donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Zeya Faruqi,Bhopal
Title :
   Nawab Sultan Jahan Begum Safar Nama Haj- Masael Ka Doosra Rukh

نواب سلطان جہاں بیگم  سفرنامہ حج ۔ مسائل کا دوسرا
 
رُخ
 
ضیا  فاروقی  ، بھوپال
 
ریاست بھوپال کی خواتین حکمرانوں میں نواب سلطان جہاں بیگم کا دور حکومت کئی معنوں میں اہمیت کا حامل ہے۔ انھوں نے ۱۹۰۱ئ؁ میں اپنی والدہ نواب شاہجہاں بیگم کے انتقال کے بعد ریاست کی باگ ڈور سنبھالی اور ۱۹۲۶ئ؁ میں اپنے چھوٹے صاحبزادے نواب حمیداللہ خاں کے حق میں برضا ورغبت خود حکومت سے دستبردار ہوگئیں۔ اپنے چھبیس سالہ دور حکومت میں انھوں نے ملکی اور عالمی سطح پر تغیر و تبدل کے بہت سے مناظر دیکھے۔ خود ہندوستان میں جہاں ایک طرف صنعتی ، تعلیمی اور سیاسی افکار و نظریات نے عوام کے ذہنوں کو بیدار کرنا شروع کردیا تھا وہیں حکومت برطانیہ کا شکنجہ بھی عوام اور دیسی ریاستوں پر پوری طرح کسا ہوا تھا۔ یہ والیان ریاست اپنے اپنے علاقوں میں انتظامی سطح پر خودمختار ہوتے ہوئے بھی انگریزوں کی اجازت کے بغیر اپنی ذات کے حوالے سے بھی کوئی فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں تھے۔ اس کا ایک اندازہ ہمیں نواب سلطان جہاں بیگم کے سفرنامہ حج ’’روضۃ الریاحین‘‘ سے بھی ہوتا ہے کہ اس سفر کے لئے انھیں نہ صرف وائسرائے ہند سے اجازت لینا پڑی بلکہ سفر اور ریاست کے دوسرے معاملات کی پوری تفصیل سے بھی حکومت کو آگاہ کرنا پڑا۔ یہ سفرنامہ جو دو حصوں میں منقسم ہے آٹھ جمادی الثانی ۱۳۲۲؁ھ کو مکمل ہوا۔ پہلا حصہ جو ایک سو بیالیس صفحات پر مشتمل ہے ،خانہ کعبہ کی تاریخ، حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور حضرت اسماعیل ذبیح اللہ کے حالات اور عرب کی ماقبل اسلام کی تاریخ پر مبنی ہے جبکہ دوسرا حصہ میں سفر پر روانگی سے قبل کے انتظامات سے لیکر حج بیت اللہ سے واپسی تک کے حالات درج ہیں۔
 
بیگم سلطان جہاں کا یہ سفرمبارک نومبر ۱۹۰۳ئ؁ کو اپنے رہائشی محل صدرمنزل سے شروع ہوتا ہے۔ سفر سے پہلے وہ وائسرائے ہند کو ۳؍ مارچ ۱۹۰۲ئ؁ کو خط لکھ کر حج بیت اللہ پر جانے کی اجازت طلب کرتی ہیں مگر ان کی درخواست یہ کہہ کر مسترد کردی جاتی ہے کہ ’’دربار تاج پوشی دہلی کے بعد تہیہ سفر حج مناسب ہوگا‘‘۔ چنانچہ یک جنوری ۱۹۰۳؁ء کے جشن تاج پوشی کے بعد انھوں نے پھردرخواست بھیج کر پانچ ماہ کی رخصت طلب کی، ساتھ ہی ان تمام مراعات کی طلبگار ہوئیں جو ماضی میں بیگمات بھوپال کے سفر حج کے موقع پر انگریزی حکومت کی جانب سے مہیاکی گئی تھیں۔ یہ درخواست منظور ہوئی۔ بیگم صاحبہ نے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے اپنے چند خاص ملازمین کو جن میں مولوی ذوالفقار احمد نقوی، مولوی عنایت اللہ، مولوی اعظم حسین، محمدشکری آفندی وغیرہ تھے شرفاء حجاز کے لئے تحفہ تحائف اور ایک ایک ہزار روپیہ زرنقد کا نذرانہ دیکر حجاز روانہ کردیا تھا تاکہ مکہ ، مدینہ اور دوسرے مقدس مقامات پر ان کے قیام و طعام کا انتظام بہتر طور پر ہوسکے۔ اس کے علاوہ نواب سلطان جہاں بیگم نے ایک تفصیلی دستورالعمل تیار کرکے ریاست بھوپال کا انتظام و انصرام جزوقتی طور پر اپنے بڑے بیٹے نواب نصراللہ خاں کے سپرد کردیا۔ تقریباً چودہ صفحات پر محیط اس دستورالعمل کی دو درجن دفعات اور ذیلی دفعات میں شرح و بسیط کے ساتھ ہرشعبہ ہائے ریاست کے متعلق واضح احکامات درج ہیں۔ ان دفعات اور اور ذیلی دفعات کو پڑھ کر نواب سلطان جہاں بیگم کی سیاسی بصیرت، ان کی انتظامی صلاحیت اور ان کی دوربینی اور دوراندیشی کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ اپنے بڑے بیٹے نواب نصراللہ خاں کے سپرد انتظام ریاست سپرد کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
 
