donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Syed Monawwar Hussain Shah
Title :
   Ali Shah Mohaddis Puri

 اعلیٰ حضرت ،امیر ملت مجدد دین وملت 
 
پیر سید جماعت علی شاہ محدث پوری
 
 کے مختصر حالات زندگی 
 
پیر سید منور حسین شاہ جماعتی سجادہ نشین آستانہ عالیہ
 
حضرت امیر ملت رحمۃ اللہ علیہ علی پور سیداں شریف
 
برصغیر کے پاک وہند میں دین اسلام کے فروغ او ر مسلمانوں کی معاشرتی اصلاح کا قومی فریضہ انجام دینے والی شخصیات میں حضرت امیر ملت حافظ پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری قدس سرہ کی ذات ستودہ صفات کئی لحاظ سے ممتاز ومنفرد ہے۔ آپ بیک وقت میدان شریعت وطریقت حقیقت و معرفت ادب وسیاست کے شہسوار اور قومی وملی کارنامے انجام دینے میں عدم النظیر تھے۔ ارشاد وتبلیغ کے علاوہ آپ ہندوستان کے سیاسی حالات پر بھی عمیق نظر تھی۔ مسلمانوں کی فلاح وبہبود اور ان کے سماجی سیاسی معاشرتی معاشی قانونی اور مذہبی حقوق کے حصول کے لئے چلائی جانے والی کوئی تحریک بھی ایسی نہ تھی جس میں آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لیا ہو یا ایسی تحریکوں کی سرپرستی اور راہنمائی نہ کی ہو ۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ علماء ومشائخ کے قدسی گروہ نے ہر دور میں حق وصداقت کا ساتھ دے کر ملت اسلامیہ کی راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا۔ اس حق گوئی وبیبا کی پاداش میں کبھی دارواسن کو چومنا پڑا اور کبھی قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں ۔کبھی غیروں نے سدراہ بن کر ان کو ناکام بنانے کی کوشش کی اور کبھی اپنوں ہی نے حسد کی آگ میں جل کر انہیں ذلیل وخوار کرنے کی قسم کھائی مگر قافلہ حق اپنی منزل کی جانب جادہ پیماں رہا اور مخالفین اس کی گردراہ کو بھی نہ پا سکے۔ 
 
حضرت امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ کا تعلق بھی اسی قدسی گروہ سے تھا ۔آپ 1834ء میں علی پور سیداں ضلع سیالکوٹ پنجاب میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد گرامی کا نام حضرت پیر سید کریم شاہ تھا جو خود بھی عارف با اللہ اور ولی کامل تھے۔ انہوں نے اس ہونہار بیٹے کی تعلیم وتربیت کا خاطر خواہ بندوبست کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے سات سال کی عمر میں ہی قرآن پاک حفظ کر لیا۔ بچپن سے ہی آپ کی پیشانی پر نور ولایت ظاہر ہوتا تھا اور مجدانہ بزرگی کے آثار نمایاں تھے۔ آپ نے نامور استاتذہ عصر سے کتب معقول ومنقول ،تفسیر ،فقہ کلام ،میراث ،منطق اور حدیث کی تعلیم حاصل کرکے سند فضلیت حاصل کی۔ حضرت امیر ملت تمام علوم وفنون کے جامع اور تبحر علمی میں یگانہ روز گار تھے۔ خصوصاً حفظ حدیث کا یہ عالم تھا کہ ایک بار آپ نے بطور تحدیث نعمت فرمایا کہ مجھے 10ہزار احادیث بمع اسناد کے یاد ہیں۔ حضرت امیرملت کو ذہن وقاد طبع سلیم اور عقل کامل فطری طور پر عطا ہوئی تھی۔ چنانچہ آپ حفظ میں امام ذہبی اور ضبط میں حافظ ابن حجر عسقلانی کے ہم پلہ تھے۔ آپ نجیب الطرفین سید ہیں ۔آپ کا سلسلہ نسب اڑتیس واسطوں سے حضرت علی المرتضیٰ ؐ تک پہنچتا ہے اور آپ کا شجرہ نسب ایک سو اٹھارہ واسطوں سے حضرت آدم علیہ اسلام تک پہنچتا ہے۔ علوم مظاہری کے بعد آپ فیوض باطنی کی طرف متوجہ ہوئے تو امام کاملین قطب زماں بابا جی فقیر محمد چورا ہی قدس سرہ العزیز کے دست حق پرست پر سلسلہ عالیہ تقشبندیہ میں داخل ہو کر اسی وقت خرقہ خلافت سے نوازے گئے ۔اس پر مریدین نے اعتراض کیا تو حضرت باواجی نے فرمایا کہ جماعت علی تو چراغ بھی ساتھ لایا تھا تیل، بتی اور دیا سلائی بھی اس کے پاس موجود تھی، میں نے تو صرف اس کو روشن کیاہے ۔اس کے بعد آپ نے افغانستان سے راس کماری اور کشمیر سے مدراس اور برما سے ایران تک تبلیغ و اشاعت اسلام کے سلسلہ میں گرانقد ر خدمات سر انجام دیں اور لا تعداد غیر مسلموں کو حلقہ بگوش اسلام کیا۔ حضرت امیر ملت من جانب اللہ مجدد دوراں کے مرتبے پر فائز اور تجدید واحیائے دین کے لئے مامور من اللہ تھے۔ آپ چودہویں صدی کے مصلح اور مجدد تھے۔ آپ نے مسلسل طول وطویل اور دور ودراز مقامات پر پہنچ کر ہر قسم کے مصائب برداشت کر کے اپنی شبانہ روز محنت وریاضت سے دین حق کی تجدید فرمائی اور ارکان وشعائر اسلام کا احیاء فرمایا ۔جب برصغیر میں مسلمانوں میں دین متین کی صحیح روح مفقود ہونے لگی تھی تو آپ نے تجدید دین اور احیائے مذہب کیا ۔برصغیر پاک و ہند میں جا بجا دینی مدارس ،مساجد، سرائیں ، رفاعی ادارے اور علاج معالجے کے لئے ہسپتال تعمیر کرائے1885ء میں لاہور میں انجمن نعمانیہ کی بنیاد رکھی۔
 
