donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imam Qasim Saqi
Title :
   Aik Munfarid Shayar Iqbal Khusro Qadri


ایک منفرد شاعر اقبال خسروؔ قادری


امام قاسم ساقی

چنا منڈیم، ضلع کڈپہ ،آندھرا پردیش


              امتیاز پاشاہ قادری ابن سید شاہ اقبال پاشاہ قادری اردو حلقوں میں اقبال خسرو قادری کے قلمی نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں پچھلے پینتیس (35) برس سے شعر و شاعری کرتے آرہے ہیں ان کا کمال یہ ہے کہ وہ ابتدا ہی سے جدیدیت کی طرف راغب ہیں اب تک وہ تین تحقیقی کتابیں مرتب کرچکے ہیں جو ’’شناخت‘‘، ’’مناہل‘‘ اور ’’تنویر‘‘ کے نام سے منظر عام پر آئے۔ شعر و ادب کی اب تک کل آٹھ کتابیںیعنی چھ مجموعہ کلام منظر عام پر آکر ارباب سخن سے داد و تحسین حاصل کرچکے ہیں۔ جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں:

        (1) منہاج (دیوان)، (2) مدرکہ (غزلیں/ رباعیات)، (3)اعیان (غزلیں) (4)سیمیا (نظمیں)، (5) اورنگ، (6) اسفار (غزلیں / رباعیات)  ((7یامنی(آزاد نظمیں)(8)جوانب(غزلوں کا مجمو عہ)۔
    اقبال خسروقادری نے ’’شناخت‘‘ میں اپنے تعلق سے اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ اوائل میں اپنے والد سے اصلاح لیا کرتے تھے مزید زینت افکار کو فروغ دینے کے لیے ڈاکٹر ساغر جیدی جیسے استاد سخن سے رجوع ہوئے اور اپنی پہچان کا سکہ جمایا۔ شروع ہی سے وہ جدیدیت کے قائل تھے۔ نئے الفاظ کی تراکیب، غیر مانوس اور دقیق الفاظ کو شاعری میں ہنر مندی کے ساتھ استعمال کرنے میں امتیاز رکھتے ہیں۔ جس کی بنا پر شہر کڑپہ اور ادبی دنیا میں موصوف کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ غزل اور نظم کے علاوہ رباعیات جیسی اصناف سے انھیں بہت شغف ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ نعت رسول اکرمؐ  کو  توشۂ آخرت سمجھتے ہیں۔

اقبال خسروؔ قادری ایک با کمال شاعر ہیں۔ ان کا کمالِ فن غزلوں اور آزاد نظموں میں نظر آتا ہے۔ ان کے ہر مجموعہ میں تمام فنی پہلووں کو دیکھا جاسکتا ہے یعنی وہ شاعری کے خارجی و داخلی لوازمات سے بخوبی واقفیت رکھتے ہیں۔ ان کے اشعار میں عہدِ حاضر کے نقادوں، ادیبوں اور شاعروں پر طنز کا پہلو ملتا ہے۔ فنِ شاعری کے تعلق سے پروفیسر عنوان چشتی کا کہنا ہے :

’’فن میں یوں تو ادراکی، جذباتی، تخیلی اور تکنیکی عناصر ہوتے ہیں۔ لیکن آسانی کے لئے انہیں دو پہلووں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، ایک فن شاعری کا تکنیکی پہلو اور دوسرا معنوی پہلو‘‘۔

ہر اک فن میں کامل یعنی
ہم بھی ماہر جاہل یعنی
خسروؔ

انہیں فنکارانہ انداز، طرز بیان کی بدولت اقبال خسروؔ قادری شعراء و ادباء کے دلوں میں اپنا مقام بنا چکے ہیں یہ شعر ملاحظہ ہو:

منکرِ دلیل تھے
فن میں جو دخیل تھے

موصوف کے دادا استادابر حسن گنوری کے نظریۂ تنقید میں فنی پہلووئں کو نمایاں اہمیت حاصل ہے اس کے دائرے میں الفاظ کا انتخاب اور ان کا فنکارانہ استعمال بھی شامل ہے۔ اقبال خسروؔ قادری کے اشعار تمام فنی پہلوئوں کا احاطہ کرتے ہیں۔

آپ کا ذوق سند بخشے اسے
اتنا ارزاں تو نہیں فن میرا

شعر پر مغرور تھا فن
خسروؔ شائق ہی نہ تھا

اقبال خسرو قادری ایک ایسے استاد شاعر ہیںجن کا اہلِ ادب و اہلِ سخن دل و دماغ سے احترام کرتے ہیں بلکہ یہ کہا جائے تو بجا ہوگا کہ وہ ایک استاد شاعر ہی نہیں، ایک محقق، نقاد اور ادیب کی حیثیت سے اعلیٰ مقام حاصل کر چکے اور کہتے ہیں :

میں غالبؔ تو نہیں ہوں میرا دیوان
ہٹا دیجئے محراب سے بے خوف

اقبال خسروؔ قادری کو فنِ بلاغت پر عبور حاصل ہے ،انہوںنے ادب کے آسمان پر تخیلات کی پرواز لئے شعر و فن کی خشک زمین کو اپنے منفرد انداز میں زرخیزی عطا کی ہے۔ روایت سے ہٹ کر نئی زمینوں میں غزلیں کہنے کی غیر معمولی صلاحیت اقبال خسروؔ قادری رکھتے ہیں۔

چھوٹی بحروں میں شعر کہنا ایک مشکل فن ہی نہیں بلکہ نا ممکن بھی ہے اکثر شعراء ’فاعلاتن مفاعلن فعلن‘ یعنی بحر خفیف مسدس مخبون ابتر پر طبع آزمائی کرکے اپنے فن کا لوہا منواتے ہیں لیکن موصوف نے کئی چھوٹی اور نا مانوس بحروں پر طبع آزمائی کرکے کامیابی حاصل کی ہے جن کی چند مثالیں مندرجہ ذیل ہیں۔

(۱)بحر    :  مستفعلن مستفعلن
مثال:    اس آنکھ سے اس جسم تک
        عریاں ہے قدرِ مشترک
(۲)بحر    :  فاعلن مفاعیلن
مثال:    چشم ہر کس و ناکس
        اب پرکھتی ہے پارس
(۳)بحر    :  فاعلاتن فاعلن
مثال:    جھوٹے سب منسوب میں
        اس لئے محبوب میں
(۴)بحر    :  مفاعلاتن مفاعلاتن
مثال:    نفاستوں پر وبال سا ہوں
        گنوار یاری کا ذائقہ ہوں
(۵)بحر    :  مستفعلن مفاعیلن
مثال:    مجھ کو ہرا کے روتا ہے
        دشمن عجیب کیسا ہے

(۶)بحر    :  مفاعلن مفاعلن
مثال:    ہوئی سقر رسید کیا
        معبرو! وعید کیا
(۷)بحر    :  فاعلن مفاعیلن
مثال:    آج بک گیا یہ بھی
        مرگئی صدا یہ بھی
(۸)بحر    :  فاعلن مفاعلن
مثال:    منکر دلیل تھے
        فن میں جو دخیل تھے
(۹)بحر    :  مستفعلن فعولن
مثال:    اغلاط سے شغف ہے
        دل اپنا با شرف ہے

اقبال خسرو قادری کی شاعری میں مکالمہ کا رنگ جا بجا پایا گیا ہے۔ وہ اپنے ہم عصر، غرور و تکبر کے سمندر میں ڈوبے شعراء و ادبا سے کھل کر مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں۔ چند شعر ملاحظہ کیجئے:

ناپ لیں گے بلندئی معیار
کھل کے جامے سے باہر آئو کبھی

مرضِ فخرِ علم کم ہوگا
ہم شریروں سے فیض پائو کبھی

مغرور پیڑ لاکھ بلایا کرے مگر
ہم لوگ مطمئن تھے کاغذ کی چھائوں میں

اقبال خسرو قادری کا اسلوب جدا گانہ اور نئے طرزِ بیان کی عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے، وہ اپنی شاعری میں کشفوں کو بھی اعلیٰ مقام عطا کرتے ہیں اور اس کی حق میں دعائیں بھی دیتے ہیں:

دے دعائیں یار اپنے کشفوں کو
درمیاں بونوں کے قد محفوظ ہے

عہدِ حاضر کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہر کوئی اپنے آپ کو ایک استاد سمجھتا ہے اور جن سے علم و فن حاصل کیا ہے ان کی خلاف ورزی کرنے میں باز نہیں آتا ۔ اقبال خسروؔ ان پرطنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

مجھی سے سیکھے تھے اسمِ شریف کے ہجّے
مزا تو یہ ہے کہ میرے خلاف ہیں موصوف

شاعر حساس ہوتا ہے اپنی چھوٹی سی چھوٹی خطا کو گناہِ کبیرا سمجھتا ہے اور ان خطائوں پر پچھتاوا ظاہر کرتا ہے اسی زاویۂ نظر سے خسروؔ کہتے ہیں:

ترے ضمیر کی تردید کا نشاں تھا میں
ہر اک گناہ کے احساس میں نہاں تھا میں

اقبال خسروؔ قادری ایک ایسے قادرالکلام شاعر ہیں جو تخیلات کے رنگوں سے مشاہدات کی ایسی تصویر کشی کرتے ہیں کہ قاری کی بصیرت سے گزر کر ان کے ذہن و دل میں منقش ہوجاتے ہیں۔

لوگ قیدی ہیں رنگ محلوں کے
خاندانی مکاں عقب میں ہے

کالی ببول جنگل میں مست
گملوں میں قید خوش رنگ گھاس

اقبال خسروؔ قادری کی شاعری میں ایسی منظر کشی ہے جہاں بُت اور مورتیاں متحرک نظر آتے ہیں:

کافور کی دیوی کو ہے
پوجا کے دیپک پر بھی شک

خشک پھولوں کی مالا سے بیزار سا
کب سے بیٹھا ہے سنگیں خدا طاق پر

ناگ دیو ہم سے قبل مرچکا
انتقام کا خمار اتر چکا

لفظوں کو شاعری کا عملی جامہ پہچانے میں کبھی کبھی ایک اچھے اور تجربہ کار شاعر سے بھی بھول ہوجاتی ہے جس کی وجہہ سے شعرمیں کوئی عیب چھوڑ جاتا ہے، مگر جب ان سے اس کی وضاحت طلب کی جاتی ہے تو قدیم اور کلاسیکی شعراء کا حوالہ لے کر چھٹکارا پانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ۔عیب تو عیب ہو تا ہے ،چاہے وہ غالب ہو کہ خسروؔ ۔ موصوف کے کلام میں بھی ایسے ہی چند عیوب پاے گئے ہیں جس کی ایک چھوٹی سی مثال دے کر میں اپنی بات کو ختم کرنا چاہتا ہوںجو کہ موصوف کے کلام ــ’’اورنگ‘‘ صفحہ نمبر ۲۲ دوسرے شعر میں پائی گئی ہے ،شعر ملاحظہ ہو

لمبی عبا کے چہرے پر
کالی تمنّا کی چمک

مندرجہ بالا شعر میں ’’عبا ‘‘ مذکر ہے ،جبکہ موصوف نے مونث میں استعمال کر کے لا شعوری اور زود گوئی کا ثبوت پیش کیا ہے۔

 

مطبوعہ: دو ماہی ’’سلسلہ‘‘جولائی ،اگست صفحہ  15 ،سنہ 2008؁

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 547