donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Syed Ahmad Qadri
Title :
   Qurratul Ain Haider - Tahzeeb O Tareekh Ki Dastan Go

 

قرۃ العین حیدر  :   تہذیب و تاریخ کی داستان گو 


  ڈاکٹر سید احمد قادری

( ۷؍نیو کریم گنج۔ گیا(بہار

  Mob No: 09934839110

     
           قرۃ العین حیدر نے ۲۷ جنوری ؍۱۹۲۷ء  کو علی گڑھ میں آنکھیں کھولیں ،اور اپنا افسانوی سفر اپنے افسانہ   ’’یہ باتیں‘‘  (ہمایوں، لاہور، ۱۹۴۴ئ)  سے شروع کر  افسانوی ادب میں نہ صرف اعلیٰ مقام حاصل کیا ، بلکہ اردو افسانے کی آبرو بن گئیں۔ اگر ان کے افسانوں پر ایک نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوگا کہ قرۃ العین حیدر ایک بے حد مشکل پسند اور منفرد فنکار کا نام ہے ۔  ان کے افسانوں کے موضوعات ، کردار، ماحول، واقعات، اسلوب، آرٹ  اور طرزِ بیان سب کچھ مختلف ہیں ۔ مشکل پسندی اور عام ڈگر سے الگ ہٹ کر افسانے لکھنا ہی ان کی خاص پہچان تھی۔ گرچہ انہوں نے جو کچھ لکھا ، وہ خود ان کے مطابق، اپنے ماحول کے بارے میں لکھا ، جو لوگوں کو اجنبی لگا، لیکن قرۃالعین حیدر کا اصرار تھا کہ ان کے ابتدائی دور میں ان کے گرد و پیش جو فیوڈل ماحول تھا ، مغرب زدہ امیر طبقے کے جو لوگ تھے ، جن کی لڑکیاں کانونٹ کالج میں پڑھ رہی تھیں ، فوجی افسران تھے، پارٹیاں ، کلب اور ڈانسیز تھے ، غرض پورا میلو ہندوستان کے بہت ہی خاص طبقے سے تعلق رکھتا تھا ، جن کے یہاں کئی نسلوں سے مغربیت تھی اور یہ خاص طبقہ برٹش انڈیا کا تھا ، اسی ماحول میں عینی نے آنکھیں کھولیں ، گھر کا پورا ماحول تعلیم یافتہ اور مغربیت کے زیر اثر تھا ۔ گھر کا ہر فرد کسی نہ کسی آرٹ سے جڑا ہوا ، کوئی موسیقی کا دلدادہ تھا ،تو کسی کو مصوّری کا شوق ، کسی کو شاعری سے تو کسی کو نثری ادب سے ۔ والد اور والدہ کو افسانے سے دلچسپی تھی ۔ والد سیّد سجاد حیدر یلدرم (۱۹۴۳ئ-۱۸۸۰ئ)کو اس وقت اس فن میں ایک اہم مقام حاصل تھا ۔ فطری طور پر فن افسانہ نگاری نے عینی کو بھی متوجہ کیا اور بہت کم عمر میں انھوں نے کہانیاں لکھنے کی شروعات کی ، پہلی کہانی ’’ بی چوہیا کی کہانی‘‘ لاہور سے شائع ہونے والے بچوں کے ایک اخبار ’’پھول‘‘ میں ۱۹۳۹ء کے شمارہ میں شائع ہوئی ، اس کہانی کی پذیرائی سے عینی کا حوصلہ بڑھا اور اور انھوں نے بچوں کے لئے کئی کہانیاں لکھیں ، فکر و احساس میں تھوڑی پختگی آئی تو عینی نے بڑوں کے لئے کہانیاں لکھنے کی ابتدا کی اور پہلی باضابطہ کہانی ’’یہ باتیں‘‘ کے عنوان سے لاہور کے مشہور زمانہ رسالہ ’’ہمایوں‘‘ میں ۱۹۴۴ء کے ایک شمارہ میں شائع ہوئی اس وقت عینی کی عمر چودہ پندرہ سال کے قریب تھی ، یہ عمر یقینا ایسی نہیں تھی ، جو اس وقت چل رہی تحریکات کی شدت کو محسوس کر سکتی تھی ، گرچہ ان کے گھر کے اندر اور باہر ان تحریکات کے مباحث اور مناظر پوری طرح جلوہ گر تھے ۔ بورژوا ، رومانیت ، Feudalکے درمیان جو ایک کشمکش تھی ، ان حالات اور واقعات کے Shadows،ان کے پہلے افسانوی مجموعہ ’’ستاروں سے آگے‘‘ (۱۹۴۷ئ)کے کئی افسانوں میں ملتے ہیں ۔ گرچہ ان افسانوں میں وہ پختگی اور فنّی التزام موجود نہیں ہیں ،جو بعد میں عینی کی مخصوص پہچان بنے۔ اس مجموعہ کے بیشتر افسانے ایسے ہیں جو عینی کے خاندان اور نجی حالات سے متعارف کراتے ہیں ۔ اس تعارف میں رئیسانہ شان و شوکت کی خود نمائیاں زیادہ اور فن کی کارفرمائیاں بجھی بجھی سی ہیں ، اس کی وجہ فکری اور فنّی ناپختگی ہے ، گرچہ کچھ بڑا اور اہم کام کر گزرنے کا جنون بھی ہے ۔ Nostalgiaکی وادیوں میں عینی کو سیر کرنا بے حد پسند رہا اور یہ شوق شروع سے آخر تک برقرار رہا ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ابتدائی افسانوں سے لے کر آخری ایام تک کے افسانوں میں سوانحی انداز بتدریج عرفان و آگہی کے منازل طیٔ کرتا ہوا بام عروج تک پہنچا۔

