donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ajay Malvi
Title :
   Sabaq Urdu Ka Tareekh Saz Shumara Gopi Chand Narang Aur Ghalib Shenasi

 مبصر :  ڈاکٹر اجے مالوی

۱۲۷۸/۱ مالوی نگر، الہ آباد۔    

موبائل نمبر : 9451762890



 ’سبق اُردو کا تاریخ سازشمارہ ’گوپی چند نارنگ اور غالب شناسی

 

        اکیسویں صدی کے ما بعد جدید تواریخی تناظر میں ــ’سبق اُردو‘ کا تاریخ ساز شمارہ’گوپی چند نارنگ اور غالب شناسی‘  خصوصی معنویت و اہمیت کا امین ہے۔ یوں تو اُردو میں گوپی چند نارنگ نمبر قریب قریب ہندوستان اور پاکستان کے تمام رسائل نے شائع کیے ہیں لیکن ڈاکٹر دانش الہ آبادی کی ادارت میں شائع ہونے والا رسالہ ’سبق اُردو‘ اکیسویں صدی کا بیک وقت جمالیاتی اور معنویاتی سطح پر ایک غیر معمولی نو معیارساز نا قابلِ فراموش تحقیقی اور تنقیدی دستاویز کہا جائے تو شائد مبالغہ نہ ہوگا۔ حالی ؔ کے بعد اُردو کے تحقیقی و تنقیدی ادب میں پروفیسر گوپی چند نارنگ صاحب نے سب سے مایہ ناز تحقیقی اور تنقیدی کتاب غالب شناسی کے ضمن میں پیش کر دی ہے جو اندھیرے میںسب سے بڑا جگمگاتا ہوا قدم ہے۔ جو آنے والی صدیوں تک غالبیات میں ایک ذہنی راہ نما قدم ثابت ہوگا۔ دانش الہ آبادی اُردو کے ادبی اشرافیہ اور پرولتاریا کے دل کی گہرائیوں سے مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے معاصر ادب کے صفِ اوّل کے ناقدین و محققین اور تخلیقی فنکاروں کے گراں قدر اور معنی خیز مقالات، مضامین اور تبصرات کو نہایت ادبی دیانت داری اور ژرف نگاہی سے مرتب کیا ہے۔ جو اُن کی دانشورانہ بصیرت اور ذہنی توازن کا ترجمان ہے۔ تمام رُشحات فکر نارنگ صاحب کی جلیل القدر تنقیدی صحیفہ ’غالب :معنی آفرینی، جدلیاتی وضع، شونیتا اور شعریات ‘ پر مبنی ہے۔

        اس کے بعد افسانوی اور ناولاتی لیجینڈ Legend جناب انتظار حسین کی گراں قدر اور بصیرت افروز تاثر نامہ      خاطر نشیں ہو :

’’کلام غالب کی اب تک کتنی تعبیریں ہو چکی ہیں۔ مگر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ غالب پر غور و فکر کرتے کرتے ایسی راہ کی طرف نکل گئے ہیں جس کی طرف شائد ہی کسی ماہر غالبیات کا دھیان گیا ہو۔۔۔        

نارنگ صاحب کو تو یہ خیال آنا ہی تھا کہ اب ان کا اصرار اس پر ہے کہ اُردو کی کلاسیکی شاعری حسن و عشق کے جس تصور کی امین ہے اس کا سر چشمہ قدیم ہند کے افکار و تصورات میں ہے۔ سو شائد انھوں نے غالب سے بھی کچھ ایسے اشارے لیے اور قدیم ہند کے افکار و تصورات میں لمبی غوطہ زنی کر ڈالی۔ وہاں انھیں غالب کی فکر کے دو سرچشمے نظر آئے۔ ویدانتی فلسفہ اور بودھی فکر۔۔۔ نارنگ صاحب کو اس پر بھی اصرار ہے کہ غالب نے اگر واقعی کسی فارسی شاعر سے گہرا اثر قبول کیا ہے تو وہ سبک ہندی کا شاعر بیدل ہے۔ مگر بیدل اور غالب دونوں اگر کسی سے قریب ہیں تو ان کی دانست میں وہ کوئی فارسی شاعر نہیں بلکہ بودھی فکر کا ترجمان مفکر ناگارجن (یعنی اس کی جدلیاتی حرکیات کے لاشعوری اثرات) ہیں۔ مگر ادھر انھیں دریدا کی فکر کے ڈانڈے بھی ناگارجن کی فکر سے ملتے نظر آتے ہیں۔ نارنگ صاحب نے شعر غالب کی تعبیر کچھ اس طرح کی ہے کہ ایک طرف اس کا رشتہ ویدانتی فلسفہ اور بودھی فکر سے نظر آ رہا ہے اور دوسری طرف اس کے ڈانڈے آج کل کی ما بعد جدید فکر سے ملتے دکھائی دے رہے ہیں۔‘‘

