donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ahsan Shafiq, Howrah
Title :
   Mushtaq Anjum Ki Takhliqi Jannat

مشتاق انجم کی تخلیقی حسّیت
 
(”تلاش “کے آئینے میں )
 
احسن شفیق، ہوڑہ
 
مشتاق انجم نئی نسل کے ایک فعال افسانہ نگار ہیں۔” تلاش “ ان کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ہے جس میں ان کے بیس افسانے شامل ہیں۔ اس سے پہلے ان کے افسانوں کا اولین مجموعہ ’بے گھری ‘ کے نام سے شائع ہوکر افسانوی منظر نامے پر اپنا نقش مرتب کرچکا ہے لہٰذا یہ دوسرا قدم ان کی پختہ تر تخلیقی ترجیحات اوراسلوب نگارش کااشاریہ ہے۔ 
 
ادب ،جہاں عصری کروٹوں کے ساتھ ا پنی کینچلی تبدیل کرتا رہتا ہے، وہیں اپنے ہم عصر کے سفرمیں اس کے ٹارچ بیر رکا کردار بھی اداکرتا ہے اس کی بصیرت اورصوابدید کی روشنی کے توانا جھماکے عصر کے منہ زور گھوڑے کی راہ بھی متعین کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ادیب اگر عصری تقاضوں کے چکرویو میں پھنس کر رہ جائے تو ابھی منّو بن جاتا ہے اور اگر اسے توڑ کر باہر نکل آتا ہے تو مہارتھیوں کی طرح اس کی سمیتےں متعین کرتا ہے۔ اک آگہی سے ارفع تر آگہی کی طرف زقند بھرتا ہوا مستقبل کی ایک نئی Sensibility کےلئے ر اہ ہموار کرتا ہے۔ داستان سے جدید تر افسانے تک کہانیاں کتنے ہی ابھی منوو¿ں اور کتنے ہی مہارتھیوں کی تاریخ دہراتی ہیں اور اپنے تسلسل کا بذات خود اثبات مہیا کرتی ہیں لیکن آج ہمارے سامنے یہ کہانی جس اجتہادی شکل میں نمو پزیر ہوئی ہے، اس نے Tyranny of the affects کے چکر ویو سے Intellectکو آزاد کرکے مخصوص روایتوں ، مخصوص معنوں اور مخصوص رویوں کی جبریت سے نجات دلائی ہے اور ہمارے شعور کو ایک Cosmic Dimention سے روشناس کیا ہے۔ آج افسانے کا تار وپود اور افسانہ نگار کا Treatment ریڈیم کی طرح ایسی رمزآشنا ،ہمہ جہت کرنیں بکھیر تا ہے جس کی روشنی میں ذہین قاری کے لئے زماں ومکاں کے اسرار بھی روشن ہوجاتے ہیں مگرشرط یہ ہے کہ روز مرہ کے حالات کی نبض پرہی افسانہ نگار کی گرفت نہ ہو بلکہ انکی روح تک تےر جانے کی صلاحیت بھی موجود ہو اور اس تجربے کے انحصار کا انفرادی اسلوب بھی رکھتا ہو۔ مشتاق انجم کے اظہار کی نشتر یت فن کی سرحدوں سے بہت قریب ہیں۔ یہ نرم اوردھیمے لہجے میں گفتگو کرتے ہیں۔ ملائم اور میٹھے روزمرہ کے الفاظ چنتے ہیں اور موضوع کی پرتےں کھولتے چلے جاتے ہیں۔اس کے لئے وہ کبھی تحلیل نفسی سے کام لیتے ہیں اور کبھی جذبات نگاری سے، کبھی علامت کاسہارا لیتے ہیں، کبھی استعارے کا،کبھی کہانی درکہانی سے مددلیتے ہیں،تو کبھی مختلف واقعات کے انضمام سے۔ 
اس مجموعے میں شامل افسانوں کی درجہ بندی مندرجہ ذیل طورپر کی جاسکتی ہے۔ 
 
(1) سماجی۔ دھوپ چھاؤں ، ردعمل ، شرطوں کی دیوار، پڑوسی ، آزاد فضا میں حبس۔ خواب گاہ کی روشنی۔ 
 
