donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Sami Ahmad Quraishi
Title :
   Maulana Abul Kalam Azad : Agar Congress Me Na Hote To

مولاناابوالکلام آزادؒ:اگر کانگریس میں نہ ہوتے تو؟


جن کافکروعمل مُسلمانوں کی اہم ضرورت


سمیع احمد قریشی۔ 9323986725

 

  (یوم پیدائش:۱۱؍نومبر۱۸۸۸۔یوم وفات:۲۲؍فرروری ۱۹۵۶)

سرزمین حجازمکّہ سرزمین ہندمیں ۱۱؍نومبر۱۸۸۸؍کومولاناابوالکلام آزادپیداہوئے۔مولاناکے ابتدائی ایام عرب ہی میں ہی گزرے۔آپ کے والدنے اپنے مریدوں کے بے حداصرارپرہندوستان آنامنظورکیا۔مولاناکی ابتدائی تعلیم اپنے گھرکلکتہ میں ہوئی۔درس نظامی،مولانانے حیرت انگیز،خدا دادصلاحیت کی بناء پرصرف ۴؍سال ہی میں ختم کرلیا۔عام طورپرطلبہ اس عرصہ میں ختم کرنہیں کرپاتے۔مولاناکاتعلق ایسے خاندان سے تھاجوصدیوں سے علم وارشاد،فلسفہ  حکمت اورروحانیت کامرکزرہا۔جوزہدوتقویٰ وپاکبازی میں اپنی مثال آپ تھے۔جس کی دینی،علمی،معیارکاچرچہ حق پرستی کاشہرہ چاردانگ عالم میں پھیلاتھا۔آزادکے والدمولاناخیرالدین ایک مجّدد،عالم اورفاضل دینیات تھے۔والدہ مّکہ کی ایک علمی خاندان سے تعلق رکھتی  تھی ۔مولاناکے دادامولانامحمدہادی دہلی کے ایک مشہور خاندان علم وفضیلت سے تعلق رکھتے تھے۔جس میں بیک وقت پانچ پانچ علماء درس وافتادواصحاب سلوک وطریقت پیداہوئے۔والدمولاناخیرالدین کے ہزاروں مریدتھے۔کئی مشہورکتابوںکے مصنف بھی ان کے علم وفضل کاچرچہ ہنداوربیرون ہندبھی تھا۔

مولاناآزادبے پناہ خوبیوں کے مالک تھے۔ہم ان کی علمی،ادبی،سماجی سیاسی ودیگرکن کن معیاری خوبیوں کاذکرکریں۔ان کے افکارواعمال کاپیمانہ جماعتی ،گروہی تعصبات سے پاک تھا۔ان کا ظرف انتہائی اعلیٰ اورذہنی سطح بلندتھی۔وہ وسیع النظراورفراخ دل تھے۔علم وفن،فلسفہ،حکمت ،فقہ قرآنی علوم ومعارف اورمذہبی اسرار،تحقیق معارت،متعددزبانوں پردسترس،ایسی کتنی ہی اہم باتیں،مولاناآزادکی شخصیت میں شامل تھیں۔گویامتعددخوبیوں، کمالات،فضائل کوقدرت نے ایک انسانی ڈھانچہ میں اتارادیا۔جس کانام ابوالکلام آزادتھا۔پھراسی ڈھانچہ کوتوڑدیا۔