        اس کے بعد دوسرے تخلیقی فنکاروںافتخار عارف،ساقی فاروقی،سعید نقوی،ابولکلام قاسمی، بیگ احساس، انور سین رائے،رؤف پاریکھ، شافع قدوائی، عارف وقار اور ظفر اقبال کے غیر معمولی تاثراتی آرأ کو نہایت خوش اسلوبی سے پیش کیا گیا ہے۔ اس کے بعد مضامین کا حصّہ شروع ہوتا ہے۔ جو قابلِ قدر اور قابلِ مطالعہ ہے۔ خصوصی طور پرفرحت احساس، ناصر عباس نیر، شافع قدوائی، ف س اعجاز اور حقانی القاسمی کے مضامین نئی نکتہ شناسی کے حامل ہیں۔فرحت احساس اپنے مضمون میں نکتہ طراز ہیں :

’’نارنگ صاحب نے اپنی کتاب میں فکر و آگہی کے ساتھ ساتھ وجدانی خاموشیوں کی تہوں کو ایک ساتھ اس طرح چھوا ہے کہ ان میں مفکر کی عقل صوفی کے آئینہ ادراک میں صبح کے تازہ پھول کی صورت بہار آفریں نظر آتی ہے۔ زبان اور خاموشی کا ذکر کرتے ہوئے انھوںنے ان دونوں کے باہمی تعلق اور انحصار کو جن وجدآفریں لفظوں میں بیان کیا ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ غالب کی شاعری میں لفظ اور اس کے دوسرے سرے پر موجود خاموشی کے باہمی تفاعل کو نشان زد کرتے ہوئے نارنگ صاحب نے گویا حرف آخر کہہ دیا ہے۔‘‘

        ’گوپی چند نارنگ اور غالب شناسی‘ میں جناب نظام صدیقی صاحب کاپُر مغز خصوصی مقالہ ’غالب کی تخلیقیت اور تاریخ ساز نئی بازیافت‘ بذات خود ایک بھاری بھرکم غیر معمولی تحقیقی اور تنقیدی کتاب کے مترادف ہے۔ جو اُردو تنقید و تحقیق میں ایک نئے تنقیدی اور تحقیقی نو بوطیقا شناسی کی تخلیق،تشکیل و تعمیرہے۔ یہ ما بعد جدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت کی پوری رنگ مالا (Broader Spectrum)  کے نئے اور انوکھے تنقیدی نکات و تعبیرات کا احاطہ کرتا ہے۔جناب نظام صدیقی اپنے اس بصیرت افروز مقالہ میں رقمطراز ہیں:

’’نارنگ کے نو تواریخ ساز صحیفہ ’غالب:معنی آفرینی ،جدلیاتی وضع،شونیتا اور شعریات‘ کی قرأت اور باز قرأت سے اہل ذوق،اہل دل، اہل دانش اور اہل بینش قاری اچانک ایک بہت بڑی بسیط روشنی میں آ جاتا ہے۔ اس کی ثقافتی اور ادبی نا بینائی بہت حد تک کم ہو جاتی ہے۔ اس کو نہایت شدت سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ معاصر اردو تنقید میں جارحانہ طور پر قائم مشروط و محدود و سماجیاتی اور مشروط و محدود جمالیاتی قطبین کا ارتفاع کر اس وقیع تر اور رفیع تر نو کشادہ کار دائرہ نور میں پہلی بار بہت کچھ زیادہ دیکھ اورپا بھی رہا ہے۔ اس کا غیر متعصب اور غیر جانبدار اور ذہنی، وجدانی،بصیرتی،شعوری ارتفاع اور ارتقا مسلسل جاری ہے۔ نارنگ کے طرفہ اسلوب جلیل میں لکھی ہوئی یہ مایہ ناز کتاب بیک وقت متناقض ہمہ آفاق عشق اور ہمہ آفاق آگہی کی عظیم القدر سمفنی (سازینہ) ہے۔ اس میں تمام نو فکریاتی اور نو حسنیاتی نشانِ نغمہ جذب و پیوست ہو کر احدیت پذیر ہو گئے ہیں۔ انیسویں صدی کی آخری دہائی میں حالی اور بیسویں صدی کے رُبع اوّل میں عبدالرحمٰن بجنوری نے اُردو ادب اور نقد میں جس ارفع مدوّری اور صعودی تنقید کا آغاز کیا تھا وہ ہمہ پہلوئی جدلیاتی اور عمودی سطح پر ارتقاپذیر ہو کر اکیسویں صدی کے رُبع اوّل میں ’غالب: معنی آفرینی،جدلیاتی وضع، شونیتا اور شعریات‘ میں اپنی شانِ معراج پر پہنچ گئی ہے اور اس نے روشنی کے تمام دریچوں کو ہر سمت کھول دیا ہے۔ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے ما بعد جدید تاریخی تناظر میں نئے عہد کی تخلیقیت کے دورانیہ میں نت نئی فکریاتی ہوائیں اور نت نئی شعریاتی فضائیں نئی اردوئی تخلیق، تنقید، تہذیب، نئی جمالیات اور نئی قدریات کو فرسودگی اور بوسیدگی سے دور رکھ سکیں گی اور نِت نئی تازہ کار اور نادرہ کار نوجدلیاتی فکر و نظر کو ہمہ جہتی اور ہمہ پہلوئی حیثیت عطا کر سکیں گی۔ اکیسویںصدی میں ’ژوربا سے بُدّھا‘ تک کی اعلامیہ اردو زبان، اردو شعر و ادب اور اردو نقد عالیہ خورشید مثال ہوگا۔ اس کی نیو کا پتھر تکثیریت پسند انسانیت اور ہمہ اوست ہے۔ ما بعد جدیدیت سے نئے عہد کی تخلیقیت افروزی تک یکسرنئی ترجیحات کی نئی تبدیلی کا عہد ہے۔ تا ہم وہ نہایت متنا قض سطح پر باز گردش کے ساتھ اپنی ثقافتی جڑوں کا بھی جوئندہ اوریابندہ ہے۔ نئے عہد کی ہر کروٹ کے ساتھ غالب کے شعری گلستاں اور بوستاں سے ’نئے جہانِ معنی کا نیا طلسمات ‘ ابھرتا رہے گاکہ نئے عہد کے محور پر متن نو معنویات افروزی میں ہر لمحہ تخلیقی سطح پر منہمک ہے۔‘‘