(2)جنسی۔ بندر فوبیا، سبب ، خواہش ، ٹو ان ون ، صندل، سیدھی گنگا۔
 
(3) علامتی۔ تلاش ، سائیکل ، خستہ دیواریں ، دوراہے پر، بے روح پرندہ ، زمین میں نصف گڑاہوا آدمی ، سیتا ہرن۔
 
مندرجہ بالا تقسیم موضوعی نہیں بلکہ بطریق اظہار ہے کیونکہ کوئی بھی موضوع سماج یاماحول سے باہر نہیں ہوتا، زندگی اور اسکے کوائف سے الگ نہیں ہوتا۔ جنسی اورسلامتی تقسیم والے افسانے بھی سماجی ہیں کیونکہ ان میں بھی زندگی کی سچائیوں، قدروں کی شکست وریخت کے کرب اور غیر تکمیلیت کے غم کا اظہار نظر آتا ہے مگر انہیں برتنے اور پیش کرنے کے طریقے الگ الگ ہیں۔ 
 
آج کاانسان جہاں جدید تر سہولیات سے فیض اٹھا رہا ہے وہیں جدید تر ذہنی ، نفسیاتی ، سماجی ، معاشرتی ،سیاسی یا اقتداری کربناک مسائل سے نبرد آزما ہے۔ ترقی کے منازل کے ساتھ ساتھ تنزلی کی کھائیاں منھ پھاڑے کھڑی ہیں۔ ایلائٹ ماحول اور تہذیب کی چمکتی ہوئی برنائیوں میں قدم قدم پر ایسے حالات اور حادثات سے انسان دو چار ہے جس کے کرب میںانسانیت ریزہ ریزہ بکھرتی نظر آتی ہے۔ سطحیت ، کمینگی اور تعصب نے شریفانہ چولا بدل لیاہے۔ محبت ، نیک نیتی ، بھائی چارگی اورہمدردی نے خود غرضانہ روپ دھارلیا ہے جس کی وجہ سے کھوکھلاسماج اور کھوکھلے انسان اور کھوکھلی تہذیب میں ایک حساس انسان کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ ہزاروں مسائل اور ہزاروں سوالات کا ذہن پر بار لئے ایک ادیب بے بسی اور بے کسی کے شکنجوں کو توڑ کر باہر نکلتا ہے اور اس منظر نامے کو اپنے فن کی گداز فضا میں بکھیر دیتا ہے۔ ”دھوپ چھاؤں “میں میچوئل سیپریشن کا غم ا یک عجیب کشمکش کا ماحول خلق کرتا ہے۔ ”شرطوں کی دیوار “ ، انسان کی اس خود غرضی کا علم بردار ہے جو وعدوں کے سہارے ہرممکن آسائش حاصل کرنا چاہتا ہے اور پس منظر میںاس کی بدنیتی جھلکتی رہتی ہے۔ ”اندھی کھڑکی “ ، میں اس کرب اورمجبوری کی کہانی ہے جو اپنی زندگی کو داؤپر لگاکر نئی نسل کو آسائش مہیا کرنے کی کوشش میں حاصل ہوتی ہے۔ اس میں قصہ در قصہ کی صنعت سے افسانہ نگار نے کام لیا ہے۔ 
” د ن رات تےمارد اری کرنےوالا۔ ہماری زندگی کا اہم حصہ بن چکا ہے، شیزان۔ وہ چلا گیا تو ہم ادھورے ہو جائیں گے“ 
 
” اس کا مستقبل سنورجائے گا“ نسیم کاجملہ میرے ذہن پر دستک دے رہاہے۔
” اسے جانے دو، ایک دوست نے میری دلی کیفیت کااندازہ کئے بغیر کہا۔ 
 
” بیٹے کے مستقبل کاسوال ہے۔“
 
قمر کو بلاکر کئی زاویوں سے سمجھا یا اور آخر میں محسوس کیاکہ بیٹے کی محبت پر اسکا مستقبل غالب آگیا۔ دیوار پر لگے کلنڈر بدلتے رہے۔ ہم میاں بیوی ملازمت سے سبکدوش ہوگئے۔رات کلیانی کی طبیعت بگڑنے لگی ،میرے پیروں میں بھی کپکپاہٹ ہورہی تھی۔ قد آدم آئینے کے سامنے آیا تومیرا چہرہ بھکاریوں جیسا لگا۔ گہری سانس لے کر کہا۔ 
 