توحید خدواندی کے بعد عقیدہ ختم نبوت ہی وہ بنیادی اور مضبوط رشتہ ہے جس نے دنیا بھر کے ایک ارب پچاس کروڑ مسلمانوں کو ایک لڑی میں پرورکھا ہے اور ہر مسلمان نبی کریمؐ سے محبت اور عقیدہ ختم نبوت کو دنیا و آخرت کی نجات اور تمام اعزازات کا سرچشمہ سمجھتا ہے اور جب بھی اس عقیدہ پر زد پڑتی نظر آتی ہے تو پوری دنیا کے مسلمان اس عقیدہ کے تحفظ کے لئے میدان میں اتر آتے ہیں ۔اسی طرح 1900میں انگریز کے خود کا شتہ پودے مرزا غلام احمد قادیانی نے اعلان نبوت کیا تو علمائے کرام اور مشائخ عظام نے مرزا کے رد میں پوری سرگرمی دکھائی ۔مگر اس سلسلہ میں جو کوششیں سنوسئی ہندا میر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری نے کیں ،وہ تاریخ کا ایک سنہری باب ہیں ۔آپ نے اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے تن من دھن کی بازی لگا دی اور ہر میدان میں ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ بار ہار مرزا کو للکارا ،مباہلے اور مناظرے کی دعوت دی مگر وہ ہر بار راہ فرار اختیار کرتا رہا۔ 
 
22مئی 1908کو بادشاہی مسجد میں خطبہ جمعہ میں لاکھوں کے اجتماع میں فر مایا کہ لوگو سن لو: ہم نے مرزا کو بار ہار مباہلے اور مناظرے کی دعوت دی اور بہت انتظار کیا لیکن وہ سامنے نہیں آیا ۔پیشگوئی کرنا میری عادت نہیں لیکن میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ مرزا کا خدائی فیصلہ ہو چکا ہے اور اللہ کریم اگلے چند دنوں میں امت مسلمہ کو اس سے نجات عطا فرمائے گا ۔اس کے بعد 25مئی 1908کو رات تقریباً 11بجے موچی دروازے کے باہر عظیم الشان جلسے کے 
صدارتی خطبہ میں فرمایا کہ مسلمانو سن لو! ہم نے مرزا کو ہر طرح سے دعوت دی لیکن وہ سامنے نہیںآیا ۔خدا کے فضل وکرم سے مرزا کو ہمارے مقابلے میں آنے کی جرات نہیں ہوگی کیونکہ میرا نبی سچا ہے اور میں سچے نبی کا غلام ہوں اور میں آپ کو پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ اس وقت امت مسلمہ جن حالات سے دو چار ہے اور جس فتنہ سے پریشان ہے، اللہ کریم اگلے چوبیس گھنٹوں میں ہمیں اس سے نجات عطا فرمائے گا اور وہ ذلت و رسوائی کی موت مرے گا۔ اس کے کچھ دیر بعد مرزا کو ہیضہ ہوا نصف شب کے بعد مرض نے شدت اختیار کرلی۔ زبان بند ہوگئی ۔منہ کے راستے نجاست نکلتی رہی ۔ اسی حالت میں مرزا اپنے عبرتناک انجام کو پہنچا۔
 
مسلم یونیورسٹی کے قیام کے سلسلہ میں چندہ جمع کرنے کی مہم شروع ہوئی تو لاہور کے ایک عظیم الشان جلسہ کی صدارت فرماتے ہوئے نواب وقار الملک نے اپنی ٹوپی اتار کر آپ کے قدموں میں رکھ دی اور درخواست کی کہ حضرت مسلم یونیورسٹی کا قیام مسلمانوں کی آن کا مسئلہ ہے اور آپ کی امداد کے بغیر یونیورسٹی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا تو آپ ؓ نے فرمایا کہ نواب صاحب آپ وعدہ کریں کہ یونیورسٹی میں دینی و اسلامی تعلیم ،طلباء کے لئے نماز کی پابندی اور نمازوں کی ادائیگی کے لئے یونیورسٹی میں مسجد لازمی ہوگی تو میں ہر طرح کے تعاون کے لئے تیار ہوں ۔نواب صاحب نے اسی وقت وعدہ کیا کہ حضرت آپ کی تمام شرائط ہمیں منظور ہیں تو آپ کی اپیل پر لاکھوں کا فنڈ جمع ہوگیا اور آپ نے خود بھی کئی لاکھ روپے چندہ دیا۔ بعد میں تما م عمر آپ یونیورسٹی کی مدد اور سرپرستی فرماتے رہے۔ 1910ء میں آپ نے حاجیوں کی سہولت اور آمد ورفت کے لئے جدہ سے مدینہ منورہ تک حجاز ریلوے لائن کا منصوبہ پیش کیا تو سلطان عبد الحمید خان خلیفہ وقت نے اس منصوبے کو بہت سراہا ۔حضرت امیر ملت نے اسی وقت اپنی جیب خاص سے چھ لاکھ روپے کی اگر نقد رقم مرحمت فرمائی اور مریدین کو حکم فرمایا۔جنہوں نے لاکھوں کے حساب سے روپیہ جمع کرکے خلیفہ کو پیش کیا، جس سے وہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔ 1914میں علی پور سیداں میں عالی شان سنگ مرر کی مسجد تعمیر کروائی۔
1914میں ہی تحریک ترک موالات چلی تو سب سے پہلے حضرات امیر ملت نے تحریک کی مخالفت کر کے مجاہدانہ کردار ادا کیا ۔اتحاد اسلامی کے احیاء اور مقامات مقدسہ کے تحفظ کی خاطر تحریک خلافت قائم ہوئی تو آپ نے دل وجان سے اس میں حصہ لیا اور دامے درمے قدمے سخنے ہر لحاظ سے اس کی سرپرستی کی۔
 
