donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Anjum Manpuri Ki Inshaiya Nigari


احسان عالم

ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو

ایل۔این۔ایم۔یو، دربھنگہ

انجم مانپوری کی انشائیہ نگاری


    کچھ فنکار ایسے ہوتے ہیں جو اپنے فن میں غیر معمولی کارکردگی کی وجہ سے زمانے کے لئے ناقابل فراموش ہوجاتے ہیں۔ علم وفن کا خواہ کوئی شعبہ ہو وہ اپنی قابل قدر اور قابل اعتناخدمات کی وجہ سے سماج پر اتنے گہرے، اثرات چھوڑ جاتے ہیں کہ لوگ انہیں نہیں بھول پاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایسی عظیم شخصیت کی ذاتی زندگی اور ذاتی احوال و آثار سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے لوگوں کے اندر تجسس انگڑائیاں لینے لگتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کسی تخلیق کار کی تخلیق کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے ان کے حالات زندگی کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔ ہر عظیم شخصیت کی ذاتی زندگی کا مطالعہ اس لیے کیا جاتا ہے کہ اس کے ذریعے ان کے فکر و ذہن کے تدریجی ارتقا اور تخلیقی صلاحیتوں تک رسائی حاصل کی جاسکے۔ 

    انجم مانپوری کی اردو، فارسی اور عربی کی ابتدائی تعلیم مولانا عبدالغفور اور مولانا خیرالدین کی نگرانی میں گھر ہی پر مکمل ہوئی۔ اس کے بعد وہ شاہی مدرسہ مرادآباد چلے گئے۔ جہاں مولانا احمد حسن امروہی اور مولانا محمد الحسن سہوانی کی نگرانی میں انہوں نے آگے کی تعلیم حاصل کی پھر بھی ان کے اندر حصول علم کی پیاس باقی رہی چنانچہ وہ مراد آباد کے شاہی مدرسہ سے علم حاصل کرنے کے بعد ندوۃ العلماء لکھنؤ تشریف لے گئے۔ وہاں کے تعلیم اور علمی ماحول میں ان کے فکر و خیال میں مزید کشادگی بخشی۔ وہاں سید سلمان ندوی جیسے جید عالم ان ہم درس رہے۔ ندوہ کے زمانہ طالب علمی میں خواجہ عبدالرئوف ، عشرت لکھنوی سے شرف تلمذ حاصل ہوا۔ حصول علم کے بعد انجم مانپوری جب گھر واپس آئے تو ان کے اہل خانہ مانپور سے پھلگو ندی کے کنارے واقع محلہ موریا گھاٹ منتقل ہوگئے۔ وہاں ننھے نواب کے محل نما مکان کو ان کے بڑے بھائی نے رہائش کی غرض سے خرید لیا تھا۔ اسی مکان میں وہ بھی رہنے لگے۔ 

    انجم مانپوری نے انگریزی زبان و ادب کی کوئی خاص تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔۱۹۰۵ء کے آس پاس ان کی شادی ہوگئی۔ ان کی کل اولاد میں دو لڑکے اور تین لڑکیاں ہوئیں لیکن دونوں لڑکے بچپن ہی میں فوت کرگئے۔ 

    انجم مانپوری تحصیل علم کے بعد فکر معاش میں لگ گئے۔ ان کے والد اپنے زمانہ کے ایک اچھے تاجر شمار کئے جاتے تھے اس لیے انہوں نے بھی تجارت ہی کو اپنا پیشہ بنایا لیکن ان کا مزاج اس طرف راغب نہ ہوسکا۔ وہ کلکتہ چلے گئے۔ پردیس کی پہلی عیدنے گھر والوں کی یاد تازہ کرلی۔ اس سے متاثر ہوکر انہوں نے ایک نظم ’’مسافر کی عید‘‘ لکھی۔ کچھ روز بعد کلکتہ سے واپس آگئے اور تجارت میں بھائیوں کا ہاتھ بٹانے لگے۔ چونکہ ان کی ادبی زندگی تحصیل علم کے دورا ن میں شروع ہوگئی تھی اس لیے تجارت کے ساتھ شاعری اور نثر نگاری کا بھی سلسلہ چلتا رہا۔ شاعری میں عشرت لکھنوی سے اصلاح کرواتے تھے۔ 