    عینی کے ابتدائی افسانوں میں یہ عناصر کس طر ح نمو پاتے ہیں ۔ اس کے نقوش ’’ستاروں سے آگے‘‘ کے کئی افسانوں میں نمایاں ہیں۔ ان افسانوں میں بیشتر کردار عینی کے اسکول و کالج کی لڑکیاں ہیں ، ماحول بھی پوری طرح ان کا اپنا ہے ۔ مثلاً  :

   ’’ ۔۔۔۔۔ ہائے دہرہ دون میرا پیارا بچپن کا رفیق۔۔۔۔ (صفحہ ۱۴۰) ’آہ‘ آئے دوست، ہائے دہرہ دون ، گرمیاں آرہی ہیں ، یعنی کیلے اور فالسے کے جھنڈوں میں بھنورے گونجنا شروع کر دیں گے ، ہائے یوپی ، میرا پیارا یوپی ، تم نے کبھی یوپی کی گرمیاں نہیں دیکھیں ۔ آم کے باغوں میں دوپہر کے سنّاٹے کی خاموش موسیقی کا بوجھ محسوس نہیں کیا ۔ ارودوں کے جھرمٹ میں سے بلند ہوتی ہوئی برہا اور آلھا اُددل کی تانیں نہیں  سنیں ۔ شایدکبھی ملیح آباد جاکر آم نہیں کھائے اور گومتی کے خربوزے ۔ آہ میرا اودھ ۔ قیصر باغ کی بارہ دری میں اندر سبھا ہو رہی ہے ۔۔۔۔‘‘                      

(صفحہ۱۴۱)

  ۔۔۔۔۔۔۔ ارے تو گویا قنوطیت پسندی بھی الٹرا فیشن بنتی جا رہی ہے۔۔۔۔۔‘‘

 (صفحہ ۱۴۲)

    یہ بات واضح رہے کہ عینی نے ابتدائی و ثانوی تعلیم دہرہ دون، لاہور اور لکھنؤ میں پائی ، انٹر بھی لکھنؤ کے ایک کالج سے کیا ۔ بی۔ اے ، دہلی کے ایک کالج سے اور پھر ایم۔اے کے لئے انھوں نے لکھنؤ یونیورسیٹی میں داخلہ لیا ۔

    افسانہ ’’آہ اے دوست‘‘ میں مندرجہ بالا جملوں سے کس قدر لکھنؤ اور دہرہ دون سے جذباتی لگاؤ عینی کو تھا ،اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔

    عینی اپنی ذہانت ، قابلیت اور علمیت کا اظہار کس طرح کرتی ہیں ،یہ دیکھئے__

  ’’۔۔۔۔ حیاتین کی کمی سے انسان کمیونسٹ بن جاتا ہے اور راز حیات پر گفتگو کرنے لگتا ہے ۔ میں اتنی دیر سے کس قدر بصیرت افروز گفتگو کررہی ہوں ، بڑی گہرائیاں ہیں ، اس حیات مستعار میں جناب عالی  وہ تو یہ سمجھو کہ کیا کیا فلسفے ہیں ، افوہ کیا ٹھکانہ ہے ، میری قابلیت کا ۔ بہت قابل ہوں ۔ چین اور روس اور فرائیڈ پر ساری کتابیں پڑھ چکی ہوں ، گو یہ معلوم نہیں کہ ان کتابوں میں کیا کیا لکھا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ ہندوستان میں رہ کر تم کچھ نہیں کر سکتے ۔ بہت کم نظری اور رجعت پسندی اس ملک میں عام ہے اور سوئز پار کرلینے کے بعد ایک نہایت ہی وسیع قسم کی بلند نظری انسان میں پیدا ہوجاتی ہے ۔دماغ کے اندر بے حد اعلیٰ اعلیٰ خیالات آتے ہیں۔۔۔۔۔۔‘‘

