donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Meem Zad Fazli
Title :
   Maulana Ehteshamuddin Islahi Ki Wafat Hasrate Aayat


  مولانا احتشام الدین اصلاحی کی وفات حسرت آیات


مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ تجھے


سچ بول دوں۔۔۔۔۔۔۔میم ضاد فضلی


گزشتہ منگل بتاریخ03مئی2016کوفن نحو کے امام وقت ، عربی کے کہنہ مشق استاذ مرحوم مولانا احتشام الدین اصلاحی کا اپنے آبائی گاؤں منڈیا ر میں انتقال ہوگیا۔ مولا نا مدرسہ الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ میں استاد جیسے جلیل القدر عہدے پر فائز تھے۔ انھوں نے کم و بیش تیس سال مدر سہ الاصلاح میں صدارت کے فرائض انجام دیے ، اس درمیان انھوں نے کیا خدمات انجام دیں ؟ مدرسہ کو کہاں سے کہاں پہنچایا ؟ کیا تبدیلیاں کیں ؟ کس حد تک بانیان مدرسہ کے خواب کو شر مندہ تعبیر کیا ،یہ بہر حال ایک تحقیق کا موضوع ہے۔مجھے امید ہے کہ ان کے تلامذہ ،رفقاء اور ہم عصر اساتذہ کرام مولانا کی اس سبق آ موز خدامت جلیلہ پر خامہ فرسائی ضرور فرمائیں گے۔میں یہاں آپ کے ایک شاگرد رشید محمد اشرف اصلاحی کے تاثرات سپرد قلم کرنا مناسب سمجھتا ہو ں۔اشرف اصلاحی لکھتے ہیں۔

’’مولانا مرحوم 6 اپریل 1924 کو عالم دین،دانشوروں اور ادیبوں وغیرہ کا ضلع کہا جانے والا ضلع اعظم گڑھ کے مشہور و معروف گاؤں منڈیار میں پیدا ہوئے۔ آپ نے 1946 میں ہی مادر علمی مدرستہ الاصلاح سے سند فراغت حاصل کی اور وہیں بحیثیت استاد آپ کا تقرر عمل میں آیا۔آپ کے اساتذہ میں مولانا شبلی متکلم، مولانا اختر احسن اصلاحی اور مولانا امین احسن اصلاحی قابل ذکر ہیں۔آپ نے اپنی پوری زندگی کو مدرسے کے لئے وقف کردی تھی۔عربی نحو وصرف آپ کا تدریسی مضمون رہا ہے۔آپ کو علم نحو میں بخوبی مہارت حاصل تھی۔آپ نے اپنے تدریسی تجربے اور طویل ترین مشاقی کے نتیجے میںعربی قواعد کو نیا رخ دیا۔ مولانا نے فن نحو کے تعلق سے عظیم اور بے مثال خدمات انجام دیں۔آپ نیتحفتہ الاعراب کی تشریح کی، راقم الحروف خود اپنی تعلیم کے دوران آپ سے قواعداللغتہ العربیہ اور تحفت العراب کی تعلیم حاصل کی۔ایک ہی سبق کو اسوقت تک پڑھاتے تھے جب تک کہ طالب علم کے ذہن میں پیوست نہ ہوجائے۔طالب علموں کے تئیں آپ کے اندر خلوص آسمان تک پہنچا ہوا تھا۔نہاہت ہی خوش مزاج تھے سب سے ہنس کر بات کرتے تھے اور خود آگے بڑھ کر سلام دعا کرتے تھے۔آپ مادر علمی مدرستہ الاصلاح میں تقریبا 30 سال تک صدر مدرس جیسے جلیل القدر منصب پر بھی فائز رہے۔اس دوران آپ نے کیا کیا خدمات انجام دیں ؟ مدرسہ کو کس مقام پر پہنچایا،کتنی شہرت بخشی اور کیا کیا تبدیلیاں لائیں وہ اپنے آپ میں خود ایک مثال ہے اور دنیا کے سامنے بالکل عیاں ہے۔آپ نے مدرستہ الاصلاح میں تقریبا تین نسلوں کی علمی آبیاری کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ کے شاگرد ملک کے گوشے گوشے امریکہ ،کناڈا اورایران وغیرہ دوسرے ممالک میں عظیم اسکالر، ادیب اورمؤرخ کی حیثیت سے اپنی علمی صلاحیت کا لوہا منوا رہے ہیں۔ماشاء اللہ آپ کا کیا حافظہ تھا۔زندگی کے آخری مراحل میں بھی صرف آواز سے پہچان لیتے تھے۔ گرچہ بینائی نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ تقریبا 3 سال پہلے عید کے موقع پر راقم الحروف اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ ملنے گیا تھا آواز سے ہی پہچان گئے اورفرمایا کہ تم اشرف ہو؟ آپ کی عظیم خدمات کا ذکر کرنا اور تعریف کرنا سورج کو آئینہ دکھانے کے برابر ہے۔مرحوم کی جدائی ہمارے لئے ،مدرستہ الاصلاح اور عصر حاضر کے لئے نہایت ہی تکلیف دہ ہے۔آپ کی وفات سے یقینا ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے۔رہتی دنیاتک مولانا کو یاد کیا جائے گا اور انکی کمی ہمیشہ ہم سب کو محسوس ہوتی رہے گی۔آخر میں اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں مولانا مرحوم کا نعم البدل عطا کرے، انکی مغفرت فرما کر جنت الفردوس میں اعلی مقام سے نوازے اور لواحقین کو صبر جمیل نصیب فرمائے‘‘۔ آمین

