donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Imam Azam
Title :
   Azad Ghazal- Aik Danishwarana Hanaiti Tajurba

آزادغزل۔ایک دانشورانہ ہئیتی تجربہ
 
گیسوئے تحریر:ڈاکٹرامام اعظم
 
دانشوارانہ افکارکی کسی عہد میں کمی نہیں ہوتی۔ یہ الگ سی بات ہے کہ دانشورانہ افکار کی سمت میں بار ہاتبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ لیکن موجودہ دہائی میں بین الاقوامی سطح سے لے کر برصغیر تک جودانشورانہ افکار دیکھنے کوملے ہیں ان میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ اب کوئی افلاطون اور ارسطو جیسا دانشور پیدا نہیں ہوتا۔ اور اسی سبب پرانی عینک سے دیکھنے والے لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ اب کوئی قد آور شخصیت پیدا نہیںہورہی ہے۔ یہ شکوہ لاعلمی ،ناواقفیت ذہنی وسعت کی کمی اور حالات کاصحیح طور پر تجزیہ نہیں کرنے کے سبب ہے یہ صحیح ہے کہ ارسطوفزکس اور ادب کابیک وقت ماہر تھا اور جملعہ علوم وفنون پر یکساں قدرت رکھتا تھا اور آج ایک آدمی بھی ہم ایسا تلاش نہیں کرسکتے جوجملہ علوم وفنون کاماہر ہو۔ اور یکسا طورپر اس نے تمام شعبوں میں اپناعلمی سکہ جمالیاہو۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔ جب کہ دانشوران عالم اس بات پر متفق ہیں کہ بیسویں صدی میں Intellectual growthتیز ہوئی ہے ہے۔ توپھرارسطو سے بڑی قد آورشخصیت اس دور میں پیدا ہونا چاہئے جوتمام علوم وفنون پریکساں دسترس رکھتی ہو۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ اور یہ قول غلط بھی نہیں ہے کہ Intellectual grovth ۲۰ ویں صدی میں تیز ہوئی ہے۔ مگرمعاملہ یہ ہے کہ ہم اپنی روایتی فکر ی جکڑبندیوں سے آزادہونے کی کوشش ہی نہیں کرتے سچائیوں کوقبول کرنے میں ہم یکسر اپناانداز وہی دقیانوسی رکھتے ہیں اور سچائی کسی پیمانے کی محتاج نہیں۔ پیمانے توفرسودہ ہوسکتے ہیں مگر سچائیاں فرسودہ نہیں ہوتیں۔ ہردور کی اپنی سچائیاں ہیں اور ان سچائیوں سے آنکھیں موند لینا گمرہی کے سوا کچھ نہیں۔ مگر افسوس ہے کہ ہمارے یہاں اور بالخصوص اردو میں جونام نہاد دانشورانِ ادب ہیں وہ ان سچائیوں کوقبول کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے اور انہیں یہ احساس ہوتارہتاہے کہ ہمارے ادب میں کوئی زوال یافکری دیوالیہ پن کی صورت پیداہوگئی ہے۔
 
بالخصوص۲۰ویں صدی میں آئنس ٹائن، مارکس، اور فرائڈکانام دانشورانہ فکری تبدیلیوں میں اہم تصورکیا جاتاہے۔ انسانی علم کافروغ تیزی سے ہوا اور ہرشعبے میں رفتار اس قدر تیزہوگئی کہ اس کی اپنیLimitation حدیاقید بے معنیٰ ہوکررہ گئی۔ ایسی صورت میں کسی ایک شعبے کاماہر ہونا بھی ایک تنہافرد کیلئے دشوارہوگیا۔ اس لئے دانشوروں نے یہ مناسب سمجھا کہ مخصوص شعبے کے مخصوص موضوع پرہی اپناپورازوردماغ اور صلاحیت استعمال کریں۔ اس لئے Specialization کی ابتداہوئی اور لوگ کسی مخصوص شعبے کے مخصوص موضوع پرSpecialistہونے لگے۔
۱۹۴۷کے بعد اور خصوصیت سے ۱۹۶۰کے بعددانشوروں کیلئے اور بھی مشکل پیداہوئی۔ دنیا کے سیاسی افق پرتمام سیاسی نظریے خودبخودتبدیلی کے متقاضی ہوئے۔ ترقی یافتہ ممالک فکری بحران کے شکار ہوئے اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ کوئی راہ نجات نہیں، کوئی نیا نظریہ نہیںجواس بحران میں سہارا دے سکے۔ دنیا کی بڑی طاقتیںاپنے داخلی مسائل میں اس قدرالجھ گئیں کہ انہیں باقی دنیا کی فکرہی نہیں رہی۔ ترقی پذیر ملکوں میں جوتقالی کی روش تھی یعنی ترقی یافتہ ملکوں کی پیروی کے سبب جومسائل پیدا ہوئے اس کانتیجہ یہ ہوا کہ پرانا نظام ٹوٹا اور بکھرا اور ایک دوغلہ نظام وجود میں آیا جس کی شکل اور بھی کریہہ تھی لیکن پھر کوئی تیسرا نظام ان کوسہارادینے والانہیں تھا۔ اس لئے Depressionکی کیفیت فکری سطح پر دیکھنے کوملی۔ اور غیر ترقی یافتہ ممالک دوراہے پرکھڑے پیش قدمی کیلئے تذبذب کاشکارہوگئے ان گذشتہ برسوں میں حالات نے اس تیزی سے ذہنوں کووجودذات کی طرف توجہ دینے کیلئے مجبورکیاکہ ہرانسان پریشان ہوکراپنے تحفظ اوراپنی بقا کیلئے تمام آفاقی سچائیوں سے بھی بے نیازاپنے خول میں گم ہوگیا۔ یہ المیہ ہمارے برصغیرمیں بھی دیکھنے کوملا۔
 