    کچھ دنوں کے بعد وطن کو خیر باد کرکے ۱۹۱۸ء میں لاہور چلے گئے اور وہاں ظفر علی خاں کے اخبار ’’زمیندار‘‘ میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔ وہاں کا ادبی اور ثقافتی ماحول انہیں بہت راس آیا۔ ظفر علی خاں کی طنز و ظرافت نے ان کی تحریروں پر گہرا اثر ڈالا۔

    ۱۹۲۰ء میں گیا سے انہوں نے ایک مذہبی ’’رہنما‘‘ جاری کیا۔ گیا شہر کے اس تاجر پیشہ خاندان کی اچھی خاصی شہرت تھی۔ان کے نام سے ٹھیکہ کمپنی ’’انجم اینڈ کمپنی‘ اور ’’انجم ہارڈ ویر شوپ‘‘ کی شہرت پورے شہر میں تھی لیکن انہیں ان تجارتی جھمیلوں سے کوئی خاص واسطہ نہیں تھا۔ البتہ اچھی خاصی زمین و جائیداد ہونے کی وجہ سے مقدمہ بازی کے چکر میں ضرور پھنسے۔

    انجم مانپوری شوسل آدمی تھے۔ علمی و ادبی دلچسپیوں کے علاوہ محلہ مانپور سے کئی بار میونسپل کمشنر منتخب ہوئے۔ وہ کچھ دنوں تک گیا ڈسٹرکٹ بورڈ کے ممبر بھی تھے۔

    انجم مانپوری سن شعور ہی سے بے حد ذہین تھے۔ شگفتہ مزاجی اور حاضر جوابی کی وجہ سے ہر جگہ وہ ممتاز بنے رہے۔ جس محفل میں جانے اپنے برجستہ و برمحل فقروں سے قہقہوں کی بارش کر دیتے۔ زندہ دلی ایسی تھی کہ جس مجلس میں قدم رکھتے اپنے دلچسپ فقروں سے اسے زعفران زار بنادیتے۔ ان کا بنگلہ ہمیشہ محفل شعر و سخن اور ادبی نششتوں کی آماجگاہ بنا رہتا۔ امداد امام اثر علامہ فضل حق آزاد، عشرت گیاوی، عرشی گیاوی اور شفق عماد پوری جیسے بزرگ اور دانشمندوں کی علمی و ادبی صحبتیں ان کے فکر و خیال کو مہمیز کرتی رہیں۔ ہم عمر معاصرین میں سریر کابری ، شمس گیاوی، بسمل سنہاروی اور جگیر پرساد خلش وغیرہ ان کے ساتھ مل کر گیا کی ادبی محفلوں کو سجانے سنوارنے میں مصروف رہتے۔

    انجم مانپوری نے اس وقت انشائیہ نگاری کچھ لوگوں نے افسانہ کچھ نے طنز و مزاح ، کچھ نے مضمون اور کچھ نے انشائیہ کہا ہے چونکہ ان کے عہد تک انشائیہ کے صحیح خد و خال واضح نہیں ہوئے تھے اس لیے مختلف لوگوں نے ان کے مضامین کو الگ الگ نام و مقام شروع کی جب مرزا عظیم بیگ چغتائی ، خواجہ حسن نظامی ، شوکت تھانوی اور رشید احمد صدیقی جیسے بزرگان فن اور انشائیہ نگاری کی شمع روشن کئے ہوئے تھے۔ اس ادبی اور علمی ماحول کے پس منظر میں انجم نے مانپوری کی تخلیقی نشو نما ہوئی۔