               
 عزیزم علم اللہ اصلاحی نے اپنے لائق استاذکی وفات حسرت آیات پراظہار تعزیت کرتے ہوئے اپنی فیس بک سائٹ پر درج کرتے ہیں’’ آج مولانا کے انتقال کے بعد ان کے اوپر کچھ لکھنے کا سوچا تو ایک واقعہ ذہن میں گھوم گیا ، اور اس کا پورا پس منظر کسی فلم کی طرح ذہن کے اسکرین پر چلنے لگا۔ ہم غالبا عربی چہارم میں تھے مولانا ایوب اصلاحی صاحب قران پڑھا رہے تھے ، بغل والے کلا س میں مولانا احتشام صاحب عربی نحو و ادب پڑھا رہے تھے۔ ایک اور سیکشن میں مولانا فیض احمد اصلاحی عربی انشاء پڑھا رہے تھے۔ اچانک طلباء کی چیخ و پکار سنائی دیتی ہے۔روئی کے گالوں کی دھنائی کے وقت جو آواز آتی ہے ، ہم سب کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں ، شٹاک شٹاک کی آواز تیز ہوتی جاتی ہے ،ہم سب طلباء سہم جاتے ہیں۔ مولانا ایوب صاحب پوچھتے ہیں یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے؟۔ دیکھو کیا ہو رہا ہے؟۔ایک طالب علم خوف زدہ انداز میں بتاتا ہے ، مولانا فیض صاحب طلباء کی پٹائی کر رہے ہیں۔مولانا ایوب صاحب قران پڑھانا چھوڑ کراٹھ کھڑے ہوتے ہیں ، اور تیزی سے تقریبا دوڑتے ہوئے دوسری کلاس کی طرف بڑھتے ہیں ، مولانا کے ساتھ ہم سب یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ مولانا فیض اصلاحی صاحب کی چھڑی فضا میں معلق ہے ، ان کا چہرہ شر مندگی ، غصہ اور پسینے سے شرابور ہے۔ ایک طالب علم کے ہاتھ کے اوپر مولانا احتشام الدین اصلاحی ہاتھ رکھے ہوئے ہیں اور کہہ رہے ہیں، مارنا ہی ہے تو مجھے مار لو! مگر اللہ کے واسطے ان بچوں کو چھوڑ دو۔اس واقعہ کے بعد مولانا فیض احمد اصلاحی نے طلباء کو پٹائی کرنا چھوڑ دیا۔یہ سارے واقعات جو من وعن مرحوم کے شاگردوں کے بیان کئے ہوئے ہیں ،وہ مولانا مرحوم کے خلوص،وایثار مہمانان رسول ؐسے حد درجہ محبت اور علمی مشاغل میں وقعت تلمیذ کو اہمیت دینے کی جانب اشارے کرتے ہیں،جو فی زماننا اساتذہ کرام میں مفقود ہوتی جارہی ہے۔حضرت کے سانحہ ارتحال پر آپ کے ایک معتقد اورعزیز جناب محی الدین غازی نے کچھ اس طرح اپنے غم کا اظہا فرمایا ہے۔’’خبر ملی کہ مدرسہ الاصلاح کے بہت بزرگ استاذ مولانا احتشام الدین اصلاحی صاحب کا انتقال ہوگیا، اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے، اعظم گڑھ سے اتنا دور ہوں کہ جنازے میں شرکت ممکن نہیں، بس ذہن کے پردے پر ان کی دل آویز تصویر ہے اور زبان پر ان کیلئے دعائے مغفرت۔ لوگ بتاتے ہیں کہ وہ علم نحو کے ماہر تھے، میں نے پایا کہ وہ دل موہ لینے میں بہت ماہر تھے ، خوش مزاجی اور خوش کلامی میں ان کا کوئی جواب نہیں تھا، گفتگو کرتے تو لگتا پھول جھڑ رہے ہیں، بہت اعلی معیار کی گفتگو، بڑے خوب صورت لہجے میں، کہ جی چاہتا کہ وہ بولتے رہیں اور ہم سنتے رہیں، آج ان کی ایک دلکش ادا یاد آگئی اور اسی میں دیر تک کھوگیا۔‘‘یہ اس وقت کی بات ہے جب کہ میں لکھنؤ یونیورسٹی میں طالب علم تھا، اور کسی بھی شمار میں نہیں تھا، ابھی بھی نہیں ہوں لیکن اس وقت اور بھی زیادہ نہیں تھا۔