اقتدار کی تبدیلیاں کسی زمانہ میں دانشورانہ کوششوں کانتیجہ ہوا کرتی تھیں۔ رسواور مارکس نے سیاسی اقتدار کی تبدیلیوں میں اپنی فکری قوت کے جوہردکھائے لیکن اب سیاسی اقتدار کی تبدیلیاں انچاہے طورپر ہوتی رہتی ہیں جس کامقصدکوئی نظام حیات عطاکرنانہیں بلکہ تنگ سیاسی مفاد کاحصول ہی اس کا مقصد ہوتاہے کیوں کہ عوام کی دلچسپیاں سیاسی اقتدارکی تبدیلی سے براہ راست جڑی نہیں ہوتیں ان کے سامنے کوئی نظریہ یامثبت رویہ نہیں ہوتابلکہ محض ایک Routine Work کے طورپر اس میں شرکت کا ایک عمل ہوتاہے۔ ان برسوں میں اس بے تعلقی اوربے نیازی نے بہت سارے مسائل کوجنم دیااس سے ادب بھی متاثرہوا۔
اردو میں جدیدیت کے نام پر ناوابستگیNon-commitment جیسی بات کہی گئی ہے۔ لیکن یہ ناوابستگی بھی ایک Confusedفکری غیر صحت مندی کانتیجہ تھی۔ تجربے ہوئے لسانی تجربے ہوئے۔ بے راہروی کاسیلاب آیا جس میں جنسی بے رہ روی نمایاں رہی۔ ادب کے ماہرین دیکھتے رہے۔ جنہوں نے پرانے اندازسے سوچا انہوں نے جارحانہ حملہ کیا۔ جنہوں نے نئے اندازسے سوچا ان لوگوں نے جارحانہ حملہ کرنے کی بجائے یہ بتانے کی کوشش کی کہ یہ تبدیلی یانیاپن جوتمام پرانی قدروں کے لئے سم قاتل ہے اسے محض نفرت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جائے بلکہ تسلیم کیا جائے ۔ اور اسے ایک Processمان کریہ خیال کیا جائے کہ اس کے ذریعہ ایک ایسا ادب وجود میں آئے گا جو اس دور کا صحیح ترجمان ہوگا۔ ۱۹۷۰ءسے ۱۹۸۰میں جدیدادب جدیدتردور میں داخل ہوا اور سریلزم اور تجریدت کی روایت آگے بڑھی کچھ لوگوں نے سفر کارخ واپسی کی طرف کیا کچھ روایت سے حاصل کرنے کاسلسلہ شرو ع ہوا اور کچھ نے بالخصوص شعری میدان میں یہ محسوس کیا کہ ہئیتی تبدیلی بھی ضروری ہے کیوں کہ اظہار کیلئے جوجامدفارم ہمارے پاس موجود ہے اس میں تبدیلی کرنے سے فکری پے چیدگیوں کوتقویت مل سکتی ہے۔ اس لئے ہائیکواور آزادغزل جیسی چیزیں منظرعام پرآئیں۔ جاپانی فارم بائیکوکواردو میں اپنایا گیا اور غزل سے برآمد کردہ ایک فارم آزادغزل سامنے آئی جس میں ارکان کی کمی بیشی رواہے ہئیتی طور پر دوہے اور ماہیے کے چلن کورواج دیاگیا۔ دیگر اصناف سخن میں بھی تجربے ہوئے۔
جہاںتک آزادغزل کاسوال ہے یہ تسلیم کرناہوگا کہ ہئیتی تجربے کے لحاظ سے زیادہ جرأت مندانہ اختراع ہے۔ مگربقول مظہرامام:
 