مولاناآزادراسخ العقیدہ،مسلمان ہونے کے باوجودمذہبی عقائدکی تحقیق وتدفین میں جدت پسندتھے۔مذہب اسلام کی طرف ان کارویہ تجدیدی اوراصلاحی رہا۔یہ وقت کی ضرورت تھی ان کے دورمیں روایتوں کاچلن مسلمانوں میں عام تھا۔علمائے دین بھی اکثروبیشتروہی تھے۔ایک طرف مولانااپنی تحریروں اورتقریروں،ملاقاتوں  سے مسلمانان ہندکی بے انتہاآب یاری کی۔ایک جانب مسلمانوں میں دین اسلام کوعین قرآن اورسنتوں کے مطابق چلانے کیلئے منہمک ہوگئے،جٹ گئے۔دوسری جانب تحریک آزادی ہندمیں مسلمانوں کوجوڑا۔وہ جہاں اپنی ذاتی قابلیت اورمذہبی قابلیت کے بناء پریکتاتھے ،ان کے ہم عصروں سے آج تک دوردورتک آزادکی علمی مذہبی قابلیت کے برابرکوئی دوسرادکھائی نہیں دیتا۔وہ ملک کی آزادی کی تحریک میں اگلی صفوں میں تھے۔آزادی ہندکی تحریک میں آزاد،گاندھی جی کے آنے سے پہلے شامل ہوگئے تھے۔مولاناخلوت کے نہیں جلوت کے آدمی تھے۔وہ کردارکے نہیں گفتارکے غازی بنناپسندکرتے تھے۔ادب،فقہ،تفسیر،خطابت ،شاعری،صحافت ،امامت کیاان میں نہ  تھی۔پیری مریدی انہیں ورثے میں ملی تھی۔وہ کسی ایک ہی بات کے ہوجاتے تب بھی کمال کرجاتے۔صرف پورے ہندوستان میں گھوم گھوم کرپیری مریدی کرتے۔صرف مساجدمیں امامت کرتے۔اخباروں ہی سے جڑے رہتے۔ادبی کاوشوں میں لگے رہتے۔صرف مفسرہی رہتے۔بیک وقت تمام باتوں میں رہنے کے ساتھ ساتھ مولانانے اپنازیادہ وقت مسلمانوں میں دینی اصلاحوں کے ساتھ ساتھ تحریک آزادی میں دیا۔ایک طرف وہ امام الہندہوگئے تودوسری جانب جنگ آزادی ہندکے معروف سپاہی کہلائے۔ملک کی آزادی میں اہم کرداراداکرنے والی کانگریس پارٹی کے چنندہ اہم لیڈروں میں ان کاشمارہوتاتھا۔بہت ہی کم عمری میں ۱۹۲۳؍میں وہ کانگریس کے صدربن گئے۔اس کے بعدمتعددبار آل انڈیاکانگریس کے صدررہے۔