مارچ 1921میں فیصل آباد (لائل پور) میں خلافت کانفرنس میں تاریخی خطبہ صدارت دیا اور تحریک خلافت میں قائدانہ کردار ادا کیا اور لاکھوں روپے کا چندہ خود بھی پیش کیا اور تمام مریدین کو بھی بھرپور تعاون کے لئے حکم فرمایا۔بیسویں صدی کے تیسرے عشرے کی ابتداء میں ہندوئوں نے مسلمانوں کو مرتد بنانے اور قتل کرنے کے لئے شدھی تحریک کا آغاز کیا اور ہرقسم کے سازو سامان سے لیس ہو کر اپنی مکر وہ مذموم سکیم کو عملی جامعہ پہنانے کے لئے اپنی بھر پور کوششیں شروع کردی اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایسی درسگاہیں اور ٹریننگ سنٹر کھولنے شروع کردئیے جس میں نو عمر ہند وئوں کو اسلام کے خلاف نفرت کا درس دیا جانے لگا ۔اس کے علاوہ ہندوئوں نے جبہ ودستار پوش ملائوں کے ایک گروہ کو طمع ولالچ دے کر اپنی لنگوٹی کا اسیر بنا لیا اور یہ لوگ سوا دا عظم اہلسنت و الجماعت کو کفرو شرک کے فتوئوں سے نوازنے لگے۔ ان کی آڑ میں انہوں نے سرگرمیاں تیز کردیں تاکہ مسلمانوں کا نام ونشان مٹا کر خالص ہند وازم کا معاشرہ تشکیل دیا جاسکے۔
 
