donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Tajziyati Mutalya
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mazhar Hussain
Title :
   Ahde Hazir Mein Mahatma Gandhi Ke Paighame Aman Aur Ahinsa Ki Ahmiyat

 

 عہد حاضر میں مہاتما گاندھی کے پیغام امن اور اہنسا کی اہمیت
 
مظہر حسنین، جے این یو ، نئی دہلی
 
انسان آج جن دشوار گزارراہوں پرمصروف سفر ہے وہ راہیں اتنی پُر خطر ہیں کہ ان پر بغیر رہنما کے گزرا نہیں جا سکتا ۔ اس کے لئے بھی شرط ہے مخلص رہنما کی جو آج نا پید ہو گئے ہیں ۔انسان اس راہِ پُر خار پر گزر کر اپنی منزل تلاش کرنے میں بے انتہا مسائل کا شکار ہو جاتا ہے ۔آج کے دور میں مہاتما گاندھی کی بنیادی تعلیم کو فراموش کر دیا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہمارا سماج طرح طرح کے مسائل سے دو چارہے ۔ مہاتما گاندھی نے ہمیشہ تمام مذاہب کے درمیان آپسی بھائی چارہ قائم کرنے کی کوشش کی ۔تمام مذاہب کو یہی پیغام دیتے رہے کہ یک جہتی کا دامن تھام کر روشن مستقبل کی طرف محوسفر ہوں ۔ آج کی سنگین صورتحال کو دیکھ کریہ کہا جا رہاہے کہ عصر حاضر میں مہاتما گاندھی کی ضرورت ہے لیکن حالات کے بر عکس آج کا سماج و معاشرہ اخلاقی انحطاطا کا شکار ہے اور ایسے افراد بھی ہندوستانی سماج میں پائے جاتے ہیں جو مہاتما گاندھی کے قاتل کو ہیرو تسلیم کرتے ہیں ۔آج کے انسان پر فرقہ پرستی کی مہر ثبت ہوچکی ہے ۔مہاتما گاندھی جیسا رہنما پیدا ہونے میں صدیاں لگتی ہیں ۔جیسا کہ شاعر نے کیا خوب کہا ہے 
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے 
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
”فلانپ مکر“نے مہاتماگاندھی کی شخصیت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا :”کسی زمانہ میں مہاتما بدھ کے سامنے جس طرح انسان کے غم گھونگھٹ کھول کر کھڑے ہوگئے تھے۔ اسی طرح اب وہ مہاتما گاندھی کے سامنے کھڑے ہیں ۔“فلانپ مکر کے ان الفاظ سے یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ ہندوستان کی کشتی کے ناخدا نے :قوم کے غموں کو دور کرنے کے لئے اپنی جان کی پرواہ نہ کی۔پنجاب کا لوک شاعران کے جذبۂ ایثارکو خراج عقیدت پیش کرتا ہوا کہہ اٹھا گاندھی دے ناں اُتے 
میں ستّے بہشتاں واراں 
(یعنی گاندھی جی کے نام پر ساتوں بہشت قربان کر دوں )
عوام کے نزدیک مہاتما گاندھی کی شخصیت کو ئی عام شخصیت نہیں ہے ۔انہیں تو دنیا ایک ”تپسوی“کی شکل میں دیکھتی ہے۔مہاتما گاندھی کہتے ہیں:” دھرم ایک ، آتما ایک ، پیغمبر ایک، اوتار ایک ، پھر اس ملک کے لوگ کیوں اپنے کو منقسم کرنے پر آمادہ ہیں ۔کیا یہ ہمارے لئے باعث فخر نہ ہوگا کہ الگ الگ خداؤں کے ماننے والے ہوتے ہوئے بھی ہم سب ایک ہیں“ ۔لیکن آج کا ہمارا جدت پسند سماج مہاتما گاندھی کے اصولوں کو کیوں کر قبول کرے ؟ مہاتما گاندھی نے قومی لباس سے رغبت ،بدیشی لباس و اشیاءکو بائیکاٹ کیا لیکن آج ہم تو عادی ہی بدیشی اشیاءکے ہو چکے ہیں ۔ایسی صورت میں گاندھی کے اصول آج کا سماج کیسے قبول کرے؟
 
