donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imam Qasim Saqi
Title :
   Salmiyat Ki Talash Me


سا  لمیت کی تلاش میں


امام قاسم ساقی

چنا منڈیم، ضلع کڈپہ ،آندھرا پردیش


      سالم شجاع انصاری کا پہلا شعری مجموعہ سنہ 2004ـْْْ  کو منصہ شہود پر آکر اربابِ  سخن سے داد  و تحسین حاصل کر چکا ہے۔ان کے اب تک دو مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں انہوں نے اپنے پہلے شعری مجموعہ ’’ارتعاش‘‘کے ذریعہ کائنات ِ ادبکو یہ دعوت ِ سخن دیا ہے کہ اپنے زور قلم سے پر قلم کاراپنے افکار سے مرتعش کر سکتا ہے۔

ان کے اس شعری مجموعہ میں محسن عباس محسنؔ ، جناب ڈاکٹر راحت ؔاندوری ،جناب ایم۔اے۔خار ؔ فیروزآبادی،جناب ڈاکٹر سید ظفرالاسلام ، جناب نظرؔ ایٹوی،جناب ارمان وارثی ،جناب زیرباندوی نے اپنے آراء سے اس مجموعہ کلام کو آراستہ کیا ہے۔علاوہ ازیں سالم شجاع نے ’’اعتراف ‘‘ میں تمام تجربات کا اظہار کیا ہے۔  

سالم شجاع انصاری کا مجموعہ کلام ’’ارتعاش‘‘ میری نظر سے جیسے ہی گذرا۔ میں نے حسب عادت اس کا عمیق مطالعہ کرتے ہوئے یہ محسوس کیا کہ ’’ارتعاش‘‘ فن کے کہسار پر فنکار کے ذہن کو عملِ ارتعاش میں لانے کا ایک تیشہ ہے جو مجموعہ کلام کی صورت میں منظر عام پر آیا ہے۔

’’ارتعاش‘‘ میں کئی شعراء کی آراء کے بعد اگر میں کچھ جسارت کر رہاہوں تو یہ میری گستاخی ہے۔ پھر بھی پانی میں آگ لگانے کی کوشش کر رہا ہوں، راحت ؔاندوری نے اپنے تاثرات پیش کرتے ہوئے آخر میں سالم شجاع کو سالم شجاع کی طرح پڑھنے اور ان کی پیٹھ تھپتھپاکر ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے جو فقرہ انہوں نے لکھا ہے وہ قابل غور وفکر ہے۔

سالم شجاع میں ایام طفلی سے موزونیِ طبعہ کا جو ہنر موجود ہے وہ واقعی ان کی خوش نصیبی ہے کیوں کہ شاعر بنتا نہیں شاعر پیدا ہوتا۔ ہے اس بات کو انہوں نے اپنے تاثرات ’’اعتراف‘‘ میں مدلل طور پر ظاہر کردیا ہے اور یہ بھی محسوس کیا جاسکتا ہے ماں کے درجے کو انہوں نے بدرجہ ٔ  اتم پہچاناہے۔ راقم الحروف کا ایک شعر ہے:

میرے ماں باپ کی دعائیں تھیں
راہِ معیار سے گذر جائوں
    (ساقیؔ)

اپنے پیشۂ مصوری کے ساتھ ساتھ اپنے تخیلات کو صفحہ قرطاس پر الفاظ میں ڈھالتے ہوئے روح پھونکنے کی جو انتھک محنت کی ہے اس کا جواب نہیں۔ مادّی اجسام کی تصویر کشی کے علاوہ احساسات و جذبات کو عملی جامہ پہنانے میں سالم کامیاب نظرآتے ہیں۔ شاعر کبھی ماضی کو حال پر ترجیح دیتا ہے، تو کبھی حال کو ماضی پر ترجیح، کبھی مستقبل کو حال اور ماضی میں ڈھونڈنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔مرے نزدیک وہی سچّا شاعر ہے جو حال اور ماضی کو مدِنظر رکھتے ہوئے مستقبل کو تلاش کرے، دو شعر ملاحظہ ہوں:

