donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ibrahim Ashk
Title :
   Asri Taqaze Aur Fariyad Azer Ki Shayari

 

 عصری تقاضے اورفریادآزرؔ کی شاعری 
 
ابراہیم اشکؔ
 
کسی بھی فن پارے کی گہرائی تک پہنچنے کے لئے متعلقہ فن کار کی زندگی کے اتار چڑھاؤ اور اس کے نظریات و جذبات سے واقفیت نہایت ضروری ہے۔ آزرؔ کو جس قدر نزدیک سے خادم جانتا ہے اتنا کوئی بھی نہیں جانتا ہوگا۔ آج بھی اس کے بچپن‘ لڑکپن‘ اور شباب کی ہنگامہ آرائیاں ان نگاہوں میں قید ہیں۔
 
ہمیشہ سے ہی وہ اپنے ہمسنوں سے جداگانہ مشاغل فطری طور پر اپناتا رہا ہے ۔بنارس کا مشہو ہندی کا روزنامہ’ آج‘ پڑھنے کو مل جاتا تھا جس کے سنڈے ایڈیشن میں بچوں کا صفحہ ہوتا تھا جس میں ننھی منی نظمیں پہیلیاں اور لطیفے وغیرہ شائع ہوتے تھے۔ یہیں سے آزرؔ کو ننھی منی نظمیں کہنے کی تحریک ملی۔ اس کی پہلی نظم’’ورشا کا موسم‘‘ ’’آج ‘‘ کے سنڈے ایڈیشن میں شائع ہوئی تھی،جب اس نے چھٹی جماعت میں داخلہ لیا ہی تھا۔ پھر اس کا پورا بچپن تعلیم کے ساتھ ساتھ اخبارات و رسائل میں چھپنے چھپانے اور ریڈیو پر بچوں کے پروگراموں میں حصہ لینے میں گزر گیا۔
 
اعلا تعلیم کی غرض سے آز ر ۱۹۷۲ میں دہلی آیا۔ دہلی یونیورسٹی سے بی۔اے کرنے کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ اردو میں داخلہ لے لیا۔ جہاں اسے پروفیسر گوپی چند نارنگ جیسے سرپرست ملے۔یہیں سے اس کی شاعری کا دوسرا دور لیکن صحیح معنوں میں ابتدائی دور شروع ہوتا ہے۔ جامعہ کے ادبی ماحول اور یہاں کی فضاؤں نے اسے اشعار کہنے پر مجبور کردیا۔ ڈاکٹر عنوان چشتی نے اپنی شاگردی میں لے لیا۔ کچھ ہی مہینوں میں وہ شاعر‘ شب خون‘ سب رنگ‘ ادب لطیف اور افکار جیسے برصغیر ہند وپاک کے مقتدر ادبی جریدوں میں کثرت سے شائع ہونے لگا۔
 
ایم۔ اے کے بعد پروفیسر شمیم حنفی کی نگرانی میں ’’اردو اور ہندی کی رومانی شاعری کا تنقیدی مطالعہ‘‘ پر پی۔ایچ۔ڈی کے لئے مقالہ لکھا مگر بڑی شانِ بے نیازی کے ساتھ‘ جس کی سزا وہ آج تک بھگت رہا ہے۔ یعنی اس کے جونیئر احباب آج ریڈر اور پروفیسر ہوگئے ہیں مگر وہ آج بھی اسکول کی بھول بھلیوں سے باہر نہیں نکل سکا ہے۔ اور اب تو اس قدر مایوس ہوچکا ہے کہ اسے ہی اپنا مقدر تسلیم کرچکا ہے ۔
آزرؔ کی شاعری میں عام طور پر امت کے کرب کی جھلک ملتی ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ اس نے کبھی ذاتی کرب یا ذاتی خوشی کااظہار نہ کیا ہو۔جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اس کی شاعری کا ابتدائی دور اس کی ذاتی وارداتِ قلب کا اظہار ہے ؂
 