مولاناآزادکاصحافت سے گہرارشتہ تھا۔۱۹۱۲؍میں الہلال اخبارنکالا۔الہلال کامقصد صرف مسلمانوں کوتحریک آزادی سے جوڑنانہ تھا۔مگرمسلمانوں کی دینی،سماجی وسیاسی اصلاح کرناہی تھا۔انہوں نے قرآنی دلائل اورسنتوں کوسامنے رھا۔الہلال اورالبلاغ کے علاوہ مولانا نے کئی اخباروں سے جڑے۔مولاناشبلیؒ کی سرپرستی میں مولاناآزادکی ذہنی پختگی کومددملی۔مولاناشبلیؒ سے مولاناکوکافی قربت رہی،انسیت رہی۔ان کے انتقال کے بعدبھی یہی دوستی آزادنے قائم رکھی۔مولاناسیدسلمان ندوی کاساتھ ملا۔مسلم دارالعلوم ،دینی تعلیمی ادارے اورمدرسوں سے قریب  رہے۔شیخ الہندؒ نے آزادکے تعلق سے فرمایاتھا’’جس نے ہمیں جہادکاسبق یاددلایا۔جوہمارافریضہ تھااورہم اسے بھول چکے تھے۔ملک میں قرآنی تعلیم کی تبلیغ واشاعت میں پیش پیش رہے۔پورے ملک میں مسلمانوں کے اہم دینی اجلاس سے خطابات کئے۔جمعیتہ اہل حدیث ،جمعیتہ العلماء اورخلافت کمیٹی وملک کی متعدد مدرسہ اسلامیہ سے خطاب کئے۔ مولاناکاتعلق اسلام کے کسی فرقہ سے نہ تھا۔وہ اجتہادکادرجہ رکھتے تھے۔اورہرمسئلے پراسلام کی تعلیمات کی روح ومنشاء کی روشنی میں نظرڈالتے تھے۔مولاناپران کے مخالفین یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ کانگریس میں شامل ہونے سے پہلے آزادپکے مسلمان تھے۔بے انتہااسلامی اسپرٹ اورجذبہ تھا۔۱۹۲۳؍میں کانگریس میں شامل ہونے کے بعد اوربالخصوص آخری وقتوں میں وہ اسلام،مسلمانوں سے دورہوگئے۔مسلمانوں کی فلاح وبہبودکیلئے وہ جذبہ جوانتہائی ابال پرتھاختم ہوگیا۔سردمہری آگئی۔زندگی سے مایوس ہوگئے۔مولاناآزادکی زندگی اوران کی تحریروں پرنظرڈالنے سے دوردورتک نظرآتانہیں کہ مولانامیں مذہب اسلامی سے دوری یامایوسی آگئی تھی۔مذہب اسلام سے والہانہ محبت اوردینی فہم وفراست،قرآنی تبلیغ واشاعت میں وہ زندگی کی شروعات میں تھے۔اس پرآخری سانس تک تھے۔مسلم لیگ سے وابستہ افراد اورمذہب اسلام سے نابلدافراد(جواب بھی ہیں)نے اپنی کم علمی اورغلط سمجھ کی بناء پر مولاناکی بے باک مخلصانہ،فقیرانہ اورقلندرانہ زندگی کوجومذہب اسلام کی حقیقی اساس پرقائم تھی غلط سمجھا۔اس ملک میں ہزاروں سالوں سے ہندواورمسلمان ایک ساتھ رہے۔سب ایک قوم تھے۔جناح نے کہاہندواورمسلمان دونوں الگ الگ قوم ہے۔دوقومی نظریہ دیا۔مولاناآزادنے دوقومی نظریہ کی ڈٹ کرمخالفت کی خطبہ آگرہ میں آزادارشاد فرماتے ہیں ’’ہندوستان کیلئے،ہندوستان کی آزادی کیلئے۔صداقت،حق پرستی کے بہترین فرائض اداکرنے کیلئے ہندوستان کے ہندومسلمان کااتفاق اوران کی یک جہتی ضروری ہے۔‘‘آگے چل کر اسی خطبہ میں مزیدوضاحت کرتے ہیں ’’ہندوستان کے ۷؍کروڑ مسلمان۔ہندوستان کے بائیس کروڑ ہندوبھائیوں کیساتھ مل کر ایسے ہوجائیں کہ دونوں مل کر ہندوستان کی ایک قوم اورایک نیشن بن جائیں۔۱۹۱۱؍میں انہوں نے ہندومسلم اتحاد کانعرہ اس وقت بلندکیاجب وہ کانگریس میں نہیں تھے۔بلکہ ہم مذہب فرقہ پرستوں سے مصروف جنگ ہے۔ان کی ہمیشہ کوشش رہی ہندومسلم باہم شیروشکر ہوکر رہیں۔۱۹۲۳؍کے اجلاس کانگریس میں انہوں نے ہندوستان میں باہمی اتحاد کے تعلق سے اس طرح فرمایا۔’’آج ایک فرشتہ آسمان کی بدلیوں سے اترکر آئے اورقطب مینارپرکھڑے ہوکریہ اعلان کرے کہ سوراج ۲۴؍گھنٹے کے اندرمل سکتاہے۔بشرطیکہ ہندوستان،ہندومسلم اتحاد سے دست بردارہوجائے تومیں سوراج سے دست بردارہوجاؤں گامگرہندومسلم اتحاد سے دست بردارنہ ہوں گا۔کیونکہ سوراج ملنے میں تاخیرہوئی تویہ ہندوستان کانقصان ہوگالیکن ہمارااتحاد جاتارہاتویہ عالم انسانیت کانقصان ہوگا۔‘‘

آزادمسلمانوں کوتحریک آزادی کے زبردست خواہاں تھے۔ان کاخیال تھاکہ ہندومسلم اتحاد آزادی دلانے کیلئے ضروری ہے۔آج تحریک آزادی میں مسلمان پیچھے رہ گئے توہمیشہ ملک آزادہونے کے بعد،شرمندگی اٹھاناپڑے گی۔مسلمانوں کوتحریک آزادی میں شامل ہونے کی ترغیب دیتے ہوئے مولانافرماتے ہیں۔’’یادرکھئے کہ ہندؤں کے لئے ملک کی آزادی کے لئے جدوجہدکرنا،داخل حب الوطنی ہے۔مگرآپ کیلئے ایک فرض دینی اورداخل جہادفی سبیل اللہ ہے۔آپ کواللہ نے اپنی راہ میں مجاہدبنادیاہے اورجہادکے معنی میں ہروہ کوشش داخل ہے جوحق وصداقت اورانسانی بندغلامی واستبداد کے توڑنے کیلئے کی جائے،آج جولوگ ملک کی فلاح اورآزادی کیلئے اپنی قوتوں کوصرف کررہے ہیں یقین کیجئے وہ بھی مجاہدہیں۔‘‘آزادکے اخبار الہلال اورالبلاغ نے مسلمانوں پربے پناہ اثردکھلایا۔دونوں اخبارمسلمانوں میں ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے تھے۔ان کے قلم نے مسلمانوں میں بے پناہ مذہبی اصلاحات کیں۔اسی طرح تقاریر بھی رہیں۔پڑھے لگئے مسلم نوجوانوں میں الہلال والبلاغ کابے پناہ اثرتھا۔

