donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Najib Ahmad Najib
Title :
   Mirza Md. Rafi Sauda

مرزا محمد رفیع سوداؔ
 
نجیب  احمد نجیب
 
 
سودا تخلص مرزا محمد رفیع نام، شہر دہلی کو اُن کے کمال سے فخر ہے، باپ مرزا محمد شفیع میرزایانِ کابل سے تھے، بزرگوں کا پیشہ سپاہ گری تھی، مرزا شفیع بطریقِ تجارت واردِ ہندوستان ہوئے۔ ہند کی خاکِ دامنگیر نے ایسے قدم پکڑے کہ یہیں رہے۔ بعض کا قول ہے کہ باپ کی سوداگری سوداؔ کے لئے وجہِ تخلص ہوئی لیکن بات یہ ہے کہ ایشیا کے شاعر ہر ملک میں عشق کا دم بھرتے ہیں اور سوداؔ اور دیوانگی عشق کے ہمزاد ہیں۔ اس لئے وہ بھی اِن لوگوں کے لئے باعثِ فخر ہے۔ چنانچہ اس لحاظ سے سوداؔ تخلص کیا اور سوداگری کی بدولت ایہام کی صنعت حصہ میں آئی۔
 
سوداؔ ۱۱۲۵ء میں پیدا ہوئے، دہلی میں پرورش اور تربیت پائی، کابلی دروازہ کے علاقہ میں ان کا گھر تھا، ایک بڑے پھاٹک میں نشست رہتی تھی، شیخ ابراہیم ذوقؔ علیہ الرحمۃ اکثر ادھر ٹہلتے ہوئے جا نکلتے تھے۔ میں ہمرکاب ہوتا تھا۔ مرزا کے وقت کے حالات اور مقامات کے ذکر کر کے قدرتِ خدا کو یاد کیا کرتے تھے۔
سوداؔ بموجب رسم زمانہ کے اول سلیمان قلی خاں داور کے پھر شاہ حاتم کے شاگرد ہوئے۔ شاہ موصوف نے بھی اپنے دیوان کے دیباچہ میں جو شاگردوں کی فہرست لکھی ہے اُس میں مرزا کا نام اس طرح لکھا ہے۔ جس سے فخر کی خوشبو آتی ہے۔ خوشا نصیب اِس اُستاد کے جس کی گود میں ایسا شاگرد پَل کر بڑا ہوا، خان آرزو کے شاگرد نہ تھے مگر ان کی صحبت سے بہت فائدے حاصل کئے۔ چنانچہ پہلے فارسی شعر کہا کرتے تھے۔ خان آرزو نے کہا کہ مرزا فارسی اب تمھاری زبان مادری نہیں، اس میں ایسے نہیں ہو سکتے کہ تمھارا اہل زبان کے مقابل میں قابلِ تعریف ہو۔ طبع موزوں ہے۔ شعر سے نہایت مناسبت رکھتی ہے، تم اُردو کہا کرو تو یکتائے زمانے ہو گے۔ مرزا بھی سمجھ گئے اور دیرینہ سال اُستاد کی نصیحت پر عمل کیا۔ غرض طبیعت کی مناسبت اور مشق کی کثرت سے دلی جیسے شہر میں ان کی اُستادی نے خاص و عام سے اقرار لیا کہ ان کے سامنے ہی ان کی غزلیں گھر گھر اور کوچہ و بازار میں خاص و عام کی زبانوں پر جاری تھیں۔
 
(مرزا محمد زمان عرف سلیمان قلی خاں  کے دادا اصفہان سے آئے تھے، یہ دلی میں پیدا ہوئے۔ نواب موسوی خاں کے ساتھ اعزاز سے زندگی بسر کرتے تھے۔ تین سو روپیہ مہینہ پاتے تھے اور شعر کہہ کہہ کر دل خوش کرتے۔ دیکھو مصحفی کا شعرائے فارسی کا تذکرہ۔)
 