ہرمتنفس پر یہ اطمینان کرنے میں تامل تھا کہ میری طرح رعایا کے ساتھ ہمدردی اور ریاست کے معاملات میں دلسوزی کریگا۔ بہت غور کے بعد اپنے منجھلے صاحبزادے حافظ عبیداللہ خاں بہادر کو ہمراہی سفر کے واسطے تجویز کیا اور ان کے بڑے بھائی نواب نصراللہ خاں بہادر کو انصرام کاروبار ریاست کے واسطے بھوپال میں چھوڑا اور ان کے اختیار کی توضیح اور عملدرآمد کی رہنمائی کے لئے ایک دستورالعمل مرتب کردیا‘‘۔
 
اس دستورالعمل کے تحت نواب محمدنصراللہ خاں اور ارکان حکومت کو جو ہدایات دی گئی ہیں ان کا لب لباب یہ ہے کہ محکمہ جات ریاست سے جس طرح اب تک تحریری اطلاعات جو بیگم صاحبہ کے دفترانشا میں آتی رہی ہیں ، وہ بدستور آتی رہیں گی اور ان پر حسب معمول احکام سرشتہ اور مقدمات دیوانی و فوجداری کے مطابق عملدرآمد و منشا قوانین مجاریہ کے ہوں، وہ نواب نصراللہ کے دستخط سے جاری ہوں گے۔جو احکامات ملازمین کی ترقی، تنزلی، تعطلی و تبدیلی کے سلسلے میں بحالت ضروری اور فوری ہوں وہ نواب نصراللہ خاں کے دستخط سے جاری کئے جاسکتے ہیں مگر ایسے سارے احکامات عارضی ہوں گے اور واپسی پر بیگم صاحبہ کے دستخط اور حکم سے مستقل مانے جائیں گے اور بواپسی حج ان کی غیرموجودگی میں کئے گئے سارے احکامات کا ایک مکمل اور مفصل نقشہ بیگم صاحبہ کے ملاحظہ کے لئے پیش کیا جائے گا۔ سالانہ پینشن اور وظائف میں کوئی تقرر یا جدید اضافہ اس درمیان میں نہ کیا جائے ۔ نواب سلطان جہاں نے ریاست کے اخراجات کے سلسلے میں بھی واضح احکام جاری کئے تھے جس کے تحت ان کی غیرحاضری میں نواب نصراللہ خاں اشد ضرورت کے تحت دوہزار روپیہ مہینہ اور ان کے ماتحت افسران پانچ سو روپیہ تک خرچ کرسکتے ہیں۔ساتھ ہی یہ حکم بھی تھا کہ اس درمیان کسی ملکی شخصیت کو سرکاری مہمان نہ بنایا جائے الّا برٹش حکومت اگر کسی کی سفارش کرتی ہے تو وہ اس حکم سے مستثنیٰ رہے گا ۔ 
 
سفر حج پر روانگی سے پہلے انھوں نے یہ فرمان بھی جاری کیا تھا کہ ریاست بھوپال سے تمام احکامات اور کاروبار ریاست کے متعلق تفصیلی رپورٹ انھیں روزانہ بذریعہ ڈاک سفر میں وہ جہاں قیام پذیر ہوں بھیجی جائے اور ضروری معلومات کی اطلاع بذریعہ تار دی جائے ۔ ڈاک بذریعہ برٹش کونسل حجاز میں کہیں بھی دس روز میں پہونچ جاتی ہے جبکہ تار تیسرے دن پہونچتا ہے۔ انھوں نے برٹش کونسل کو بھی خط لکھ کر درخواست کی تھی کہ ان کی ڈاک جو ریاست سے ان کے توسط سے بھیجی جائے اسے ان تک پہونچانے کو یقینی بنایا جائے۔ 
 
بیگم بھوپال نے یہی نہیں کہ ریاست کے بندوبست کے لئے تفصیلی ہدایت نامہ یا دستورالعمل جاری کیا تھا بلکہ اپنے ہمراہ حج پر جانے والوں کے لئے بھی ۲۱ نکاتی ایک ہدایت نامہ جاری کیا تھا جس کی رو سے اہل قافلہ پر لازم تھا کہ وہ دوران سفر غیرممالک کے قوانین کی پوری پابندی کریں گے ۔ باہمی طور پر لشکر میں یا کسی اجنبی سے ایسی کوئی بات نہیں کریں گے جو بنائے فساد ہو، کوئی ہمراہی ریل گاڑی ، کشتی وجہاز و شتر وخر یا کسی اور سواری پر سوائے اس کے جو اسکے واسطے مختص کی گئی ہے نہیں بیٹھے گا۔ جن لوگوں کو سرکاری مطبخ سے پکا ہوا کھانا ملتا ہے اس کے علاوہ جن کو کھانے کے لئے نقد بھتا ملتا ہے وہ اپنا انتظام خود کریں گے۔ جو سامان سفر ساتھ میں ہو اس کی ایک مکمل فہرست اپنے پاس رکھیں گے تاکہ دریافت کرتے وقت بتاسکیں کہ ان کے صندوق میں کیا کیا ہے۔ آگے کی دفعات میں ہے کہ جس مقام پر سرکارعالیہ کا قیام ہو کوئی شخص اس کا مجاز نہ ہوگا کہ بلااجازت حدود لشکر سے باہر جائے البتہ ادائے فرائض منصبی اور مناسک حج وغیرہ کی نسبت ہرمرتبہ اجازت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں سوائے چوکی پہرے والوں کے کہ ان کا انتظام مناسب وقت پر کردیا جائے گا۔ قطعی ممانعت ہے کہ کوئی قافلہ والا ایک پیسہ کو سودا بھی کہیں قرض نہ خریدے۔ بلااجازت سرکارعالیہ کوئی لشکری غیرممالک کے حکام سے ملنے کی کوشش نہ کرے وغیرہ وغیرہ۔
 