        اس کے بعد سیدہ جعفر کا خوش فکر اور خوش اسلوب مقالہ گوپی چند نارنگ کی معرکتہ الآرا تصنیف ’غالب‘ میںتصوف کی روح کو اور شونیتا کے تصور کو تقابلی مطالعہ کی روشنی میں پیش کرتا ہے۔ جو قابلِ قدر اور قابلِ مطالعہ ہے۔  مولا بخش، مشتاق صدف اور راشد انور راشد کے مقالات بھی نہایت دیدہ ریزی اور فکر انگیزی کے ساتھ قلم بند کیے گئے ہیں۔ جو تازگی بخش اور فکر آلود ہیں۔

        بعد ازیں حاصلِ مطالعہ بھی گراں قدر اور روشنی بخش ہے۔اصغر ندیم سید، فر حت احساس، مرزا خلیل احمد بیگ،قدوس جاویداور حقانی القاسمی کے مقالات ما بعد جدید ادب کے نئے مقدمات اور نتائج کو نہایت سنجیدگی سے پیش کرتے ہیں، جو روشنی بخش ہے۔

        اس کے بعد ’انٹر ویو اور تحریریں‘ عنوان کے ضمن میں انگریزی مضامین میںرخشندہ جلیل، محمد اسیم بٹ ، بدھادتیہ بھٹاچاریہ،شافع قدوائی، ہری ہر سروپ، انوج کمار اور ستیہ پال آنند قابل ذکر ہیں۔

        بعد ازیں ’تذکرہ و تبصرہ‘ میںسیفی سرونجی،متین ندوی،وسیم بیگم،سید تنویر حسین اور انوار الحق کے اہم اور معنی خیز تبصرات قابلِ ذکر و فکر ہیں۔ منظومات کے حصّے میں نذیر فتح پوری،ذولفقار کاظمی، بلراج بخشی،ابوالحسن نغمی،سید حسن اور دل ا فگار مصطفی علی اثیر کے شعری حسن پارے اور صداقت پارے جمالیاتی اور معنویاتی سطح پر آسودگی بخش اور زندگی پرور ہیں۔نصرت ظہیر کا فکاہیہ ’غالب،نارنگ اور ہم‘ نو بہار آفریں اور زندگی افروز ہے۔ یہ اُردو کے اہم ترین خاکوں میں شمار ہوگا۔


        سبق اُردو کا خصوصی شمارہ ’گوپی چند نارنگ اورغالب شناسی‘ ۶۱۶ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے اوّل سرورق پر نو عہد ساز ناقد و محقق پروفیسرگوپی چند نارنگ کی دیدہ زیب تصویر آراستہ ہے اور آخری سرورق پر ان کی مایہ ناز کتاب’غالب : معنی آفرینی ،جدلیاتی وضع،شونیتا اور شعریات‘ غالب کی تاریخی تصویر سے مزین ہے۔ اس خصوصی شمارہ کی قیمت پانچ سو پچاس روپئے ہے۔

        مجھے قوی اُمید ہے کہ سبق اُردو کا خصوصی صحیفہ ’گوپی چند نارنگ اور غالب شناسی‘ ہندو پاک کی ادبی صحافت مین ایک دھماکہ آفریں خصوصی نمبرثابت ہوگا ۔جو آنے والی نو صحافتی کار گزاریوں کے لئے ایک ہمہ رخی روشنی کا مینارِ اکبر ثابت ہوگا۔

٭٭٭٭٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 718