چلے تو فاصلہ طے ہو نہ پایا لمحوں کا
رکے تو پاؤں سے آگے نکل گئیں صدیاں
کلام کرتا میں اس سے دعا کے لہجے میں
مگر وہ بول پڑا تھا خدا کے لہجے میں
لوگ خوش فہمی کے پنجوں پر کھڑے تھے فطرتاً
اور یوں قد میرا ان کے درمیاں چھوٹا لگا
عجیب طور کی مجھ کو سزا سنائی گئی
بدن کے نیزہ پہ سر رکھ دیا گیا میرا
صبر کرنے کے سوا چاہ نہیں آزرؔ وگرنہ
ان درختوں پر مری خاطر ثمر کوئی نہیں ہے
بچاؤں لاکھ مگر بھیگ بھیگ سا جائے
وہ ایک عکس جو پلکوں کے سائبان میں ہے
وہ لے رہا تھا مرا امتحان قسطوں میں 
خبر نہ تھی کہ نکالے گا جان قسطوں میں
ادا ہوا نہ قرض اور وجود ختم ہوگیا
میں زندگی کا دیتے دیتے سود ختم ہوگیا
سب اپنی اپنی منزلِ مقصود پاگئے
کربِ انا لئے میں فقط سوچتا رہا
مجھے پھر اس سے تعلق بحال کرنا پڑا
وہ شخص مجھ سے بچھڑا کر اداس تھا کتنا
نہ روک پائی مری آستین کی خوشبو
اسے بھی لے گئی بہلا کے بین کی خوشبو
مجھ سے پتھر یہ کہہ کے بچنے لگے
تم نہ سنبھلو گے ٹھوکریں کھا کر
 
ان جیسے بے شمار اشعار آزرؔ کے ذاتی رنج و مسرت کے غماز ہیں۔مگر رنج و مسرت میں رنج اور کرب غالب ہیں۔ مذکورہ تمام اشعار آزرؔ کے پہلے مجموعۂ کلام’’خزاں میرا موسم‘‘ سے ماخوذ ہیں ۔میں نے شعراء کے بے شمار مجموعوں کا مطالعہ کیا ہے۔ اگر سچائی سے کام لیا جائے تو یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں ہوگی کہ نوے فیصد مجموعے تو صرف اور صرف ردی کی دکانوں کے لائق ہوتے ہیں ۔ باقی تقریباً دس فیصد مجموعوں میں معیاری اشعار کے نام پر گنتی کے ہی چند اشعار ملتے ہیں۔ مگر آزرؔ کا کمال یہ ہے اس کی ابتدائی شاعری میں بھی بے شمار اشعار ایسے ہیں جنھیں اردو کے شعری ادب کے سرمایۂ افتخار میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ بڑے بڑے ناقدین ادب نے آزرؔ کی شاعری کی عظمت کا اعتراف بھی کیا ہے۔ لیکن آزرؔ نے محسوس کیا ہے کہ اردو کے اعلا ترین ناقدین کو پاکستانی اور دیگر غیر ممالک کی اردو شاعری زیادہ متاثر کرتی ہے لہٰذا وہ لوگ انہیں شعراء پر رسائل اور کتب میں مضامین لکھتے ہیں ۔میرے نزدیک یہ آزرؔ کی سادہ لوحی ہے۔ حقیقت اور ہی کچھ ہے جس کا ذکر یہاں مناسب نہیں ہے۔
آزرؔ نے صرف اپنے ذاتی غموں پر ہی آنسو نہیں بہائے بلکہ سماج میں ہورہی ناانصافیوں اور قدروں کے زوال پر بھی اس کا دل رو پڑتا ہے۔ 
 
ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خوب سیرت لڑکیاں 
خوب صورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہوگئے
چہرے سبھی کے لگتے تھے مہمانوں سے مگر
خود کے سوا کسی کا کوئی میزباں نہ تھا
اب تو ہر شہر ہے اک شہرِ طلسمی کہ جہاں
کہ جو بھی جاتا ہے وہ پتھر میں بدل جاتا ہے
سبھی کو زہر اپنے اپنے حصے کا پڑا پینا
نئی تہذیب نے شاید کوئی شنکر نہیں پایا
فن کردیتا تھا پیدا ہوتے ہی عہدِ قدیم
رحم ہی میں مار دیتا ہے اسے دورِ جدید
جب سے میں نے گفتگو میں جھوٹ شامل کرلیا
میری باتوں کا برا پھر ما نتا کوئی نہیں
یہاں تاریخ کہلاتی ہے فرسودہ حکایت بھی
اور اس کے سامنے آنکھیں چراتی ہے حقیقت بھی
خلاؤں میں بھی شر پھیلا رہا ہے
پرندہ کتنا پر پھیلا رہا ہے
 
کوئی بھی فن کار کارخانۂ قدرت کے واردات و حوادث سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ اس کا مشاہدہ بہت زبردست ہوتا ہے۔ آزرؔ کے کلام میں ایسے موضوعات کی بہتات ہے جو ایسے ادراک و مشاہدات کی زبردست غمازی کرتے ہیں۔ عام طور پر آزرؔ کے ہر شعر میں کوئی نئی بات ہوتی ہے۔ اگر اتفاقاً نئی بات نہیں بھی ہوتی تو بھی نیا زاویۂ نظر اس شعر کو نیا بنا دیتا ہے۔ 
 
’’آزرؔ ہندو اساطیر کے حوالے سے بھی بات کرتا ہے اور تلمیحات کے حوالے سے بھی لیکن لا شعوری طور پر۔اس نے تشبیہ اور استعارہ وغیرہ دیگر شعری لوازمات کا بھی کبھی سہارا نہیں لیا۔ یہ الگ بات ہے کہ لاشعوری طور پر کہیں کہیں ایسا ہو گیا ہے۔ سچ تو یہ کہ وہ کلاسیکی شاعری کی جکڑ بندیوں سے بھاگتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور قدیم شعری قواعد و ضوابط سے آزاد رہنے میں ہی اپنی بھلائی محسوس کرتا ہے۔ لیکن عموماً عصری شعرا کی اچٹتی ہوئی نگاہ بھی جہاں نہیں پہنچتی ،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آزرؔ وہاں کا بھی مشاہدہ بڑی باریکی سے کرتا ہے۔ مادی ترقی میں خلا سے استفادہ حاصل کر کے سائنس نے زمانہ کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ آج انسان دیگر سیاروں کی سیر کر کے واپس آ چکا ہے اور وہاں مستقل رہائش کی فکر میں ہے۔ اس کے علاو ہ کاررخانہء قدرت میں ضرورت سے زیادہ چھیڑ چھاڑ کے کیا نتایج بر آمد ہو رہے ہیں ، عصری غزل میں عموماً ناپید ہیں لیکنآزرؔ کے کلام میں ایسے موضوعات کی بھر مار ہے۔‘‘
 