اس تفصیلی تمہید کے ذریعہ راقم الحروف نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ نواب سلطان جہاں بیگم نہ صرف باصلاحیت اور بالغ نظر حکمران تھیں بلکہ اپنی ریاست کے عوام اور ارکان دولت کے سلسلے میں بھی ان کی نگاہ کتنی دوررس تھی۔ جیساکہ اوپر تحریر کیا جاچکا ہے کہ وہ صدر منزل سے روانہ ہوکر قرنطینہ کے لئے اپنے باغ نشاط افزا(موجودہ عارف نگر یا اس کے آس پاس کا علاقہ) میں ٹھہریں اور دس روز یہاں قیام کرکے بذریعہ اسپیشل ٹرین بمبئی پہنچیں جہاں اکبرنامی جہاز سے وہ جدہ کے لئے روانہ ہوگئیں۔ جیساکہ سفرنامہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سفر میں ان کے ہمراہ تقریباً ڈھائی سو افراد اس جہاز میں تھے اور تقریباً اتنے ہی بھوپالی ہمسفر دوسرے جہاز سے بھیجے گئے تھے۔ جس وقت وہ بھوپال سے بمبئی کے لئے روانہ ہورہی تھیں بھوپال کے کچھ علاقوں میں طاعون پھیل گیا تھا۔ نواب سلطان جہاں کا ارادہ تھا کہ رمضان المبارک کا مہینہ مدینہ منورہ میں گزارکر پھر مکہ مکرمہ اور حج بیت اللہ کے لئے جائیں۔ مگر جس وقت ان کا جہاز جدہ بندرگاہ پر پہونچا تو چونکہ روانگی کے وقت بھوپال میں طاعون کے اثرات ظاہر ہوچکے تھے اس لئے یہاں ان کے جہاز کو لنگرانداز ہونے کی اجازت نہیں ملی اور قرنطینہ کے جھگڑے کے سبب چھ روز جہاز پر ہی گزارنے پڑے۔ جس وقت یہ بندرگاہ پر اتریں حکومت ترکی کی جانب سے ان کا پورے اعزاز کے ساتھ استقبال ہوا۔ یہاں شریف مکہ کی خواہش تھی کہ بیگم بھوپال پہلے مکہ معظمہ جائیں پھر وہاں سے مدینہ کے لئے روانہ ہوں مگر چونکہ سابق میں ان کی جدّہ نواب قدسیہ بیگم کے ساتھ ایسے حالات پیدا کردیئے تھے کہ وہ سرکاردوعالم کے دربار میں حاضری نہ دے سکیں تھیں اس لئے بیگم سلطان جہاں نے جدہ سے آبی راستے کے ذریعہ ینبوع کا سفر کیا اور وہاں سے مدینہ تشریف لے گئیں۔ ان کا ارادہ تھا کہ اسی راستے سے واپس آکر وہ جدّہ سے مکہ جائیں گی چنانچہ واپسی کے خیال سے ایک جہاز بھی بک کرلیا گیا تھا مگر ینبوع سے مدینہ تک کا ان کا یہ سفر انتہائی خطرناک ثابت ہوا۔ راستہ میں جگہ جگہ بدوؤں نے گھیرنے کی کوشش کی اور نقد روپیہ کا مطالبہ کیا اور عدم ادائیگی کی صورت میں قافلوں پر فائرنگ کی۔ 
 
اس جگہ نواب سلطان جہاں کے سفرنامہ ’’روضۃ الریاحین‘‘ کے مشمولات پر گفتگو کرتے ہوئے اگر ہم نادر علی وکیل میرٹھ کے سفرنامہ ’’واقعات حجاز‘‘ کو بھی نظرمیں رکھیں تو وہ واقعات و حادثات جو اس سفر میں بیگم صاحبہ کو پیش آئے ان کی وجوہات سے پردہ اُٹھتا ہے۔ نادر علی کا یہ سفرنامہ جو ایک سو بارہ صفحات پر مشتمل ہے بیشتر بیگم بھوپال کے اسی سفر حج سے تعلق رکھتا ہے۔ نادر علی کون تھے اور اس حج نامہ کے علاوہ ان کے علمی ادبی مشاغل کیا تھے کچھ پتہ نہیں چلتا ۔ یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ بیگم بھوپال جب حج کرنے گئیں تھیں تو وہ اسی زمانے میں یہاں سے حج بیت اللہ کے لئے گئے تھے یا ان کا وہاں پہلے سے قیام تھا ۔ مگر ان کے اس سفرنامہ سے جو مطبع دارالعلوم میرٹھ سے ۱۰؍ دسمبر ۱۹۰۴ئ؁ کو شائع ہوا ہے ، نہ صرف حجاز کے ارکان دولت سے اُن کی قربت اور اُس زمانے میں وہاں اُن کی موجودگی کا پتہ ملتا ہے بلکہ وہ اس کے حوالے سے حکومت ترکی، شرفائے حجاز اور بدوؤں کی قدم قدم پر وکالت کرتے بھی نظر آتے ہیںوہ ان ہندوستانیوں اور ایشیا کے باشندوں کو غلط بتاتے ہیں جو بے سروسامانی کی حالت میں سفر حج پر چلے جاتے ہیں اور حکومت کے لئے مصیبت کا سبب بنتے ہیں پھر واپس آکر اہل حجاز اور حکومت ترکی یا انگریزی کو بدنام کرتے ہیں۔ چنانچہ بیگم بھوپال اور بدوؤں کے درمیان جو معرکہ ہوا اس کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ ’’اس کے لئے خود بیگم بھوپال کے نمائندے جنھیں انہوں نے سفر سے پہلے روانہ کیا تھا یعنی مولوی اعظم حسین وغیرہ ذمہ دار ہیں کہ انھوں نے بیگم صاحبہ کے آنے سے قبل ہی یہاں کے عوام میں ان کی آمد کی شہرت کردی تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ :
 
