donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Gholam Shabbir Rana
Title :
   Tazkira Kitabi Silsila : Karanchi, Pakistan


تذکرہ:کتابی سلسلہ شمارہ :۲ مارچ ۲۰۱۰ خصوصی اشاعت

مقام اشاعت : کراچی ۔پاکستان

مئوسس مدیر اعلیٰ:سید محمد قاسم

مرتبین اعزازی:  منظر عارفی،انور جاوید ہاشمی

تبصرہ نگار :ڈاکٹر غلام شبیر رانا

 

          اردو زبان کے ادبی مجلات نے تہذیب الاخلاق سے تذکرہ تک جو ارتقائی سفر طے کیا ہے وہ ہر لحاظ سے لائق صد رشک و تحسین ہے۔قارئین میں مثبت شعور و آگہی پروان چڑھانے اور فکر و نظر کو مہمیز کرنے کے سلسلے میں علمی و ادبی  مجلات کا کردار ہمیشہ مسلمہ رہا ہے۔عالمی ادب کا بنظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ علمی و ادبی مجلات کے مطالعہ سے قاری کو ذرے سے آفتاب بننے کے وافر مواقع میسر ہوتے ہیں ۔پاکستان میں ایسا ہی ایک وقیع ادبی مجلہ ـتذکرہ‘  ہے جو  نہایت باقاعدگی کے شائع ہو کر قارئین کے اذہان کی تطہیر و تنویر کا مئوثر اہتمام کر رہا ہے۔حال ہی میں اس رجحان ساز ادبی مجلے کاتازہ شمارہ  شائع ہوا ہے۔دو سو چوبیس صفحات پر مشتمل یہ مجلہ اپنی مجموعی صورت میں گنجینہ معانی کا طلسم ہے،تمام تحریریں بے پناہ افادیت کی حامل ہیں۔ مضامین کا تنوع اور ثقاہت کا کرشمہ ید بیضا کا معجزہ دکھاتا ہے ۔اس مجلے میں شامل ہر تحریر کا ڈسکورس اپنی روح میں اتر جانے والی اثر آفرینی کی بدولت پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتا ہے۔سید محمد قاسم کا اداریہ عصری آگہی کی عمدہ مثال ہے۔ان کی باتیں خون بن کر رگ سنگ میں اترتی  چلی جاتی ہیں۔آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ چربہ ساز ،سارق،کفن دزد اورجید جہلا جامہ ابو جہل میں ملبوس  رواقیت کے داعی بن بیٹھے ہیں۔انسانیت کی توہین ،تذلیل،تضحیک اور بے توقیری  ایسے سفہا کا وتیرہ ہے۔مشکوک نسب کے یہ اجلاف و ارزال اپنی جہالت کا انعام پا کر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں  اور مجبوروں کے چام کے دام چلا کر لذت ایذا حاصل کرتے ہیں۔سید محمد قاسم کا خلوص اور دردمندی قلوب کو مسخر کرنے پر قادر ہے۔ایسے نابغہ روزگار دانشور اقوام عالم کے لیے بہت بڑا اثاثہ ہیں۔فروغ علم و ادب کے لیے ان کی خدمات کا ایک عالم معترف ہے۔

ان کے قلم میں اس قدر طاقت اور مسحور کن اثر آفرینی ہے کہ گلدستہ معانی کو نئے ڈھنگ سے باندھ کر ایک پھول کا مضمون سو رنگ سے باندھنا ان کے اشہب قلم کا کمال ہے۔

     منظر عارفی کا شمار عالمی ادب کے ممتاز اور نامور تخلیق کاروں میں ہوتا ہے۔حمد اور نعت کی اصناف شعر میں ان کی تخلیقی کامرانیوںنے ان کو مقاصد کی رفعت میں ہمدوش ثریا کر دیا ہے۔ان کے نعتیہ مجموعے ’’اللہ کی سنت ‘‘ کو سال۲۰۱۰ میںپاکستان میں منعقد ہونے والی قومی سیرت کانفرنس میں اعلیٰ ترین قومی ایوارڈ سے نوازا گیا۔اس شمارے میں شامل ان کا حمدیہ اور نعتیہ کلام پڑھ کر دل مرکز مہر و وفا ہو کر حریم کبریا سے آشنا ہو جاتے ہیں۔تو حید اور رسالت پر ان کا کامل ایمان اور راسخ ایقان ان کے اشعار کا امتیازی وصف ہے۔حمد اور نعت کا ایک شعر علی الترتیب پیش ہے:

اس فضل بے پناہ پر اترا رہا ہوں میں      مالک ترا کرم ہے کہ بندہ ترا ہوں میں    (حمد