جب کلام کا شہرہ عالمگیر ہوا تو شاہ عالم بادشاہ اپنا کلام اصلاح کے لئے دینے لگے اور فرمائشیں کرنے لگے، ایک دن کسی غزل کے لیے تقاضا کیا۔ اُنھوں نے عذر بیان کیا، حضور نے فرمایا، بھئی مرزا کَے غزلیں روز کہہ لیتے ہو؟ مرزا نے کہا، پیر و مرشد جب طبیعت لگ جاتی ہے دو چار شعر کہہ لیتا ہوں۔ حضور نے فرمایا بھئی ہم تو پائخانہ میں بیٹھے بیٹھے چار غزلیں کہہ لیتے ہیں۔ ہاتھ باندھ کر عرض کی حضور، ویسی بُو بھی آتی ہے۔ یہ کہہ کر چلے آئے۔ بادشاہ نے پھر کئی دفعہ بلا بھیجا اور کہا کہ ہماری غزلیں بناؤ۔ ہم تمھیں ملک الشعراء کر دیں گے، یہ نہ گئے اور کہا کہ حضور کی ملک الشعرائی سے کیا ہوتا ہے۔ کرے گا تو میرا کلام ملک الشعراء کرے گا اور پھر ایک بڑا مخمس شہرِ آشوب لکھا :
 
کہا میں آج یہ سودا سے کیوں ہے ڈانواں ڈول
 
بے درد ظاہر بین کہتے ہیں کہ بادشاہ اور دربارِ بادشاہ  کی ہجو کی ہے۔ غور دیکھو تو ملک کی دل سوزی میں اپنے وطن کا مرثیہ کہا ہے۔
مرزا دل شکستہ ہو کر گھر میں بیٹھ رہے۔ قدردان موجود تھے۔ کچھ پرواہ نہ ہوئی۔ اِن میں اکثر روسا اور امراء خصوصاً مہربان خاں اور بسنت خاں ہیں جن کی تعریف میں قصیدہ کہا ہے۔
 
کل حرص نام شخصے سودا پہ مہربان ہو
بولا نصیب تیرے سب دولت جہاں ہو
حرص کی زبانی دنیا کی دولت اور نعمتوں کا ذکر کر کے خود کہتے ہیں کہ
 
اے حرص جو کچھ کہا ہے تو نے یہ تجھ کو سب مبارک
میں اور میرے سر پر میرا بسنت خاں ہو
 
اِن لوگوں کی بدولت ایسی فارغ البالی سے گزرتی تھی کہ ان کے کلام کا شہرہ جب نواب شجاع الدولہ نے لکھنؤ میں سُنا تو کمالِ اشتیاق سے برادرِ من مشفق مہربان من لکھ کر خط مع سفر خرچ بھیجا اور طلب کیا، انھیں دلی کا چھوڑنا گوارہ نہ ہوا۔ جواب میں فقط اس رباعی پر حُسنِ معذرت کو ختم کیا :
 
سودا پے دنیا تو بہر سو کب تک؟
آوارہ ازیں کوچہ بآں کو کب تک؟
حاصل یہی اس سے نہ کہ دنیا ہووے
بالفرض ہوا یوں بھی تو پھر تو کب تک؟
 
کئی برس کے بعد وہ قدردان مر گئے، زمانے بدل گئے، سودا بہت گھبرائے۔ اس عہد میں ایسے تباہ زدوں کے لئے دہ ٹھکانے تھے، لکھنؤ یا حیدر آباد۔ لکھنؤ پاس تھا اور فیض و سخاوت کی گنگا بہہ رہی تھی، اس لئے جو دلی سے نکلتا تھا اِدھر ہی رُخ کرتا تھا اور اتنا کچھ پاتا تھا کہ پھر دوسری طرف خیال نہ جاتا تھا۔ اس وقت حاکم بلکہ وہاں کے محکوم بھی جویائے کمال تھے۔ نُقطے کو کتاب کے مولوں خریدتے تھے۔
 
غرض ۶۰ یا ۶۶ برس کی عمر میں دلی سے نکل کر چند روز فرخ آباد میں نواب بنگش کے پاس رہے۔ اُن کی تعریف میں بھی کئی قصیدے موجود ہیں۔ وہاں سے ۱۱۸۵ھ میں لکھنؤ پہنچے۔ نواب شجاع الدولہ کی ملازمت حاصل کی، وہ بہت اعزاز سے ملے اور ان کے آنے پر کمال خورسندی ظاہر کی۔ لیکن یا تو بے تکلفی سے یا طنز سے اتنا کہا کہ مرزا وہ رُباعی تمھاری اب تک میرے دل پر نقش ہے، اور اسی کو مکرر پڑھا۔ اُنھیں اپنے حال پر بڑا رنج ہوا اور بپاسِ وضعداری پھر دربار نہ گئے، یہاں تک کہ شجاع الدولہ مر گئے ا ور آصف الدولہ مسند نشین ہوئے۔
 