پروفیسر محمد حسن
خواب کی راہوں میں حائل تھیں ہوا کی سرحدیں
راستے لیکن خلاؤں کے وسیلے ہو گئے
اے زمیں تیری کشش کیوں اس قدر کم ہوگئی ہے
دوسرے سیاروں پر ہم آب و دانہ ڈھونڈتے ہیں
ورنہ ہم سانس بھی لینے کو ترس جائیں گے
سطحِ اوزون کو فضلات سے آزادی دے
وقت سے پہلے نہ آجائے قیامت آزرؔ 
گرین ہاؤس کو بخارات سے آزادی دے
بے ربط ہو چکے ہیں مواسم کے سلسلے
شاید زمین ابلقِ محور سے ہٹ گئی
اس قدر سبز درختوں کو نہ کاٹو کہ کہیں 
سانس لینے کو ترس جائے ہوا بیچاری
ہم چاند پر پہنچ کے بھی کچھ کر نہیں سکے
لپٹے رہے خلا سے تو دنیا بدل گئی
اب چند اشعار ہندو اساطیر کے حوالے سے بھی ملاحظہ فرمائیں۔
گرو کی یاد ا نگوٹھے سے آنے لگتی ہے
میں جب بھی ہاتھ میں تیرو کمان لیتا ہوں
سبھی کو زہر اپنے اپنے حصے کا پڑا پینا
نئی تہذیب نے شاید کوئی شنکر نہیں پایا
کبھی تو پاؤ ں سے چھو کے مجھ کو حیات دے دے 
میں تیری راہوں میں سنگ منظر پڑا ہوں کب سے
جس چڑیا کی آنکھ نشانے پر تھی میرے
اس کا سایہ بھی ہے تیرِ نظر سے باہر
صدیوں کا بن باس لکھے گی اب کے برس بھی
تنہائی اتہاس لکھے گی اب کے برس بھی
کیا سویمبر رچائے دھنک بک گئی
آج سیتا کی خاطر جنک بک گیا
چند چاول کے دانوں نے دکھلایا رنگ
اور دھرتی کے ہاتھوں فلک بک گیا
الزام کیا میں دیتا وبھیشن کی ذات کو
مجھ سے ہی جب لہو کا میرے انحراف تھا
آزرؔ کا سب سے بڑا کرب امت کی زبوں حالی‘ اس کے ساتھ کی جارہی سازشوں کے تحت اس کا قتل عام اور پھر اسی کو پوری دنیا میں دہشت گرد ثابت کرنے کی بین اقوامی سیاست ہے۔ 
اس قبیلے کے لہو میں ذائقہ اتنا لگا
جس کو بھی دیکھا اسی کے خون کا پیاسا لگا
آزما کر عالمِ ابلیس کے حربے جدید
ہوگئے قابض مری صدیوں پہ کچھ لمحے جدید
وہ یہاں ندیاں بہا سکتا ہے لیکن خوں کی
اس کو ہر رنگ میں صحرائے عرب جانتا ہے
اس نے میرا نام شوریدہ سروں میں لکھ دیا
اور خود کو امن کے پیغمبروں میں لکھ دیا
صحرا سے العطش کی صدا آرہی ہے پھر
تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے پھر
ہر آن سازشِ نو میں پھنسانا چاہتا ہے 
میں سر اٹھا ہی نہ پاؤں زمانہ چاہتا ہے
مرے وجود سے اس درجہ خوف ہے اس کو 
کہ میرا نام و نشاں ہی مٹانا چاہتا ہے
کربلا ہو کہ فلسطین ،کہ ہو بوسنیا
درد صدیوں سے مرا نام و نسب جانتا ہے
آزرؔ اپنی ذات اور امت پر ہورہے جبرو ظلم سے اس قدر مایوس ہوجاتا ہے کہ اسے دنیاسے بے زاری کا احساس ہونے لگتا ہے یہ احساس اس قدر شدید ہوتا ہے کہ وہ رومانی شعرا ء کی صف میں کھڑا نظر آنے لگتا ہے۔ یا تو وہ دنیا سے ہی دور چلے جانے کی خواہش کرنے لگتا ہے یا پھر ماضی میں کھوجاتا ہے۔ اس ماضی میں جس میں اس کی ذات آفات سے آزاد تھی اور اس ماضی میں جس میں تقریباً ہربراعظم پر امت مسلمہ کا دبدبہ تھا 
مجھے اب اور سیاروں پہ لے چل
میں گلوبل گاؤں سے اکتا گیا ہوں
کچھ تو ہوگا حال سے ماضی میں ہجرت کا سبب
یوں ہی بس یادوں کی چادر تنتا کوئی نہیں
کہاں سے دیکھتا میں تیرے خوبرو جہان کو