     بھر پور اعتماد سے یہ کہہ رہا ہوں  میں      آقا حضورﷺآپ کا بس آپ کا ہوں میں(نعت

 منظر عارفی نے تحقیق اور تنقید کے شعبوں میں بھی اپنی خدادا صلاحیتوں کا بھر پور اظہار کیا ہے۔ان کی مدلل تحریروں سے اردو نثر کی ثروت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔اس شمارے میں ان کی تین بلند پایہ تحریریں شامل ہیں ۔مفسر قرآن مفتی محمد شفیع(۱۸۹۷۔۔۔۱۹۷۶)کی حیات و خدمات پر ان کا عالمانہ تجزیاتی مضمون  سوانح نگاری کا نہایت  عمدہ  معیار سامنے لاتا ہے۔پیر سید محمد شاہ محدث  ہزاروی  کی دینی خدمات پر منظر عارفی نے ایک تحقیقی مضمون لکھا ہے۔اس مضمون میں انھوں نے دستاویزی تحقیق کے تمام تقاضوں کو ملحوظ رکھا ہے۔آج کے دور میں ہمارے ساتھ المیہ یہ ہو رہا ہے کہ تحقیق اور تنقید کو اردو کے کچھ نادان دوستوں نے بازیچہ ء اطفال بنا کر رکھ دیا ہے۔رومانویت اور تدوین کے نام پر وہ گل کھلائے  جا رہے ہیں کہ ناطقہ سر بگریباں اور خامہ انگشت بدنداں رہ جاتا ہے۔وہ سرقہ باز جعل ساز  جنھیں  پس دیوار زنداں ہونا چاہیے تھا ایسے شیخ چلی قماش کے فاتر العقل اور آسو بلا کو شیخ الجامعہ بنتا دیکھا گیا۔منظر عارفی کی تحقیق اور تنقید نے وقت کے ایسے اعصاب شکن حادثات سے بچنے کی راہ دکھائی ہے۔معاصرین کے بارے میں منظر عارفی کی رائے ہمیشہ  بے لاگ ہو تی ہے  اس کی ایک مثال سلمان عزمی کے بارے میں ان کی تعارفی نوعیت کی تحریر ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ مستقبل کے جملہ امکانات سے بخوبی آگاہ ہیں اسی لیے انھوں نے سلمان عزمی کی شخصیت اور اسلوب پر کھل کر بات کی ہے۔ایسے با ہمت اور با صلاحیت نوجوان بلا شبہ امید فردا ہیں۔

    ایام گزشتہ کی کتاب کے اوراق پلٹیں تو علی گڑھ تحریک اور اس سے وابستہ متعدد یگانہ روزگار  فاضل اپنے افکار کی ضیا پاشیو ں  سے  سفاک ظلمتوں کو کافور کرتے دکھائی دیتے ہیں۔علی گڑھ تحریک نے ۱۸۵۷ کی ناکام جنگ آزادی کے بعدبر صغیر کے مظلوم عوام کو مکمل انہدام سے بچا کر جو عظیم  خدمت انجام دی  وہ تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے۔اس خطے کے تمام با ضمیر انسانوں کی گردنیں علی گڑھ تحریک سے وابستہ مشاہیر کے بار احسان سے ہمیشہ خم رہیں گی۔ان مشاہیر میں سید سلیمان ندوی کا نام ممتاز مقام رکھتا ہے۔ڈاکٹر سید عبدالباری سلطان پور نے اس شمارے میںسید سلیمان ندوی کے تنقیدی نظریات کو موضوع بحث بنایا ہے۔ اردو تنقید کے ارتقا پر نظر ڈالیں توعلامہ شبلی نعمانی کی معرکہ آرا تصنیف شعر العجم کلیدی اہمیت کی حامل قرار دی جاتی ہے۔سید سلیمان ندوی نے  اپنے استاد شبلی نعمانی  کے تنقیدی نظریات سے بھر پور استفادہ کیا ۔انھوں نے اپنے عظیم استاد کے نقش قدم پر چلتے ہو  ئے علم و ادب کی شمع فروزاں رکھی اور سیرت ،سوانح،تاریخ اور تنقید کو عصری آگہی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے ایک  فقید المثال کارنامہ انجام دیا۔فاضل مقالہ نگار نے سید سلیمان ندوی  کے اسلوب تنقید کا جس بے لاگ انداز میں تجزیہ کیا ہے وہ لائق تحسین ہے۔ اس وقیع تنقیدی و تحقیقی مضمون کے مطالعے سے قاری سید سلیمان ندوی کی کثیر الجہات شخصیت اور متنوع  اسلوب کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کرنے میں کامیاب  ہو جاتا ہے ۔اس مضمون کی اہمیت و افادیت مسلمہ ہے۔مضمون کی ثقاہت کا کرشمہ دامن دل کھینچتا ہے۔تذکرہ میں گل و ثمر تلاش کرنے کا سلسلہ بہت خوب ہے اس طرح خار و خس تلف  کرنے میں مدد ملتی ہے ۔گلشن ادب کو لفاظ حشرات سخن کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ عالمی کلاسیک کے کارہائے
نمایاں پر عمیق نگاہ  ڈالی جائے۔اس سلسلے میں تذکرہ گراں قدر خدمات انجام دے رہا ہے۔
 