لکھنؤ میں مرزا فاخر مکیںؔ  زبانِ فارسی کے مشہور شاعر تھے، ان سے اور مرزا رفیع سے بگڑی اور جھگڑے نے ایسا طول کھینچا کہ نواب آصف الدولہ کے دربار تک نوبت پہنچی (عنقریب اس کا حال بہ تفصیل بیان کیا جائے گا) انجام یہ ہوا کہ علاوہ انعام و اکرام کے چھ ہزار روپیہ سالانہ وظیفہ ہو گیا اور نواب نہایت شفقت کی نظر فرمانے لگے۔ اکثر حرم سرا میں خاصہ پر بیٹھے ہوتے اور مرزا کی اطلاع ہوتی، فوراً باہر نکل آتے، شعر سُن کر خوش ہوتے اور اُنھیں انعام سے خوش کرتے تھے۔
 
جب تک مرزا زندہ رہے نواب مغفرت مآب اور اہلِ لکھنؤ کی قدردانی سے ہر طرح فارغ البال رہے۔ تقریباً ستر برس کی عمر میں ۱۱۹۵ھ میں وہیں دُنیا سے (فخر الدین نے تاریخ کہی : "بولے منصف دُور کر پائے عناد – شاعرانِ ہند کا سرور گیا" ۱۱۹۵ھ مصحفی نے کہا کہ "دوا لجاوآں سخنِ دلفریب او۔ ۱۱۹۵ھ، میر قمر الدین منت نے کہا "بگفت گوہر معنی یتیم شد ہی ۱۱۹۵ھ)انتقال کیا، شاہ حاتم زندہ تھے، سُن کر بہت روئے اور کہا کہ افسوس ہمارا پہلوانِ سخن مر گیا۔
 
حکیم قدرت اللہ خاں قاسم فرماتے ہیں کہ اواخر عمر میں مرزا نے دلی چھوڑی۔ تذکرہ دل کشا میں ہے کہ ۶۶ برس کی عمر میں مر گئے۔ تعجب ہے کہ مجموعہ سخن جو لکھنؤ میں لکھا گیا ہے اس میں ہے کہ مرزا عالمِ شباب میں وارد لکھنؤ ہوئے۔ غرض چونکہ شجاع الدولہ ۱۱۸۸ھ میں فوت ہوئے تو مرزا نے کم و بیش ۷۰ برس کی عمر پائی۔
 
ان کے بعد کمال بھی خاندان سے نیست و نابود ہو گیا۔ راقم آثم ۱۸۵۸ء میں لکھنؤ گیا۔ بڑی تلاش کے ایک شخص ملے کہ ان کے نواسے کہلاتے تھے، بیچارے پڑھے لکھے بھی نہ تھے اور نہایت آشفتہ حال تھے۔ سچ ہے :
 
میراث پدر خواہی علمِ پدر آموز
بندہ عشق شدی ترکِ نسب کن جامی
کاندریں راہ فلاں ابنِ فلاں چیزے نیست
 
ان کا کلیات ہر جگہ مل سکتا ہے اور قدر و منزلت کی آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے۔ حکیم سید اصلح الدین خاں نے ترتیب دیا تھا اور اس پر دیباچہ بھی لکھا تھا۔ تھوڑی دیر کے لئے پُرانے محاوروں سے قطعِ نظر کر کے دیکھیں تو سرتاپا نظم اور افشائے اُردو کا دستور العمل ہے، اول قصائد اُردو بزرگانِ دین کی مدح میں اور اہل و دل کی تعریف میں اسی طرح چند قصائد فارسی ۲۴ مثنویاں ہیں۔ بہت سی حکایتیں اور لطائف منظوم ہیں۔ ایک مختصر دیوان فارسی کا تمام و کمال دیوان ریختہ جس میں بہت سی لاجواب غزلیں اور مطلع، رباعیاں، مستزاد، قطعات، تاریخیں، پہلیاں، واسوخت، ترجیع بند، مخمس سب کچھ کہا ہے اور ہر قسم کی نظم میں ہجوئیں ہیں، جو ان کے مخالفوں کے دل و جگر کو کبھی خون اور کبھی کباب کرتی ہیں۔ ایک تذکرہ شعرائے اُردو کا ہے اور وہ نایاب ہے۔
 
