donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mufti Md. Nasim Qasmi
Title :
   Ilmo Amal Ki Jamea Shakhsiat Maulana Md Auf Saheb

علم و عمل کی جامع شخصیت

 

مولانا محمد عوف صاحب علیہ الرحمہ


مفتی محمد نسیم قاسمی استاد دارالعلوم دیوبند

 

    استاذِ محترم عالی مرتبت گرامی قدر مشہور و معروف عالم دین حضرت مولانا محمد عوف صاحب ایک علمی اور دینی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ مولانا کی ولادت ۱۳۹۱ء میں قصبہ پینتے پور ضلع سیتاپور میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم پینتے پور کے ایک اسکول میں حاصل کرکے مدرسہ شمس العلوم پینتے پور میں داخلہ لیا۔ پھر جامعہ نورالعلوم بہرائچ میں پڑھنے کے بعد جامعہ احیاء العلوم مبارک پور اعظم گڑھ میں اعلیٰ دینی تعلیم سے سرفراز ہوئے۔ علم دین جن عمدہ صفات سے انسان کو نوازتا ہے وہ تمام خوبیاں مولانا کی ذات میں جمع تھیں۔ عالمانہ وضع، عالمانہ لباس، عالمانہ گفتگو، عالمانہ وقار، ان تمام اوصافِ حسنہ سے وہ مزین تھے۔

    دینی علوم و معارف سے آراستہ ہونے کے بعد مولانا نے سب سے پہلے مدرسہ شمس العلوم پینتے پور میں اپنی تدریسی خدمت کا آغاز فرمایا۔ پھر وہاں سے تحصیل رام نگر ضلع بارہ بنکی تشریف لے گئے اور مدرسہ فیض العلوم کو اپنے قیام سے رونق بخشی۔ اور اپنی دینی خدمت کا میدان بنایا۔ اسی لئے رام نگر میں مولانا کے شاگردوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جب مولانا رام نگر تشریف لائے اس وقت وہاں بدعت کا بہت غلبہ تھا۔ ہر طرف زبردست مخالفت کا ماحول تھا۔ رام نگر کے چند حضرات شروع ہی سے مسلک حق کے حامی تھے۔ باقی اکثر لوگ حق بات کو سننا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ ایسے مخالف ماحول میں مولانا نے بڑی حکمت عملی سے کام کیا۔ اپنی موثر تقریروں اور انفرادی ملاقاتوں کے ذریعہ لوگوں کے غلط عقائد و اعمال کی اصلاح کی اور ہر قسم کے شکوک و شبہات سے لوگوں کے ذہن و دماغ کو صاف کیا۔

    علی آباد بہرائچ کے مشہور و معروف عالم دین حضرت مولانا بلالی صاحبؒ اور ان کے برادرِ محترم حضرت مولانا کمالی صاحبؒ بھی اس مبارک اصلاحی کام میں زبردست معاونت تھے۔ ان حضرات نے اپنے سحر انگیز بیانات اور اپنی پرکیف تقریروں کے ذریعہ رام نگر کے لوگوں کو بہت فیض پہنچایا۔ اﷲ تعالیٰ ان سب حضرات کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ قرب و جوار کے بہت کے اہل بدعت یہاں کے لوگوں کو بدعت کی ترغیب دینے کے لئے آتے تھے، لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ مسلک حق کے ایک عمدہ ترجمان مولانا محمد عوف صاحب یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں اور ان سے اختلافی مسائل میں بحث کرنا بہت مشکل کام ہے، تو انہوں نے یہاں نہ آنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ اس کے بعد تدریجی طور پر یہاں کے عوام اور خواص مولانا کے گرویدہ ہوگئے۔

مرد حقانی کی پیشانی کا نور
کب چھپا رہتا ہے پیش ذی شعور

    اﷲ تعالیٰ نے مولانا محمد عوف صاحب کو بڑی خوبیاں عطا فرمائی تھیں۔ گویا کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ حق تعالیٰ نے ان کو ذہانت اور ذکاوت سے بھی نوازا تھا۔ وہ کامیاب استاذ ہونے کے ساتھ ساتھ امانت دار منتظم تھے۔ ان کی طبیعت میں تواضع اور انکساری بھی پائی جاتی تھی۔ وہ بہت خوش طبع اور خوش مزاج بھی تھے۔ اسی کے ساتھ عمدہ اخلاق و اوصاف بھی ان کے لئے باعث زینت تھے۔ ان کے بات کرنے کا انداز اتنا البیلا تھا کہ سننے والا چاہتا تھا کہ برابر ان کی بات سنتا ہی رہے۔ قرآن پاک پڑھنے اور پڑھانے کا انداز بہت عمدہ تھا۔ اور حروف کی ادائیگی بہت اچھی تھی۔ طلبہ کو پڑھانے میں بھی مولانا کو بڑی مہارت تھی۔ متعلقہ مضامین کے ذہن نشین کردیتے تھے۔ حضرت مولانا کو میں نے قریب سے صرف دیکھا ہی نہیں بلکہ آپ سے کئی کتابیں پڑھ کر علمی استفادہ کیا ہے۔