         معظم اقبال برنی کا مضمون’’ سیید محمد ارتضیٰ المعروف ’’ملا واحدی‘‘اس شمارے کا ایک اور اہم مضمون ہے۔ملا واحدی نے قریباً پانچ عشروں تک خون دل دے کر ادب میں نکھار پیدا کیا۔سیرت،سوانح اور تاریخ کے شعبوں میں ان کی خدمات تاریخ کا ایک درخشاں باب ہیں۔وہ افق ادب پر مثل آفتاب ضو فشاں رہے۔زندہ قومیں اپنے مشاہیر کی  خدمات کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔انھوں نے تخلیق ادب کو ایک علمی رویے سے تعبیر کیا۔ان کے ادبی کمالات کے بارے میں یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ جہاں تک مواد کا تعلق ہے ان کی نوعیت اجتماعی ہے۔ملا واحدی اجتماعی زندگی کے مسائل سے موضوعات اور مواد کشید کرتے ہیں،جہاں تک اسلوب کا تعلق ہے اسے بہر حال انفرادی نوعیت حاصل ہے۔ملا واحدی کی شخصیت ان کے اسلوب میں واضح دکھائی دیتی ہے۔ان کا اسلوب ان کی ذات ہے جو انھیں اپنے معاصرین سے ممتاز اور منفرد حیثیت عطا کرتا ہے۔
              ڈاکٹر محمد حمید اللہ کا نام تاریخ کے طالب علموں کے لیے اجنبی نہیں۔تاریخ میں انھیں اب کلاسیک کا درجہ حاصل ہو چکا ہے۔اس ابد آشنا مورخ کے اسلوب میں آفاقیت،مخصوصیت اور اثر آفرینی کی جو مسحور کن کیفیت  ہے  وہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔انھوںنے اپنے عہد کے تمام واقعات،حالات اور معاشرتی زندگی کے جملہ ارتعاشات کو جس خلوص اور دردمندی کے ساتھ زیب قرطاس کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ڈاکٹر سید سلیمان ندوی کی اس یادگار تحریر کو انور جاوید ہاشمی نے اردو کے قالب میں ڈھا  لا  ہے۔لائق مترجم نے ترجمے کو تخلیق کی چاشنی عطا کر کے فن کی بلندیوں کو چھو لیا ہے۔مجھے یہ مضمون پڑھ کر دلی مسرت ہوئی۔ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے تاریخ کے مسلسل عمل پر ہمیشہ اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ہمارے ساتھ المیہ یہ رہا ہے کہ تاریخی عمل پر ہماری توجہ ہی نہیں۔تاریخ کا ایک سبق تو یہ بھی ہے کہ تاریخ سے آج تک کوئی سبق سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔زندگی کے ساتھ بھی ایسا ہی المیہ وابستہ رہا ہے۔بعض لوگوں کے خیال میں زندگی ایک ایسی غیر ملکی زبان کے مانند ہے جس کا صحیح تلفظ ادا کرنا کسی شخص کی دسترس میں نہیں۔ایک زیرک مورخ کی حیثیت سے ڈاکٹر محمد  حبیب  اللہ نے بڑے زوروں سے اپنے آپ کو منوایا۔ان کی جگر کاوی ان کی تحریر کے ایک ایک لفظ سے عیاں ہے۔یہ مضمون یاد نگاری اور سوانح نگاری کے امتیاز سے حسن و خوبی کا ارفع معیار سامنے لاتا ہے۔ڈاکٹر محمد حبیب اللہ جیساحریت فکر کا مجاہد اب کہاں؟