    انجم مانپوری کی زندگی کا سب سے اہم کارنامہ ۱۹۳۱ء میں رسالہ ’’ندیم‘‘ کا اجرا کرنا ہے۔ یہ رسالہ ان کی ادارت میں ۱۹۳۸ء تک نکلتا رہا۔ اس کے بعد ریاست علی ندوی پھر حسن امام وارثی اس کے بعد محی الدین ندوی کی ادارت میں ۱۹۵۰ء تک نکلتا رہا۔ اس رسالہ نے انجم مانپوری کے ادارتی عہد میں جو کارنامے انجام دیئے وہ ناقابل فراموش ہیں۔ اس رسالے نے اپنا ایک رنگ ادبی میدان بنایا۔ ۱۹۳۲ء اور ۱۹۳۵ء میں انجم مانپوری نے رسالہ ’’ندیم‘‘ کا بہار نمبر نکالا۔ ان دونو ں خاص نمبروں نے نہ صرف بہار کی گزشتہ علمی اور ادبی عظمتوں کی بازیافت کی بلکہ نئے ادیب و شاعر کی تخلیقات کو منظر عام پر لاک انہیں ادبی دنیا سے روشناس کرایا۔ ان دونوں نمبروں کے شائع ہونے کے بعد اردو دنیا بہار کے گزشتہ اور موجودہ ادبی کارناموں سے متعارف ہوئی اور ان کی علمی و ادبی عظمتوں کو سمجھا۔

    ’’ان دو نمبروں کے اجراء کے بعد اردو دنیا نہ صرف بہار کی گزشتہ اور موجودہ ادبی کا رگزاریوں سے متعارف ہوئی بلکہ بہار اسکول کی علمی و ادبی عظمتوں کا اقرار و اعتراف کرنے پر مجبور بھی ہوئی‘‘۔(انجم مانپوری حیات و خدمات: قیوم خضر بحوالہ سہ ماہی ’’ادبی نقوش‘‘ گیا۔ انجم مانپوری نمبر مرتب سید احمد قادری جلد ۴ شمارہ ۴ صفحہ:۸۱)

    انجم مانپوری کی علمی وادبی خدمات اردو ادب کی تاریخ میں ایک سنہرے باب کا اضافہ ہے۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ بہت دنوں تک اردو طنز و مزاح کی تاریخ لکھنے والوں نے انہیں نظر انداز کیا۔ ماہنامہ ’’نقوش‘‘ لاہور(فروری ۱۹۵۹ئ) نے ضخیم ترین طنز و مزاح نمبر نکالا لیکن اس میں انجم مانپوری کا تذکرہ نہیں ہے۔ ۱۹۵۸ء میں وزیر آغا کی کتاب ’’اردو ادب میں طنز و مزاح‘‘ پنجاب اکادمی لاہور نے شائع کی اس میں ان کا ذکر نہیں ہے۔حالانکہ علامہ جمیل مظہری ’’طنزیات مانپوری‘‘ حصہ دوئم کے مقدمہ میں پہلے ہی کہہ چکے تھے :

’’مجھے کہنے میں عذر نہیں کہ مانپوری ابھی تک اپنے ہم وطنوں کی چشم اعتبار میں اپنی جگہ نہیں بناسکا۔ لیکن اس کی وجہ یہ نہیں کہ مانپوری اس کا مستحق نہ تھا بلکہ سچ پوچھئے تو اعتبار کی ان آنکھوں میں کمال کے لئے جگہ نہ تھی اور مانپوری کے پاس صرف کمال تھا۔ وہ غریب نہ فرانس کا والیٹر تھانہ انگلستان کا ایڈیشن نہ لاہور کا پطرس نہ لکھنو کا شوکت تھا نہ علی گڑھ کا رشید احمد صدیقی ۔ وہ صرف بہار کا مانپوری تھا، اس بہار کا جسے معاش کی دھن میں ارباب دولت اور ارباب اختیار کی پرستش سے فرصت نہیں‘‘

(طنزیات مانپوری‘‘ حصہ دوئم، مقدمہ علامہ جمیل مظہری ۱۹۴۰ء ص:۱۴)