مہاتما گاندھی نے ملک کی آزادی کے لئے عجب انداز سے محاذ آرائی کی ۔انہوں نے دشمنی پر دوستی کے ذریعہ فتح حاصل کرنے کا درس دیا ۔نفرت کو محبت سے ، جھوٹ کو سچائی جیتنے کا پیغام دیا ۔مہاتما گاندھی انگریزوں کے دشمن نہیں تھے بلکہ انہیں شکوہ ان کے جابرانہ اصولوں سے تھا ۔انگریز مظلومیت کا گلا گھونٹ رہے تھے جبکہ مہاتماگاندھی مظلوموں کی آزادی چاہتے تھے ۔انہوں نے کربلا کے عظیم سانحے سے درس لیا اور اسی کو بنیاد بنا کر انگریزوں کے خلاف نرالے انداز میں محاذ آرائی کی ، وہ ظلم سہنے کے عادی نہیں تھے بلکہ ظلم و بر بریت کے خلاف آواز اٹھانا جانتے تھے ۔کیونکہ کربلا میں امام حسین اور ان کے اکہتر 71))جانثاروں کا کردار ان کے لئے نمونۂ عمل تھا ۔جس میں بہتر نفوس قدسیہ نے اپنی شہادت پیش کرکے اپنے مشن کو زندہ رکھا ۔کربلا کے پیغام نے مہاتما گاندھی کو متاثر کیا تھا ۔جس کی بناءپر وہ ظلم کے خلاف ایک آواز بن کر اٹھے ۔پسماندہ لوگوں کے لئے مہاتما گاندھی امید کی ایک کرن تھے ۔اپنے آشرم میں ایسے مریضوں کو جگہ دیتے تھے جن کو سماج برداشت نہیں کرتا تھا ۔
مہاتما گاندھی دنیا کے دیگر ادیان کے بارے میں گہرا مطالعہ رکھتے تھے ۔اس لئے انہوں نے کہا کہ دنیا کے تمام مذاہب محبت ، سچائی اور امن پر زور دیتے ہیں لیکن مذہب کا چولا پہنے ہوئے افراد ، مذہبی ٹھیکے دار ایسے بیانات دیتے ہیں جن نفرت پیدا ہوتی ہے اور نتیجہ میں ٹکراؤ اور تشدد کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ۔
 
جانی و مالی اتلاف بھر پائی صدیوں تک نہیں ہو پاتی اور یہ امن و سلامتی ، محبت ،خلوص کے منھ پر بد نما داغ بن کر رہ جاتے ہیں ۔ جس طرح تمام مذاہب سچائی و پیار کی تبلیغ کرتے ہیں مذہب اسلام بھی ان کے لئے محبت کا پیغام دیتا ہے ۔قرآن مجید میں تمام مذاہب کا تذکرہ ہے ۔قرآن کے مطابق سچائی کا ٹھیکہ دار کو ئی ایک مذہب نہیں ہے ۔قرآن میں مزید ارشاد ہوتا ہے :”اس میں کوئی شک نہیں کہ چاہے وہ لوگ ہوں جو قرآن پر ایمان لائے ہیں یا کوئی بھی یہودی ، عیسائی وغیرہ جو بھی اللہ کو مانتا ہے اور آخرت پر یقین رکھتا ہے ، نیک کام کرتا ہے ۔ان سب کو اپنے رب سے اس کا پھل ملے گا ۔انہیں نہ کسی بات کا ڈر ہو گا نہ افسوس“۔ مہاتما گاندھی نے دنیا کی مذہبی کتابوں ، قرآن و حدیث،گروگرنتھ صاحب ،پارسی دھرم گرنتھوں،انجیل و توریت کا مطالعہ کیا تھا جن سے ان کے کردار میں اس طرح کا نکھار آیا تھا ۔جلیانوالہ باغ قتل عا م کے بعد جب مہاتما گاندھی نے جنگ آزادی کی تحریک کی باگ ڈور سنبھالی تو ستیہ گرہ کی شکل میں ملک گیر پیمانے پر عدم تشدد کے اصولوں پر مبنی عدم تعاون کا پروگرام عوام کے سامنے آیا ۔ مہاتما گاندھی نے عدم تشدد پر زور دیتے ہوئے جہاں ایک طرف انگریز حکومت کے بائیکاٹ کا پروگرام رکھا ، وہیں دوسری طرف پانچ نکاتی تعمیری پروگرام بھی پیش کیا جو یہ ہے ۔
 