ہزاروں خواہشیں تھیں کوئی زاویہ نہیں ملا
اب اس جہان میں رہ کر سکوں نہیں ملتا
کہاں میں جاؤں گھڑی بھر سکوں نہیں ملتا
تیرا احسان کہ دنیا کو بنایا تونے
اک کرم اور کہ دنیا سے اٹھا لے مجھ کو
آزرؔ تلخ حقائق کی تاب نہ لا کرخیالوں کی دنیامیں ضرور چلاتا ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ وہ وہ حقیقت پسند نہیں ہے اس نے محسوس کیا ہے کہ امتِ مسلمہ کی بربادی کے ذمہ دار پہلے مسلمان خود ہیں‘ بعد میں کوئی اور ہے۔ 
سب سنائی دیتا ہے آزرؔ اذانوں کے سوا
محوِ حیرت ہیں ہم بھی ہوگئے کتنے جدید
اور کچھ بتلاتے ہیں اعمال ہم سب کے مگر
عظمتِ رفتہ کا بس ہم کو ترانہ یاد ہے
ہمارا حال‘ ماضی کا پتہ دیتا نہیں آزرؔ 
ہماری عظمتِ رفتہ پہ کس کو اعتبار آئے
یہ بدنصیبی ہماری ہے، کم ہوا ایسا 
کہ دشمنوں کے بھی حق میں دعا ہوئی ہم سے
آزر کے کلام کی ایک اور بڑی خوبی یہ ہے کہ حالاتِ حاضرہ پر ان کی زبر دست نظر ہے۔ وہ ایسے پہلؤں پر بھی نظر ڈالتے ہیں جہاں اردو کے دوسرے شعرا کی نگاہ نہین پہمچتی۔آج دنیا نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ اسے پیچھے مڑ کر دیکھنے کا بھی وقت نہین ہے کہ ایسی ترقی سے ماحولیات پر کیا اثر پڑ رہا ہے۔ اس ضمن میں فریاد آزرؔ کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں: 
خلاؤں میں بھی شر پھیلا رہا ہے
پرندہ کتنا پر پھیلا رہا ہے
فضائے شہر آلودہ بنا کر 
وہ گاؤں پر نظر پھیلا رہا ہے
ورنہ ہم سانس بھی لینے کو ترس جائیں گے
سطح ِ اوزون کو فضلات سے آزادی دے
وقت سے پہلے نہ آ جائے قیامت آزرؔ 
’’گرین ہاؤس‘‘ کو بخارات سے آزادی دے
فضاؤں تک ہی گر موجود رہتی تو بھی چل جاتا
خلاؤں میں اب آلودگی محسوس ہوتی ہے
فضائے شہر سے آتی ہوئی ہواؤں کو
میں سانس لینے سے پہلے ہی چھان لیتا ہوں
گلاب اگے تھے مرے شہر کے ہر آنگن میں
مگر فضا میں تھی رقصاں مشین کی خوشبو
ذہن میں اس کے کھڑکیاں تھیں بہت
پرفضاؤں میں آندھیاں تھیں بہت
زمیں گھر چکی تھی سرد آگ کی لپیٹ میں
جہاں سے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں ملا
ایک چنگاری فضاؤں کو خلا کر دے گی
خشک ہونے کو ہے پانی بھی ہوا جھیلوں کا
بدن صبا کا بھی یکسر دھوئیں میں لپٹا ملا
نسیم بھی لئے گرد و غبا ر گزری ہے
اہلِ صحرا بھی بڑھے آتے ہیں شہروں کی طرف
سانس لینے کو جہاں صرف دھواں باقی ہے
درخت یوں ہی اگر سبز سبز کٹتے رہے
بدل نہ جائے زمیں پر نصاب موسم کا
ہوا کے شہر میں بس سانس لینے آتے ہیں
وگرنہ اہلِ زمیں ہیں خلا سے لپٹے ہوئے
خلاف گاؤں کے اک یہ بھی جال شہر کا تھا
لگے بدلنے مواسم، کمال شہر کا تھا
کیسے آلودہ فضاؤں سے بچے با دِ نسیم
کیسے مسموم نہ ہو جائے صبا بے چاری
اس قدر سبز درختوں کو نہ کاٹو کہ کہیں
سانس لینے کو ترس جائے ہوا بے چاری
آزرؔ کے کلام پر اظہار خیال کرنے کے لئے مزید صفحات اور وقت کی ضرورت ہے مگر بہتر یہی ہے کہ قارئین خود ہی آزرؔ کے کلام کو پڑھ کر کوئی رائے قائم کریں۔
+++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 672