  تمھارے بعد کہاں وہ وفا کے ہنگامے     کوئی کہاں سے تمھارا جواب لائے گا

                تذکرہ کے اس شمارے میں منظر عارفی کے اسلوب شعر پر دو  بلند پایہ مضامین شامل اشاعت ہیں ۔منظر عارفی نے اپنے چونکا دینے والے اسلوب سے ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی حاصل کی ہے۔ایسے جری تخلیق کار کو خراج تحسین پیش کرنا بہت ضروری ہے۔پہلا مضمون ’’گم شدہ تہذیب کا متلاشی ‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر مزمل حسین نے تحریر کیا ہے۔ڈاکٹر مزمل حسین کا یہ تجزیاتی مضمون منظر عارفی کی شاعری کے ارضی اور ثقافتی حوالوں کی تفہیم میں بے حد ممد و معاون ہے۔ایک وسیع المطالعہ نقاد ہونے کے ناتے ڈاکٹر مزمل حسین نے تنقید کے جدید ترین اصولوں کی روشنی میں منظر عارفی کے اسلوب کا نہایت کامیاب اور دلنشیں تجزیہ پیش کیا ہے۔دوسرا مضمون’’نپی تلی شاعری کا شاعر ‘‘ کے عنوان سے مایہ ناز نقاد ڈاکٹر عزیز انصاری نے تحریر کیا ہے۔اس مضمون میں محترم ڈاکٹر عزیزانصاری نے انگریزی ادب اور فرانسیسی تنقیدی نظریات کو رو بہ عمل لاتے ہوئے ساختیات اور پس ساختیات کے اصولوں کو ملحوظ رکھاہے۔اس طرح یہ مضمون جدید ادب کے طالب علموں کے لیے فکر و نظر کے نئے دریچے وا کرتا چلا جاتا ہے۔یہاں مناسب ہو گا کہ منظر عارفی کے چند اشعار درج کر دیئے جائیں تا کہ قارئین اس قادرالکلام شاعر کے بلند پایہ اور منفرد  اسلوب کا استحسان کر سکیں:


    اک خاص زاویے سے ہمیں سوچنا یہ ہے        انسانیت کے ہاتھ سے کیا کچھ نکل گیا
    کیا بلا خیز ہے یہ شہر جہاں حال یہ ہے         خون کا گھونٹ نہیںخون پیا جاتا ہے
    اہلِ تحقیق مری قوم سے آکر سیکھیں         وقت کس طرح فرا موش کیا جاتا ہے
    کبھی دل کو خون کرکے ، کبھی دم غبار کرکے   میں سنوارا جارہا ہوں ، رگِ جاں فگار کرکے
     مرااختیار لے کر ۔مجھے آزمانے والے        کبھی امتحاں سے گزریں،مجھے اختیار کرکے
مجھ کو جینے سے بہت دور نہ کردیں حالات   خود کشی پر مجھے مجبور نہ کردیں حالات
    یہ بھی ممکن ہے اسے ذہن میں رکھیے ہر دم           دفعتاَ مجھ کو مسرور نہ کردیں حالات
    تہمتیں  جب   کسی  کے  سر  رکھنا         اپنے  دامن  پہ  بھی  نظر  رکھنا
    گفتگو   میں  کوئی  مقابل    ہو          اپنے  لہجے   کو    معتبر    رکھنا
      ہجرتو ں  کا   عذاب کیو ں  سہتے         خود  کو  ہوتا   جو  در  بدر  رکھنا


             سید محمد قاسم نے اس شمارے  میں ایک اہم مضمون میں ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاسگنجوی کی شخصیت اور اسلوب فن پر مدلل انداز میں اظہار خیال کیا گیا ہے۔ڈاکٹر عبدالحق خان حسرت کاسگنجوی کا شمار عالمی شہرت کے حامل مایہ ناز پاکستانی ادیبوں اور دانشوروںمیں ہوتا ہے۔وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں ۔لطیف آباد حیدرآباد سندھ میں مقیم اردو زبان و ادب  کے اس بے لوث خادم نے تخلیق ادب میں وہ کارہائے نمایاںانجام دیے ہیں جن  کا پوری دنیا میں اعتراف کیا گیا ہے۔وہ گزشتہ نصف صدی سے پرورش  لوح و قلم میں مصروف ہیں۔تیس کے قریب وقیع تصانیف  کے ذریعے انھوں نے اردو ادب کی ثروت میں اضافہ کیا ہے۔یہ مضمون سپاس گزاری کی عمدہ مثال ہے۔تاریخ ہر دور میں ایسے نابغہ روزگار ادیب کے نام کی تعظیم کرے گی۔

                      حسن حمیدی نے ۱۹۳۶ کی ترقی پسند تحریک کے تناظر میںحریت ضمیر سے جینے کی راہ دکھائی۔سید محمد مہتاب عالم نے اپنے مضمون میں حسن حمیدی کی شخصیت اور اسلوب شعر کو موضوع بنایا