(افسانہ ’’آہ اے دوست‘‘ صفحہ ۱۴۳)

    عینی کا یہ اعتراف بھی قابلِ توجہ ہے___

’’۔۔۔۔۔ بات یہ ہے بھئی کہ میری اردو کافی سے زیادہ کمزور ہے ۔ بچپن سے کانونٹ میں پڑھا ہے اس لئے ۔۔۔۔بات بات میں انگریزی کی مدد لینی پرتی ہے ۔یعنی جملے کے جملے انگریزی کے ٹھونسے جاتے ہیں۔۔۔۔۔‘‘

 (افسانہ ’’ایں دفتر بے معنی‘‘ صفحہ ۱۵۳)

    پھر دوسری طرف اس امر کا بھی اظہار ہے کہ___۔
    ’’ خوب مس حیدر ، آپ کی تو نثر میں نظم کی سی حلاوت ، روانی اور لچک

    ہے۔۔۔۔۔‘‘   افسانہ ’’ہم لوگ ‘‘ صفحہ (۱۷۵

    عینی کے ابتدائی افسانوں میں ’’دیودار کے درخت‘‘ اور ’’جہاں کارواں ٹھہرا تھا‘‘ اچھے افسانے ہیں ، ان میں رومانیت کی بھر پور فضا ، محبت کے لطیف اشارے اور مناظر فطرت کا حسن پوری طرح جلوہ گر ہے۔افسانہ ’’اودھ کی شام‘‘ میں ہندو ، مسلم اور انگریز کے اختلاط سے جدید ہندوستانی تہذیب کس طرح اثر انداز ہوتی ہے ۔اس کا خوبصورت اظہار ہے۔

    ویسے تو عینی نے خود اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ ’’میرا مسئلہ یہ ہے کہ پہلے تو میں نے لکھا بالکل انٹ سنٹ   ،Compulsively،Emotionally‘‘۔لیکن جیسے جیسے ان کا شعور بیدار ہوتا گیا ، احساسات و جذبات میں گہرائی و گیرائی اور مطالعہ و مشاہدہ میں وسعت پیدا ہونے لگی، وہ فکری و فنی بلندیوں کو چھونے لگیں ۔ تاریخ و تہذیب سے گہری دلچسپی ، مختلف ممالک کی سیر یا قیام کے دوران وہاں کے ماحول اور معاشرتی تہذیب کے  براہ راست مطالعہ و مشاہدہ نے عینی کے افسانوں کو وسیع کینوس اور متنوع موضوعات دئیے ، جن پر انھوں نے بے حد سنجیدگی سے لکھا ۔نقادوں کو وہ ماحول اور حالات اجنبی لگے ، لیکن عینی کا اردو ادب پر اس قدر رعب طاری تھا کہ اچھے اچھے نقاد ، ان کے فن پر تنقید کرنے سے گھبرا تے،  اس کی وجہ عینی یہ بتاتی ہیں کہ ___۔

   ’’ ۔۔۔۔ ہمارے یہاں ادب میں ایک Anti intellectual attitudeچل رہا ہے ۔ ان دنوں پڑھنے کا شوق نہیں رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے افسانوں میں بہت کافی  Varietyہے اور اس طرف کسی نقاد نے توجہ نہیں دی۔ میرے مختلف افسانوں کی جوBack Ground   ہے ، وہ کہیں منیلا کی ہے ، کہیں جاپان کی ہے ، کہیں ایران کی ۔ جہاں جہاں میں گئی ہوں اور جن چیزوں نے مجھے  Inspire کیا ہے ، میں نے لکھا  اور نقادوں نے ان کو سنجیدگی سے پڑھا نہیں ہے۔ اگر کسی نقاد نے ۱۹۵۱ء میں میری کوئی تخلیق پڑھ لی تو آج تک اسی چیز کے متعلق اور اسی نظریے سے لکھے کو دہرایا جائے گا ۔ کسی اللہ کے بندے کو یہ توفیق نہیں ہوگی کہ ذرا آگے بھی پڑھ لیں ۔ پھر پہلے نقاد نے جو بات کہہ دی۔ دوسرے بھی وہی دہرائے جائیں گے اور دہراتے رہیں گے۔‘‘