    آزادی کے بہت دنوں کے بعد ۱۹۷۶ میں شفیع مشہدی صاحب نے انجم مانپور ی کے بارے میں لکھا:
’’شفیق الرحمن ، عظیم بیگ چغتائی، فرحت اللہ بیگ، شوکت تھانوی نے بھی اپنی تخلیقات سے طنز و مزاح کے سرمایہ میں اضافہ کیا ہے۔ یہاں بد دیانتی ہوگی اگر میں ایک ایسے گم نام ظرافت نگار کا تذکرہ نہ کروں جو گم نامی کے اندھیرے غار میں گم ہوگیا ہے اور جن سے اردو زبان کے بیشتر قاری و ناقد ناواقف ہیں، میری مراد انجم مانپوری سے ہے۔ ان کی دو تصنیفات، مطائبات مانپوری، اور ’’طنزیات مانپوری‘‘ اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہیں‘‘۔

(’’اردو میں طنز و مزاح‘‘ سونیئر آل انڈیا جشن ظرافت، ۱۹۷۶ئ)

    اس کے بعد ڈاکٹر افصح ظفر نے اپنے تنقیدی مضامین کے مجموعہ ’’نقد جستجو‘‘ جو ۱۹۷۷ء میں منظر عام پر آیا تھا میں ایک مضمون بہ عنوان’’ انجم مانپوری کا فن‘‘ شامل کیا لیکن اس شکایت کے ساتھ:

’’اردو کے مزاحیہ نگار اور طنزیہ نگار نثر طرازوں کو جب انگلیوں پر گنا جاتا ہے تو کسی کی انگلی انجم مانپوری کے لیے کسی پور پر نہیں رکتی۔ کلیم الدین احمد تو خیر کیا پوچھتے۔ فرقت کا کاروی اور وزیر آغا بھی اپنے ضخیم مقالوں میں ان کو جگہ دینے کے لئے تیار نہیں ۔ مجھے احساس ہوتا ہے کہ مانپوری بنیادی طور پر شوکت تھانوی اور عظیم بیگ چغتائی کے گروہ کے فرد ہونے کے باوجود ان دونوں سے کچھ مختلف بھی ہیں تھانوی اور چغتائی کے تخلیقی خزانے میں ایسا کوئی کردار نہیں جو مانپوری کے مخصوص قسم کے تخلیق کردہ کردار میر کلو کا مقابلہ کرسکے‘‘۔(بحوالہ سہ ماہی ’’ادبی نقوش‘‘ گیا، انجم مانپوری نمبر، مرتب سید احمد قادری جلد نمبر ۴ شمارہ ۴ ص: ۱۱۴)

    خواجہ عبدالغفور نے پہلی بار اپنی کتاب ’’طنز و مزاح کا تنقیدی جائزہ‘‘ جو ۱۹۸۳ء میں موڈانی پبلشنگ ہائوس دہلی سے شائع ہوئی ہے میں انجم مانپوری کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مانپوری مفرد انشا پرداز اور مزاح نگار ہیں۔ ان کا تخلیق کردار ’’میر کلو‘‘، سماج ، سیاست اور معاشرے پر اور ان کی گندگیوں پر بے مثال طنز ہے۔ وہ ہنسی ہنسی میں اپنی بات کہہ جاتے ہیں کہ پڑھنے والا اسی کی چبھن محسوس کرتا ہے۔ نظم و نثر میں ان کا قلم گل بوٹے کھلاتا ہے۔