دو سال قبل بیگم صاحبہ کے چند معزز اہلکار جنکے میرقافلہ مولوی اعظم حسین صاحب و ماتحت افسر مولوی ریاض الدین احمد صاحب جو ایک صاحبزادے کے اتالیق بھی مشہور تھے بربنائے دریافت حالات حجاز روانہ ہوئے ۔ ان حضرات نے حجاز پر پہونچ کر عام شہرت کردی کہ حضور سرکار عالیہ والیہ بھوپال سال آئندہ میں نہایت دھوم دھام و تزک واحتشام سے آنے والی ہیں۔ عام طور پر اہل حجاز کو ان کی فیاضی سے نفع اُٹھاکر شکرگزاری کا موقع ہاتھ آئے گا۔ یہ شہرت مکہ مکرمہ ہی میں محدود نہیں رہی بلکہ سفرمدینہ میں جس جس مقام پر ان اصحاب کا گزر ہوا وہاں یہی اس خوشخبری کی منادی کافی طور پر کی گئی اور بعض قبائل بدو کو انعامات کی امیدیں بھی دلائی گئیں‘‘۔
 
نادر علی اسی سلسلے میں آگے لکھتے ہیں کہ :
’’یہی وجہ تھی کہ شہری باشندگان کے سوا قبائل بدوی کا ہر ایک متنفس بڑی بڑی تمناؤں کے ساتھ بیگم صاحبہ بھوپال کی تشریف آوری کا انتظار کرنے لگا۔ کسی کی زبان پر یہ ذکر تھا کہ ملکۂ ہند تشریف لاتی ہیں۔ کوئی کہتا کہ سلطانۂ ہند آتی ہیں، کوئی سالانہ وظیفہ کی امید میں چشم براہ، کوئی ماہوار تنخواہ کا متمنی ، کوئی رقم کا آرزومند ، کوئی منصبداری کا امیدوار‘‘۔
 
یہاں یہ بات واضح کردینا ضروری ہے کہ مولوی اعظم حسین چند ذمہ داران ریاست کے ساتھ اس سفر حج سے دو سال قبل بھی حالات کا جائزہ لینے گئے تھے اور بعد میں بیگم صاحبہ کی روانگی سے چند ماہ پہلے بھی تحائف اور خطوط کے ساتھ بسلسلہ انتظام و انصرام روانہ کردیئے گئے تھے۔ 
 
نادر علی وکیل اور بیگم بھوپال کے سفرناموں کا موازنہ یقینا نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ کئی غلط فہمیوں کو بھی دور کرتا ہے کہ اس کے موازنے  سے ان واقعات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے جنہوں نے نواب سلطان جہاں اور ان قافلے والوں پر گرانی کی۔ چنانچہ ینبوع سے مدینہ جاتے وقت بدوؤں کی سرکشی کے متعلق نادر علی لکھتے ہیں کہ :
 
’’مدینہ جاتے وقت پہلی یا دوری منزل پر بدوی قبائل نے ان شرفاء اور شیوخ کی خدمت میں جو محافظت بیگم صاحبہ کے لئے منجانب شریف مکہ تعینات تھے چند دنبہ حسب عادت نذر گزارے۔ مشائخ کے ہمراہی نے ان دنبوں کو بیگم صاحبہ کے باورچی خانہ میں بھیج دیا۔ ملازمین بیگم صاحبہ یہ سمجھے کہ سرکاری خرچ کے لئے آئے ہیں اپنے کام میں لے آئے۔ ادھر شیوخ کی غرض یہ تھی کہ دنبوں کا پلاؤ ان بدوؤں کے لئے جنھوں نے پیش کئے پکوادیا جائے۔ غرض جانبین کی غلط فہمی کی وجہ سے بدوؤں کو ایک طویل وقت بھوکا رہنا پڑا جس میں انھیں کئی قسم کی تکالیف ہوئیں۔ اس کے بعد بدوی قبائل نے سرراہ ہوکر مزاحمت کی جس کا تصفیہ کچھ لے دے کر کیا گیا۔
 
اس سلسلے میں بیگم صاحبہ تحریر فرماتی ہیں کہ :’’ ایک پڑاؤ پر کسی شیخ البدوی کا خط شریف احمد بن منصور اور ابوجودمدنی جو قافلے کے ساتھ تھے آیا کہ اگر تم لوگ قبیلہ کلب علی خاں (یہاں مراد نواب کلب علی خاں والیٔ رامپور سے ہے جو ایک سال پہلے حج بیت اللہ کے لئے گئے تھے ۔ راقم) سے ہو تو انھوں نے ہمارا پانچ سو روپیہ سالانہ راستہ دینے کے لئے مقرر کیا تھا مگر ہندوستان پہنچ کر وعدہ خلافی کی ہے ۔ دیدو اور آئندہ دینے کا وعدہ کرو اور اگر ان کے قبیلے کے نہیں ہو تو معقول انعام دو ورنہ ہم بغیر لڑے تمہارے قافلے کو مدینہ منورہ نہ جانے دیں گے‘‘۔ بیگم صاحبہ چاہتی تھیں کہ ان کا مطالبہ مان کر پیچھا چھڑایا جائے مگر نواب عبیداللہ خاں اور ان کے مشیروں نے روپیہ دینا خلاف مصلحت اور بزدلی جانا۔ چنانچہ رات بھر اطراف کی پہاڑیوں سے گولیاں چلتی رہیں جس کا جواب بھی ساتھ چل رہی فوج نے دیا مگر کوئی جانی مالی نقصان نہیں ہوا۔ اسی مقام پر بیگم بھوپال لکھتی ہیں کہ :’’ یہاں کے شیخ نے ہماری دعوت کی تھی جس میں دو دنبہ اور کچھ خام چاول بھیج دیئے تھے جسے ہم نے قبول کرلئے تھے‘‘۔
 