ہندوئوں کے اس ناپاک منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے حضرت امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ حضرت مولانا نعیم الدین مراد آبادی مبلغ اسلام شاہ عبدالعلیم صدیقی ،مصطفی رضا خان ،تاج العلماء مفتی محمد عمر نعیمی ،مولانا نثار احمد کانپوری ،مولانا سید غلام قطب الدین ،مولانا غلام محمدبھیک نیرنگ قدس اسرار ہم اور ان کے متبعین نے اس سلسلہ میں عدیم النظیر کا رنامے سر انجام دیئے۔ ان حضرات نے اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے اپنے آپ کو بڑی آزمائشوں میں ڈالا اور حضرت امیر ملت اور آپ کی انجمن خدام الصوفیہ نے جو تاریخ ساز کردار ادا کیا وہ عدیم النظیر ہے۔ آپ نے اس فتنہ کو کچلنے کے لئے طوفانی دورے کئے سینکڑوں مبلغین میدان ارتدار میں بھیجے ،ہزاروں مدرسے قائم کئے۔ اپنی جیب خاص سے لاکھوں روپے صرف کر کے اسلام اور قوم کی لاج رکھ لی لیکن ہندو اپنی سرشت سے مجبور ہو کرآئے دن نت نئی سکیمیں بنتا رہتا تاکہ برصغیر سے مسلمانوں کو ختم کر دیا جائے ۔ان حالات میں حضرت مولانا نعیم الدین مراد آبادی نے یہ نظریہ قائم کیا کہ اگر ہم نے منظم ہوکر جدوجہد نہ کی تو اگلے چند سال بعد ہندوئوں کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ چنانچہ انہوںنے برصغیر کے ہر ایک سنی عالم کو جھنجھوڑا اور آنے والے مہیب خطرات سے آگاہ کیا۔ حضرت امیر ملت خود بڑی متحرک فعال اور حساس طبعیت کے مالک تھے اور سودا اعظم کی فعال تنظیم کے لئے عرصہ سے بے چین تھے تو آپ نے اس سلسلہ میں اپنی تما م تر کوششیں صرف کردیں اور آپ کی تائید وحمایت اور سرپرستی میں 19-18-17مارچ 1925کو مراد آباد میں پہلی آل انڈیا سنی کانفرنس بڑی شان و شوکت سے منعقد ہوئی جس کی صدارت آپ نے فرمائی ۔اس عظیم الشان اور فقید المشال اجتماع کو کامیاب و کامران بنانے کے لئے برصغیر کے کونے کونے سے حضرات علماء و مشائخ جلوہ گر ہوئے اور بڑے غورو خوض اور فکر و تدبر کے بعد ’’ آل انڈیا سنی تنظیم ،، کی داغ بیل ڈالی گئی اور اتفاق رائے سے حضرت امیر ملت اس کے صدر چنے گئے ۔ حضرت امیر ملت نے اپنے خطبہ صدارت میں ارشاد فرمایا کہ’’اس میں کوئی کلام نہیں کہ جو برداشت ہمارے مذہب میں ہے وہ کسی اور مذہب میں نہیں ہے مگر یہ یاد رہے کہ ہم کسی شعائر اسلام کو ترک کرنے کے لئے کسی حال میں بھی تیار نہیں ہوں گے۔ وہ اتفاق وہ صلح جس سے ہمارا ایمان اسلام اور اعتقاد جاتا رہے ہم کسی طر ح بھی ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ہندوقوم ہماری سالہا سال کی آزمائی ہوئی ہے۔ ان سے یہ توقع رکھنی کہ وہ ہمارے ساتھ دوستی رکھے گی، ہمارے ساتھ اتحاد یگانگت کرے گی باالکل فضول اور لا حاصل ہے۔ ہمارا اولین فرض ہونا چاہیے کہ ہم ہر جائز طریقے سے اپنی حفاظت اور غیروں سے بچائو اور مدافعت کی کوششیں کریں۔ آپ نے تین گھنٹہ کا طویل خطبہ ارشاد فرمایا ۔1930اپریل میں سارداایکٹ جو کہ ایک غیر اسلامی قانون اور مداخلت فی الدین تھا آپ نے انگریزکے اس قانون کی بھرپور مخالفت کی اور اس کو توڑا لہٰذا یہ قانون نافذ ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگیا ۔1931میں کشمیر ایجی ٹیشن میں قائدانہ و مجاہدانہ کردار ادا کیا اور ہر جگہ سرپرستی فرمائی ۔1935میں راولپنڈی میں اکابرین ملت اسلامیہ مسجد شہید گنج کے سلسلہ میں جمع ہوئے تو تمام اکابرین نے مسلمانان برصغیر کی قیادت کے لئے آپ کو امیر ملت منتخب کیا تو سب سے پہلے علامہ عنایت اللہ مشرقی ،مولانا محمد اسحاق مانسہروی و دیگر اکابرین نے بیعت امارت کی تو آپ نے اعلان فرمایا کہ مجھے ایک لاکھ سر فروش نوجوان چاہیں تو چند ہی دنوں میں اس سے کئی گناہ زیادہ تعداد میں نام جمع ہوگئے اس کے بعد بادشاہی مسجد لاہور میں ’’شہید گنج کانفرنس ،،منعقد کی اس کے بعد ننگی تلواروں کے لاکھوں کے جلوس کی قیادت فرماتے ہوئے اس مقام پر پہنچے تو اپنے خطاب میں آپ نے فرمایا لوگو سن لوکہ انگریز جو آج مسجد کے لئے تھوڑی سی جگہ دینے کے لئے تیار نہیں ایک وقت آئے گا کہ وہ پورا ملک مساجد بنانے کے لئے دے گا۔1935میں بدایوں میں آل انڈیا سنی کانفرنس منعقد کرکے ملت اسلامیہ کی قیادت وراہنمائی کا حق ادا کر دیا۔یہ کانفرنس بھی تین دن تک جاری رہی اور اس کی صدارت بھی آپ نے فرمائی ۔
 
1906میں جب ڈھاگہ میں سرکردہ مسلمان لیڈر نواب سلیم اللہ خان کے ہاں سرجوڑ کر بیٹھے اور مسلمانوں کے حقوق کے لئے آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے ایک سیاسی تنظیم کے قیام کا اعلان کیا تو حضرت امیر ملت نے اسی وقت سے تائیدو حمایت اور سرپرستی فرمانا شروع کر دی لیکن جب 1936میں قائداعظم محمد علی جناح نے برطانیہ سے واپسی پر مسلم لیگ کی تنظیم نو کی اور ہندو مسلم دو جداگانہ قوموں کی آواز بلند کی تو برصغیر میں سب سے پہلے قائد اعظم نے حضرت امیر ملت کے پاس لاہور میں حاضری دی تو آپ نے قائداعظم کو اپنے مکمل اور بھرپور تعاون کا یقین دلایا ۔اس کے بعد آپ نے ہر طرح سے مسلم لیگ کی سرپرستی فرمائی اور لاکھوں روپے خود اپنی جیب خاص سے بھی چندہ مرحمت فرمایا اور تمام مریدین کو بھی حکم فرمایا کہ وہ دامے درمے قدمے سخنے مسلم لیگ کے ساتھ تعاون کریں اور آپ نے قائداعظم کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا آپ نے حیدر آباد دکن سے اپنے معتقد نواب بہادر یار جنگ کے ذریعے قائداعظم کے نام ایک ہمدردانہ اور ہمت افزا پر خلوص خط مع تبرکات بمبئی روانہ فرمائے۔ اس میں آپ نے تحریر فرمایا کہ’’پوری قوم نے بالاتفاق مجھے امیر ملت مقرر کیا ہے اور پاکستان کے لئے جو کوششیں آپ کر رہے ہیں وہ میرا کام تھا لیکن میں سوسال کے قریب عمر کا ضعیف و نا تواں ہوں یہ میرا بوجھ آپ پر آن پڑا ہے میں ہر لحاظ سے آپ کی مدد کرنا اپنا فرض تصور کرتا ہوں اس لئے میں اور میرے متوسلین آپ کے معاون ومددگار رہیں گے۔ آپ مطمئن رہیں۔‘‘ 
 