۱۹۲۸؍کوآزادنے اسلامیہ کالج لاہورمیں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا’’مسلمانوں کیلئے راہ اعتدال ایک ہی ہے اوروہ خداکے احکام اوررسول اللہؐ کے احکام کی پیروی اورپابندی۔مسلمانوں کوقرآن مجیدکے مطالعہ پرزیادہ توجہ کرنی چاہئے۔جوہرحال اورزمانہ میں ان کارہنماہے۔یہی ان کے لئے فلاح اورکامیابی کاوسیلہ ہے۔‘‘۱۹۴۰ میں رام گڑھ میں خطبہ صدارت دیتے ہوئے مولانا نے یہ کہا ۔

’’میں مسلمان ہوں اورفخرکے ساتھ محسوس کرتاہوں کہ مسلمانوں ہوں۔اسلام کے تیرہ سوبرس کی شاندارروائتیں میرے ورثے میں آئی ہیں۔میں تیارنہیں ہوں کہ اس کاکوئی چھوٹے سے چھوٹاحصہ بھی ضائع ہونے دوں۔اسلام کی تعلیم،اسلام کی تاریخ،اسلام کے علوم وفنون۔اسلام کی تہذیب میری دولت کاسرمایہ ہے اورمیرافرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں۔بحیثیت مسلمان ہونے کے میں مذہبی اورکلچرل دائرے میں اپنی خاص ہستی رکھتاہوں اورمیں برداشت نہیں کرسکتاکہ اس میں کوئی مداخلت کرے۔لیکن ان تمام احساسات کے ساتھ ایک اوراحساس بھی رکھتاہوں۔جسے میری زندگی کی حقیقتوں نے پیداکیا۔اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی۔بلکہ وہ اس راہ میں میری رہنمائی کرتی ہے۔میں فخر کے ساتھ محسوس کرتاہوں کہ میں ہندوستانی ہوں۔میں ہندوستان کی ایک ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کاایک عنصرہوں میں اس متحدہ قومیت کاایک ایساعنصر ہوں جس کے بغیراس کی عظمت کاہیکل ادھورارہ جاتاہے۔میں اس کی تکوین (بناوٹ) کاایک ناگزیرعامل ہوں۔میں اس وعدے سے کبھی دست بردارنہیں ہوسکتا۔

ہم اپنے ساتھ کچھ ذخیرے لائے تھے اوریہ سرزمین بھی اپنے ذخیروں سے مالامال تھی۔ہم نے اپنی دولت اس کے حوالے کردی اوراس نے خزانوں کے دروازے ہم پرکھول دیئے۔ہم نے اسے اسلام کے ذخیرے کی وہ سب سے زیادہ قیمتی چیزدے دی۔جس کی اسے سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ہم نے اسے جمہوریت اورانسانی مساوات کاپیغام پہنچادیا۔

تاریخ کی پوری ۱۱؍صدیاں اس واقعہ پرگزرچکی ہیں۔اب اسلام بھی اس سرزمین پرویساہی دعویٰ رکھتاہے جیساہندومذہب کاہے۔اگرہندومذہب کئی ہزاربرس سے اس کے باشندوں کامذہب چلاآتاہے۔جس طرح ایک ہندوفخرکے ساتھ کہہ سکتاہے کہ وہ ہندوستانی ہے اورہندومذہب کاپیروہے۔ٹھیک اسی طرح ہم بھی فخرکے ساتھ کہہ سکتے ہیں ہم ہندوستانی ہیں اورمذہب اسلام کے پیروکارہیں۔‘‘

