donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Rafiq Shaheen
Title :
   Samaji Zindagi Ka Tarjuman Afsana Nigar L Haneef Syed

سماجی زندگی کاترجمان افسانہ نگار:حنیف سیّد


 رفیق شاہین

    نثری ادب میں ناول اورافسانہ نگار کاشمارجملہ اصناف کے بالمقابل سب سے زیادہ ہردل عزیزاور مقبول ترین اصناف میں ہوتا ہے۔اس کی بنیادی وجہ اس میں کہانی کی شمولیت ہے۔ناول افسانہ کے ظہور سے بہت پہلے بھی کہانیاںمذہبی قصص ،دیو مالااسطوری قصوں اور شیخ سعدی کی حکایتوں کی شکل میں موجود تھیں۔محیرالعقول واقعات،پرستان کی پریوں،چڑیلوں،جنوں،جادوگروں،محلوں اورشہزادے شہزادیوں کے عشق ومعاشقے پر مبنی خیالی داستانوں اور فرضی قصے اور کہانیوں کوماضی میں بڑے ذوق وشوق سے پڑھا جاتارہا، مگر جب انگریزی افسانوں کے مطالعے سے یہ بات سمجھ میں آگئی کہ عام لوگوں پر لکھی کہانیاں بھی دل چسپی کاسامان مہیا کر سکتی ہیں،تو پہلے تو غیر ملکی کہانیوں کے تراجم کیے گئے اورپھر طبع زادافسانے بھی لکھے جانے لگے ۔تقریباًایک صدی پہلے کے ناول اور افسانہ کے بنیادوںگزاروں میں سجاد حیدریلدرم(قرۃالعین حیدرکے والد)ڈپٹی نذیر احمد، راشدالخیری اور سرشار کے نام سرفہرست مندرج ہیں،چوںکہ یہ افسانے مذہبی تعلیمات،اخلاقیات، تہذیبی روایات،اصلاحی نظریات اور پندونصائح تک ہی محدود تھے،اِ س لیے اُنھیںصحیح معنوں میں افسانہ کہنا بھی مشکل تھا، مگر آگے چل کرجب سدرشن، منشی پریم  چند اور مرزاہادی رسوا ؔنے افسانے کو حقیقی زندگی اور واقعیت سے روشناس کرایاتوافسانہ زندگی اوراپنے دور کاترجمان بن کرروزافزوں مقبولیت سے سرفراز ہونے لگااورپھرخوش قسمتی سے ترقی پسندوںمیں اِسے کرشن چندر، مہندر ناتھ ،راجندر سنگھ بیدی،احمد ندیم قاسمی، منٹو،خواجہ احمد عباس،عصمت چغتائی اور غلام عباس جیسے ناول اور افسانہ نگار مل گئے، جنھوں نے بااعتبار فن وتکنیک اِس فن کو نقطہ عروج پر پہنچاکراِس لائق کر دیاکہ اُسے دنیا کے کسی بھی ادب کے مقابلے میں بالفخر پیش کیا جاسکتاہے۔ پھر ترقی پسند ی کے رو بہ زوال ہونے کے بعد جدیدیت کو عروج حاصل ہوا توجدیدیوں نے ترقی پسندی کے کار ہاے نمایاںپر پانی پھیرنے اور افسانے میں کچھ نیا کردکھانے کے زعم میں افسانہ سے کہانی غائب کر کے افسانے کو ایک مہمل نظم، بے چہرگی، قنوطیت،یاسیت،فراریت، مجہولیت اور ذات کا نوحہ بنا دیا، جس کا لازمی نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ افسانے سے قاری کا رشتہ ہی ٹوٹ گیا۔ادھر جب جدیدیت زوال پذیر ہوئی تو بیش ترافسانہ نگاربھی گم کردہ منازل ہو کر قصرمذلّت میں جا پڑے اور بے نام ونشاں ہو گئے،البتہ سریندر پرکاش،بلراج مینرا،جوگیندرپال،شوکت صدیقی اور الیاس گدّی  وغیرہ جنھوں نے ذاتی سوجھ بوجھ سے کام لے کراعتدال کا رویّہ اختیار کیا، اُنھیں آج بھی بحیثیت کامیاب افسانہ نگارقدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ آج دورِ لا تحریک میں پروان چڑھنے والی نئی نسل کے افسانہ نگار افسانے میں بھولی بسری اور دورافتادہ کہانی کو پھر سے واپس لے آئے ہیں،اور تھکا ماندہ وشکستہ پاا فسانہ ایک نئے دم خم کے ساتھ اب پھرسے جانبِ منزل رواں دواںہے۔ اقبال انصاری،یاسین احمد، دیپک کنول، دیپک بدکی ،محیر احمدآزاد، اشتیاق سعید،رونق جمال، ابراہیم اشک،مراق مرزا، نورالحسین، ثروت خاں،ترنم ریاض اور اقبال سلیم وغیرہ آج کل بہت اچھی کہانیاں تخلیق کر رہے ہیں۔ اِن افسانہ نگاروں میں ایک اہم نام سیّد حنیف احمد کا بھی ہے،جنھوں نے حنیف کانٹوی کے نام سے افسانو ی ادب میںاپنی پہچان بنانے کے بعداب پھرسے حنیف سیّدکے نام سے ادب میں اپنی نئی پہچان بنالی ہے۔موصوف کی اولین تصنیف اُن کا ناول ’’ایثار کی چھان￿و تلے‘‘ شائع ہو کر شرف قبولیت سے سر فراز ہوچکا ہے،اور اب اِن کی اگلی تصنیف کا افسانوی مجموعہ ’’پنچھی؛جہاز کا‘‘ہے جو جلوہ گہہ آفاق پر طشت ازبام ہو کر تحسین وتہنیت کے قیمتی نذرانے قبول کر رہا ہے۔ موصوف کا وطن مالوف قصبہ کانٹ ،ضلع شاہ جہاںپور ہے مگرتادم تحریران کا مستقل مستقر آگرہ ہے۔پوسٹ گریجویٹ ہیں ۔رواداری، وضع داری،درد مندی،دریادلی اور عجز وانکساری جیسی اعلا خصوصیات ان کی جبلت وسرشت کا اٹوٹ حصہ ہیں۔اور چوں کہ وہ دانش الہ آبادی مدیر سبق اردو کے ساتھ ایک بار غریب خانے پر تشریف بھی لا چکے ہیں، اِس لیے اُن کے شخصی اوصافِ حمیدہ کا گواہ میں خود بھی ہوں۔