کیوں نہ ڈھونڈیں نئے پرانے میں
جی رہے ہیں نئے زمانے میں

نہ پوچھو کہ ہندوستاں کل کہاں تھا
یہ پوچھو کہ ہندوستاں اب کہاں ہے

زندگی میں کبھی کبھی ایسے نازک مرحلے بھی آجاتے ہیں کہ انسان دماغ کی جگہ دل کی گہرائیوں سے سوچنے اور اس پر عمل کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے انہیں خیالات کو سیدھے سادے، سہل ممتنع میں سالم کہتے ہیں کہ:

اس زندگی کا کام نہیں چلتا ایک سے
دل کی کہیں، کہیں ہے ضرورت دماغ کی

حوصلہ ، عزم، آغاز و انجام، خوفِ شام و سحر، تمنا، آرزو، قدم ، نقشِ پا، راستہ، منزل یہ چند ایسے الفاظ ہیں جن کے ذریعے شاعر نیا موضوع پیدا کرکے اپنی غیر معمولی صلاحیت کا اظہار کرتا ہے یہی کام سالم نے بڑی فنکاری کے ساتھ استعمال کیا ہے۔

عزم محکم ہوتو انجام کی پروا کس کو
حوصلہ کم ہو تو آغاز سے ڈر لگتا ہے

اپنی منزل کی فکر ہے جس کو
خوفِ شام و سحر نہیں رکھتا

’’تعصب‘‘ ایک ایسا وائرس(Virus)ہے جو کئی طبقوں کو کئی صدیوں سے برباد کرتا آرہا ہے چاہے ،وہ سماجی، سیاسی، معاشی، مذہبی طبقہ ہو یا ادبی طبقہ، ہر طبقہ ، ہر فرد اس کا شکار ہوچکا ہے۔ اس کی بدولت انسان اپنی انسانیت کو کھو بیٹھا ہے’’فن‘‘ اور ’’فنکار‘‘ گمراہوں کی وادیوں میں پھنس گئے ہیں۔ لفظ تعصب کو شاعر بڑے خوبصورت پیرائے میں استعمال کیا ہے:

جن کتابوں میں تعصب کے سبق ملتے ہوں
آگ ان ساری کتابوں میں لگادی جائے

ارتعاش کے مطالعہ سے یہ محسوس کیا جاسکتا ہے کہ شاعر قدیم شعراء سے لیکر عہدِ حاضر کے استاد شعراء کے کلام کا صرف مطالعہ ہی نہیں کیا بلکہ ان کی لکھی گئی زمینوں پر طبع آزمائی کی ہے چندا شعار ملاحظہ ہوں:

گدا دست اہلِ کرم دیکھتے ہیں     
ہم اپنا ہی دم اور قدم دیکھتے ہیں 

(سوداؔ)

جو ہیں چاند تاروں کی راہوں کے راہی    
ہمارے وہ نقشِ قدم دیکھتے ہیں

(سالمؔ)

مجھ میں کتنے راز ہیں بتلائوں کیا      
بند ایک مدت سے ہوں کھل جائوں کیا 

(راحتؔ اندوری)

چلتے چلتے تھک چکی ہے تو اگر    
زندگی مجھ کو بتا سوجائوں کیا

(سالمؔ)

بہر چند ارتعاش کے مطالعہ کے بعد یہی تاثر ظاہر کیا جاسکتا ہے کہ سالم نے پڑھنے، سننے والوں کے ذہن کو مرتعش کرنے میں یقینا کامیابی حاصل کی ہے۔آئیندہ بھی امید کرتا ہوں کہ سالم اپنی سا  لمیت کی تلاش میں منزل بکنار ہو کر رہیںگے۔ ان کا یہ مجموعہ ’’ارتعاش‘‘ بے شک لائق تحسین ہے۔

(مطبوعہ  :  ماہنامہ آندھراپردیش حیدرآباد،  اکتو بر   ۲۰۱۱ ؁ئ، صفحہ نمبر:۱۲)


****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 638