donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abdul Azeez
Title :
   Apne Hi Peer o Murshid Ki Jag Hansayi

کہاں علامہ اقبال کہاں طوطیٰ شاہ احسان علی کا موازنہ چہ معنی دارد؟


اپنے ہی پیر مرشد کی جگ ہنسائی 

 

عبد العزیز

کلکتہ کے ایک اردو اخبار میں مورخہ 24 نومبر کو محترم شہنواز احسانی صاحب نے ایک غیر معروف پیر مرشد طوطیٰ شاہ احسان علی ؒ کو علامہ اقبال کی اسلام فہمی پر فوقیت دیتے ہوئے علامہ کی ایک مشہور غزل کو ایک غیر معروف شاعر سے نہ صرف موازآنہ اور مقابلہ کیا ہے بلکہ دیدہ دلیری کی حد کردی ہے بغیر کسی حوالہ اور ثبوت کے ایک فرضی کہانی بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ علامہ اقبال نے شاعر غیر معروف کے سامنے ہتھیار ڈال دیا۔ شاعر غیر معروف کا حال یہ ہے کہ موصوف کا پہلا ہی مصرعہ بحرسے ہٹا ہوا ہے اور پوری غزل تضاد بیانی کی شکار ہے اور جو اصطلاحات استعمال کئے گئے ہیں ان سے قرآن ناشناسی اور قرآن نافہمی کا نہ صرف پتہ چلتا ہے بلکہ قرآنی اصطلاحوں سے بھی ناواقفیت پورے طور پرعیاں ہوجاتی ہے۔ 


اخبارمذکور میں علامہ اقبال کے غیر معروف ناقد مولانا احسان علی کی ایک غزل علامہ اقبال کی ایک غزل کے مقابلہ میں اسی نوٹ کیساتھ شائع ہوئی ہے کہ حضور طوطیٰ (شاہ) مولانا احسان علی با ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے غزل پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور اسی بحر میں خود ہی ایک غزل تحریر فرمائی:


غزل


نہ رکوع میں ہے نہ سجود میں نہ قعود میں نہ نماز میں
جو ادا ہوئی تیری بندگی تو قیام عجز و نیاز میں
ابھی چھیڑتا تھا کہ کھل گیا جو چھپا تھا پردۂ راز میں
کہ بھری ہے ساری حقیقتیں فقط ایک جام مجاز میں
میرے دل میں جس کی تھی آرزو مجھے جس کی رہتی تھی جستجو
وہی آگیا میرے روبرو جو کھڑا ہوا میں نماز میں
ہے عجیب عشق کا ماجرا کہ ہیں حسن و عشق جدا جدا
دلِ غزنوی میں جو شور ہے وہ نمک ہے روئے ایاز میں
کہا جب زبان سے لفظ ہو تو کہاں کا میں اور کہاں کا تو
یہ خودی نہیں ہے تو اور کیا خدا ہے یاد نماز میں 
ارے سن لے احسانؔ بے نوا ہے عجیب عشق کا ماجرا
کبھی ایک قدم ہے نشیب میں کبھی ایک قدم ہے فراز میں


علامہ اقبال کی جس غزل پر حضور طوطیٰ (شاہ) احسان علیؒ نے نکتہ چینی کی وہ غزل اردو ادب میں اس قدر معروف اور مشہور ہے کہ اسے لکھنے کی ضرورت نہیں ہے ممکن ہے آج کے دور کے کچھ لوگ ناواقف ہوں اسی لئے پیش خدمت ہے:۔


غزل
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں
طرب آشنائے خروش ہو تو نوا ہے محرم گوش ہو
وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو، سکوت پردۂ ساز میں
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، تر آئینہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں
دم طوف کرمک شمع نے کہا کہ وہ اثرِ کہن
نہ تری حکایت سوز میں نہ مری حدیث گداز میں
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی، جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں، نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو، زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں


ناقد کے وفادار شاگرد محترم محمد شہنواز خاں احسانی اس کہانی کو اقبال کے درج ذیل ذیل شعر سے شروع کیا ہے کہ:


ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا


علامہ اقبال ؒ کا یہ شعر موصوف نے مولانا احسان علی ؒ کے حق میں نذر کیا ہے۔محترم خاں احسان صاحب کی تحریر میں ازروئے قرآن و سنت کئی باتیں قابل اعتراض ہیں مگر خاکسار صرف علامہ اقبال کی اور مولانائے محترم احسان علی صاحب کی غزل پر قرآن و سنت کی روشنی میں چند ضروری باتیں کرنا پسند کریگا پہلی بات تو یہ جناب خان احسانی نے یہ نہیں لکھا ہے کہ ان کے پیر صاحب نے غزل سے ناپسندیدگی کا اظہار کیوں کیا؟ کیا اس میں شریعت مطہرہ کے خلاف کوئی بات کہی گئی ہے اور اگر کہی گئی ہے تو وہ کون سی بات ہے اور کس شعر سے ایسی بات ظاہر ہوتی ہے؟ ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے؟ اور اس مقابلہ میں ایک غزل پیش کردی ہے؟ 