”ایک بیٹا میر ابھی جاہل ہوتا، اس گدھے انیل کی طرح۔“
ڈائری میں آگے کے صفحات سفید تھے۔ قمر کے کھانسنے کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔وہاں پہنچ کر دیکھا۔ وہ ہانپتی ہوئی کہہ رہی تھی” ٹےبل پر گولیاں ہیں ذرا دینا۔ رات کو کمبخت کھانسی تےز ہوجاتی ہے۔ “
اس کہانی میں مشتاق انجم کی بصیرت نے منظر اور پس منظر کے انضمام میں بڑی فن کاری کا ثبوت دیا ہے۔ انہوں نے اپنا مطمحِ نظر اجاگر کرنے کےلئے ایک دوسرے ماحول کی کہانی کو ڈائری کے حوالے سے شامل کیا ہے اور اسکے اختتامیہ سے اصل کہانی کہہ دی ہے اور مجموعی تاثر کو آج کا مخصوص المیہ نہیں بلکہ عام المیہ کے طورپر پیش کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔ اسی طرح ’خواب گاہ کی روشنی “ میں بھی مشتاق انجم نے مختلف واقعات کو کہانی کا استعارہ بنادیا ہے۔ 
 
جنسی تقسیم والے افسانے اپنے موضوع کے لحاظ سے تازہ کار ہیں اورحسن اظہار سے پیش کئے گئے ہیں ان افسانوں میں بندر فوبیا کے تاروپود میں ایمائیت سے اور ”صندل “میں مشتاق انجم نے شعور کی رو سے استفادہ کیا ہے اور عام منظر کو پرکشش بناکر قاری کو شعوری جھٹکے بھی دیئے ہیں۔ آخر الذکر افسانے میں کونارک مندر کی مجردمورتےوں کومحرک بناکر افسانے سے فلسفے تک کی جست طے کی ہے اورسوالات اجاگر کئے ہیں۔ 
 