ہے۔قیام پاکستان کے بعد سے پاکستانی قوم کو جن لرزہ خیز اعصاب شکن حالات سے گزرنا پڑ  اہے ا  ن کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ظالم و سفاک ،موذی و مکاراستحصالی طبقے نے ا  پنے مکر کی چالوں سے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔چور محل میں پروان چڑھنے والے سانپ تلے کے بچھو،آسو بلا قماش کے جید جاہل اور شباہت شمر جیسی رذیل طوائفیں زندگی کی اقدار عالیہ اور انسانیت کے درپئے

آزار ہیں۔ایسے ننگ انسانیت بے غیرت اور بے ضمیر وحشیوں نے رتیں بے ثمر،آہیں بے اثر،کلیاں شرر،زندگیاں پر خطر،عمریں مختصراور آبادیاں خوں میں تر کر دی ہیں۔حسن حمیدی کی شاعری ضمیر کی للکار اور
حریت فکر و عمل کے لیے جہد و عمل کی پیکار ہے۔جس معاشرے  میں جاہل کو اس کی جہالت کا انعام مل جائے،جامہء ابو جہل میں ملبوس شیخ چلی قماش کا ناصف بقال شیخ الجامعہ کے منصب پر غاصبانہ قبضہ کرلے اور یہ فاتر ا لعقل،مخبوط الحواس جنسی جنونی رواقیت کا داعی بن بیٹھے  وہاں زندگی کی رعنائیاںگہنا جاتی ہیں۔ایسے عالم میں بے بس و لاچار انسانیت اپنے ارمانوں کی لاش اپنے ہی کاندھوںپر اٹھائے افتاں و خیزاںشاہراہ حیات پراپنا سفر جاری  رکھنے پر مجبور ہیں ۔ہیں۔مسلسل شکست دل کے باعث ایک مستقل نوعیت  کی بے حسی نے ہر شعبہ زندگی پر  اپنے مسموم اثرات مرتب کیے ہیں۔

                ادبی مجلہ تذکرہ نے مکتبی تنقیدکے فرسودہ تصورات کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے اور مکتبی نقادوں کے بے سروپا خیالات کے تارعنکبوت سے گلو خلاصی کی مقدور بھر کوشش کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ تذکرہ میں کثیرالمعنویت کا مسحور کن کرشمہ قلب و نظر کو مسخر کر لیتا ہے۔ نامور فرانسیسی نقاد رولاں بارتھ نے کہا تھا:

          ’’مکتبی تنقید متن کے صرف متعینہ معنی کو صحیح سمجھتی ہے اور نہایت ڈھٹائی سے اس پر اصرار کرتی ہے۔متعینہ معانی تو صرف لغوی ہو سکتے ہیںاور ادب میں اکثر و بیشتر

          بیہودگی کی حد تک غلط ہوتے ہیں۔‘‘(بحوالہ پروفیسر ڈاکٹر غلام شبیر رانا:اردو تحقیق پر ایک نظر،سہ ماہی صحیفہ ،لاہور،دسمبر ۲۰۰۵،شمارہ ۱۸۳،صفحہ۵۔‘‘

                 مکتبی نقادوں کی واقفیت محدود،خیالات مسروقہ اور ذہنی سطح قابل رحم حد تک پست ہوتی ہے یہ لوگ سادیت پسندی اور ادعائیت کا شکار ہو کربزعم خود قادر مطلق بن بیٹھتے ہیں۔جب تک ان کی فرعونیت،آمریت اورجہالت کو تہس نہس نہ کر دیا جائے اس وقت تک فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم دیکھنے  کا خواب شرمندہ ء تعبیر نہیں ہو سکتا۔تذکرہ نے حریت فکر اور جرأت اظہار کی جو فقید المثال روایت اپنائی ہے ،وہ ہر اعتبار سے قابل قدر ہے۔جدید اردو ادب کے قارئین کے لیے یہ بانگ درا قرار دی جا سکتی ہے۔