١) فرقہ وارانہ اتحاد
٢)چھوت چھات کا خاتمہ 
٣)نشہ بندی 
٤)کھادی 
٥)گرام ادیوگ 
مہاتما گاندھی نے اپنے تعمیری پروگرام میں سب سے پہلے فرقہ وارانہ اتحاد کو رکھا ۔ 1921میں سویم سیوکوں کے عہد نامے میں عدم تشددکے بعد جو سب سے پہلی قسم تھی وہ یہ کہ ” میں بھارت میں بسنے والے تمام فرقوں ، ہندو ، مسلم ،سکھ ، عیسائی ، پارسی اور یہودی اور سبھی ذاتوں کے درمیان مضبوط اتحاد میں یقین رکھتا ہوں “۔لیکن آج مذہبی جوش میں اندھی ہو کر سوئم سیوک اور انہیں خیالات کی ترجمانی کرنے والی تنظیمیں اس حلف نامے کے بر عکس کام کر رہی ہیں ۔ اپنے کوہندو تنظیم کہلانے والی یہ تنظیمیں حقیقت میں ہندو مذہب کے اصول و ضوابط کے بر عکس کام کر رہی ہیں ۔وہی سوئم سیوک جن کے اصول فرقہ وارانہ اخوت کو بنائے رکھنے کے لئے تھے ۔ آج فرقہ پرستی کوتقویت پہنچا رہے ہیں اور زہریلے بیانات سے ہندوستانی فضا کو آلودہ کر رہے ہیں ۔
 
مہاتما گاندھی کے وقت میں بھی ایسے فرقہ پرست افراد موجود تھے جو مہاتما گاندھی کو خطابات دیا کرتے تھے ۔ کبھی ان کو ” محمد گاندھی “ اور کبھی ” جناح داس “ جیسے خطابات سے نوازاگیا ۔مہاتما گاندھی ان کے ان خطابات کو تحفہ سمجھ کر قبول کرتے رہے ۔ان خطابات کو حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے اپنی پرارتھنا سبھا میں کہا تھا ”دنیا کے سبھی مذہبی علماءنے سچائی کا جو عظیم پیغام دیا ہے میں ان پر یقین رکھتا ہوں اور سچائی کے لئے اگر گولیوں کا شکار بنوں تب بھی میرے ہونٹوں پر رام ہی کا نام ہوگا اور اگر اس وقت دشمن کے لئے غصہ ہو گا تو میں چاہوں گا کہ میرا نام بزدلوں میں شمار کیا جائے “اور آخر کار ان کی پیشین گوئی حقیقت ثابت ہوئی اور انہیں گولی کا شکار بنایا گیا ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ عصر حاضر میں ہمیں مہاتما گاندھی کی سخت ضرورت ہے لیکن کیا ان فرقہ پرستوں کو کسی گاندھی کا وجود قابل قبول ہوگا ؟آج کے فرقہ پرست اور شدت پسند افراد ایک کیا ہزاروں گاندھی کو نشانہ بنانے سے زرا بھی گریز نہیں کریں گے ۔آج کی فرقہ پرست ذہنیت امن و اتحاد کے علمبردار کو کیسے برداشت کرے گی ؟
+++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 717