 
1939 ء میں جب کا نگریس کے سیاسی مقابلے میں مسلم لیگ کو فتح ہوئی اور کانگریس وزارت سے مستعفی ہوگئی تو حضرت قائداعظم نے جمعتہ المبارک 22ستمبر 1939کو’’یوم نجات قرار دے کر اسلامیان ہند سے بعد نماز جمعہ بارگاہ عزوجل میں شکرانہ کے نفل ادا کرنے کے بعد اپنے مخصوص اور دلپذیر انداز میں ہزاروں کے اجتماع سے خطاب فرماتے ہوئے یوم نجات کی اہمیت بیان کی اور ارشاد فرمایا کہ’’مسلمانو! دو جھنڈے ہیں ایک اسلام کا دوسرا کفر کا تم کس جھنڈے کے نیچے کھڑے ہوگے۔’’ اسلام کے یا کفر کے‘‘  حاضرین نے باآواز بلند جواب دیا ۔اسلام کے جھنڈے پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ جو کفر کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہوا تو کیا تم اس کے جنازے کی نماز پڑھو گے ؟ حاضرین نے بالاتفاق کہا نہیں ہرگز نہیں۔ اُسکے بعد آپ نے فرمایا کہ اس وقت اسلامی جھنڈا مسلم لیگ کا ہے ہم بھی مسلم لیگ کے ساتھ ہیں اور سب مسلمانوں کو مسلم لیگ میں شامل ہو جانا چاہیے۔‘‘ اس زمانے میں گو عام مسلمانوں کا سیاسی شعور بیدار ہو چکا تھا اور مسلمان اپنے دوست دشمن میں تمیزکرنے لگے تھے تاہم کثیر تعداد مسلمان ہنوز مسلم لیگ سے برگزشتہ تھے اور قائداعظم کو اجنبی سمجھتے تھے لیکن آپ نے ملک کے طول وعرض کے دورے کرکے قائداعظم اور مسلم لیگ کی راہ ہموار کی ۔تو آپ کے لکھوکھا مریدین متوسلین نے خود بھی مسلم لیگ میں شمولیت کی اور دیگر مسلمانوں کو بھی مسلم لیگ کے پرچم تلے لاکھڑا کیا ۔1940میں جب قائداعظم علیحدہ قومیت کی بنا پر جداگانہ حکومت کا نظریہ منوانے میں کامیاب ہوگئے تو آپ نے 23مارچ 1940کو قرار داد پاکستان کے موقع پر قائداعظم کو اپنی مکمل تائید و حمایت کا یقین دلاتے ہوئے تارتحریر فرمایا تار کا مضمون یہ تھا ’’فقیر مع 9کرو ڑ جمیع اہل اسلامیان ہند د ل و جان سے آپ کے ساتھ ہے اور آپ کی کامیابی پر آپ کو مبارک مباد دیتے ہوئے آپ کی ترقی مدارج اور کامیابی کے لئے دعا کرتا ہے ‘‘ ۔
23مارچ 1940کو لاہور میں قرار داد پاکستان کے سلسلے میں علمائے اہل سنت نے حضرت امیر ملت کی قیادت وسر پرستی میں مسلم لیگ اورقائداعظم کی تائید وحمایت میں بھرپور سرگرمی دکھائی جب کہ جمعیت علمائے ہند مجلس احرار خاکسار تحریک و دیگر جماعتوں اور تنظیمات نے پاکستان کی مخالفت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا کچھ تنظیمات کے صدرو علماء قائد اعظم کو کافر ابوجہل اور مسلم لیگ کافروں کی جماعت کے خطاب سے بھی نواز رہے تھے تو کچھ قائدین وعلماء مسلم لیگ کی قیادت کو غیر اسلامی قرار دینے میں اپنی تمام تر کوششیں صرف کر رہے تھے تو ایسے حالات میں پورے برصغیر میں حضرت امیر ملت اور ان کے ساتھی علمائے اہلسنت ہی تھے جنہوں نے قائداعظم کو اپنی مکمل تائید و حمایت کا یقین دلاتے ہوئے تحریک پاکستان میں تن من دھن کی بازی لگا دی ۔اسی موقع پر یعنی 23مارچ 1940کو قرار داد پاکستان کے سلسلہ میں آپ نے ایک بیان جاری فرمایا کہ مسلمانو ! مسلم لیگ ہی ایک اسلامی جماعت ہے اس لئے سب مسلمانوں کو چاہیے کہ اس میں شامل ہو جائیں ۔اگر اس میں شامل ہوجائیں۔ اگر اس میں شامل نہ ہوں گے تو کون سی ایسی جماعت ہے جو مسلمانوں کی ہمدرد ہو سکتی ہے ۔کانگریس سے اس بات کی توقع رکھنا کہ مسلمانوں کی حمایت کرے گی فضول ہے۔‘‘ 
 
