donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imam Qasim Saqi
Title :
   Har Sher Kahkashan Hai


ہر شعر کہکشاں ہے


امام قاسم ساقی

چنا منڈیم، ضلع کڈپہ ،آندھرا پردیش


راشد عارفی کا پہلا شعری مجموعہ ’’جیسا بھی ہے‘‘ منظر عام پر آکر اہلِ سخن سے داد  و تحسین حاصل کرچکا ہے۔ مجموعہ کلام کے نام کے انتخاب سے مصنف کی سادی اور بے باکی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ مزید اس بات کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے کہ موصوف اپنی تخلیقات سے مطمئن ہیں۔

راشد عارفی صاحب نے اپنے تجربات اور جذبات کو شاعری کا عملی جامہ پہنایا ہے اور اپنے تجربات سے موصوف نے اشعار کی زمین کو اس قدر زرخیزی عطا کی ہے کہ ہر شعر ایک کہکشاں معلوم ہوتا ہے ، اسی زاویہ نظر کا ایک شعر ملاحظہ ہو:

ہر ایک ذرہ کو ہم رنگ کہکشاں کرلیں
زمیں کو اتنا سجالیں کہ آسماں کرلیں

موصوف کے مجموعہ کلام میں غزلوں کے ساتھ ساتھ دوہے، دوراہا، قطعات ، گیت جیسے مختلف اصناف  پڑھنے اور لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا ہے۔ موصوف نے ان اصناف کے علاوہ مجموعہ کلام میں شخصی شاعری، متفرقات، سالِ نو، اور سہرا جیسی، شاعری سے اپنے قلبی واردات کا اظہار کیا ہے۔ شاعری کے فن پر دسترس و قابلیت کا ثبوت ملتا ہے۔

عہدِ حاضر میں اکثر شعراء کو دیکھا گیا ہے کہ یا تو وہ روایتی شاعری کے مقلد ہوتے ہیں یا ترقی پسند تحریک کے ،یا جدید رجحانات کے مقلد ہوتے ہیں۔ ان کی شاعری میں کسی نہ کسی رجحان کا رنگ سر چڑھ کر بولتا ہے اور مزہ تو یہ ہے کہ شاعر کو خود احساس نہیں ہوتا کہ وہ کس رنگ میں رنگ گیا ہے لیکن راشد عارفی ان تمام تحرکات و رجحانات کا دامن تھامے ہوئے ہیں ۔ان کی شاعری میں روایتی و کلاسکی رنگ بھی پایا جاتا ہے، ترقی پسند تحریک خیالات کے ساتھ ساتھ جدید رجحانات کے نقوش بھی ان کی شاعری میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ان تمام نظریات کو موصوف کے مجموعہ کلام میں آپ دیکھ سکتے ہیں ۔چند اشعار جن میں جدت و ندرت کا رنگ نمایاں ہے اور ان کی منفرد شخصیت کی دلیل مندرجہ ذیل اشعار میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ چندا شعار ملاحظہ ہوں:

بندشیں توڑ دے قوموں کی، قبیلہ ہوجا
برِّاعظم سے تو بہتر ہے جزیرہ ہوجا
دو قدم آگے مرے جسم کا سایہ تھا رواں
میرے پیچھے مرے قدموں کے نشانات چلے
کھاگئی اپنے ہی سایے کو محل کی دیوار
اپنے سائے میں جو بیٹھے ہوئے دیکھا مجھکو
سورج کا لہو دیکھو پھر بن کے شفق ابھرا
یا شام کے ماتھے پر پھیلا ہوا غازہ ہے

شاعر اپنے ذہنی بوجھ کو اتارنے کے لئے تنہائی میں کبھی خود سے، کبھی پھولوں سے، کبھی پتھر سے غرض ہر ایک شئے سے مخاطب ہوتا ہے اور وہ تصورات کی دنیا میں کھوجاتا ہے۔ وہاں اسے ہر شئے زی روح اور قادر الکلام لگتی ہے، جس سے وہ باتیں کرتا ہے۔ موصوف کی شاعری میں بھی اسی طرح کا طرز بیان پایا جاتا ہے چندا شعار ملاحظہ ہوں:

لاکھوں خوش رنگ ہوں خوابوں پہ نہ اترا راشدؔ
وقت روٹھے گا تو تعبیر بھیانک دے گا
بہت سوچا میں نے پھول بن کر
چلو اب بن کے پتھر سوچتا ہوں
عاشقانہ مزاج ہے میرا
یہ مرض لا علاج ہے میرا
منزل وہاں نہیں ہے جہاں ڈھونڈتا ہے تو
منزل کو دائرے سے نکل کر تلاش کر