”گائیڈ کی آواز دور ہوتی جارہی تھی اورمیرے ذہن پر پڑا ہوا لحاف آہستہ آہستہ سرک رہا تھا“ 
فحاشی ،بے حیائی ۔خوبصورتی !
جنسیات ، عریانیت۔ آرٹ !
الگ الگ جگہ ، الگ الگ کلچر ، الگ الگ وقت ! ادیبہ مجھے پریشان دیکھ کرمسکرائی....
گرے نائیٹ پتھر کے بنے ہوئے سورج دیوتاکی مورتی۔ ٹھیک
اس سے ذ را نیچے ایک مزدور عورت۔ کپڑوں سے بے نیاز 
پتھرمیں پیوست۔
فرائیڈ اورمارکس کے ساتھ ساتھ میرا ذہن پھر بھٹکنے لگا۔ ........
اگرچہ’ صندل‘ جنسِ زندگی کی صراحت نہیں کرتا پھر بھی عریانیت اور فحاشی جو ہمارے سماج میں در آئی ہے اس کے اظہار کے لئے ادیب میں جو داخلی کشمکش پیدا ہوتی ہے اس کی طرف اشارہ ضرورکرتا۔ مشتاق انجم کے جنسی موضوع کا کینوس تنگ نہیں بلکہ اپنے اندر اس وجہ سے وسعت رکھتا ہے اس کے اندر رنگا رنگی کا احساس ہوتا ہے انہوںنے طوائفوں سے صرف نظر کیا ہے۔ چہار دیواری میں پھیلی جنسیات ہی تک اپنے آپ کو محدود نہیں کیا ہے بلکہ زندگی کی جدوجہد میں مختلف قابل احترام پیشوں میں جومفادی جنس زدگی سرایت کر گئی ہے اس کی طرف بھی توجہ صرف کی ہے اور الکٹرونک میڈیا کی پھیلائی ہوئی شہوانیت کے تسکینی پہلو کو بھی اپنی فنی گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے مگر ایسا لگتا ہے کہ کہیں کہیں ہ موضوعات، افسانہ نگار اور اس کے فن کی گرفت سے پھسل جاتے ہےں۔ مشتاق انجم کا فن علامتی تقسیم والی کہینیوں مےں کھلا ہے ۔ افسانہ نگار ان افسانوں کے ٹریٹمنٹ مےں اپنی چابک دستی اور انہماک کا ثبوت دےتا ہے۔ افسانہ تار و پود بنتے ہوئے اپنے افسانوں کو چیستاں یا ترسیل کی ناکامی کا شکار نہیں بننے دیتا اس کے تمام افسانے کج وضاحتی انداز بیان کی طرح شفاقیت کے حامل ہیں۔ مشتاق انجم علامتےں خلق نہیں کرتے بلکہ مقبول اسطور سے عصری آگہی کو کامیاب تخلیقی پیراہن عطا کرتے ہیں۔ ان افسانوں میںموضوع کہیں آسمان سے نہیں ٹپکا ہے بلکہ ہمارے روز مرہ کے مشاہدات وتجربات ہی سے اخذ کردہ ہے مگر ادیب کے Magic Touchنے اسے ایسی انفرادےت عطا کردی ہے جو بھیڑ میں بھی رہتے ہوئے اس بھیڑ سے ممتاز لگتا ہے۔ جو شناسا ہوتے بھی نشتر چبھو تاہے۔ جہاں ’بے روح پرندہ “ میں شامین ہمارے کچلے ضمیر اور مردہ انسانی اقدار کی علامت ہے وہیں تلاش کا ’سپر مین ‘ ہمارے ناقابل مسائل میں بے کسی کا مظہر۔ ” سائیکل “ میں بانسری ترسیلی روایت کی علمبردار ”خستہ دیواریں“ میں” ارجن کا تےر دوراہے پر “ میں” برگد اور سیتاہرن “میں سیتا ہمارے سماجی کرب کے نمائندہ ہیں ان افسانوں کا کلی تاثر بہت دیر تک قاری کو کچوکے لگاتا رہتا ہے جو افسانہ نگار کی کامےابی کی دلیل بھی ہے۔ ”اور تب ارجن نے دیکھا اُسکے چلائے ہوئے تےروں کی سیج پرگنگا پتر کا لہولہان جسم پڑاہوا ہے“ 
”مجھ سے اس گناہ کا بوجھ نہیں سہا جاتا دادا “ ارجن کی آواز کپکپارہی تھی۔ 
 
”تم نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ بھول مجھ سے ہوئی۔ اپنی کھائی ہوئی قسم کے جال میں یوں پھنس گیاکہ ہر لمحہ چھاتی میں تےر لگتے رہے، میں کراہتا رہا۔ حق وباطل کے بیچ فرائض کی چتا میں جھلستا رہا، جلتا رہا۔ “
” مجھے دوستوں سے کئے ہوئے وعدے پورے کرنے ہیں۔“ راجہ نے پریشان ہوکر کہا۔ 
” بیشک۔ لیکن محدود وسائل کی دلدل میں پھنس کر تم وعدے پورے نہیںکرسکتے۔بہتر ہے وار کردو۔نتیجہ اچھا ہی نکلے گا۔“ 
سیدھی سی بات ہے “ کوٹ ٹائی والے دوست نے کہا۔ ”تمہاری تنخواہ بھائی سے دوگنی ہے۔ تمہارا کنبہ بھی مختصر ہے اس لئے موقع ہے وار کردو۔“
 
بھابھی کی ساڑیاں روز بروز پرانی ہوتی گئیں۔ بھیا وقت سے پہلے بوڑھے ہوگئے۔ ارجن سب کچھ دیکھتا،کبھی اندر سے پگھلتا، کبھی تنہا ئی میں سسکیاں لیتا لیکن تھوڑی دیرکے لئے۔ پھر اپنے کنبے کو خوش دیکھ کر مطمئن ہوجاتا کہ اس نے بیوی بچے کے ساتھ انصاف کیا ہے۔!!
(خستہ دیواریں )
اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ افسانے کاموضوع اور اس کا نوکیلا تےر بظاہر تےن مختلف سچویشن کے مطابق بیچوںبیچ نکلتا چلاگیا ہے اور وار قاری کے دل پر پڑتاہے۔ 
 
