donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Shayari
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Syed Md.Husain Mohsin Haiderabadi
Title :
   Nazm Taba Tabai-Aik Jayeza

 

نظمؔ طباطبائی۔ ایک تعارف


سید محمد حسین محسن حیدر آبادی


طباطبائی کی عظيم المرتبت اور بهاری بهر کم شخصيت دنيائے  ناب نظما دب اور خاص کر اہل حيدرآباد کيلئے محتاج تعارف نہيں ہے۔ يہ وہ صاحب قلم ہيںجنہوں نے اردو کو نہايت متين اور عالمانہ گفتگو سے نہ صرف روشناس کرايا

بلکہ ايسے اصول و ضوابط وضع کئے کہ ہر قسم کے دقيق اور جديد سائنسی مضامين ادب کی چاشنی کے ساته با آسانی تحرير کئے جا سکتے ہيں۔ نظم  طباطبائی حيدرآباد کے دار الترجمہ اور مجلس وضع اصطلاحات کے قيام کے روز  اول سے تا حيات وابستہ رہے اور دار الترجمہ کے ناظر ادبی کی حيثيت سے  ديکهئے تو کوئی کتاب ايسی نہ تهی جس کے ترجمہ ہونے کے بعد اس کے ہر ہر لفظ کو اور جملوں کی ساخت کو انہوں نے ديکها اور پرکها نہ ہو۔ يوں سمجهئے کہ طباطبائی �جامعہ عثمانيہ کے اردو ميں تمام تدريسی مواد کی صحتِ زبان پر نظم کی مہر تصديق ثبت تهی۔ ان کی اسکريننگ کے بعد ہی کوئی ترجمہ لائق طباعت و  اشاعت سمجها جاتا تها۔ نقد و نظر ، شاعری ، نثر نگاری ، ترجمہ ، قواعد ، عروض صاحب کا اجتہاد 􀀀 ، ضائع بدائع يا اور کوئی شعبہ زبان ايسا نہ تها جس ميں نظم داخل نہ ہو۔ ان کے زبان سے متعلق کسی بهی فيصلے کو ادبيات کی دنيا ميں کسی کی جرات نہيں تهی کہ اس کی ترديد کرتا يا اس کے بر خلاف رائے ديتا۔ ہماری طباطبائی ايک طرح سے مجتہد جامع الشرائط تهے۔ جناب 􀀀 زبان ميں جناب نظم کے پوتے 􀀀 طباطبائی کا سلسلہ نسب حسنی سادات سے ملتا ہے۔ امام حسن 􀀀 نظم جناب اسمعٰيل تهے جن کا لقب ’’طبا طبا‘‘ تها اس لئے يہ سلسلہ طباطبائی کے نام سے موسوم ہے۔ ان کے اجداد ايران سے ہندوستان آئے اور لکهنؤ ميں آ کر آباد  ہوئے۔ ان کی والدہ نواب معتمد الدولہ سيد محمد خان عرف آغا مير کے خاندان کی  تهيں اور ان کے والد سيد مصطفے حسين دربار اوده سے وابستہ تهے۔ 18 نومبر  طباطبائی پيدا ہوئے۔ سيد 􀀀 1853 ء کو محلہ حيدر گنج قديم ميں بروز جمعہ نظم تخلص کرتے تهے۔ علم و فضل 􀀀 اور کبهی حيدر 􀀀 علی حيدر نام تها۔ کبهی نظم صاحب کی تعليم ايک مکتب ميں ہوئی 􀀀 ميں يہ خاندان لکهنؤ ميں مشہور تها۔ نظم جہاں ملا باقر جيسے عالم ان کو پڑهاتے تهے عربی ادب اور فقہ ميں استعداد علمی کا آغاز انہيں بزرگ اساتذہ کی بدولت ہوا۔ فارسی اور علم عروض کی تعليم انہوں  سے حاصل کی۔ 1868 ء ميں پندرہ برس کی عمر ميں يہ اپنی 􀀀 نے ميندو لال راز  والدہ کے ساته مڻيا برج (کلکتہ ) چلے آئے جہاں واجد علی شاہ کی بدولت ايک چهوڻا لکهنؤ آباد ہو گيا تها۔ يہاں مولانا محمد علی مجتہد العصر سے درسِ نظامی منطق اور فلسفہ پڑها اور اس طرح اپنی تعليم مکمل کی۔ پهر وہ مڻيا برج ميں ہی واقع شہزادگانِ اوده کے لئے قائم کردہ مدرسہ ميں ملازم ہو گئے۔ مدرسہ کے  انگريزی کے استاذ محمد عسکری سے انہوں نے انگريزی زبان سيکهی اور اسکے  بدلے عسکری صاحب کو عربی پڑهائی۔ واجد علی شاہ کے انتقال کے بعد مدرسہ   ڻوٹ گيا تو ان کا ذريعہ معاش ختم ہو گيا۔ پهر مولوی سيد افضل حسين لکهنؤی ،  صاحب حيدرآباد آ گئے۔ 􀀀 چيف جسڻس حيدرآباد کی دعوت پر 1887 ء ميں نظم  افضل حسين صاحب سے ان کی ملاقات اس وقت ہوئی تهی جب وہ اس سے قبل  تفريحاً حيدرآباد آئے تهے۔ کسی مستقل معاشی وسيلہ کے فراہم ہونے تک افضل حسين صاحب نے اپنے فرزند آغا سيد حسين کی اتاليقی ان کے سپرد کی۔ 1889 ء  صاحب 􀀀 ميں نواب عماد الملک سيد حسين بلگرامی نے جو ناظم تعليمات تهے نظم کو مدرسہ اعزہ ميں عربی کا استاد مقرر کر ديا۔ 1890 ء ميں کتب خانہ آصفيہ کے  صاحب نے بڑی 􀀀 پہلے مہتمم بنائے گئے۔ اس کی تنظيم اور توسيع ميں نظم دلچسپی لی۔ اس وقت يہ کتب خانہ اس جگہ تها جہاں پر اب صدر ڻپہ خانہ عابد روڈ  سرکل پر ہے۔ اسکے بعد مدرسہ عاليہ ميں عربی فارسی کے استاد کی حيثيت سے  ان کا تقرر ہوا۔ پهر ان کا تبادلہ نظام کالج کر ديا گيا جہاں پہلے عربی اور فارسی  پڑهاتے رہے پهر اردو کے پروفيسر بنا دئے گئے۔ 1912 ء ميں ايک سال سے کچه  زيادہ عرصہ تک شہزادگان آصفيہ کے اتاليق رہے پهر نظام سابع کے حکم سے  صاحب کو صرفِ خاصمبارک سے جامعہ عثمانيہ کے دار 􀀀 1918 ء نظم الترجمہ منتقل کر ديا۔ يہاں پر ان کی تدريسی مشغوليات ختم ہوئيں اور علمی اور  ادبی تحقيقات کی زندگی کا آغاز ہوا۔ 1921 ء ميں وظيفہ پر عليحدہ ہونے کے بعد  ان کو دوبارہ ملازمت پر بلا ليا گيا کيونکہ ان کے بغير بہت سے کام رک گئے  تهے۔ ملازمت کا يہ سلسلہ ان کے انتقال 1933 ء تک جاری رہا۔ سرکاری وظيفہ  کے علاوہ ان کو دار الترجمہ کی خدمت اور تاريخ طبری کے اردو ترجمے پر انعام  و اکرام سے نوازا گيا تها۔ 1927 ء کو انہيں سرکار نظام کی طرف سے حيدر يار  جنگ کا خطاب عطا کيا گيا ہے۔ شاعری ميں انکے شاگردوں ميں سلطنت اوده اور  سلطنت آصفيہ کے شہزادگان کے علاوہ اور بهی بہت سے ايسے لوگ ہيں جو  دنيائے ادب ميں نامور ہوئے۔ مرزا آسمان جاہ انجم ، پرنس جہاں قدر نير (داماد واجد  ، 􀀀 ، منشی فياض الدين فياض 􀀀 علی شاہ )، عبدالحليم شرر ، پنڈت رتن ناته سرشار  سيد غلام مصطفے ذہين ، سيد ناظر حسين ہوش بلگرامی ، مہاراجہ کرشن پرشاد،  ، شہيد يار جنگ شہيد، اصغر 􀀀 نواب تراب يار جنگ سعيد، حکيم محمد عابد غيور  اور ميرے والد سيد علی محمد اجلال۔ يہ نسبت ديگر ماہرين 􀀀 يار جنگ اصغر  صاحب کی شہرت يوں عام نہيں ہے ان کے رشحاتِ قلم اتنے بلند 􀀀 زبان کے نظم  ہيں کہ ان کو پڑهنے والا اپنی بے بضاعتی کی وجہ سے گهبراتا ہے اور اس لئے  کی شرح اعلی 􀀀 صاحب نے ديوان غالب 􀀀 صرف نظر کر ليتا ہے۔ جب نظم جماعتوں ميں پڑهنے والے اور ريسرچ کے طالب علموں کی مدد کے لئے لکهی تو  عام اديبوں نے يہ اعتراض کيا کہ يہ شرح ايسی ہے جس کيلئے ايک اور شرح کی  طباطبائی کی ہی جلالتِ 􀀀 ضرورت ہے۔ يہ بالواسطہ اعتراف کم علمی تها۔ يہ نظم علمی تهی کہ انہوں نے غالب کے ہر شعر پر نگاہ ڈالی اور اسکے محاسن اور  معائب پر بے لاگ تبصرہ کيا اور جو فيصلہ انہوں نے سنا ديا وہ آج تک حرف آخر  کی حيثيت رکهتا ہے۔ يہ شرح عوام کے لئے نہيں لکهی گئی تهی۔ ويسے بهی ديکها  جائے تو غالب کا کلام باوجود شہرت کے جس قدر عام آدمی کے لئے ہے وہ  􀀀 صرف چند ہی اشعار پر مشتمل ہے۔ غالب کے کلام کے ديگر شارحين نے نظم صاحب کی شرح کو ہی پيش نظر رکها ہے يا ان ہی کے اشارات کو تفصيل يا اجمال کے 􀀀 يا تکرار سے بيان کيا ہے۔ اور اختلاف وہاں کيا ہے جہاں انہوں نے غالب  کے بعد شاعری ميں جو تجربے کئے گئے وہ موضوع 􀀀 خلاف لکها ہے۔ غالب کے اعتبار سے تهے جس ميں رديف ، قافيہ ، اور بحر کی ساری رائج الوقت اور 􀀀 صاحب نے يہ اجتہاد کيا کہ نظم 􀀀 پابندياں سامنے رکهی گئی تهيں ليکن نظم شعر کی ’’ہئيت ‘‘ ميں نئے نئے تجربات کئے۔ غزل ، مثنوی ، رباعی وغيرہ کی کو رائج کيا اور انگريزی (stanza) عام ہئيت سے ہٹ کر انہوں نے اردو ميں اسڻينزا  ساخت کی نظميں لکهيں جو ايک بالکل نئی چيز تهی۔ انہوں نے انگريزی منظومات کے اردو منظومات ميں انگريزی نہج پر ترجمے کئے اور ايک نئی بات يہ کی کہ صاحب کے بعد ہی 􀀀 رديف اور قافيہ انگريزی اصولوں کی بناء پر متعين کئے۔ نظم طباطبائی کے انگريزی منظومات سے 􀀀 اردو ميں اسڻينزا نويسی کا آغاز ہوا۔ نظم کئے گئے يوں تو بہت سے ترجمے اردو ميں موجود ہيں ليکن جو مرتبہ انگلستان کے ترجمہ ’’گور غريباں ‘‘ کو Elegy کے نامی شاعر طامس گرے کی ايليجی حاصل ہے اس درجہ کو آج تک کوئی نہ پہنچ سکا۔ ’’گور غريباں ‘‘ کی کاميابی کا  صاحب نے مفہوم کا ترجمہ کيا ہے اور اردو زبان کے اسلوب 􀀀 راز يہ ہے کہ نظم اور مقامی اسلوب اور مقامی ماحول کا پورا پورا لحاظ رکها ہے۔ يہ لفظی ترجمہ نہ ہونے کے باوجود ايليجی کی تمام خوبياں موجود ہيں۔ اگر اس کے لئے لفظ ترجمہ استعمال نہ کيا جائے تو يہ کلاسيکی ادب اردو کی بلند پايہ منظومات ميں شمار کيا  جا سکتا ہے۔ بقول پروفيسر سروری کے يہ ان چند ترجموں ميں سے ايک ہے جو  اصل سے بڑه گئے ہيں۔ اس ساری نظم ميں الفاظ کے وہ موتی پروئے گئے ہيں۔ اس ساری نظم ميں الفاظ کے وہ موتی پروئے گئے کہ عروسِ شاعری کا حسن دمک
اس طرح شروع ہوتی ہے۔ 􀀀 اڻها ہے۔ يہ نظم وداع روز روشن ہے گجر شام غريباں کا

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 717