    ادھر کچھ لوگوں نے ان کی انشائیہ نگاری پر مضامین لکھ کر رسائل و جرائد میں شائع کرائے جن سے انجم مانپوری کی شخصیت ابھر کر سامنے آئی اور ان کے فن سے بہت حد تک واقفیت حاصل ہوئی۔
    معین شاہد مدیر ہفتہ وار ’’آدرش ‘‘گیا نے ۱۹۷۹ء میں انجم مانپوری کی سنجیدہ اور مزاحیہ شاعری پر مشتمل ایک مجموعہ ’’کلام انجم مانپوری‘‘ کے نام سے شائع کروایا ہے جو ایک قابل تحسین قدم ہے۔ ’’بہار میں مزاح نگاری اور انجم مانپوری بحیثیت مزاح نگار‘‘ کے عنوان سے ایک اسکالر نے تحقیقی مقالہ لکھ کر مگدھ یونیورسٹی سے پی ایچ۔ڈی۔ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ رسالہ’’ندیم‘‘ پر بھی ایک پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا جاچکا ہے۔ مگر یہ تمام تحریری کام سطحی ہیں اس لئے انہیں ناکافی کہا جاسکتا ہے۔ ادھر سہ ماہی ’’ادبی نقوش‘‘ گیا جلد نمر ۴ شمارہ ۴ ’’انجم مانپوری نمبر‘‘ ہے جسے سید احمد قادری نے مرتب کیا ہے۔ اس سے انجم مانپوری کی شخصیت اور فن پر بہت حد تک روشنی پڑتی ہے۔ ضرورت تھی کہ بہار کے ایسے عظیم فنکار کے تخلیقی کارناموں پر سرکاری یا غیر سرکاری ادارے کھل کر بات کرتے اور انشائیہ نگاری میں ان کے مقام و مرتبہ کو غیر جانبدرانہ طریقے سے پیش کرتے۔

    انجم مانپوری کے انشائیوں کے چار مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ تین ان کی زندگی اور ایک ان کے انتقال کے بعد۔ ان میں کم و بیش چالیس انشائیے شامل ہیں۔ ان کے انشائیوں کا پہلا انتخاب ۱۹۳۸ء میں ’’طنزیات مانپوری‘‘ حصہ اول کے نام سے شائع ہوا۔ اس میں کل تیرہ انشائیے شامل ہیں جو ۳۱۴ صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کا مقدمہ وصی احمد بلگرامی نے لکھا ہے۔ ۱۹۴۰ء میں ان کے انشائیوں کا دوسرا انتخاب ’’طنزیات مانپوری‘‘ حصہ دوم منظر عام پر آیا اس میں کل بارہ انشائیے شامل ہیں جو ۳۴۰ صفحات پر مشتمل ہیں۔ اس کا مقدمہ بہار کے مشہور و معروف شاعر علامہ جمیل مظہری نے لکھا ہے۔ تیسرا مجموعہ ۱۹۵۲ء میں ’’مطائبات مانپوری‘‘ کے نام سے چھپا ہے۔ اس سال طنزیات مانپوری پہلے حصہ کا دوسرا یڈیشن بھی نکلا اور اس سال پہلے حصہ کا ’’ہندی ایڈیشن‘‘ ’’نورتن‘‘ کا نام سے سامنے آیا۔ چوتھا مجموعہ ان کے انتقال کے بعد ۱۹۶۳ء میں ’’مرنے کے بعد‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس میں پانچ انشائیے ہیں۔ اس کی ضخامت ۱۱۰ صفحات ہے۔

    اس طرح ان چاروں مجموعوں میں چالیس انشائیے ’’میر کلو کی گواہی‘‘ ’’ماما کی مصیبت‘‘، ’’مری اسیری‘‘، ’’ہاں میں ہاں‘‘ ’’میرا روزہ‘‘ ’’سکنڈ ہینڈ موٹر‘‘ ’’پاگل خانہ کی سیر‘‘ ’’شادی کی تقریب‘‘ ’’پنک آشرم‘‘ ’’اڈیشنل وائف‘‘ ’’میونسپل الیکشن‘‘ ’’ہاتھی‘‘ ’’کرایہ کی ٹم ٹم‘‘ ’’میری عید‘‘ ’’نامرد نگفتہ باشد‘‘ ’’ہوم پالیٹکس‘‘ ’’وبال جان‘‘ ’’اینٹی فادر کانفرنس‘‘ ’’سخن تکیہ‘‘ ’’ایک ناگہانی دوست‘‘ ’’اسٹوڈنٹ لائف‘‘ ’’ہوسٹل لائف‘‘’’صاحب کا کتا‘‘ ’’آنریری مجسٹریٹ‘‘ ’’انڈر گریجویجویٹ‘‘ ’’سفارش‘‘’’دوستی‘‘ ’’شادی کی فضول خرچیاں‘‘’’اپٹوڈیٹ شاعری‘‘ ’’میر سفر‘‘ ’’ٹیوشن‘‘ ’’ہمارے داروغہ جی‘‘ ’’کلکتہ ریٹرن دوستی‘‘ ’’ناخواندہ مہمان‘‘ ’’مرنے کے بعد‘‘ ’’انٹرویو‘‘’’جھوٹ کا نباہ‘‘ اور ’’اسٹیشن کی سیر‘‘ ہیں۔ جو کئی جہتوں سے بڑے اہم ، دلچسپ ، دلکش اور فکر انگیز ہیں۔