مجھ جیسے کم علم کو علامہ اقبال کے کسی شعر میں کوئی بات خلاف حق نہیں نظر آتی ، دنیائے ادب کے بڑے سے بڑے ناقد اور بڑے سے بڑے ادیب علامہ اقبال کے بارے میں یہ اظہار کئے بغیر نہیں رہتے کہ علامہ کا ایک ایک شعر ایک ایک کتاب کے برابر ہوا کرتا ہے۔ علامہ کے اس غزل کا بھی ایک ایک شعر اپنے دامن میں معنی کا سمندر سمیٹے ہوئے ہے جسے اسلام اور ادب کے ماہرین بھی اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں اس کے برعکس مولانا محترم کی غزل ایک سطحی غزل کہی جاسکتی ہے جس میں معنویت کم ہے اور بے معنی زیادہ۔ مولانائے محترم کی غزل میں تضاد بیانی بہت زیادہ ہے اور پہلا ہی شعر خلاف حق اور خلاف قرآن ہے۔ 


تضاد بیانی یہ ہے کہ محترم مولانا پہلے شعر میں فرماتے ہیں کہ رکوع، سجود، قعود اور نماز میں بندگی کا حق ادانہیں ہوتا بلکہ عجز و نیاز کے قیام میں ادا ہوتا ہے پھر فرماتے ہیں کہ خدا جیسے ہی میں نماز میں کھڑا ہوا وہی(خدا) آگیا میرے روبرو یعنی میرا حق بندگی ادا ہوگیا۔ ثبوت کیلئے قرآن مجید کا حوالہ دینا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ قرآن مجید میں رکوع، سجود اور قعود کی جو اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں ان کا استعمال کس مقصد کیلئے کیا گیا ہے وہ ہم پر عیاں ہوسکے:۔


’’زمین اور آسمان کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں ان ہوش مند لوگوں کیلئے بہت نشانیاں ہیں۔ جو اٹھتے (قیٰمًا) بیٹھتے (قعودًا) اور لیٹتے (جنوبہم) ہرحال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اورزمین اور آسمانوں کی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں۔ (وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں) ’’پروردگار، یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تو پاک ہے اس سے کہ عَبَث کام کرے۔ (سور ہ آل عمران ؛ آیت:190۔191)


قرآن میں رکوع، سجود، اور قعود کو جب استعمال کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب نماز مثلاً کہا گیا ہے کہ رکوع اور سجود کرنے والون کیساتھ تم بھی رکوع اور سجود کیا کرو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم بھی نماز پڑھنے والوں کیساتھ نماز پڑھا کرو، بندگی رب کرنے والوں کے ساتھ بندگی رب کیا کرو۔ سجدہ کا ذکر خاص طور پر کیا گیا ہے :۔


’’واسجدو واقترب (سجدہ کرو اور اپنے رب کا قرب حاصل کرو)۔ ‘‘(سورہ علق)
مولانا احسان علیؒ نے پہلے شعر کے دوسرے مصرعہ میں فرمایا ہے کہ نماز، رکوع، سجود اور قعود جیسی چیزوں سے بندگی رب ادا نہیں ہوتی ہے بلکہ قیام عجز و نیاز کے ذریعہ ادا ہوتی ہے موصوف کو یقیناًمعلوم ہوگا کہ اللہ کا فرمان ہے:


قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُوْنَ 


’’یقیناًفلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے جو : اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔ ‘‘
مولانائے محترم اچھی طرح سے جانتے ہونگے کہ خشوع کے معنی کسی کے آگے جھک جانا، دب جانا، اظہار و عجز و انکسار کرنا۔ اس کیفیت کا تعلق دل سے بھی ہے اور جسم کی ظاہری حالت سے بھی۔ 