بہت لگتا تھا جی محفل میں ان کی
وہ اپنی ذات میں اک انجمن تھے

    مدرسہ فیض العلوم کے میرے درسی ساتھیوں میں سے مولانا وسیم صاحب ندوی بارہ بنکوی استاد دارالعلوم ندوۃالعلماء لکھنؤ اور مولانا جلال الدین صاحب قاسمی بارہ بنکوی نگراں اعلیٰ مدرسہ سراج العلوم کتری کلاں بارہ بنکی ہیں۔ یہ دونوں حضرات بھی شاگرد کی حیثیت سے مولانا کی شخصیت سے بخوبی واقف ہیں اور مذکورہ اخلاق و اوصاف کے چشم دید گواہ ہیں۔ میرے پڑھنے کے وقت میں مولوی محمد عبدالسلام صاحب رحمۃ اﷲ علیہ (ساکن کتری خورد، بارہ بنکی) اور مولانا غلام صمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ (ساکن بانسہ بارہ بنکی) بھی مدرسہ فیض العلوم میں پڑھاتے تھے۔ ہم لوگوں (راقم الحروف محمد نسیم قاسمی اور مولانا محمد وسیم صاحب اور مولانا جلال الدین صاحب) نے ان دونوں حضرات سے بھی پڑھا ہے۔ یہ دونوں اساتذۂ کرام بہت محنتی اور مخلص تھے، بڑے ذوق و شوق سے پڑھاتے تھے اور طالب علموں کے ساتھ شفقت اور مہربانی کا معاملہ فرماتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ ان حضرات کو جزائے خیر عطا فرمائے اور اپنی رحمت سے نوازے۔
    مولانا محمد عوف صاحب رام نگر کی جامع مسجد میں خطابت اورامامت کے فرائض بھی انجام دیتے تھے اور حسب ضرورت دوسرے مقامات میں بھی اپنی تقریروں سے سامعین کو نوازتے تھے۔ مولانا ایک شیریں بیاں مقرر تھے۔ ان کی تقریر بہت مرتب اور مدلل ہوا کرتی تھی۔ رام نگر کا گوشہ گوشہ اور خاص طور پر مساجد کے منبر ومحراب ہمیشہ ان کی تقریر کی چاشنی محسوس کرتے رہیں گے۔ اسی طرح حضرت مولانا بلالی صاحبؒ اور حضرت مولانا کمالی صاحبؒ (علی آباد، بہرائچ) کی موثر تقریروں کو بھی رام نگر کے در و دیوار کبھی فراموش نہیں کرسکتے ہیں۔ مولانا محمد عوف صاحب کو تعمیری کاموں سے بڑی دلچسپی اور بصیرت تھی۔ کچھ مدت کے لئے انہوں نے اپنا مطب قائم کیا تھا۔ اس سے بھی لوگوں کو فائدہ پہنچایا۔ ان تمام مصروفیتوں کے ساتھ مولانا بہت اسفار بھی کرتے تھے۔ مدرسہ فیض العلوم کو ترقی دینے میں انہوں نے بڑی محنت کی۔ اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ان کے دور میں مدرسہ نے بہت ترقی کی۔ اور دور دراز کے علاقوں تک مدرسہ فیض العلوم کا فیض پہنچا۔ جو الحمدﷲ اب بھی جاری ہے اور اپنے تمام خدام اور معاونین کے لئے صدقہ جاریہ بنا ہوا ہے۔ مولانا محمد عوف صاحب میری تدریس کے زمانہ میں کئی مرتبہ دارالعلوم دیوبند تشریف لائے، و اپنے تلامذہ کی ترقی کو دیکھ کر خوش ہوتے تھے اور کبھی اظہارِ مسرت کے طور پر فرماتے کہ میرے لئے بڑی خوشی کی بات ہے کہ دارالعلوم دیوبند جیسے عظیم ادارہ میں میرے شاگرد کو پڑھانے کی سعادت حاصل ہے۔ رام نگر کے مولانا کے شاگردوں میں سے ڈاکٹر محمد سلیم صاحب اور ڈاکٹر صغیر احمد صاحب ہیں جو نیک نامی کے ساتھ اپنا مطب چلا رہے ہیں۔ مولانا کے پسماندگان میں محترمہ اہلیہ صاحبہ ہیں (اﷲ تعالیٰ ان کو صحت و عافیت کے ساتھ رکھیں) اور دو صاحبزادیاں اور دو صاحبزادے ہیں۔ بڑے صاحبزادے ڈاکٹر ظفرالمحسن صاحب ہیں جو رام پور میں نہایت کامیاب مطب کررہے ہیں اور چھوٹے صاحبزادے مولانا مطیع الرحمن عوف صاحب ندوی ہیں جو معہد دارالعلوم ندوۃالعلماء کے استاذ ہیں۔

    ایسی صلاحیتوں اور خوبیوں کے پیکر اساتذۂ کرام اس دور میں نایاب تو نہیں مگر کمیاب ضرور ہیں۔ مولانا محمد عوف صاحب صرف قصبہ پینتے پور کے لئے باعث فخر نہیں تھے بلکہ پورے ضلع سیتاپور کو آپ کی شخصیت پر فخر کرنا چاہئے کہ ایسی ہردلعزیز شخصیت اس کے دامن میں وجود پذیر ہوئی اور اپنے علم کی خوشبو سے زمین کے ایک علاقے کو مہکادیا۔

    ۲۱؍دسمبر ۷۰۰۲ء کو دوشنبہ اور منگل کی درمیانی شب میں تہجد کے وقت اپنے مالک حقیقی کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے سرزمین پینتے پور ضلع سیتاپور میں آرام فرمارہے ہیں۔ دُعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ حضرت مولانا کے ساتھ خصوصی رحم وکرم کا معاملہ فرمائے۔ ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔ ان کے درجات کو بلند فرمائے۔ ان کو جنت الفردوس عطا فرمائے۔ اور ان کے تمام متعلقین کو صبر جمیل اور اجر جزیل عنایت فرمائے۔ آمین یا ربّ العالمین۔

(یو این این)


****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 559