 (ماہنامہ ’’شاعر‘‘صفحہ ۲۴۔جلد ۴۹شمارہ :۷،۱۹۷۸ئ)

    ’’ستاروں سے آگے‘‘ کے بعد عینی کے اندر غایت سنجیدگی ، متانت اور خود احتسابی کی کیفیت پوری طرح جلوہ گر ہوئی اور انھیں اس امر کا شدت سے احساس ہوا کہ فنکار کو خود اپنے فن کی خامی یا خوبی سے واقف ہونا چاہئے، فنکار کیا لکھ رہا ہے ، کیوں لکھ رہا ہے اور اس کی اہمیت اور معنویت کیا ہے ، اس احساس نے بھی ان سے بہت اچھے اور معیاری افسانے لکھوائے ، جو ان کے مختلف افسانوی مجموعے مثلاً’’ شیشے کے گھر‘‘(۱۹۵۴ئ) ’’پت جھڑ کی آواز‘‘ (۱۹۶۶ئ) ’’روشنی کی رفتار‘‘ (۱۹۸۲ء ) اور ’’جگنوؤں کی دنیا‘‘ (۱۹۹۰ئ) میں شامل ہیں۔

    ان افسانوی مجموعوں کے افسانوں کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ عینی نے حیات و کائنات کے بہت سارے اسرارو رموز کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا اور قومی اور  بین الاقوامی تناظر میں دیکھنے اور برتنے کا اعلیٰ معیار قائم کیا ۔گرچہ عینی کے افسانوں کے بعض موضوعات وہی ہیں ،جو ان کے بعض ہم عصر یا پیش رو افسانہ نگاروں کے تھے،مثلاً تقسیم ہند، ہجرت، فرقہ وارانہ فسادات، جاگیردارانہ نظام اور زمین دارانہ نظام کا خاتمہ ، تہذیب و اقدار کا بکھراؤ اور عورت کے نت نئے روپ وغیرہ ۔ لیکن ان تمام موضوعات میں عینی کا جو اندازِ بیان اور فکر و احساس کی ندرت اور انفرادیت ہے ، وہ دوسروں سے بالکل مختلف ہے ۔ مثال کے طور پر جلا وطن ، پت جھڑ کی آواز، ہاوسنگ سوسائٹی ، ’’ملفوظات حاجی گل بابا بیک تاشی‘ ’ یہ غازی یہ تیرے پُر اسرار بندے ، کیکٹس لینڈ، وغیرہ ایسے افسانے ہیں ، جو موضوع، مواد ، کردار،اسلوب کے لحاظ سے شاہکار کا درجہ رکھتے ہیں ۔ چند اقتباسات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

’’ اب میں نے دیکھا کہ آفتاب اور بدر کامل دونوں افق پر موجود ہیں ۔ صنوبروں پر رات کے پرندے نغمہ زن ہوئے ۔ پھر سورج اور چاند دونوں جھیل کے پانیوں میں گر گئے۔ جھیل کا رنگ سیاہ ہو گیا۔‘‘
(ملفوظات حاجی گل باب بیک تاشی)

    ان چند سطروں میں عینی نے عصر حاضر کی مادہ پرستی اور لادین سیاسئین کے ظلم و استحصال سے ترکی ، مشرقی یورپ اور ایشیائے کوچک میں تصوفِ اسلامی کی خانقاہوں کی تباہی و بربادی کا المناک پہلو اجاگر کیا ہے ۔ اسی طرح افسانہ’’ پت جھڑ کی آواز ‘‘میں افسانہ کی ہیروئن تنویر فاطمہ ، جس نے پُر بہار زندگی گزاری ، اپنے حسن سے خوش وقت سنگھ ، فاروق وغیرہ کو داد عیش دیا ، لیکن خواہش ہمیشہ یہ رہی ہے ___

  ’’ اس رات تیمار پور کے اس سنسان بنگلے میں اس (خوش وقت سنگھ ) نے میرے ہاتھ جوڑے اور رو رو کر مجھ سے کہا کہ میں اس سے بیاہ کرلوں ،ورنہ وہ مرجائے گا۔ میں نے کہا ہرگز نہیں ، قیامت تک نہیں ۔ میں اعلیٰ خاندان سیّد زادی بھلا اس کالے تمباکو کے پنڈے ہندو جاٹ سے بیاہ کرکے خاندان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگاتی ۔ میں تو اس حسین و جمیل ، کسی بہت اونچے مسلمان گھرانے کے چشم و چراغ کے خواب دیکھ رہی تھی، جو ایک روز دیر یا سویر بارات لے کر مجھے بیاہنے آئے گا۔‘‘

(پت جھڑ کی آواز)