    ’’اسی طرح سے چالیس کے قریب مانپوری کے طنز و مزاحیہ مضامین سامنے آئے جو کئی جہتوں سے بڑے اہم، دلچسپ اور فکر انگیز ہیں۔ ان میں جو لطیف احساسات و جذبات، شوخی و شگفتگی ، مزاج کی چاشنی اور طنز کے تیر و نشتر ہیں وہ مانپوری کو ایک منفرد اور مخصوص مقام طنز و ظرافت میں عطا کرتے ہیں۔‘‘(’’انجم مانپوری کے فن کا تنقیدی جائزہ‘‘سید احمد قادری، ماہنامہ ’’ادبی نقوش‘‘ گیا انجم مانپوری نمبر مرتب سید احمد قادری جلد ۴ شمارہ ۴ ص:۱۱۲)

    انجم مانپوری نثر نو یسی کے علاوہ مزاحیہ اور سنجیدہ شاعری کے نمونے بھی چھوڑے ہیں۔ انہوں نے زندگی کے روز مرہ کے واقعات، نئے نئے واردات اور تازہ تازہ حالات کو اپنے سحر آفریں قلم سے نمایاں کی ہیں۔ ان میں طنز و مزاح کے جو پہلو ہوسکتے تھے انہیں سمونے کی پوری کوشش کی ہے۔ میر کلو کی گواہی ، کرایہ کی ٹم ٹم ، سکنڈ ہینڈ موٹر، مرنے کے بعد، اینٹی فادر کانفرنس، اسٹوڈنٹ لائف، آنریری مجسٹریٹ، میری اسیری، اڈیشنل وائف اور میونسپل الکشن وغیر ان کے ایسے انشائیے ہیں جنہیں کبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان میں طنز و ظرافت کے اعلیٰ اور خوبصورت نمونے پیش کئے گئے ہیں ان انشائیوں کے ذریعہ انہوں نے مغرب زدگی ، حکومت پرستی، مذہب سے بیزاری ، اخلاقی کمزوری اور سماجی بے راہ روی کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔

’’مانپوری کی تمام تحریروں میں زندگی کی کسی نہ کسی ناہمواری پر ہمدردانہ نگاہ ڈالی گئی ہے اور سماج کی ان دکھتی رگوں پر انگلی رکھی گئی ہے جس سے ٹیس پیدا ہوتی ہو، ان کا مقصد دل آزادی نہیں ، تفریح نہیں، تمسخر اور تضحیک نہیں بلکہ ان کا مقصد اصلاح معاشرہ ، تعمیر سماج اور تہذیب زندگی ہے، ان میں دلچسپی بھی ہے اور فکر انگیزی بھی ۔ احساسات کی لطافت، جذبات کی نزاکت، شوخی، شگفتگی بیان کے ساتھ ساتھ مزاج کی چاشنی، طنز کا تیر اور ظرافت کی پھلجھڑی جھومتی نظر آتی ہے۔‘‘(’’انجم مانپوری۔فن‘‘ محمد محفوظ الحق، ماہنامہ زبان و ادب‘‘پٹنہ دسمبر ۲۰۰۶ صفحہ: ۵۵)

    مختصر یہ کہ انجم مانپوری کے انشائیوں کا مقصد تعمیری اور اصلاحی ہے اس لیے ہنساتے ہنساتے ’’گدگدائے گد گدائے‘‘ وہ سب کچھ کہہ جاتے ہیں جو وہ کہنا چاہتے ہیں۔                  

     (روزنامہ ’’پندار‘‘ پٹنہ، ۱۷؍ جنوری ۲۰۱۵ئ)

٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 2850