غزلیں اُردو میں پہلے سے بھی لوگ کہہ رہے تھے۔ مگر دوسرے طبقہ تک اگر شعراء نے کچھ مدح میں کہا ہے تو ایسا ہے کہ اُسے قصیدہ نہیں کہہ سکتے، پس اول قصائد کا کہنا اور پھر دھوم دھام سے اعلیٰ درجہ فصاحت و بلاغت پر پہنچانا اِن کا فخر ہے، وہ اس میدان میں فارسی کے نامی شہسواروں کے ساتھ عناں در عناں ہی نہیں گئے، بلکہ اکثر میدانوں میں آگے نکل گئے، ان کے کلام کا زور شور انوریؔ اور خاقانیؔ کو دباتا ہے اور نزاکتِ مضمون میں عرجی و ظہوری کو شرماتا ہے۔
 
مثنویاں ۲۴ ہیں اور اکثر حکایتیں اور لطائف وغیرہ ہیں۔ وہ سب نظم اور فصاحتِ کلام کے اعتبار سے اِن کا جوہر طبعی ظاہر کرتی ہیں۔ مگر عاشقانہ مثنویاں ان کے مرتبہ کے لائق نہیں۔ میر حسن مرحوم تو کیا، میر صاحب کے شعلہ عشق اور دریائے عشق کو بھی نہیں پہنچیں۔ فارسی کے مختصر دیوان میں سب ردیفیں پوری ہیں، زورِ طبع اور اُصولِ شاعرانہ سب قائم ہیں، صائب کا انداز ہے مگر تجربہ کار جانتے ہیں کہ ایک زبان کی مشق اور مزاولت دوسری زبان کے اعلیٰ درجہ کمال پر پہنچنے میں سنگ راہ ہوتی ہیں، چنانچہ شیخ مصحفی نے اپنے تذکرہ میں لکھا ہے "آخر آخر خیال شعر فارسی ہم پیدا گرد۔ مگر از فہم و عقلش ایں امر بعید بود کہ کرد، غرض غزلہائے فارسی خود نیز کہ در لکھنؤ گفتہ بقید ردیف ترتیب دادہ داخل دیوانِ ریختہ نمودہ و ایں ایجادِ اوست۔" دیوانِ ریختہ (وقت کی زبان سے قطع نظر کر کے ) باعتبار جوہر کلام کے سرتاپا مرصع ہے، بہت سی غزلیں دلچسپ اور دلپسند بحروں میں ہیں کہ اس وقت تک اُردو میں نہیں آئی تھیں۔ زمینیں سنگلاخ ہیں اور ردیف قافیتے بہت مشکل ہیں۔ جس پہلو سے اُنھیں جما دیا ہے ایسے جمے ہیں کہ دوسرے پہلو سے کوئی ہٹائے تو تمھیں معلوم ہو۔
 
گرمی کلام کے ساتھ ظرافت جو اُن کی زبان سے ٹپکتی ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ بڑھاپے تک شوخیِ طفلانہ ان کے مزاج میں اُمنگ دکھاتی تھی۔ مگر ہجوؤں کا مجموعہ جو کلیات میں ہے، اس کا ورق ورق ہنسنے والوں کے لئے زعفرانِ زار کشمیر کی کیاریاں ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طبیعت کی شگفتگی اور زندہ دلی کسی طرح کے فکر و تردد کو پاس نہ آنے دیتی تھی۔ گرمی اور مزاج کی تیزی بجلی کا حکم رکھتی تھی اور اس شدت کے ساتھ کہ نہ کوئی انعام اسے بجھا سکتا تھا نہ کوئی خطرہ اسے دبا سکتا تھا۔ نتیجہ اس کا یہ تھا کہ ذرا سی ناراضی میں بے اختیار ہو جاتے تھے، کچھ اور بس نہ چلتا تھا، جھٹ ایک ہجو کا طومار تیار کر دیتے تھے۔
 