26جولائی 1943کو جب قائداعظم پر قاتلانہ حملہ ہوا تو آپ ان دنوں حیدر آباد دکن میں تشریف فرما تھے تو اسی رات 10بجے لسان الامت قائد ملت حضرت الحاج نواب بہادر یار جنگ( ف1944)صدر آل انڈیا اسٹیٹس مسلم لیگ وصدر مجلس اتحاد المسلمین حیدر آباد دکن نے عجیب پریشانی کے عالم میں آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر یہ روح فرسا خبر سنائی تو آپ کو اس خبر سے بہت رنج ہوا اور آپ نے فوراً روبہ قبلہ ہوکر قائداعظم کی صحت وسلامتی اور درازی عمر وکامیابی مقاصد کے لئے دعا مانگی اور دوسرے ہی دن قائداعظم کے مکتوب تحریر فرمایا اور نواب صاحب جب دوبارہ حاضر ہوئے تو پڑھ کرسنایا اور نواب صاحب کی تجویز پر اس کا انگریزی ترجمہ کرا کر کچھ تحائف جس میں ایک قرآن مجید کا قلمی نسخہ مخملی جانماز ایک تسبیح ایک یمنی شال اور دیگر اشیاء بذریعہ حضرت بخشی مصطفیٰ علی خان ف(1974)خلیفہ(امیر ملت) حضرت قائداعظم کو روانہ فرمائیں ۔حضرت نے اپنے مکتوب گرامی میں سلام و دعا کے بعد تحریر فرمایا ’’ پوری قوم نے مجھے امیر ملت مقرر کیا ہے اور پاکستان کے لئے جو کوششیں آپ کر رہے ہیں وہ میرا کام تھا ۔اب میرا بوجھ آپ پر آن پڑھا ہے آپ کی ہر طرح کی امداد میں اپنا فرض سمجھتا ہوں ۔آپ مطمئن رہیں نمرود کی دشمنی حضر ت ابراہیم علیہ السلام کے دین فرعون کی دشمنی حضرت موسی علیہ السلام کے دین اور ابوجہل کی دشمنی ہمارے نبی اکرمؐ کے دین کی ترقی کا باعث ہوئی۔ اب یہ حملہ جو آپ پر ہوا ہے یہ آپ کی کامیابی کے لئے نیک فال ہے۔ میں آپ کو مبارک باد دیتا ہوں کہ آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہوں گے ۔جس شخص کو اللہ کامیاب فرمانا چاہتاہے اس کے دشمن پیدا کردیتا ہے۔‘‘
1944میں ہی حضرت امیرملت نے سرینگر نشاط باغ میںقائداعظم کی دعوت کی۔ یہ دعوت فرشی تھی۔ قائداعظم نے حضرت کے ساتھ نیچے بیٹھ کر کھانا کھایا جس میں 46قسم کے مختلف کھانے تیار کرائے گئے جس سے قائداعظم بہت محفوظ ہوئے۔ حضرت امیر ملت کے خادم اور خلیفہ عظیم کشمیری لیڈر چوہدری غلام عباس بھی قائداعظم کے ہمراہ تھے ۔آپ نے قائداعظم کو دو چھوٹے چھوٹے جھنڈے عطا فرمائے اور فرمایا کہ آج کے بعد جہاں بھی جائیں اپنے خطاب کے بعد لوگوں کو مخاطب کرکے پوچھیں کہ دو جھنڈے ہیں ایک اسلام کا ہے ار دوسرا کفر کا۔ اسلام کا جھنڈا مسلم لیگ کا جو سبز ہے اور کفر جھنڈا کانگرس کا ہے جو سیاہ ہے ۔ تم کس جھنڈے کے نیچے آنا چاہتے ہو ۔لوگ کہیں گے اسلام کے جھنڈے کے نیچے تو آپ کہنا کہ وہ ہمارے پاس ہے ۔ 
 
پھر آپ نے قائداعظم کو کامیابی کی پیشگوئی فرمائی اور ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کرائی آپ کی پیشگوئی پر کامل یقین کرتے ہوئے قائداعظم نے لاہور کے ایک عظیم الشان جلسہ  2نومبر 1945میںاعلان فرمایا کہ’’میرا ایمان ہے کہ پاکستان ضرور بنے گا کیونکہ امیر ملت مجھ سے فرما چکے ہیں ۔‘‘
1944ء میں ہی جب کانگرسی علماء نے پاکستان کی مخالفت میں سر دھڑ کی بازی لگا رکھی تھی تو حضرت امیر ملت نے قیام پاکستان کی حمایت میں اطراف و اکناف ملک کے دورے کئے اور قائداعظم کے حق میں فضا ساز گار بنائی اور قد آدم اشتہارات کے ذریعے مسلم لیگ کی مکمل اور بھرپور حمایت کا اعلان فرمایا اور قوم کو نعرہ دیا ’’ کہ مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ ‘‘ آپ کی جامع اور مدلل تقار یرسن کرلوگ کانگریس سے الگ ہوکر مسلم لیگ میں شامل ہوتے جاتے۔ 1945میں جمعیت علمائے ہند مجلس احرار اور دیگر جماعتوں نے قائداعظم پر گھٹیا ر کیک اور گھنائو نے حملے شروع کر دیئے تو آپ نے فرمایا کہ کوئی قائداعظم کا مذہب پوچھتا ہے کوئی جناح کو کافر کہتا ہے کوئی ابوجہل اور کوئی ملعون ٹھراتا ہے اور کوئی مرتد بناتا ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ وہ اللہ کا ولی ہے اور ایک وقت آئے گا کہ تم اس کو رحمتہ اللہ علیہ کہنے پر مجبور ہوگے۔ 
 