    اس افسانہ میں تقسیم ہند کے تناظر میں ایک تعلیم یافتہ اور روشن خیال عورت کی نفسیاتی کشمکش کو بڑے فنکارانہ انداز میں عینی نے پیش کیا ہے ۔ افسانہ ’’ہاؤسنگ سوسائٹی‘‘ یقینی طور پر ایک ایسا افسانہ جسے بین الاقوامی سطح کے افسانوں میں بھی سر فہرست رکھا جا سکتا ہے۔ اس افسانہ میں بدلتے سیاسی حالات ، نئی تہذیب اور جدید معاشرہ پر جس انداز سے طنز کیا گیا ہے ، وہ صرف اور صرف عینی کا حصہ ہے ۔ اس طویل افسانہ کے چند جملوں سے اس کا اندازہ لگائیے___ ۔

    ’’ ۔۔۔۔۔ آج کی دنیا ایک بہت عظیم الشان بلیک مارکیٹ ہے ، جس میں ذہنوں ، دماغوں ، دلوں ، روحوں کی اعلیٰ پیمانے پر خریدو فروخت ہوتی ہے ۔ بڑے بڑے فنکار ، دانشور، عینیت پسند اور خود پرست میں نے اس چور بازار میں بکتے دیکھے ہیں ۔ میں خود اکثر ان کی خریدو فروخت کرتا ہوں۔‘‘
 (ہاؤسنگ سوسائٹی)

    افسانہ ’’جلا وطن‘‘ میں عینی فکر و فن کے لحاظ سے بھی کافی بلندی پر نظر آتی ہیں ۔ اس افسانہ میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ تہذیب اور قدروں کے واقعات کے تانا بانا کو جس انداز میں بُنا گیا ہے ، وہ صرف تہذیبی اور تاریخی روایت کا سر چشمہ ہے ، بلکہ تقسیم ہند سے جو مشترکہ تہذیب و تمدن کے بکھرتے شیرازہ کا جو المناک فضا بنائی ہے ، اس کی زبردست ٹیس ہے ، ایک اقتباس دیکھیں___۔

  ’’ رفیقو‘ انسان نے خود کشی کرلی ۔ پرانی اقدار تباہ ہوگئیں ۔ اپنے پرائے ہو گئے ۔ یہ سب پچھلے سال سے دہراتے دہراتے تم لوگ اکتا نہیں گئے۔ یہ جو کچھ ہوا ،یہی ہونا تھا اور آپ تھیں کہ ایک نہایت رومینٹک تصوّر لئے بیٹھی تھیں ، گویا زندگی نہ ہوئی ، شانتا رام کی فلم ہوگئی۔‘‘              

  (جلاوطن)

    ایسے خوبصورت ، معنی خیز اور زندگی کے حرکت و عمل کو وسیع تناظر میں پیش کرنے والے ، ان افسانوں کو جو موضوعات سے لے کر کردار، واقعات تجسس، تحیر، تکنک ، ٹریٹمنٹ ، زبان ، ماحول اور کلائمکس تک ایک خاص معنویت اور انفرادیت بخشتا ہے ، فراموش کرنا ممکن نہیں ۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے نقادوں نے ان پر توجہ نہیں دی ۔ عینی اپنی زندگی کے آخری ایام یعنی ۲۰

 مئی ۲۰۰۵ء کو بھی نظر انداز کئے جانے کا شکوہ ، ان لفظوں میں کرتی ہیں۔
  ’’ ہمارے فکشن کے ناقدین ناچیز کے ناولوں کے بارے میں تو لکھ لیتے ہیں ، لیکن افسانوں کو انھوں نے تقریباً نظر انداز کر رکھا ہے۔‘‘

  (پیش لفظ ’ آئینۂ جہاں‘ جلد۔اول)

    ویسے عینی بذات خود افسانے کے معیار کی جو تعریف پیش کرتی ہیں ، وہ یہ ہے کہ_
   ’’افسانہ ،افسانہ ہے ، افسانہ اچھا بھی ہو سکتا ہے ، بُرا بھی ہو سکتا ہے___ میرے نزدیک معیار یہ ہے کہ وہ اچھا ہو ، ہر لحاظ سے___

As a human doccuments, As a piece of literature and as something to enjoy, and as something which disturbs you, something which stimulates you."

عینی ہمیشہ اپنے ان خیالات پر کاربند رہیں ،اور کئی ایسے شاہکار افسانے لکھے ، جو افسانوی ادب میں قیمتی سرمایہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

 

٭٭٭٭٭٭٭٭  


 email:     squadri806@gmail.com  

Comments


Login

You are Visitor Number : 897