بدوؤں کی جانب سے دھمکانے اور فائرنگ کرنے کا یہ سلسلہ مدینہ کے راستہ میں ہر پڑاؤ پر جاری رہا اور تقریباً ایک ہفتہ کے بعد بھوپالی قافلہ ترکی افواج کی حفاظت میںمدینہ پہونچ سکا۔ یہاں پہونچنے پر نواب سلطان جہاں بیگم کا استقبال پورے شاہی اعزاز کے ساتھ کیا گیا۔ ترکی فوج نے  گارڈآف آنر کے علاوہ 21توپوں کی سلامی بھی دی اور عمائدین اور ارکان حکومت نے شہرسے باہر نکل کر ان کا استقبال کیا۔
ینبوع سے مدینہ کے سفر میں بھوپالی قافلہ کو جس صورت حال سے گزرنا پڑا اس کے متعلق نادر علی نے اپنے سفرنامہ حجاز میں کافی تفصیل سے لکھا ہے۔ وہ جہاں بیگم بھوپال کے آرام و آسائش کے سلسلے میں شریف مکہ کی جانب سے کئے گئے انتظام و انصرام کو سراہتے ہیں وہیں یہ بھی لکھتے ہیں کہ (ینبوع سے مدینہ کے سفر میں) جو لوگ جیسے احمد بن منصور و شریف عبداللہ مع چند شیوخ درویش حیاش وحازم و عبدالحفیظ وغیرہ شریف مکہ کی جانب سے بیگم صاحبہ کے قافلہ کی حفاظت کے لئے ساتھ تھے انھوں نے راستے کے اخراجات خود اپنے پاس سے کئے اور اس کا بار بیگم بھوپال پر نہیں ڈالا۔ بلکہ اثنائے راہ جو قبائل اور بدو ان سے ملنے آئے ان کی خاطرداری بھی اپنے پاس سے کی۔ بیگم صاحبہ کی طرف سے ان اخراجات میں بطور مدد خرچ علی الحساب ایک رقم جس کی تعداد ساٹھ روپیہ سے سو روپیہ کے درمیان بیان کی جاتی ہے اعانت فرمائی گئی لیکن اصلی خرچ ان شرفاء و مشائخ کا سواری و باربرداری و خوراک و تواضع میں تخمینی سو پونڈ (پندرہ سو روپیہ) ہوا ، اس کو شریف مکہ نے اپنی جیب خاص سے ادا کیا۔مدینہ پہنچ کر بیگم صاحبہ نے اِن مشائخ کو یہ کہہ کر کہ اب ہم کو آپ لوگوں کی ضرورت نہیں، رخصت کردیا اور پچاس پچاس روپیہ فی کس انعام عطا فرمایا۔ اِن شیوخ نے مکہ پہنچ کر تمام حالات سے شریف مکہ کو آگاہ کیا ، تو اُنہیں بہت رنج ہوا اور غصّے میں آکر اُنہوں نے وہ مکان جو بیگم صاحبہ کے لئے مکہ میں سجایا تھا اور جس میں اُن کے ملازمین قیام پذیر تھے خالی کرالیا کہ اس مکان کے کرایہ کی وہ متحمل نہ ہوسکیں گی ۔ چنانچہ ملازمین کو اپنے لئے چالیس اشرفی کرایہ پر ایک مکان کا بندوبست کرنا پڑا۔ بعد میں جب بیگم صاحبہ مکہ پہنچیں تو اِن ہی شریف مکہ نے ازراہ مہماں نوازی اسی سابق مکان کو پھر دوہزار مشکوں سے دھلواکر آراستہ کردیا جس میں بقول نادر علی تین چار ہزار روپیہ صرف ہوا۔ لکھتے ہیں کہ ’’یہ واقعات خود شریف مکہ احمد بن منصور و علی حماد مزور نیز بعض ہمراہیان قافلہ بیگم صاحبہ کے زبانی ہم تک پہونچے‘‘۔
 
نادرعلی نے اپنے سفرمیں بہرانامی اس جہاز کے قضیے کی تفصیلات بھی لکھی ہیں جس کو بیگم بھوپال نے مدینہ سے واپسی پر ینبوع سے جدّہ تک کے لئے پہلے سے بک کرلیا تھا مگر راستے کے خطرات کو دیکھتے ہوئے مدینہ سے مکہ کا سفر شامی قافلہ کے ساتھ جانا طے کیا اور اس جہاز کی بکنگ کو رد کرنے کے لئے خطوط بھی لکھے تھے مگر وہ کسی وجہ سے رد نہ ہوسکا ۔ اسی طرح مکہ میں قیام کے لئے جو مکان کرایہ پر لیا گیا تھا وہ بھی بوجوہ استعمال نہیں ہوا اور اس کی جگہ بیگم صاحبہ نے دوسرا مکان لیا جس کے کرایہ کا جھگڑا بھی طول پکڑگیا اور ان سب کا بار حکومت ترکی اور سرکار انگلشیہ پر پڑا۔
 