30اکتوبر 1945ء کے روز نامہ وحدت ‘‘ دہلی میں حضرت امیر ملت کابیان شائع ہوا ۔آپ نے فرمایا ہندوستان بھر میں صرف مسلم لیگ ہی ایک ایسی جماعت ہے جو بجا طور پر مسلمانان ہند کے حقوق کی حفاظت اور پاسبانی کر رہی ہے ۔اس لئے مسلم لیگ کی ہر ممکن امداد کرکے اس کو کامیاب بنانا ہر مسلمان کا فرض اولین ہے اور جو قائداعظم اور مسلم لیگ کی مخالفت کر رہے ہیں وہ دشمنان اسلام ہیں اس لئے اہل اسلام کے لئے لازم ہے وہ مخالفین پاکستان کے حق میں ووٹ نہیں دیں گے کسی مسلمان کا اُس سے کوئی تعلق نہ ہوگا، کوئی مسلمان اس کا جنازہ نہیں پڑھے گا اور نہ ہی اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہونے دیا جائے گا ۔اس فتوے کو دیگر اخبارات نے مختلف زبانوں میں شائع کیا ۔اشتہارات کی شکل میں چھپ کر ملک کے کونے کونے میں پہنچ گیا اور ہر مسلمان کے دل کی دھڑکن بن گیا۔
 
 نومبر 1945ء کے آخرمیں مسلم لیگی امیدواروں کی حمایت میں امیر ملت کا ایک اور بیان شائع ہوا جس میں حضرت نے فرمایا ’’ دس کروڑ مسلمانان ہند نے فقیر کو امیر ملت تسلیم کرلیا ہے۔ مسلمانوں کو اپنے امیر کی راہنمائی پر عمل کرنا نص قطعی سے واجب ہے۔ امیر کا فرمانبردار خدا اور رسول کا فرمانبردار ہے ۔امیر کا نافرمان خدا اور رسول کا نافرمان ہے۔ میں بحیثیت امیر ملت قائداعظم کی اس اپیل کی پر زور تائید کرتا ہوں کہ ہرمسلمان مسلم لیگ کے امیدوار کو ووٹ دے کر کامیاب کریںاور حیثیت سے زیادہ چندہ بھی دے‘‘ 
 
اس کے بعد دسمبر 1944ء میں آپ نے پورے ملک کے علماء و مشائخ کو جمع کیا اور پاکستان کی فضا ساز گار بنانے کے لئے کہا تو برصغیر کے نامور صوفیائے کرام مشائخ عظام و علمائے کرام نے مسلم لیگ کی تائید و حمایت میں ایک مشترکہ اعلان جاری فرمایا جس میں انہوں نے اپنے مریدین متعلقین و متوسلین کے علاوہ تمام مسلمانوں کو ہدایت اور تاکید کی کہ وہ مسلم لیگ کی حمایت کریں ۔اس موقع پر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جو مسلم لیگ میں شامل نہ ہو اور مر جائے تو ان کے مریدین ایسے شخص کا جنازہ بھی نہ پڑھیں اور اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن بھی نہ ہونے دیں۔2نومبر 1945کو ایم او کالج کے ایک عظیم الشان جلسہ میں قائد اعظم نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ پاکستان بن چکا ہے کیونکہ امیر ملت نے مجھے فرما دیا ہے۔ 
 
10مئی 1945کو ایک وفد محدث کچھو چھوی کی قیادت میں علی پور سیداں امیر ملت کے پاس حاضر ہوا اور حضرت امیر ملت سے تیسری آل انڈیا بنارس سنی کانفرنس کی اجازت حاصل کی۔ کانفرنس کی بہت سی وجوہات تھیں جن کی تفصیل الگ ہے۔ یہاں یہ بنارس گاندھی کا شہر تھا اور اس کا خیال تھا کہ چند مسلمان مل کر ویسے ہی شور مچا رہے ہیں یہ کیا کرسکتے ہیں۔ دوسرا جمعیت علمائے ہند مجلس احرار خاکسار تحریک و دیگر جماعتیں اور تنظیمات بھرپور مخالفت کر رہی تھیں تو ایسے حالات میں علماء مشائخ و عوام اہلسنت کے اعتماد کو بحال کرنے کے لئے ایک ایسے اجتماع کی ضرورت تھی تو ان حالات میں آل انڈیا بنارس سنی کانفرنس نے تحریک پاکستان کی منزل واضح کر دی ۔ یہ کانفرنس کئی دن جاری رہی ۔ حضرت امیر ملت صدر تھے اور مولانا نعیم الدین مراد آبادی جنرل سیکرٹری ۔کانگرسی علماء نے ہنگامہ کر کے کانفرنس کو سبو تاژکرنے کا عہد کر کھا تھا چنانچہ حسب توقع جلسہ کو درہم برہم کرنے کے لئے شوروغوغا کیا گیا ۔قائداعظم پر کفر کے فتوے لگائے گئے ۔اشتہار تقسیم کئے گئے ۔حضرت امیر ملت کو 100سال سے زیادہ کی عمرمیںضعیف و ناتوانی اور نقاہت کے باوجود جب جلسہ گاہ میںلایا جا رہا تھا تو آپ کو ان باتوں کی خبر ہوگئی تو آپ نے کرسی صدارت پر تشریف فرما ہوتے ہی ارشاد فرمایا کہ حکومت کانگرس اور مخالفین پاکستان کان کھول کر سن لیں کہ اللہ رب العزت کی بارگاہ سے پاکستان کی منظوری ہوچکی ہے اور پاکستان ضرور بن کر رہے گا ۔اب مسلم لیگ یا قائداعظم مطالبہ پاکستان سے دستبردار بھی ہوتے ہیںتو ہم پھر بھی پاکستان بنا کر رہیں گے اور قائداعظم کا مذہب اور عقیدہ پوچھنے والوں کو میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ تم اسے کافر کہتے ہو میں اسے اللہ کا ولی کہتا ہوں۔ پھر قرآن کریم کی آیات پیش  فرمائیں (وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے خدا ان کی محبت مخلوق کے دلوںمیں پیدا کر دے گا ۔اس کے بعد مجمع میں ایک ولولہ جذبہ اور جوش و خروش پیدا ہو گیا اور فضاء نعرہ تکبیر و رسالت سے گونج اٹھی ۔’’امیر ملت زندہ باد مسلم لیگ زندہ باد‘‘  ’’پاکستان زندہ باد ‘‘  کے فلک شگاف نعروں کے آگے فریق مخالف کو راہ فرار اختیار کرنا پڑی۔ اس کانفرنس میں پانچ ہزار سے زائد علماء ومشائخ اور لاکھوں کا عوامی اجتماع تھا۔ امیر ملت جلوت پسند تھے ان کی زندگی حرکی تھی سکونی نہ تھی ۔آپ کی حیات مبارکہ مذہبی ملی دینی بلکہ سیاسی خدمات سے عبارت ہے۔     آپ نے پاک و ہند میں مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک کا سفر کیا اور خوابیدہ قوم کو بیدار کیا۔ فتنہ ارتداد،شدھی تحریک ،تحریک ہجرت ،تحریک آزادی کشمیر ،تحریک علی گڑھ یونیورسٹی ،تحریک مسجد شہید گنج ،تحریک سارداایکٹ ، تحریک خلافت ، تحریک ختم نبوت غرضیکہ برصغیر کی تمام مسلم مفاد تحریکوں میں مجاہدانہ اور قائدانہ کردار ادا کیا اور تحریک پاکستان میں آپ کا کردار تاریخ کا ایک سنہری باب ہے اور نوجوان نسل کیلئے مشعل راہ ہے ۔ ابھی حال ہی میں ڈاکٹر محمد زاہدنے امیر ملت اور تحریک پاکستان پر Phdکی ہے۔ 
 