مشتاق انجم کا افسانہ ”زمین میں نصف گڑا ہوا آدمی “ قابل توجہ ہے۔ اس افسانے میں فنکار نے علامت تخلیق کی ہے اوراسکے تاروپود میںاس عظیم کرب کو اجاگر کیا ہے جو ہمارے عصر کی سب سے بڑی لعنت ہے۔ ہم ہزار کوششوں کے کے باوجود اپنی روایت اوراپنے محبوب اقدار کو نہیں بچاپارہے ہیں۔ آج کی روشنی میں ان کی معنویت ٹوٹ چکی ہے اور تےز رفتار عصری تبدیلیوں میںان کا وجود خودکشی پرمجبور نظر آتا ہے نئی لہروں کے ریلے میں سب کچھ بکھرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ نئی ہواروز نئی آفت لاتی ہے۔ 
نہیں ، نہیں، اسے کچھ کرنا چاہئے ،روزانہ کی الجھن کاخاتمہ ہو جانا چاہئے۔ آج وہ پوری طرح آنے والے کی تاک میں ہے۔ 
 
حسب معمول جھن جھن کرتی رات اترتی ہے۔لوگ کمروں میں دبکے سورہے ہیں ہواسائیں سائیں چل رہی ہے۔ ہرطرف خاموشی کا پہرہ ہے اوراب اندھیرے میں وہ آنا چاہتا ہے۔ ہاں۔ ایک سایہ لہراتا ہے۔ وہ آرہا ہے۔ اب اس کی سمت بڑھ رہاہے اس کے کان کے قریب منہ لے جاکر بدبدانا شروع کرتا ہے۔ بس یہی لمحہ مناسب ہے۔ وہ سوچتا ہے۔ اور ایک جھٹکے سے ہاتھ بڑھا کر آنے والے کی گردن پکڑ لیتا ہے۔ 
چھوڑدو۔ چھوڑ دو مجھے۔ وہ چھٹپٹاتا ہے مگر اس کی گردن پر اس کا دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ وہ پوری قوت سے اسکی گردن دباتا ہے اس کی آنکھیں حلقوں سے باہر نکلنے لگتی ہیں۔ موت سامنے رقص کرنے لگتی ہے اور اب .... 
یکایک بجلی چمکتی ہے اور ایک لمحہ کی روشنی میں وہ یہ دیکھ کر چونک پڑتا ہے کہ اس کے سیدھے ہاتھ کی گرفت الٹے ہاتھ پر ہے اور آنے والاوہاں سے جاچکا ہے۔ 
 
وہ اپناسر پیٹنے لگتا ہے....!“
یہ تخلیق نفسیاتی کشمکش کی ا چھی مثال پیش کرتی ہے اور کہا جاسکتا ہے کہ مشتاق انجم نے اپنے کرافٹ پر گرفت مضبوط کرلی ہے اور اعتماد کے ساتھ اپنے افسانوں کو پیش کیا ہے۔ یہ روایتوں کی شکست و رےخت کے المیہ نگار بھی ہےں اورنئی قدروں کی تشکیل کے اخلاقی محسب بھی۔ ان کے افسانے جہاں حسن عسکری کے تلازمہ ¿ خیال ،ممتاز مفتی کی لاشعوری نفسیات ، منٹو کی جنسی لذتےت اورشمس آغا کے واتعاتی جزیات کی یاد دلاتے ہیں وہیں بنگال کے مابعد جدید افسانوں میں اپنا منفرد مقام بھی متعین کرتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں کردارکی بجائے مثالی نمونے ملتے ہیں اور بیشتر کرشن چندر کے کرداروں کی طرح خود افسانہ نگار کے ہمراز ثابت ہوتے ہیں جس سے افسانہ نگار کے Involvement کابھی پتہ چلتا ہے۔
منجملا مشتاق انجم کی یہ پیش کش اپنے چند مشمولات کو چھوڑ کر انہیں ایک توانا ، پر عزم اور صاحب طرز افسانہ نگار ثابت کرتی ہے اوران سے مزید بہتر افسانوں کی توقع بجا طور پر ہم کرسکتے ہیں۔ 
 
بشکریہ: مشتاق دربھنگوی
 
****************
Comments


Login

You are Visitor Number : 606