بیگم بھوپال کا مدینہ سے سفر شامی قافلہ کے ہمراہ ہوا۔ شامی قافلہ کے ساتھ توپ خانہ وغیرہ کے علاوہ اچھی تعداد میں فوج بھی تھی مگر بیگم صاحبہ کے قافلے پر تمام تدابیر کے باوجود بدوؤں نے راستے میں جگہ جگہ حملے کئے۔ اس حملہ میں چند فوجیوں کے علاوہ تقریباً گیارہ اونٹ بھی مارے گئے۔ مگر بھوپالی قافلے پر ہر قسم کے جانی مالی نقصان سے محفوظ رہا۔ نادر علی نے اس وقعہ کو بھی بیگم بھوپال کے ساتھیوں کی بدانتظامی پر محمول کیا۔ لکھتے ہیں کہ :’’ (بیگم بھوپال کے) محمل کے ساتھ کے لئے خاص خاص اشخاص چن لئے گئے۔ باقی ہمراہیوں کو دو اشرفی فی کس دے کر ینبوع کی راہ چلتا کردیا گیا اور کچھ ہمراہیوں کو مدینۃ الرسول مقبول صلعم کے حفظ میں چھوڑ دیا گیا۔ حضرت شاہ ابواحمد نقشبندی جن کے ساتھ بیگم صاحبہ کو ارادت بھی سنی گئی وہ بھی مدینہ میں چھوڑ دیئے گئے جو کسی طرح قرض دام لے کر موقع حج تک پہونچ سکے۔ باقی جن اشخاص کو دو دو اشرفی دیکر براہ ینبوع روانہ کیا تھا ان میں سے چند اشخاص اپنی مصیبت آمیز داستان راہ کی تکالیف، پیادہ پائی کی ایذا، بھوک پیاس کے صدمات کو بڑی دردناکی سے بیان کرتے تھے ‘‘۔آگے لکھتے ہیں کہ :
 
’’ بیگم صاحبہ کے مکہ پہنچنے سے چند روز قبل ہی برٹش وائس کونسل مکہ پہنچ گئے اور انھوں نے درمیانی بے لطفیوں کا کامل ازالہ کردیا تھا اس لئے مکہ پہونچنے پر بیگم بھوپال کی خوب آؤبھگت اور خاطرمدارات ہوئی۔ جس وقت قافلہ مکہ میں جائے قیام پر پہنچا تو معزز ہمراہیوں کی حالت قابل رحم تھی۔ چہرہ پر ہوائیاں اڑرہی تھیں۔ لبوں پر پپڑیاں پڑی تھیں۔ میجر کریم جنگ و کپتان قندھاری محمد حسین خاں تھوڑی دیر بعد ہمارے پاس آئے اور فرمایا کہ سات پہر ہوگئے منہ میں اڑکر کھیل تک نہیں گئی۔ کل راہ میں بدقت تمام ایک سیر آٹا گراں قیمت پر میسر آیا تھا۔ اس داستانِ مصیبت نے واقعی سننے والوں کو صدمہ دیا۔ ان کے واسطے کھانا منگایا گیا۔‘‘
 
نادر علی نے بیگم صاحب کے قیام مکہ پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ پردہ کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ جو لوگ دہلی دربار میں بیگم صاحبہ کی شرکت اور حضور لارڈکرزن کے سامنے قلمدان پیش کرنا اور ادباً جھکنا دیکھ چکے تھے ان میں بعض مکہ میں موجود تھے۔ ان کو اس پردہ پر تصنع کا گمان ہوتا تھا۔ مکہ میں خیرخیرات کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ ’’یہاں مدینہ سے زیادہ افسوسناک انتظام تھا۔ ملازم تھوڑی سی روٹیاں اندر مکان سے لاتے۔ دروازہ پر فقراء کا بڑا ہجوم ہوتا۔ انھیں وہ روٹیاں کیا کفایت کرتیں۔ اس لئے خیرات میں روٹیوں سے بدرجہا زیادہ لات گھونسے ملتے۔ عوام ان بدعنوانیوں کو رئیسہ کی کفایت شعاری پر محمول کرتے اور ہم اس سے تقسیم کنندگان کی بے رحمی و بدنظمی کا نتیجہ نکالتے‘‘۔ 
 
نادر علی نے اپنے سفرنامے میں پیشتر ان ہی باتوں کا ذکر کیا ہے جس سے بیگم صاحب بھوپال یا ان کے ہمراہیوں کی سبکی کا پہلو نکلتا ہے۔ غلاف کعبہ کے ہدیہ کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ بیگم صاحبہ نے کل غلاف کعبہ کی خواہش کی۔ جب اس کی قیمت پندرہ سو پونڈ (ساڑھے بائیس ہزار روپیہ) معلوم ہوئی تو صرف دوسو پونڈ (تین ہزار روپیہ) کا غلاف بذریعہ وائس کونسل خریدنا چاہا۔ انھوں نے کلیدبردار کعبہ سے کہلا بھیجا۔ کلیدبردار نے اس کی تعمیل کی۔ اس وقت صرف پچاس پونڈ یعنی ساڑھے سات سو روپیہ کا خریدا۔ باقی لینے سے انکار کردیا۔ جس قدر غلاف نہیں لیا گیا اس کی قیمت درمیانی صاحب کو اپنی جیب سے ادا کرنی پڑی۔ اس موقعہ پر میجر کریم بیگ جو بیگم صاحبہ کے ہمراہی تھے خوب رہے جنکو پینتیس پونڈ کا غلاف ایک صاحب حوصلہ شخص کی بدولت مفت ہاتھ آیا۔ 
 