خیال ہوا کہ مدرسہ الاصلاح چل کر اپنے اساتذہ کے اساتذہ سے ملاقات کا فیض حاصل کیا جائے، چھٹی ہوچکی تھی، اور کچھ اساتذہ ایک کمرے میں تشریف فرما تھے، مولانا احتشام صاحب میر مجلس تھے، سب اساتذہ تپاک سے ملے، مولانا نے بھی بڑے پیار سے خیریت پوچھی، تھوڑی ہی دیر میں مجھے اندازہ ہوا کہ یہ کوئی میٹنگ ہے، معلوم ہوا کہ مدرسہ الاصلاح کی انجمن طلبہ قدیم کی مجلس شوری کی میٹنگ ہے، میں تو اصلاح کا طالب علم بھی کبھی نہیں رہا، اس کے علاوہ ذہن میں یہ بات بیٹھی ہوئی تھی کہ کسی کمیٹی یا کسی مجلس شوری کی میٹنگ بہت خفیہ، بہت حساس اور بڑی نازک ہوا کرتی ہے، کہ کسی غیر ممبر یا غیر مدعو کو قریب بھی نہیں پھٹکنے دیا جاتا ہے، بلکہ بعض میٹنگوں میں تو مشورت سے زیادہ رازداری کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ میں نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ کوئی میرے کان میں آکر کہے میں خود ہی اٹھ جاتا ہوں، میں اٹھنے لگا تو مولانا نے کہا ارے بھئی بیٹھئے! کہاں چل دئے، میں نے کہا، آپ لوگوں کی میٹنگ ہورہی ہے، اس لئے مجھے چلنا چاہئے، مولانا نے بڑے پیار بھرے لہجے میں کہا ارے آپ کوئی نامحرم تھوڑی ہیں، کہ اس مجلس میں بیٹھ نہیں سکتے، ارے بیٹھیں اور آپ بھی مشورے دیں، مولانا صدر مجلس تھے، ان کے حکم سے میں مٹینگ میں شریک ہوگیا، اس طرح شریک ہونے کا یہ تجربہ میرے لئے بہت حیرت انگیز تھا، میٹنگ میں مولانا صدر الدین اصلاحی مرحوم کے افکار وشخصیت پر سیمینار کی تفصیلات طے ہونا تھیں، مولانا صدر انجمن تھے، ان کی نظر عنایت دیکھی تو مجھے بھی لب کشائی کی جرأت ہوئی، اور ذہن میں جو بھی مشورے آتے گئے اپنی دانست میں انہیں قیمتی سمجھ کر پیش کرتا رہا، اور صدر مجلس بھی حوصلہ افزائی کرتے رہے، پھر مولانا کا مزید حکم ہوا کہ تم بھی سیمینار میں ایک مقالہ پیش کروگے، اور ایک سیشن کی نظامت بھی سنبھالو گے، اس خورد نوازی پر خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔اس کے بعد بہت سارے قومی اور بین الاقوامی اداروں کی شوری کا ممبر بننے اور ان کی نشستوں میں شرکت کرنے کا موقعہ آتا رہا، لیکن اس نشست میں جو لطف حاصل ہوا اور جس عزت افزائی کا احساس ہوا وہ پھر کبھی نہیں ہوا۔ اب تو مختلف وجوہات سے مشوروں کی نشستوں سے ہی طبیعت اکتا چلی ہے۔آج میں مولانا مرحوم کی خدمت میں ہدیہ تشکر پیش کرتا ہوں کہ ان کی شفقت بھری شخصیت نے میرے خانہ دل میں ایک خوب صورت تصویر آویزاں کردی، جب بھی اسے دیکھتا ہوں تو بہت اچھا لگتا ہے۔کاش ہم بھی کچھ نوعمروں کی زندگی کو خوب صورت بنانے کے لئے کچھ اچھی تصویریں تحفے میں دے سکیں۔


09911587378

************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 711