عشق رسول سے آپ ہمہ وقت سر شار رہتے ۔حضور نبی کریم ؐ کا نام سنتے ہی آپ کی آنکھیں پر نم ہو جاتی تھیں۔ 72سے زائد مرتبہ آپ حج و عمرہ و زیارات روضہ رسول ؐ  سے بہرہ مند ہوئے ۔سخاوت کا یہ عالم تھا کہ اہل عرب آپ کو ابو العرب کہتے تھے ۔اس دور  کے اکابر علماء فضلاء مشائخ اور دانشور آپ کا بے حد احترام کرتے تھے جن میں ڈاکٹر محمد اقبال ،قائداعظم محمد علی جناح ،مولانا نعیم الدین مراد آباد ی ،محدث کچھو چھوی، مولانا عبدالحامد  بدایوانی ،علامہ عنایت اللہ مشرقی ،مولانا محمد اسحاق مانسہروی وغیرہ شامل ہیں۔  الغرض آپ نے اپنی زندگی دین اسلام کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ کوئی بھی اسلامی اور ملی تحریک ایسی نہ تھی جس کو آپ نے چار چاند نہ لگائے ہوں۔ ہزار ہا غیر مسلموں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور لکھوکھا مخلوقات کو آپ کے توسل سے راہ ہدایت نصیب ہوئی۔ اللہ تعالی نے آپ کو دنیاوی دولت و حشمت سے اتنا نوازا تھا کہ آپ کے ہاں ہر وقت ہزاروں آدمی کھانا کھایا کرتے۔ آخر کار ولایت آسمانی کے یہ نیر اعظم 26-27ذیعقد 1370ھ  بمطابق 30-31اگست 1951ء بروز جمعرات و جمعہ کی درمیانی شب رات 11بجے آپ نے اس دار فانی سے سفر فرما کر بقائے دوام حاصل کیا ۔ آپ کا روضہ مطہرہ علی پور سیداں شریف ضلع ناروال میں واقع ہے جو کہ عوام و خواض کا مرجع ہے۔ حضرت امیر ملت نے اپنے پیچھے نیک و صالح متقی پرہیز گار اور علم و عمل کا حسین امتزاج اولاد چھوڑی ہے جس کی آج نظیر نہیں ملتی  با الخصوص جانشین امیر ملت پیر سید منور حسین جماعتی آپ کے مشن کو لے کر شب و روز مصروف عمل ہیں اور پاکستان کے علاوہ برطانیہ  ویورپ میں دینی ،مذہبی ،علمی و تبلیغی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔جس میںبرمنگھم برطانیہ میں امیر ملت سنٹر کے نام سے عظیم الشان مسجد و مدرسہ و مسلم کمیونٹی سنٹر کے علاوہ اسلامک ٹی وی یونٹی چینل کے علاوہ پاکستان لاہور اور اسلام آباد میں امیرملت اسلامک یونیورسٹی کے لئے قطعہ اراضی کا حصول بہت بڑا کارنامہ ہے۔ حضرت امیر ملت پیرسید جماعت علی شاہ صاحب کا سالانہ عرس مبارک ہر سال 10، 11مئی کو ہوتا ہے مگر اس سال الیکشن کی وجہ سے13، 14مئی کو آستانہ عالیہ علی پور سیداں شریف ضلع ناروال میں منعقد ہو رہا ہے ۔
 
******************
Comments


Login

You are Visitor Number : 1018