بیگم بھوپال نے اپنے سفرنامے میں جہاں شریف مکہ کی بے رخی کا ذکر کیا ہے وہیں مکان کے کرایہ کا قضیہ، گھوڑوں کی خریداری میں دھاندلی، واپسی میں جدہ میں ہوئی پریشانیوں کا ذکر بھی تفصیل سے کیا ہے۔ نادر علی نے بھی اپنے سفرنامہ میں ترکی اور انگریزی حکومت کی طرفداری کرتے ہوئے انھیں واقعات پر روشنی ڈالی ہے ۔ اور ان سب حادثوں کے لئے بیگم صاحبہ سے زیادہ ان کے مشیروں اور ہمراہیوں کو ذمہ دار بتایا ہے کہ بیگم صاحبہ اپنے پردہ کے سبب باہر کے حالات سے کما حقہٗ واقف نہیں ہوپاتی تھں اور ان کے کارپرداز معاملات کو سنجیدگی سے حل کرنے سے قاصر تھے وغیرہ وغیرہ۔ واپسی کے وقت چند مجبوریوں کے سبب بیگم صاحبہ اپنے قافلہ کے کچھ لوگوں کو جدّہ میں چھوڑ آئیں تھیں کہ ان کے لئے اس وقت جہاز کا انتظام نہ ہوسکا تھا۔ نادرعلی ان میں سے بتیس لوگوں کی ایک فہرست پیش کرتے لکھتے ہیں کہ برٹش وائس کونسلیٹ خان بہادر ڈاکٹر محمد حسین کو ۱۸؍ مارچ ۱۹۰۴ئ؁ کو مسمیان عبدالرحیم، مراد محمد خاں، محمد یٰسین، حافظ عبدالرحمن خاں، عبدالغفور، قاضی محمد سراج، عبدالرحمن ولایتی، محمد حسین خاں، سید نظیرعلی، شیخ بدھا، ابراہیم سقہ، مسماۃ فاطمہ بی، مسماۃ نصیباًدست بریدہ، مسماۃ نصیباً ثانی، مسماۃ منیر بی، مسماۃ حشمت بی، مسماۃ گل بی، مسماۃ حرمت بی، مسماۃ جہاں بی، مسماۃ غوثیہ بیگم، مسماۃ عظیمن، مسماۃ گل بی، مسماۃ بخت، مسماۃ زینب بی، مسماۃ رحمت بی، مسماۃ مراد بی، مسماۃ بینا بی، مسماۃ رحمن بی، جعفرعلی شاہ، فتح محمد اور علی محمد وغیرہ نے ایک درخواست بدیں مضمون کہ ہم بیکسان کو ہماری مادر مہرباں حضور سرکار عالیہ بیگم صاحبہ بے کس و بے بس چھوڑ گئی ہیں۔ ہم لوگ نان شبینہ کو محتاج، دن کو دھوپ ، رات کو شبنم کی ایذا اُٹھا رہے ہیں اور سمندر کے کنارے پڑے ہیں۔ ہماری مدد فرمائی جائے کہ ہم کسی طرح اپنے وطن کو پہنچوادیئے جائیں‘‘۔ اس کے جواب میں ڈاکٹر محمد حسین نے رباط رامپور میں ان سب کو جگہ دلوادی اور گزراوقات کے لئے دو دو روٹیاں روزانہ مقرر فرمادیں۔ یہاں نادر علی صاحب نے محمد عبدالرحیم خاں ملازم ریاست کے ایک خط کی نقل بھی تحریر کی ہے جو یقینا دلچسپ ہے۔ خط درج ذیل ہے : 
 
’’ بجناب فیضماب حاتم وقت جناب ڈاکٹر محمد حسین صاحب برٹش کانسل جدہ دام فیوضہٗ
بعد سلام مسنون آنکہ 
 