مولانا امین احسن اصلاحی نے خشوع کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ :
’خشوع‘ کے معنی عاجزی، تذلل، نیاز مندی اور فروتنی کے ہیں۔ یہ لفظ مختلف شکلوں میں قرآن میں استعمال ہوا ہے۔ خشعت الاصوات اور تخشع قلوبہم وغیرہ کے استعمالات سے لفظ کی اصل روح پر روشنی پڑتی ہے۔ اس وجہ سے جن لوگوں نے اس کے معنی مجرد سکون کیلئے ہیں ہمارے نزدیک ان کی رائے صحیح نہیں ہے۔ یہ اس نماز کی اصل روح کی طرف اشارہ ہے جس پر مذکورہ فلاح کا انحصار ہے۔ مطلب یہ کہ رب کے آگے آدمی کی کمر اور اس کا سر ہی نہ جھکے بلکہ اس کا دل بھی سرفگندہ ہوجائے۔ ان اہل ایمان کی کیفیت یہی ہے کہ نمازوں میں ان کے قیام، ان کی ہیئت، ان کی آواز اور ان کے رکوع و سجود ایک ایک چیز سے ان کے دل کے خشوع کی شہادت ملتی ہے۔ یہ امریہاں ملحوظ رہے کہ پچھلی سورہ کی آخری آیت میں ’اقامۃ الصلٰوۃ‘ کی ہدایت ہوئی تھی جو نماز کے ظاہری اہتمام و التزام کی تعبیر ہے۔ اس سورہ میں نماز کی اصل روح کا ذکر ہوا اور وہ بھی اس حیثیت سے کہ یہ ان اہل ایمان کی صفت ہے جن کوفلاح کی یہ بشارت دی جارہی ہے۔ 
صاحب تفہیم القرآن مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ سورہ علق کی آیت نمبر 19 کی تشریح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:۔


’’سجدہ کرنے سے مراد نماز ہے۔ یعنی اے نبی، تم بے خوف اسی طرح نماز پڑھتے رہوجس طرح پڑھتے رہے ہو اور اس کے ذریعہ سے اپنے رب کا قرب حاصل کرو۔ صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ ’’بندہ سب سے زیادہ اپنے رب سے اس وقت قریب ہوتا ہے جب وہ سجدہ میں ہوتا ہے۔‘‘ اورمسلم میں حضرت ابوہریرہؒ کی یہ روایت بھی آئی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ یہ آیت پڑھتے تھے تو سجدۂ تلاوت ادا فرماتے تھے۔ (حاشیہ :تفہیم القرآن جلد:6، صفحہ: 399)‘‘


صاحب تدبر قرآن نے اس آیت کی تشریح کچھ اس طرح کی ہے:۔
’’فرمایا کہ اگر کوئی سر پھرا تمہیں خدا کے آگے سجدہ کرنے سے روکتا ہے تو اس کی اس حرکت کو خاطر میں نہ لاؤ بلکہ سجدہ کرو اور اپنے رب سے قریب تر ہوجاؤ۔ یہ امر یہاں واضح رہے کہ قرآن جگہ جگہ نماز ہی کو صبر و عزیمت اور فتحِ باب نصرت کی کلید بتایاہے اور سجدہ نماز کا سب سے اعلیٰ رکن ہے۔ یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ یہ کس کی مجال ہے کہ تمہیں اس چیز سے روک دے جو تمہاری زندگی کی غایت اور خدا سے تعلق کا واحد وسیلہ ہے۔ اگر کوئی ایسی بات جسارت کرتا ہے تو تم اس کے شر سے خدا کی پناہ چاہو جس کا واحد طریقہ اس کے آگے سربسجود ہونا ہے۔ ‘‘


اس طرح قرآن مجید کی روشنی میں اصل نماز عجز و انکساری ہے بلکہ یہی روح نماز ہے اگر یہ بات کسی کو معلوم ہو تو کیا اس طرح وہ کہہ سکتا ہے خواہ نثر میں ہو یا نظم میں کہ بندگی رب رکوع، سجود، قعوداور نماز میں ادا نہیں ہوسکتی بلکہ عجز و نیاز کے قیام میں ادا ہوسکتی ہے۔ 
دوسری بات یہ ہے کہ مولانا خود فرماتے ہیں کہ:۔


’’وہی آگیا میرے روبرو جو کھڑا ہوا میں نماز میں‘‘
یہاں نماز سے بندگی رب کا فریضہ ادا ہوجاتا ہے اور خدا بھی ان کے روبرو آجاتا ہے خدا کو وہ دیکھ بھی لیتے ہیں جس سے اصلی نماز یا اصلی بندگی کا حق ادا ہوجاتا ہے۔


ایک ہی غزل میں رکوع و سجود اور نماز میں خدانہیں ملتا اور اسی غزل کے ایک دوسرے شعر میں انہیں نماز میں خدا روبرو کھڑا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ کیا اسے تضاد بیانی کے سوا کوئی اور نام دیا جاسکتا ہے؟ محترم شہنواز صاحب اس سے آپ کی قلعی کھلے نہ کھلے مگر آپ کے پیر مرشد کی جگ ہنسائی تو ضرورہوجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو سمجھ عطا فرمائے کہ اپنے بزرگوں کو اپنی نامور ی کیلئے سربازار رسوانہ کریں وہ اللہ کے پاس جاچکے ہیں ان کے درجات کیلئے دعا کیجئے ، ان کے حق میں بہتر ہوگا اور انشاء اللہ آپ کیلئے زاد راہ ہوگا۔


رابطہ:9831439068
Email: azizabdul03@gmail.com


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 1520