donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Prof. Khalid Mahmood
Title :
   Urdu Adab Ki Nambardar Khatoon - Razia Hamid

اردو ادب کی نمبر دار خاتون ۔ رضیہ حامد


پروفیسر خالد محمود


  ٭ڈاکٹررضیہ حامد بڑی نمبر دار خاتون ہیں۔ محترمہ جس سہ ماہی فکر وآگہی کی مدیرہ ٔ اعلی کے منصب پربقلم خود فائز ہیں اس کے ابھی تک ۔ بشیر بدر نمبر۔ رفعت سروش نمبروپیرا نمبر۔ بیکل اتساہی نمبر۔ بھوپال نمبر، علیگڑھ نمبر اور ارمغانِ اختر سعید خاںنمبرنکال چکی ہیں پہلا نمبر۹۶۰صفحات کا نکالا اور دوسرا۱۱۰۰ صفحات کا ۔پہلے نمبر والا دوسرے نمبر کی ضخامت دیکھ کر چیخ اٹھا۔ اس کی ساڑی میری ساڑی سے زیادہ سفید کیوں؟اس طرح رضیہ حامد نے کئی نمبر نکال کر بعضوں کو اٹھایا بعضوں کو بٹھایا ، بعضوں کو جلایا ، بعضوں کو ہلایا اور بعضوں کو لڑا بھی دیا۔ انہیں نمبروں کے درمیان بھوپال اور علی گڑھ نمبرنکال کر لوگوں کو شاداں وفرحاں اور قربان و حیران بھی کر دیا۔ رضیہ حامد کا ہر نمبر پورے پورے نمبر کا ہے یعنی اگر حوصلہ افزائی کے رعایتی نمبر جوڑ دئے جائیں اور بدخطی کے نمبر بھی نہ کاٹے جائیں تو سو میں سے سو۔ ہمیں ان کے حق میں دعا کرنی چاہئے۔ مگر ان کے حق میں دعا بھی ایک مسئلہ ہے۔ ادب کا قاری جب کسی رسالے کو زندہ رکھنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔ تو عموماً مدیر کی صحت اوردرا زیٔ عمر کو صیغۂ واحد میں دعا دیتا ہے ۔ فکر وآگہی کے سلسلے میںصیغۂ واحد ناکافی ہے۔ یہاں صیغۂ تثنیہ کا سہارا لینا ضروری ہے۔ قاری کو یوں دعا مانگنی ہوگی کہ یا اﷲرضیہ حامد صاحبہ ، سیّد محمد حامد صاحب کو عمر خضر بہ کثافت عطا فرما یعنی خضر کی عمر ضرور عطا فرما مگر لطافت خضری عطا نہ فرما کہ وہ خضر کی طرح سب کو دیکھیں اور خود نظر نہ آئیں اور یہ کہ ان کا سایہ (وہ سایہ جو دھوپ کی ضد ہوتا ہے۔) فکر وآگہی کے سر پر قائم و دائم رکھ اور فکر وآگہی کی دھوپ سے ہمارے قلوب اتنے منور فرما کہ جو دیکھنے کی کوشش کرے اس کی آنکھیں خیرہ ہو جائیں اسے کچھ نظر نہ آئے اور پھر لکھنے والے جو جی میں آئے لکھتے رہیں۔ آمین یارب العالمین۔

بظاہر رضیہ حامد کے نام اور ان کے رسالے کے نام میں کوئی داخلی یا خارجی ربط نظر نہیں آتا مجازاًرضیہ صاحبہ اور ان کے شوہر حامد صاحب میں فکر وآگہی کا یہ رشتہ قائم ہے یہ دونوں اس پرچے کے لئے فکر مند اور آگہی حاصل کرنے میں مصروف رہتے ہیں حالانکہ یہ باتیں بھی دور سے جھوٹ معلوم ہونگی۔ نہ تو ان کے چہرے پر فکر مندی کے آثار نظر آئیں گے اور نہ کسی قسم کی آگہی سے ان کی آشنائی کا کوئی ٹھوس ثبوت ملے گا۔ مگر یہ دونوں چیزیں ان کے اندر اس طرح بھری ہیں کہ جب باہر آتی ہیں تو ایک صحت مند نمبر کی بشارت بن جاتی ہیں۔ عید مولود کا یہ مبارک سلسلہ تو اتر کے ساتھ جاری ہے۔