میں اُنہیں تیس (۳۰) غیرمستطیعان سے ہوں جو نواب بیگم صاحبہ عالیہ والیہ بھوپال کے لائے ہوئے ہوؤں سے رباط میں ٹھہرائے گئے اور روٹی بھی پارہے ہیں ۔ گو اِس آخری روٹی کے انتظام کی فرو سے میرا نام خارج اور میں جناب کے اس رحم وکرم کا بہت ہی بڑا شکرگزار ہوں۔ آپ سے میری یہ عرض ہے کہ میں بباعث تہی دستی یہاں سخت پریشان ہوں اور نہیں معلوم کب ہندوستان سے جواب آوے اور کب مساکینوں کی روانگی کا بندوبست ہو اور اس کے لئے کوئی وقت معین نہیں۔ چونکہ میں ریاست بھوپال کا پشتینی نمک خوار ملازم ہوں اور اب بھی بوقت آنے حج کے میری خواہش کے موافق بندہ زادہ بجائے میرے عملہ کارخانجات ریاست میں بزمرہ محرران ملازم رکھا گیا ہے ۔ جہانگیرآباد میں بہ حاطۂ حرمت خانصاحب رسالدار سردار بہادر جو میرے جدّامجد ہیں میرا مکان واقع ہے اور میں قدیم اُسی شہر کا رہنے والا ہوں۔ یہاں سردست ایک صاحب نے جو بھوپال کے ہیں پندرہ روپیہ قرض دینے کا بوعدہ ادائے بھوپال اقرار کیا ہے لیکن پندرہ روپیہ میں میری کامیابی ناممکن ہے لہٰذا براہ کرم بخشی و فیض گستری مبلغ چھبیس(۲۶) روپئے کلدار مجھ کو بطور قرض حسنہ اور مرحمت فرمائے جائیں کہ میں تیس روپیہ کا ٹکٹ جہاز لے لوں اور پانچ روپیہ سے کھانے پینے و کرایہ ہوڑی وغیرہ کا انتظام کرلوں اور چھ روپیہ پاسنجر ٹرین کے واسطے بمبئی سے بھوپال تک کے لئے رکھ لوں اور جناب کی جوتیوں کے تصدق میں یہاں سے روانہ ہوجاؤں۔ انشاء اللہ تعالیٰ بھوپال پہنچتے ہی جس صورت سے فرمادیا جائے گا مبالغ مذکور خدمتِ عالی میں بھیج دوں گا یا وہاں پر جس کسی صاحب کو ارشاد ہوگا باخذ رسید ادا کرکے رسید ان کی ارسال خدمت کروں گا، کسی طرح کا فرق نہ ہوگا اور اس دستگیری کا تہہِ دل سے تابزیست شکریہ ادا کروں گا۔ یہ اتفاق کی بات ہے اور شریف انسانوں ہی پر وقت پڑتا ہے اور جناب سے عالی ہمت دریا دل فیض منزل حامیٔ اسلام کی امداد اور رعایت سے اُن کی مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں ۔ خداوند کریم جناب کو اِس کرم بخشی کا اجرِعظیم دیگا۔ امید کہ عریضہ ہٰذا عنداللہ درجہ قبولیت کا پاوے گا۔ اور مخفی نہ رہے کہ مخصوص ہندوستانیوں کے واسطے بجز جناب والا کی ذاتِ عالی کے یہاں پر دوسرے سے ایسی التجا کا حل ہونا سخت مشکل و دشوار ہے اور جناب کے نزدیک اِس کی کچھ حقیقت نہیں اور ایک امیدِموہوم پر یہاں بے خرچ تکلیف میں پڑا رہنا بھی فضول ہے۔ فقط۔
 
زیادہ حد ادب۔ دل فیض ازنورمحمدی معمور باد۔ معروضہ ۱۵؍ محرم الحرام ۱۳۲۲ہجری۔ یوم شنبہ مقام جدہ ملک عرب۔
عرضی 
 
کمترین بندگان محمد عبدالرحیم خان عفی عنہ ۔ بقلم خود
نادر علی وکیل نے ’’واقعات حجاز میں یہی نہیں کہ نواب سلطان جہاں بیگم کے حج کے دوران کے واقعات پر بحث کی ہے بلکہ ایک جگہ اُن کا موازنہ نواب کلب علی خاں والئی رامپور سے کرتے ہوئے نواب رامپور کی فیاضی اور دریادلی کا واقعہ بھی لکھا ہے۔ اِسی طرح شریف مکہ کی شرافت وسخاوت کے باب میں نواب واجد علی شاہ کی بہو کی مثال پیش کی ہے جو اُسی دوران حج کرنے گئی تھیں اور شریف مکہ نے اُنہیں پوری تکریم دی تھی۔
 
اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں جن کا ذکر نادر علی نے ’’واقعات حجاز‘‘ میں کیا ہے اور جن کا دوسرا رُخ ہمیں روضۃ الریاحین کے صفحات پر نظر آتا ہے ۔ حالانکہ’’ واقعات حجاز‘‘ کے مطالعہ سے ایسا نہیں لگتا ہے کہ نادر علی نے بیگم صاحبہ کے روضۃ الریاحین کو دیکھا ہو بلکہ وہ اپنے سفرنامہ کے شروع میں ہی تحریر کرتے ہیں:’’ یہ سنا گیا ہے کہ جناب بیگم صاحبہ دام حشمتہا کو اپنے کارنامہ سیاحت کو قلمبند فرمانے کا خاص خیال ہے جس کے لئے حجاز میں ہی منشی عبدالرؤف صاحب اپنے رفیق سفر کو حکم دیا گیا تھا اور اب شہرت ہے کہ اس کے لئے لکھنؤ سے ایک قابل بزرگوار بلائے گئے تھے مگر انھوں نے کسی وجہ سے اس خدمت کو پسند نہیں کیا ‘‘۔
 
بہرحال نواب سلطان جہان بیگم کا سفرنامہ ’’روضۃ الریاحین‘‘ ہو یا نادر علی وکیل کا’’واقعات حجاز‘‘ چونکہ دونوں کا موضوع اور وقت اشاعت ایک ہی ہے اس لئے نواب سلطان جہاں بیگم کے سفر حج کے حالات پر گفتگو کرتے وقت نادر علی کے سفرنامے کی اہمیت بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس کے ذریعہ ہم نہ صرف شرفائے حجاز اور بدوؤں کی روایات اور مسائل وہاں کی اس دور کی معاشرت ، اندرونی سیاست اور ہندوستان کے حاجیوں خصوصاً روساء کی پریشانیوں اور مسئلوں سے بھی آگاہ ہوتے ہیں بلکہ سلطان جہاں بیگم اور ان کے قافلہ والوں کے ساتھ اہلِ حجاز سے جو سلوک کیا اس سے بھی واقفیت ہوتی ہے ۔ 
 
٭٭٭
ضیا فاروقی
۲؍ شانِ فضا اپارٹمنٹ، سیفیہ کالج روڈ، کوہِ فضا۔ بھوپال
09406541986
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1042