               سید مہتاب عالم نے جس دردمندی اور خلو ص کے ساتھ  حریت فکر کے عظیم مجاہد حسن حمیدی کی شخصیت اور اسلوب کو موضوع بحث بنایا ہے وہ  قابل تحسین ہے۔یہ مضمون اسلوبیاتی تنقید کی عمدہ مثال ہے۔حسن حمیدی نے ہوائے جور و ستم میں بھی رخ وفا بجھنے نہ دیا۔وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ کاروان حسینؑ کو ہمیشہ سے صعوبتوں کا سفر درپیش رہا ہے۔جب کہ وقت کے نمرود ،یزید،ہلاکو خان ،ناصف بقال خان،صباحتو کمر اور رنگو قماش کے ساتا روہن اور سفہا ہر دور میں کوڑے کے ڈھیر سے جاہ و منصب کی ہڈیاں سونگھتے پھرتے ہیں۔جب یہ خارش زدہ سگان راہ اور مشکوک نسب کے کرگس عقابوں کے نشیمن میں گھس جاتے ہیں تو غریبوں کی امیدوں کی فصل غارت اور صبح و شام کی محنت اکارت کر دیتے ہیں۔یہ متفنی سیل زماں کے تھپیڑوں کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں اور فطرت کی تعزیروں کو بھی لائق اعتنا خیال نہیں کرتے۔حسن حمیدی کی شاعری خلوص اور دردمندی کے جذبات سے مزین ہے۔وہ تیشہ ء حرف سے فسطائی جبر کے ایوان کی بنیادوں کو منہدم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

         تاریخ کل کسی کا حوالہ تو دے سکے        جوبات کہہ رہے ہو وہی بات لکھ تو لو
    یارو  سرِورق  پہ مرا نام مت لکھو        تحریر بولتی ہے کہ تحریر  کس کی ہے
    یہ قتل گاہوں کے دامن پہ جگمگاتا لہو          یہ  شاہراہ  وفا پر قدم  بڑھاتا لہو
    میرا شیوہ تو فقط خواب ہے حسن         صرف زنجیر کی آواز جگادیتی ہے

       ہراک سحرصرف ایک خواہش نے  آنکھ کھولی   کسی  کے چہرے پہ اب نہ گرد ملال دیکھیں

    اپنے  ناموں کو  بھی پوشیدہ  رکھا          کتنے  آ زا د  قلم  ہیں  ہم  تم
    مجھے یقیںنہیںاس دور کج کلاہی میں        ابھی جو بیٹھا تھا میرے قریب زند ہ ہے؟
    کہاں  پہ  رشتۂ دیوار  میں الجھے ہو        قفس  تو  ا پنے  مکینوں  کو  جانتا بھی نہیں
    شا ید  اس بار  پرندوں  کا   ہجوم         سنگ  ریزوں سے  نہ  برہم  ہوگا


            تذکرہ میں شامل تنقیدی مضامین اپنی نوعیت کے اعتبار سے امتزاجی تنقید کا ارفع ترین معیار پیش کرتے ہیں۔یہ مجلہ معاصر ادبی تنقید کے جملہ امکانات کا امین ہے۔ممتاز علی نے ’’پٹنہ یونیورسٹی:ایک دلچسپ مطالعہ ‘‘کے عنوان سے اس جامعہ کے شب و روز پر نظر ڈالی ہے۔جی خوش ہوا کہ پٹنہ یونیورسٹی میں زندگی کی اقدار عالیہ کو پروان چڑھانے کی مساعی جمیلہ رنگ لا رہی ہیں۔پاکستان میں پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیاںمتعد مسائل کا شکار رہی ہیں۔جی ۔سی ۔یونیورسٹی فیصل آباد میں ایک جید جاہل فلسفی نے (۲۰۰۲تا ۲۰۰۶)شیخ الجامعہ بننے کے بعدجو گل کھلائے اس  پر تہذیب و شائستگی،اخلاقیات اورقوانین آج تک سر بگریباں ہیں۔اس ایک شخص(ڈاکٹر آصف اقبال خان)نے پوری جامعہ کو یرغمال بنا کر مجبوروں اور مظلوموں کے چام کے دام چلائے۔اور ایک تاریخی مادر علمی کو  عقوبت خانے،چنڈو خانے،قحبہ خانے اور بیگار کیمپ میں بدل دیا۔متعدد نابغہ روزگار دانشور اس کینہ پرور شخص کی بے رحمانہ مشق ستم اور شقاوت آمیز نا انصافیوں کی بھینٹ چڑھ کر در بدر اور خاک بسر کر دئیے گئے۔اس فرعون کے غاصبانہ دور اقتدار میں اسے جرنیلی بندوبست کے تحت مکمل تحفظ حاصل تھا۔دہشت گردوں،انڈر ورلڈ(Under World)اور  ڈرگ مافیاکے بل پر اس ابلیس نژاد نے جن گھنائونے جرائم کاارتکاب کیا اخبارات کے صفحات ان سے بھرے پڑے ہیں،مگر جہاں جنگل کا قانون نافذ ہو وہاںمظلوم اور درویش کی فغاں کون سنتا ہے؟اس المیے کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر منظور حسین سیالوی اکثر محسن بھو پالی کے یہ شعر پڑھا کرتے تھے:

 جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے               اس حادثہء وقت کو کیا نام دیا جائے
  مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے       کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے

 

   ’’ خاک میں پنہاں صورتیں‘‘ تذکرہ کا ایک مستقل سلسلہ ہے۔ہماری محفل شعر و ادب کے وہ ہم نفس جو اس عالم آب و گل سے تو چلے گئے مگر ہمارے دل کے نہاں خانے میں آج تک ان کے  افکار کی بازگشت  سنائی دیتی ہے۔ہم مٹی میں چراغ رکھ دیتے ہیں تا کہ زمیں کے اندرکی ہولناک تاریکی دور ہو۔کتنے آفتاب و ماہتاب  ہمارے دیکھتے دیکھتے قبروں میں سما گئے،چاند چہرے شب فرقت پر وار دئیے گئے۔تقدیر قدم قدم پر انسانی تدبیر کی دھجیاں اڑا رہی ہے۔رخش عمر مسلسل رواں دواں ہے ہم اس قدر بے بس ہیں کہ نہ تو ہمارا ہاتھ باگ پر ہے اور نہ ہی پا رکاب میں ہے۔کیسے کیسے گنج ہائے گرا  ںمایہ  ا س لئیم خاک کی نذر ہو گئے۔سید محمد قاسم نے اس وقیع حصے میں داغ مفارقت دینے والے ادیبوں کو یاد کیا ہے۔ٰ  یادد رفتگاں کا یہ سلسلہ  اثر آفرینی کے لحاظ سے بے مثال ہے۔سید محمد قاسم نے اپنے ایک اور تحقیقی  

مقالے میں کراچی کے ایک سو سولہ (116   )مرحوم نعت گو شعرا کی یادوں کو  نہایت دلنشیں اندازمیں سمیٹا ہے۔ان کی تحریر کا ایک ایک لفظ روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والی اثر آفرینی سے لبریز ہے۔یہ سب وہ نام ہیں جن کے افکار کی ضیا پاشیوں سے اکناف ادب کا گوشہ گوشہ بقعہء نور بن گیا۔آج یہ قبر کے اندر کہیں تہہ ظلمات پڑے ہیں ان کی یاد تازہ کرکے فاضل مقالہ نگار نے ایک عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔

         سید محمد قاسم کی تحریریں قاری کے روح کی تفسیریں بن جاتی ہیں۔انھوں نے عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رخت سفر باندھنے والے ادیبوں،شاعروں اور دانش وروں کو جس خلوص اور دردمندی کے ساتھ یاد کیا  ہے وہ ان کی عظمت فکر،انسانی ہمدردی اورعلم و ادب کے ساتھ والہانہ وابستگی کا ثبوت ہے۔ان دونوں مضامین کو ایک بنیادی ماخذ کے طور پر صدیوں تک یاد رکھا جائے گا۔مستقبل کا محقق ان مآخذسے استفادہ کر کے مطالعہء احوال کو وسعت دے سکے گا ۔معاصرین کے متعلق تمام حقائق کو جمع کرنا اور ان کی جانچ پرکھ کرنا ایک کٹھن مرحلہ ہے۔سیدمحمد قاسم نے ادیبوں کی شخصیت ،اسلوب اور زندگی کے تمام مراحل پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے۔انھوں نے اس سلسلے میں نفسیاتی،جمالیاتی اور عمرانی پہلوئوں کو خاص طور پر پیش نظر رکھا ہے۔ان کا خیال ہے کہ تخلیقی عمل میں تناظر کی اہمیت  کو اجاگر کیا جائے ۔جب کسی تخلیق  کا مطالعہ تخلیق کار کے اسوب اور اس کی شخصیت کے تناظر میں کیا جاتا ہے توگنجینہء معانی کے طلسم کی گرہ کشائی کے امکانات روشن تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔دریدا کا خیال تھا:

Meaning is context  but contex is boundless

              تذکرہ  مجموعی طور پر ایک جامع اردو مجلہ ہے۔اس میں شامل تمام تحریریںمعیار و وقار کی رفعت سے آشنا ہیں۔سید محمد قاسم،انور جاوید ہاشمی اور منظر عارفی نے  جس محنت اور جگر کاوی سے کام لیتے ہوئے اس مجلے کو نکھار عطا کیا وہ قابل تعریف ہے۔شاعری اور قارئین کے مکاتیب کا حصہ بھی بھر پور ہے۔اس مجلے کے قلمی معاونین میں دنیا کے نامور ادیب شامل ہیں۔اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے اس وقت جو کام ہو رہاہے اس میں مزید اضافے کی ضرورت ہے۔اردو کے تمام مجلات کو انٹرنیٹ پر پیش کیا جانا چاہیے۔میری معلومات کے مطابق اس وقت جو ادبی مجلات انٹرنیٹ پر آن لائن قاری کے مطالعہ کے لیے دستیاب ہیں ان میں علی گڑھ یونیورسٹی کا علمی و ادبی مجلہ ’’دیدہ ور‘‘،الاقربا اسلام آباد،ادب لطیف لاہور اور منشور کراچی قابل ذکر ہیں۔
                    فروغ علم و ادب کے حوالے سے اردو کے ادبی مجلات نے ہر عہد میں گراںقدر خدمات انجام دی ہیں۔آج کا دور سائنس اور  ٹیکنالوجی کے عروج کا دور ہے۔ادبی مجلات کو عالمی سطح کے سرچ انجن مثال کے طور پر یاہو(Yahoo) اور گوگل(Google)کے تعاون سے اردو کی یادگار تحریریںانٹرنیٹ پر ضرور پیش کرنی چاہییں۔چند روز قبل مجھے یو ٹیوب(Youtube)پر مضامین پطرس سننے کا موقع ملا۔یہ مضامین نامور صداکار ضیا محی الدین کی آواز میں پیش کیے گئے ہیںاسی طرح اردو لائف نے بھی اردو کے عظیم شعرا کا کلام ان کی اپنی آواز میں ویڈیو(Video)کی صورت میں پیش کر کے قابل قدر کارنامہ انجام دیا ہے۔تذکرہ کی اشاعت سے اردو  زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں بے پناہ مدد ملی ہے۔اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر سے ممتاز اہل قلم کی وقیع آراء اور  مکاتیب اس مجلے کی زینت بنے ہیں۔قارئین کے خطوط صحت مند تنقید کی عمدہ مثال ہیں۔حصہ منظومات اس مرتبہ بھی حسب سابق بھر پور ہے۔حمد ،نعت اور غزل کا یہ حسین گلدستہ پڑھ کر اس کی مہک سے قریہ ء جاں معطر ہو گیا۔عالمی معیار کا یہ مجلہ دیکھ کر دلی مسرت ہوئی۔

                  آج کے دور میںاس بات کی اشد ضرورت ہے کہ انسانیت کے وقار اور سربلندی کو ہر صورت میں مقدم قرار دیا جائے۔انسانی آزادی دراصل آزادیء تحریرکی مرہون منت ہے۔ فسطائی جبر کی بے رحمانہ مشق ستم کے باعث آج کا تخلیق کارشدید کرب و اضطراب میں مبتلا دکھائی دیتا ہے۔اندھیر نگری کے کالے قوانیں اور اس پر طرفہ تماشا یہ کہ سائیں سائیں کرتے جنگل کی مہیب فضا میں متاع لوح و قلم چھین لینے کی مذموم کوششیں جاری رہتی ہیں۔ان لرزہ خیز حالات میں تخلیق کارالفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنے پر مجبور ہے۔اس کے باوجود صبح پرستوں کی ہمیشہ سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ وہ یا تو  ہاتھوں میں قلم تھام کر  اور خون دل میں انگلیاں ڈبو کر ید بیضاکا معجزہ دکھاتے ہیںیا شقی القلب فراعنہ کو چیلنج کرتے ہیں کہ اگر ان میں قوت ہے تو ان کے ہاتھ قلم کر دیں  اس مقتل میں حریت فکر کے مجاہدوں کی سوچ ایک سدا بہارلہکتی ڈال کے مانند ہے۔تذکرہ کے قلمی معاونین کی تحریریں پڑھ کر دلی مسرت ہوئی کہ ان جلیل القدر ادیبوں نے لفظ کی حرمت کو ہر حال میں ملحوظ رکھا ہے۔ مظلوم،محروم اور مجبور انسانیت سے عہد وفا استوار رکھنا  ہی علاج گردش لیل و نہار  ہے ۔یہ ہر با ضمیر ادیب کا مطمح نظر ہونا چاہیئے کہ ہر آزمائش میں حرف صداقت لکھ کر عظمت انسان کا  اقرا کیا جائے گا۔بہ قول احمد ندیم قاسمی:

کچھ نہیں مانگتے ہم لوگ بہ جزاذن کلام
ہم تو انسان کا بے ساختہ پن مانگتے ہیں
لمحہ بھر کو لبھا جاتے ہیں نعرے لیکن
ہم تو اے اہل وطن درد وطن مانگتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


Dr.Ghulam Shabbir Rana
786 -A-Naveed House Naveed Street   
Mustafa Abad Jhang City (Punjab -Pakistan)  Post code :35204

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 666