                    

    موصوف۱۹۷۲ ؁ء سے لے کراب تک لگاتارافسانے لکھ رہے ہیں اوران کی کہانیاں برِصغیر ہندو پاک اور بیرونی ممالک کے معیاری رسائل و جرائد میں تواترسے شائع ہورہی ہیں،انھیں فخر ہے کہ ان کے زرخیز قلم کی کوکھ سے اب تک ایک سو چالیس سے زائد افسانے معرض وجود میں آچکے ہیں۔اُن کے کام کی قدرافزائی کے طور پر اُنھیں صدر جمہوریہ ہند سے کانسہ پدک بھی مل چکا ہے اور متعددغیر سرکاری تنظیموں اور انجمنوں نے بھی اُنھیں’’ فخرالادبا‘‘،’’نشانِ ادب‘‘،اور’’ مینارۂ اَدب ‘‘جیسے: بہت سے باوقارخطابات سے سر فراز کیا ہے۔

    ’’پنچھی؛ جہاز کا ‘‘ کاسرنامہ بہ ظاہر کسی مہماتی ناول یا افسانے کا اشاریہ معلوم ہوتا ہے ،لیکن ایسا نہیں ہے، پندرہ افسانوں پر مشتمل یہ مجموعہ خالص اقتصادی، معاشرتی، سیاسی اور تہذیبی زندگی کی مشکلات ومصائب نیز مسائل ووسائل سے اپنی کہانیوں کا رشتہ مضبوطی سے مستحکم کیے ہوئے ہے۔ اُن کی کہانیاں ہمارے سماج میں پیش آنے والے واقعات اور خانگی معاملات کی تہہ میں اُتر کر جو تلخ و ترش سچائیاںہمارے سامنے لاتی ہیں وہ حقیقت آمیز ہونے کے سبب ہمیں اپنی ہی کہانیاںمعلوم ہونے لگتی ہیں اور ہم اَن جانے میں ہی افسانہ نگار کے مطالعات ومشاہدات اور تجربات واکتسابات کاحصہ بن جاتے ہیں ، منظر نگاری پر اُنھیں عبورِکامل حاصل ہے،اوروہ کردار نگاری بھی بڑی غضب کی کرتے ہیں۔ اُن کے مکالمے بھی تصنع سے پاک چست اور بر جستہ ہوتے ہیں۔ مختلف واقعات کی کڑیاں جوڑ کر اُنھیں پلاٹ تعمیر کرنااور کہانی کو پر کشش اور موثر بنانابھی خوب آتا ہے۔اُن کی کچھ کہانیوں کا انجام چونکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ذہانت کی اُن میں کوئی کمی نہیں ہے۔وہ سائنس کے طالب علم نہیں ہیں۔مگر بعض افسانوں میں پیش کی ہوئی اُ ن کی سائنسی معلومات قارئین کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔جیسے:’’چمچے؛ اسٹیل کے‘‘ میں حنیف سیّد کے ذہن کی اُپج کاایک اقتباس دیکھیں:

                     

    ’’ میںالیکشن کی تقریرمیں،سورج پرجیون ہونے کی بات کرتا،توٹماٹربرستے۔ وہ کچھ بھی کہتی تو لاددی جاتی پھولوںسے، تالیوں کے ساتھ۔اُ س کی دیکھا دیکھی میں نے بھی اپنے علم کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر میں الیکشن جیت گیاتوزمین کے نارتھ پول کے نگیٹواور سائوتھ پول کے پازِیٹوکرنٹ کوفریکوانسی میںتبدیل کرا کر بِناتاروں کی الیکٹرک عوام کو فری فراہم کرائوں گا، میرے خیال سے جب خلاء میں پانی کی مقدار بڑھ جاتی ہے، اور زمین کے دونوں پولوںکے نگیٹو، پازیٹو،اُس پانی میں فِلو ہو کرآپس میں ٹکراتے ہیں، تب تیز چمک کے ساتھ دھماکہ ہوتا ہے، جس کو سائنس داں بادلوں کی رگڑ سے پیدا ہو نے والی بجلی کہتے ہیں۔میری اِس دلیل کو سراہنے کے بجاے انڈوں اورٹماٹروں کی بارش کی گئی مجھ پر۔ اِس سے بڑھ کر یہ کہ جب میں نے اپنی ذہانت کا لوہامنوانے کے لیے آسمانی اِندر دھنک کو زمین پرسیکڑوں گان￿و والوں کے درمیان دھوپ میں نمی پیداکرکے دکھا یا، تب بھی ٹماٹروں اورانڈوں کی بارش کے ساتھ جادوگر کے خطاب سے نوازا گیا۔‘‘

                     

    جُزئیات نگاری میںتو انھیں یدطولیٰ حاصل ہے ،کبھی کبھی وہ جُزئیات میںاِتنے الجھ جاتے ہیں کہ کہانی اپنی رفتار سے ہی محروم ہوجاتی ہے۔مگر ایسا ہر کہانی میں نہیںہوا ہے۔اُن کی کہانی’’ پنچھی؛جہاز کا‘‘ایک مجبور اور بے آسرادوشیزہ کی زندگی کا زبر دست المیہ ہے کہ گزر بسر اوردووقت کی روٹی کی پکی ضمانت کی خاطر ایک بائیس سالہ دوشیزہ کو ایک اسّی سالہ اور قریب اُلمرگ بوڑھے کی شریک حیات بننے پر مجبور ہونا پڑا۔’’ میٹھا نیم،کڑوانیم؛ کڑوانیم،میٹھا نیم‘‘بڑی اہم اور معیاری کہانی ہے۔جو ماں بیٹی کی بدنصیبی اور اُ ن کے انحطاط وزوال کا ایک درد ناک المیہ ہے۔کہانی کی بنّت،تکنیک ،جُزئیات اور منظر نگاری کافن اِس کہانی میں اپنی بلندی پرہے۔ کہانی کا عبرتناک ،شرمناک ،حسرتناک وغمناک انجام گہرے اور دیر پاتاثر کاغمّاز ہے۔’’ تجدید؛سہاگ رات کی‘ ‘ایک ایسی عورت کی کہانی ہے ،جس نے ماں پر ہونے والے باپ کے مظالم اپنی آنکھ سے دیکھے تھے،لہٰذا مرد ذات سے شدید نفرت کا ردّعمل اُس پر یہ ہوا کہ شادی کے بعد اُس نے اپنے مردکونتھ پہنادی اوراُسے اپنی مردانگی کی زد پر لے کر خوب خوب ستایا۔آخرش اُسے اپنے غیرفطری عمل کاایک دن احساس ہوہی گیااوروہ جان گئی کہ وہ اِس راہ پر چل کرازدواجی زندگی کی فطری مسرتوں سے محروم ہوگئی ہے۔لہٰذاوہ خودبھی راہ پرآگئی اوراپنی بیٹی کوبھی تلقین کرکے اپنے گھرسے شوہر کے گھر بھیج دیا کہ اگر وہ سُکھ اورابنساط کی زندگی بسر کرنا چاہتی ہے تواپنے شوہرکی عورت ہی رہے،مرد نہیں۔ کہانی کاانجام مثبت اورموثرہے۔ اِس مختصر مضمون میں سبھی کہانیوں کے تجزیے کی گنجایش نہیں ہے، اِس لیے یہیں اختتام کرتا ہوں۔

٭٭٭٭٭

 میرس روڈ۔علی گڑھ۔

 

 

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1375