’’آزادغزل ایک اچھوت صنفِ سخن ہے‘‘
اس کے ساتھ ایسا سلوک محض شخصیت شکنی کے سوا کچھ نہیں۔ کیوں کہ گذشتہ کئی دہائی کے درمیان آزادغزل کاتجربہ کرنے والوں میں فیض ،قتیل شفائی ،نازش پرتاپ گڈھی، حرمت الاکرام ، کرامت علی کرامت، زیب غوری، ساحرہوشیارپوری، حامدی کاشمیری، حسن امام درد، ڈاکٹرمناظرعاشق ہرگانوی علیم صبانویدی ،بدیع الزماں خاور کرشن موہن کرشن کمار طور، خالد رحیم، آزادگلاٹی، مہدی جعفر،فرحت قادری، طفرہاشمی، شاکرخلیق، ایم اے ضیاء ،منصورعمر، انور مینائی، عین تابش، مظفرایرج، امام اعظم وغیرہ شعراء شامل ہیں۔ دانشورانہ افکار کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ ان پرجم کربحث ہو۔ اس کی مخالفت بھی ہو اور اس کی پیروی کرنے والوں کی ایک اچھی خاصی تعدادبھی ہواور ساتھ ساتھ اسے قبول عام بھی حاصل ہو۔ مظہر امام نے آزاد غزل کاجوخاکہ پیش کیا اور اس کیلئے جوجوازپیش کیا ممکن ہے ان کی ہربات سے اتفاق نہ کیاجائے یہ بھی درست ہے کہ اسے قبول عام حاصل نہیں ہوا لیکن بہت کم عرصہ میں اتنا کچھ تو ہواہی کہ اس ڈگرپرچلنے والوں کی تعدادڈھائی سوسے زائدہوگئی ہے۔ اس کارواں میں مزیدنئے پرانے شعراء بھی شامل ہورہے ہیں۔ ایسا سوچنا کہ اس سے غزل کوئی نقصان پہنچے گا اس بنیاد پر کہ آزاد غزل آزادنظم کی طرح پابندی نظموں کوجس طرح شہر بدرکرچکی ہے آزادغزل بھی اسی طرح پابندغزلوں کوشہربدرکردیگی،یہ بات بعیدازقیاس ہے کیوں کہ پابندنظموںکاکوئی جامد فارم نہیںتھا۔ لیکن غزل کاایک جامد فارم ہے اس لئے اس کاامکان بہت کم ہے۔ لیکن بحث جاری ہے۔ یہ دانشورانہ فکرکی گواہ ہے۔
 
ایکسویں صدی میں آزادغزلوںکے کئی مجموعے منظرعام پرآئے ان میں علیم صبانویدی غزل زاد،نذیرفتح پوری غزل اندر غزل ، منصورعمر ردائے ہنر، کے نام اہم ہیں سجادبخاری نے مدارس یونیورسٹی سے آزادغزل پرایم فل کی ڈگری لی تھی۔ یہ تھیس ، آزادغزل کاتحقیقی اورتنقیدی جائزہ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوچکی ہے۔ ظفرہاشمی جمشیدپوربہاریونیورسٹی ، مظفرپورمیں پروفیسرعبدالواسع کی نگرانی میں آزادغزل پرپی ایچ ڈی کے لئے رجسٹریشن کرایا تھا اور ان کاکام تکمیل کے مرحلہ تک پہنچ چکاتھا۔ خودمیںنے مجلدتھیس دیکھی تھی لیکن اسی دوران ان کاانتقال ہوگیا۔ ان کی تھیس کے بارے میں بعد میں یہ اطلاع ملی کہ ڈاکٹرکرامت علی کرامت کتابی شکل میں چھپوانے کی غرض سے ان کی اہلیہ سے مانگ کرلے گئے تھے لیکن اتنے سال گذرنے کے بعد بھی ابھی تک ظفرہاشمی مرحوم کاتحقیقی کام منظرعام پرنہیں آیاہے۔
 
یہ الگ سی بات ہے کہ آنے والے وقتوں میں ممکن ہے کہ آزادغزل کے Specialistہی نظرآئیں اوریہ ایک ایسی صنف کی حیثیت سے ابھرکر سامنے آئے جوموجودہ صدی کے فکری ہیجان کوسمونے میںبہت زیادہ کامیاب ہو۔
 
++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 741