donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Hussain Sahil
Title :
   Anjum Ansari Ki Shayari, Asri Aagahi Ki Tarjuman


محمد حسین ساحلؔ

ممبئی


انجمؔ انصاری کی شاعری ، عصر ی آگہی کی ترجمان

 

انجمؔ انصاری حضرت منیرؔ الہ آبادی کے شاگر د رہے ہیں،ان کی  زندگی کا بیشتر حصہ صحافت سے وابستہ رہا، ان کی نظمیں اور مضامین ’الف الف ‘کے نام سے شائع ہوا کرتی تھی۔انھوں نے اردو ٹائمز میں دس سال تک بطور اعزازی ادارتی رکن کے طور پر اپنے فرائض انجا م دئے۔

 انجم انصاری کے کلام میں انکشاف ذات کے ساتھ سات حیات و کائنات کے مسائل بھی ابھر کر سامنے آتے ہیں،ان کی شاعری میں صرف عشقیہ جذبات و احساسات کی عکاسی نہیں ہے، بلکہ گرد و پیش کے حالات ، واقعات اور معاملات کی فن کاری بھی ہے ، اگر ہم ان کے اشعار کو دماغ کے ساتھ ساتھ دل سے بھی پڑھنے کی کوشش کریں تو ہمیں لگتا ہے ، ان کے ہر شعر میں ان کا عشق جو ش مارتا ہے اور گویا معشوقہ کے پہلوں میں ہی ان پر شعر نازل ہوا ہو۔

انجم ؔانصاری کی شخصیت شاعری کے حوالے سے کافی مقبول اور محترم سمجھی جاتی ہے، ان کے چاہنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے، جس میں سیاسی، ادبی شخصیات موجود ہے۔محبان اردو اور ممبئی کے ادبی حلقوں میں ان کی شاعری کے چرچے آج بھی رہتے ہیں۔انجم انصاری کی غزلوں پر کوئی فلمی رقاصہ رقص تو نہیں کرسکتی ، مگر ان کی غزلیں پڑھ کر کسی باشعور قاری

کا ذہن رقص کیئے بغیر نہیں ر ہ سکتا ۔

میں غرق ہوسکا نہ بھٹک ہی سکا کہیں
یو دیکھتے ہیں میری طرف بحر و بر کہ بس
O
جاری رہے شغل ِ مے و مینا کوئی دن اور
چلتارہے مستی کا تماشا کوئی دن اور
O
مل جاتی مجھے شہرت لافانی جہاں میں
ہوتا جو ترے نام سے رُسوا کوئی دن اور

انجم انصاری کے اشعاردو طرح کے ہوتے ہیں،کچھ اشعار پڑھ کر ایسا لگتا ہے گویا وہ کچھ چُھپاکر دکھا رہے ہو ، کچھ اشعار ایسے ہیں جنھیں پڑھکر ایسا لگتا ہے کہ وہ کچھ دکھا کر چُھپارہے ہیں۔

ترے سوا کوئی احساس میں سما نہ سکا
بدل کے رُوپ نئے انگنت صنم گزرے
O
آج پھر چمکتی ہے روشنی گلستاں کی
آج پھر لرزتی ہے شاخ آشیانے کی
O
عشق کرنا تھا ہم کو کرگزرے
خیر سے جو بھی جان پر گزرے
O
رسن و دار رہ گئے تکتے
اور دیوانے کا م کر گزرے
O
نظرچُرا کے تمھیں دیکھتے ، تو دیکھا ہے
مرا یقین ہوتم، یاگماں یہ سوچوں گا

انجم انصاری کی شاعری مختلف رنگ و نور سے سرشار نظر آتی ہے،کہیں ان کے اشعار میں میر ؔ کا درد نظر آتا ہے ، تو کہیں غالبؔکی جھلک نظر آتی ہے، کہیں اقبالؔ کا فلسفہ اُبھرنے لگتا ہے۔ ان کے اشعار نے ان بلندیوں کو چُھو لیا جہاںپہنچ کر دماغ بھی دل کی طرح دھڑکنے لگتا ہے:

جان جائے کہ رہے ، راہ وفا میں انجمؔ
ہم کو جو کہنا ہے ، بے خوف و خطر کہتے ہیں
O
بغیر عشق سکون ِ جگر نہیں ملتا
شب سیاہ میں نور سحر نہیں ملتا
O
پہلے جلوہ نہ دکھا یا جائے
پردہ  آنکھوں سے اُٹھایا جائے

انجم انصاری کی تخلیقی توانائی نظام، انتہائی متحرک اور فعال ہے۔ ان کے یہاں بصیرت اور آگہی کی وہ بلند سطح ہے، جو ماضی اور مستقبل پر نظر رکھتی ہے۔ ان کا آئینہ ادراک روشن ہے، جس میں وہ ماضی کے ساتھ ساتھ مستقبل کے آہٹوںکو بھی محسو س کرتے ہیں۔ان کی شاعری میں عصر حاضر کے مسائل کی ترجمانی ہے اور یہی عصر ی حسّیت اور آگہی ان کی شاعری کونقطۂ انفرادیت عطا کرتی ہے، اس میں ایک آفاقی شعور بھی ہے اور باطنی روشنی بھی جو آج کی تخلیقات میں کم ہی نظر آتی ہے۔ معاشرہ کے تما م متضاد اور مخالف لہروں کوانھوں نے اپنی شاعری میں سمو لیا ہے۔حقیقت یہ ہے انھوں نے اپنی شاعری میں وہ نقوش چھوڑدیے ہیں جو سماجی اور سیاسی راہوں میں بھٹکنے والوںکو منزل مقصود کا پتہ دیتے ہیں اور انھیں اپنی منزل تک پہنچابھی دیتے ہیں۔

یہ دور دورِ عیب ہے اس میں ہنر کہاں
خالی صدف میں ڈھونڈ رہے ہو گُہر کہاں
O
ہر ایک سمت سے یلغار ہے تلاطم کی
عجیب نیند ہے ملاّح چونکتا بھی نہیں
O
میرے خونِ ناحق میں آپ بھی تو شامل ہیں
قابل سماعت ہے آپ کی گواہی بھی
O
مُنصِفانِ عصر نو فیصلے کریں لیکن
رنگ لائے گی آخر میری بے گناہی بھی

ان شاعری اگر کسی سیاست یا تعصب کا شکار نہ ہوئی تو یقینایہ نصابی کتابوں کی زینت بن سکتی ہے۔اردو کا طالب علم اگر ان کی شاعری سے روشناس ہوا تو آئیندہ چند سالوں میں وہ انجم انصاری پرپی ایچ ڈی کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔نباّض قوم انجم ؔ انصاری کے فن کا اعتراف میں ان ہی کے ایک شعر سے کرتا ہوں:

آنکھیںابھی مَلتا ہوا بستر سے اُٹھا ہوں
نباّض ہوں ماحول کو پہچان رہا ہوں

(یو این این)

OOO

Mob.9869658668

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 554