غنچہ نام اِن کا ایک غلام تھا، ہر وقت خدمت میں حاضر رہتا تھا اور ساتھ قلمدان لئے پھرتا تھا،  جب کسی پر بگڑتے تو فوراً پکارتے "ارے غنچہ لا تو قلمدان، ذرا میں اس کی خبر تو لوں، یہ مجھے سمجھا کیا ہے۔" پھر شرم کی آنکھیں بند اور بے حیائی کا منھ کھول کر وہ بے نقط سُناتے تھے کہ شیطان بھی امان مانگے۔
 
عربی اور فارسی دو ذخیرہ وار اُردو کے ہیں، ان کے خزانے میں ہجوؤں کے تھیلے بھرے ہیں، مگر اس وقت تک اُردو کے شاعر صرف ایک دو شعروں میں دل کا غبار نکال لیتے تھے۔ یہ طرزِ خاص کہ جس سے ہجو ایک موٹا ٹہنا اس باغِ شاعری کا ہو گئی، انہی کی خوبیاں ہیں، عالم، جاہل، فقیر، امیر، نیک، بد، کسی کی ڈاڑھی ان کے ہاتھ سے نہیں بچی۔ اس طرح پیچھے پڑتے تھے کہ انسان جان سے بیزار ہو جاتا تھا مگر میر ضاحک (میر ضاحک کا حال صفحہ ۔۔  فدوی ۱۸۹ مکین ۲۵۵ شاہ ہدایت سے جو لطیفہ ہوا، دیکھو صفحہ) وغیرہ اہلِ کمال نے بھی چھوڑا نہیں، ان کا کہا انھیں کے دامن میں ڈالا ہے، البتہ حُسنِ قبول اور شہرتِ عام ایک نعمت ہے کہ وہ کسی کے اختیار میں نہیں انھیں خدا نے دی، وہ محروم رہے۔ مرزا نے جو کچھ کہا بچے بچے کی زبان پر ہے۔ انھوں نے جو کہا وہ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ انھیں میں سے ایک شعر ہے کہ فدوی (فدوی اصل میں ہندو تھے، مکند رام نام تھا، مسلمان ہو گئے تھے۔ پنجاب وطن تھا، علم کم مگر طبیعت مناسب تھی، شعر اُردو کہتے تھے، صابر علی شاہ کے شاگرد تھے اور فقیرانہ وضع سے زندگی بسر کرتے تھے۔ مشاعرہ میں جاتے تو کبھی بیٹھتے کبھی کھڑے ہی کھڑے غزل پڑھتے اور چلے جاتے تھے۔ جب انھوں نے احمد شاہ کی تعریف میں قصیدہ کہا تو بادشاہ نے ہزار روپیہ نقد اور گھوڑا اور تلوار انعام دی۔ ان کا بھی دماغ بلند ہوا، اور دعوے ٰ ملک الشعراء کا کرنے لگے۔ کچھ مرزا پر اعتراض کئے اِس پر مرزا نے اُلو اور بنیے کی ہجو کہی۔ انجام کو طرفین کی ہجوئیں حد سے گزر گئیں۔ فدوی نواب ضابطہ خاں کے ہاں نوکر بھی ہو گئے تھے اور اخیر کو انھیں بھی لکھنؤ جانا پڑا۔ ان کا دیوان نہایت دلچسپ ہے اور ہر غزل کا خاتمہ پیغمبر صاحب کی نعت یا کسی اور امام کی مدح پر کرتے ہیں۔ زلیخا کا ترجمہ بھی نواب صاحب موصوف کی فرمائش سے نظم کیا ہے۔ گلزارِ ابراہیمی میں لکھا ہے کہ ایک بر خود غلط آدمی تھا، مرزا کے مقابلہ کے لئے فرخ آباد میں آیا اور ذلت اٹھا کر گیا۔)اور فوقی ایک فرضی شخص کا نام ڈال دیا۔
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1084