔ضحاک کا تنقیدی مطالعہ1985
۔بہار کے نظم نگار و شعراء1988
۔واردات1991
۔ادبیات1991
۔مضامین1994
خلیل الرحمن قاسمی ان کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار یوں کرتے ہیں :
ہر لمحہ کی قیمت کو سمجھنا ان کا 
برجستہ کسی صنف پہ لکھنا ان کا 
افکار وہ دینی ہوں کہ دنیاوی خلیل 
ترویج و اشاعت رہا منشا ان کا
پروفیسر قمر اعظم ہاشمی کے شاگردوں میں ڈاکٹر سید حسن عباس بھی شامل ہیں ۔انہوں نے ڈاکٹر ولی احمد ولیؔ کی کتاب ’’ پروفیسر قمر اعظم ہاشمی،ایک ہمہ جہت شخصیت‘‘میں ایک مضمون بعنوان’’اختر چرخِ ادب‘‘ تحریر کیا ہے جس میں انہوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
’’ان کی خواہش یہی رہی کہ شاگردوں کی ایک ایسی جماعت تیار کر دی جائے جو اردو ادب کے مختلف میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دے۔استاد محترم کی ایک صفت تحمل اور کریم النفسی ہے۔دوسری صفت نرم دمِ گفتگو اورتیسری صفت گرم دمِ جستجو ہے۔اول الذکر کی مثال دیکھنی ہو توان کی شخصیت دیکھئے اور موء خرالذکر کی مثال دیکھنی ہو تو ان کی کتابوں پر ایک نظر ڈال لیجئے‘‘
ان سے محبت اور انس رکھنے والے ایک اور انسان ڈاکٹر ظاہر حسین شمشاد ماضی کے ایک واقعہ کا بیان اس انداز سے کرتے ہیں :
’’مجھے بخوبی یاد ہے کہ بی ۔اے کے نصاب میں ’’بال جبریل‘‘داخل نصاب تھا ۔اس وقت میں رامیشور سنگھ ڈگری کالج میں عارضی لیکچرار تھا ۔مجھے اقبال کے فلسفہ خودی پر لیکچر دینا تھا ۔اسی سلسلے میں قمر صاحب کی رائے کا متمنی ہوا۔مسلسل تین گھنٹوں تک قمر اقبال کے فلسفہ خودی پر اپنے عمیق اور بلیغ خیالات کا اظہار کرتے رہے پھر بھی اظہار خیال مکمل نہ ہو سکااور موضوع نا مکمل رہا۔میں نے پی ایچ ڈی کرنے کا ارادہ کیا اور ان کی نگرانی کا متمنی ہوا تو انہوں نے نگران بننے کے لئے حامی بھر لی اور پی ایچ ڈی کی دشوار گزار منزل طے کرنے میں مجھے رکاوٹ اور الجھن محسوس ہوئی تو قمر صاحب جیسا ہمالیائی جگر رکھنے والا مردِ آہن میری ہمت افزائی اور رہنمائی کرتا رہا اور میں نے 1977 میں’’اختر اورینوی،حیات و خدمات‘‘کے عنوان سے تھیسس مکمل کر لیا‘‘۔
 
اردو صحافت سے ان کا خاصا تعلق رہا۔روزنامہ ’’قومی آواز‘‘، ’’سنگم‘‘اور پندرہ روزہ ’’کوہکن کی ذمہ داری انہیں دی گئی تو انہوں نے اسے بطور احسن نبھایا اور انہوں نے اپنے آپ کو بحیثیت ایڈیٹر منوایا۔خاص طور پر ’’کوہکن‘‘کے ’’ادبی کالم‘‘پروفیسر قمر اعظم ہاشمی کی تحریروں سے آراستہ ہوتے اور ان کے قلم کی منفرد چاشنی قارئین کو اپنی کھینچ لیتی۔تقریباً ہر شمارے میں وہ کسی ادیب و شاعر کا تعارف کراتے یا ان کے شہ پاروں کا تجزیاتی مطالعہ اشاعت کا حصہ بنتا۔ان کی ادارت میں اداریے بھی جاندار او رفکر انگیز ہوتے تھے۔
 
پروفیسر قمر اعظم ہاشمی کی تدریسی،صحافتی،تحقیقی،سماجی اور مہمات کا توجہ سے احاطہ کیا جائے تو ان جیسی کوئی شخصیت نظر نہیں آتی ۔یہ ان کی اردو زبان سے محبت ہی تھی کہ انہوں نے اردو میں بے شمار شاگرد پیدا کیے جو ان کا نام روشن کر رہے ہیں ۔ان شاگردوں،مداحوں اور عقیدت مندوں نے انہیں خراج تحسین پیش کرنے کنے کے لئے ایک شاندار سیمینا ر کا اہتمام کیا جس کا انعقاد 11ستمبر 2005کو مظفر پور ،بہارمیں عابدہ ہائی اسکول میں مولانا ابو الکلام آزاد ہال میں کیا گیا ۔تقریب کا افتتاح معروف محقق،ناقد و سابق وائس چانسلر،ال ۔ان ۔متھلا یونیورسٹی،بہار پروفیسر عبدالمغنی نے کیا جبکہ اس موقع پر جن مقالہ نگاروں نے پروفیسر قمر اعظم ہاشمی کی زندگی کی مختلف جہتوں پر اظہار خیال کیا ان میں پروفیسر نجم الہدیٰ،پروفیسر شاکر خلیق،پروفیسرناز قادری،پروفیسرنند کشور نندن،پروفیسرگریش کمار ٹھاکر،پروفیسراسلم آزاد،پروفیسرارمان نجمی،ڈاکٹر ممتاز احمد خاں،ڈاکٹرسید حسن عباس،ڈاکٹرولی احمد ولی،ڈاکٹرابوبکر رضوی،انوار الحسن وسطوی اور ڈاکٹر رضی حیدر جیسے دانشور شامل تھے۔تقریب میں پروفیسر قمر اعظم ہاشمی کو ہدیہ عقیدت پیش کرنے کے لئے پروفیسر عبدالمنان طرزی ،پروفیسر فاروق احمد صدیقی،صبا نقوی ،ڈاکٹر منظر اعجاز،خلیل الرحمن قاسمی ،ڈاکٹر جلال اصغر فریدی اور نذر الاسلام نظمی نے خوبصورت اشعارپڑھ کر سنائے جن کے الفاظ پروفیسر قمر ہاشمی سے محبت و انس کے عکاس تھے۔
وہ عرصہ دراز سے سانس کے عارضہ میں مبتلا تھے ۔موسم کی تبدیلی کا ان کی صحت پر بہت خراب اثر پڑتا تھا ۔کبھی کبھی ان پر اتنا شدید دورہ پڑتا کہ مہینوں ان کے لئے بستر سے اٹھنا ممکن نہ رہتا۔ وہ 5اپریل 2012کو ان گنت مداحوں،شاگردوں اور اہل خانہ کو سوگوار چھوڑ کر اس دنیا ئے فانی سے گئے۔ ان کی ذات بلند اخلاق،شائستگی،مہمان نوازی اور علم و ادب سے گہری وابستگی کا مظہر تھی وہ ہر طرح سے آئیڈیل شخصیت کا نمونہ تھے۔
+++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1062