مولاناآزادکی مندرجہ بالاتحریریں پڑھنے کے بعدآزادکی طرزفکر اورمذہبی متعقدات  پرشک وشبہ کیاجاسکتاہے۔یہ کہاجاسکتاہے کہ کانگریس میں شمولیت کے بعدان کی مذہبی افکار دینی معتقدات میں کوئی تبدیلی آئی؟احیائے ملّت کااحساس ان سے مٹ گیا؟ایک صاحب یہ کہتے کہ آزادؒ مسلم لیگ میں آتے توان کاقداونچاہوجاتا۔وہ جناح سے بھی قدآورہوجاتے۔دوقومی نظریہ،کوئی مذہب اسلام کاضروری عنصرنہیں تھاکہ جس کے کرنے نہ کرنے پرہم کسی کوخارج اسلام کریں۔لعنت وملامت کریں۔کسی ایک مسلمان کے ایمان وکفرکافیصلہ کریں۔ہندوستان میں کانگریس ایک دوقومی جماعت تھی اورہے جس میں تمام مذاہب وزبان کے لوگ شامل تھے اورہیں۔مسلم لیگ میں بھی ہندوتھے۔توکیاوہ مسلمان ہوگئے تھے۔پھرمولاناآزاداگرمسلم لیگ کی طرح ایک پارٹی کانگریس میں شامل رہے۔اپنے اسلامی فکروعمل وتشخص کے ساتھ رہے۔توان کے ایمان پرشبہات کیوں؟ پھرملک کی تقسیم کے بعدمولاناآزادجامع مسجددہلی میں مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا’’آج زلزلوں سے ڈرتے ہو،کبھی تم خودایک زلزلہ تھے۔آج اندھیرے سے کانپتے ہو،کیایادنہیں کہ تمہاراوجودایک اجالاتھا۔یہ بادلوں نے میلاپانی برسایاہے۔تم نے بھیگ جانے کے خدثے سے اپنے پائیچے چڑھالئے ہیں۔وہ تمہارے ہی اسلاف تھے جوسمندروں میں اترگئے ،پہاڑوں کی چھاتیوں کورونڈڈالا۔بجلیاں آئیں توان پرمسکرادیئے۔بادل گرجے توقہقہوں سے جواب دیا۔صرصراٹھی تواس کارخ پھیردیا۔آندھیاں آئیں توان سے کہاتمہاراراستہ یہ نہیں ہے۔یہ ایمان کی جان کنی ہے کہ شہنشاہوں کے گریبانوں سے کھیلنے والے آج خوداپنے گریبانوں سے کھیلنے لگے۔اورخداسے اس درجہ غافل ہوگئے کہ جیسے اس پرکبھی ایمان ہی نہ تھا۔

عزیزو! میرے پاس تمہارے لئے کوئی نیانسخہ نہیں ہے۔وہی پرانانسخہ ہے جوبرسوں پہلے کاہے۔وہ نسخہ جس کوکائنات انسانی کاسب سے بڑامحسن لایاتھا۔وہ نسخہ ہے قرآن کایہ اعلان کہ ’’لاتھنوولاتھزنواوانتم الاعلون ان کنتم مومنین ‘‘ملک آزادہوا۔مولاناابوالکلام آزادملک کے پہلے وزیرتعلیم بنے۔یونیورسٹی گرانٹ کمیشن جیسے سرکاری ادارے بنائے۔آج سالہاسال سے ملک میں اعلیٰ انجنیئرنگ کالجوں اورتعلیمی اداروں کے پھیلاؤ میں وزیرتعلیم مولاناابوالکلام آزادکے بنائے ہوئے آئی آئی ٹی،اوریوجی سی یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کانمایاں ہاتھ ہے۔آخروہ نازک گھڑی آگئی ہے جس کاسامناہربشرکوکرناہے۔۲۲؍فروری ۱۹۵۶؍کودہلی میں مولاناآزادکاانتقال ہوگیا۔اناللہ واناالیہ راجعون۔ہم ان کے لئے دعائے مغفرت کریں۔جس نے ملت اسلامیہ کونیاولولہ،حیات نیاجوش زندگی عطاکی اب وہ کہاں؟ہاں اگران کے عالمانہ خطبات،مذہبی تحریریں،راہ حیات کیلئے کافی ہیں۔وہ مٹنے کی نہیں۔ہمیشہ صراط مستقیم دکھلائے گی۔وہ سب کچھ ہے۔انشاء اللہ رہے گا۔

***************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 481