وقت کی اہمیت کو موصوف نے مختلف زاویہ نظر سے پیش کیا ہے ۔اسی نظر ئے کے کئی اشعار ان کے مجموعہ کلام میں پائے جاتے ہیں دو شعر ملاحظہ ہوں:

لاکھ آئے بہار کا موسم
زرد پتہ نہ پھر ہرا ہوگا

ہر لمحۂ حیات سے صدیاں نچوڑلے
جو پل گزر گیا وہ پلٹ کر نہ آئیگا

ہر شاعر حسّاس کے ساتھ ساتھ خوددار اور بے باک بھی ہوتا ہے۔ کبھی کبھی شاعر الفاظ میں اس کی خودداری اور بے باکی کو ظاہر کرتا ہے دو شعر ملاحظہ ہو:

آج ہم نے بھی الٹ دی ہے نقاب مصلحت
دوستو جو بھی تمہیں کہنا ہے برجستہ کہو
یہ تو ممکن نہیں راشدؔ جھکادوں سر کو
چاہے طوفان مقابل مرے سر سے گزرے

راشدؔ عارفی ایک ملن سار انسان ہیں ۔ان کی شخصیت میں عاجزی و انکساری کی جھلکیاں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں ۔وہ کبھی کسی کو کسی سے جدا ہوتے ہوئے یا پرکھوں کی جائداد کو بٹتے ہوئے دیکھ نہیں سکتے ۔خاص کر دو بھائیوں کے بیچ نفرت کی دیوار کھڑا ہوتے ہوئے دیکھ نہیں سکتے ۔ان کے اس منکسر المزاج کی دلیل ان اشعار کے ذریعے دیا جاسکتا ہے:

جس کی بنیاد کبھی باپ نے رکھی ہی نہ تھی
بیچ آنگن میں وہ دیوار اٹھایا نہ کرو

ایک دروازہ ایک ہی آنگن ایک ہی چھت کا سایہ تھا
کب تک تم تقسیم کروگے اس گھر کو دیواروں سے

موصوف کے کلام میں جذبہ و حوصلہ کی فراوانی دیکھی جاسکتی ہے۔ وہ اپنی زندگی کے سفر کوجاری رکھنے کی ہدایت دیتے ہیں اور اپنے حوصلے کی داد دیتے ہوئے جابجا نظر آتے ہیں دو شعر ملاحظہ ہوں:

تیرے چہرے پہ ابھی سے تھکن کے آثار
زندگی تجھ کو صدیوں کا سفر کرنا ہے
تیرگی سے یہ جنگ جاری رکھ
حوصلہ تیرا مرحبا جگنو

غرض راشد عارفی کا مجموعہ کلام عہد حاضر کی عکاسی کا اثاثہ ہے۔ ان کی غزل کا ہر شعر ایک نیا تجربہ فراہم کرتا ہے ۔کبھی کبھی شاعر اپنے تجربات و خیالات کے اظہار کے دوران غیر شعوری طور پر الفاظ کی بندش پر توجہ نہیں دیتا جس کی وجہہ سے کلام میں تعقید لفظی اور شتر گربہ کا عیب نظر آتا ہے۔ جس سے شاعر کی لاپرواہی یا تساہل یا فنی باریکیوں سے ناواقفیت کا اظہارہوتا ہے مثال کے طور پر چند شعر ملاحظہ ہوں:

جملے چیخیں گے تو رسوائی بھی ہوگی راشدؔ
خط  مرے  پڑھتے  ہی چولہے میں جلایا نہ کرو  

(تعقید لفظی)    

اور ایک شعر ملاحظہ ہو:

کسی کا لے کے سہارا کبھی جیا ہی نہیں
مری مدد کو تو اب بھی سہارے آتے ہیں

اس شعر کے پہلے مصرعے کو تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ تعقید لفظی کو دور کیا جاسکتا ہے۔

سہارا لے کے کسی کا کبھی جیا ہی نہیں
مرے مدد کو اب بھی سہارے آتے ہیں

تعقید لفظی، شترگربہ عیبی اور حشو جیسے چند اغلاط کے علاوہ مجموعی طور پر راشدؔ عارفی کا کلام ’’جیسا بھی ہے‘‘ اردو کے مستقبل کا اثاثہ ہے۔

(مطبوعہ  :  ’’خشبووئں کی باز گشت‘‘،  اشاعت فروری   ۲۰۱۰؁  صفحہ ۸۳ )


************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 471