اردو زبان و ادب اور بھوپال سے رضیہ حامد کے عشق اور رضیہ حامد سے حامد صاحب کا عشق لائقِ صدرشک ہے۔ فکر وآگہی نے اپنے نمبروں کی وساطت سے اردو کو جو فائدہ پہنچایاہے وہ جگ ظاہر ہے۔ مگر خود ان دونوں (زن وشو) کو جو فائدہ یا نقصان پہنچا وہ جگ ظاہر نہیں۔ اس کی وجہ سے دونوں ہمہ وقت ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیںاور یہ مشکل کام بحسن و خوبی انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ میاں بیوی کا درونِ خانہ اور برونِ خانہ مستقل ایک دوسرے کے ساتھ رہنا ہنسی کھیل  بہ عمل اعتبار و بے اعتبار کے سنگم پر رہنے کے مترادف ہے۔ لطف و حیرت کی بات یہ ہے کہ رضیہ حامد اس صورت ِ حال میں اکثر خوش رہتی ہیںاور ہنسی جیسی کوئی شے ان کے ہونٹوں پر چپکی رہتی ہے۔ حامد صاحب جزوقتی ہنسی ہنستے ہیں۔ وہ زیادہ ہنسنے ہنسانے کے قائل نہیں ۔ انہیں اور بھی بہت سے کام ہیں پھر یہ بات بھی ہے کہ اپنی بیوی کے ساتھ آخر کوئی کب تک ہنس سکتاہے۔ اگر کوئی اور صاحب ان میں سے کسی ایک کے یا دونوں کے ساتھ ایک دن بھی اس آن بان اور شان سے گزار کر دکھا دیں  تو انہیں ’’اقبال سمّان‘‘ دیا جا سکتا ہے۔

رضیہ حامد نہایت متواضع اور مخلص خاتون ہیں ان کی تواضع سے اخلاص ٹپکتا ہے۔ وہ خوش نصیب ہیں کہ حامد صاحب ان کے شوہر ہیں حالانکہ رضیہ حامد کی تواضع میں حامد صاحب کا یوگدان محض اتنا ہوتا ہے کہ جب آپ ان کے گھر ناشتہ پر بلائے جائیں تو صاحب شریک ِ حیات کو چھوڑ کر شریکِ ناشتہ ہو جاتے ہیں۔

رضیہ حامد کا مکان بھوپال کے جس مقام پر واقع ہے اسے حسن ِ نظارہ کے باعث جنت ِ نظیر کہا جا سکتا ہے ۔ ان کے ڈرائنگ روم سے بھوپال کے بڑے تالاب کا منظر ناقابلِ فراموش ہے ۔رضیہ حامد اور حامد صاحب اپنے مہمان کو ڈرائنگ روم میں بٹھا کر انکے آگے سیب اور چھری رکھ دیتے ہیں پھر ا سے کاٹنے کی درخواست کرکے ہاتھ کٹنے کا تماشا دیکھتے ہیں۔ وہاں بیٹھ کر نووارد مہمان اس قدر محو نظارہ  ہوجاتا ہے کہ اسے ہوش ہی نہیں رہتا کھانا کب اور کیسے ختم ہو گیا ۔ عجیب جگہ ہے دال کھایئے اور مرغ وماہی کی  لذّت اٹھائیے۔ اگر آ پ کوبھی اس دسترخوان کی قربت نصیب ہو چکی ہے تو آپ تنہا نہیں ہم بھی یہی سمجھے بیٹھے ہیں کہ مرغ وماہی کھا کر نکلے تھے۔

رضیہ حامد ایک خاندانی شائستہ اور وضعدار خاتون ہیں ۔ خاندانی ہونے کا ثبوت انکے شجرے ، بُشرے اور بیگماتِ بھوپال کے انداز کی ستر پوشی سے مل جاتا ہے ۔ شائستگی ان کی گفتگو اور لب ولہجہ سے ٹپکتی ہے اور وضعداری کی ضمانت کے لئے اتنا کافی ہوگا کہ گذشتہ چالیس سال سے حامد صاحب کے ساتھ رہ رہی ہیں۔

فکر وآگہی کے ا س شاندار سفر میں دونوں کی اس جوڑی نے بڑے گل کھلائے ہیں اور آج بھی ان گلوں کی پاسبانی کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔

اہل ثروت کے ذوق ادب نمائی اور اردو مدیران کی مالی مجبوریوں کی وجہ سے آج کل نمبروں اور گوشوں کی روش عام ہوچلی ہے مگر رضیہ حامد میں یہ مادہ ہی نہیں وہ مادی فوائدسے بے نیاز ہیں انہوں نے مادی نقصان کے بدلے میں نیک نامی عزت اور شہرت حاصل کی ہے۔ رہِ عشق میں فکر سودو زیاں کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی اور یہ بات دہرانے میں کوئی حرج نہیں کہ وہ اردو زبان و ادب سے عشق کرتی ہیں اس لئے وہاس راہ میں کبھی اور کہیں طالب زر نظر نہیں آتیں ہوسکتا ہے وہ یہ بھی سوچتی رہی ہوں   ؎

کیا فکرِ سود کرنا، کیا آگہی زیاں کی
ہے ’’ فکر و آگہی‘ میں دولت مرے میاں کی


٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 526